اباضیہ، ایک مختصر تعارف:
Published by مفتی امجد عباس on
اباضیہ کو ہمیشہ "خوارج" کا گروہ کہا گیا ہے، اِس کی بنیادی وجہ اُن کادیگر خارجی رہنماؤں کے ساتھ مل کر اموی حکمرانوں کے خلاف برسرِ پیکار رہنا ہے۔ حافظ صوافی کے مطابق، عبداللہ بن اباض، امام علیؑ کے عہد میں موجود تھا، لیکن اُس کا جنگِ نہروان میں شریک ہونا ثابت نہیں؛ تاہم اباضیہ اہلِ نہروان (خوارج) سے حضرت علیؑ کی جنگ کو درست نہیں جانتے یہ ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ عبداللہ بن اباض مسلمانوں کی تکفیر نہیں کرتا تھا، تاریخِ طبری کے مطابق عبداللہ بن اباض اپنے مخالفین کو “کافرِ نعمت” قرار دیتا تھا، حقیقی کافر یا مشرک نہ جانتا تھا۔ وہ مخالفین (جنگجوؤں) کے قتل کا قائل تھا لیکن اُن کے مال لوٹنے اور غنیمت سمیٹنے کا مخالف تھا، تب ہی نافع بن ارزق خارجی سے اِس کا اختلاف ہوا۔ اِن دو پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ تاریخی نسبت کے اعتبار سے اباضیہ خوارج کا معتدل فرقہ ہے، جو ابھی تک باقی ہے۔درج ذیل مقالہ میںالبصیرہ کے شعبہ تحقیق کے سربراہ مفتی امجد عباس نےاردو زبان میں پہلی مرتبہ فرقہ اباضیہ کے بارے میں اپنے مطالعات اور تحقیقات کو جمع کیا ہے ۔امید ہے یہ مقالہ قارئین پیام کے لیے مفید معلومات پر مشتمل ہوگا۔(ادارہ)
عالم اسلام میں رائج مختلف مسالک میں سے ایک مسلک اباضیہ بھی ہے۔ اس نام کی وجہ اس کا عبداللہ بن اباض سے انتساب ہے۔ اباضیہ کے بارے میں شہرت ہے کہ یہ خوارج کی مختلف شکلوں میں سے نسبتاً معتدل شکل ہے۔ خوارج کے دیگرگروہ اپنی شدت پسندی یا دیگر وجوہ کی بنا پر باقی نہیں رہ سکے۔ کہا جاتا ہے کہ اباضیہ اپنے نسبتاً معتدل موقف کی وجہ سے تاریخ کے طویل سفر میں باقی رہنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ آج بھی عالم عرب کے ایک قابل ذکر ملک ’’سلطنت عمان‘‘ کا سرکاری مذہب اباضیہ ہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اباضیہ کے مفتی اعظم احمد الخلیلی پاکستان تشریف لائے تھے۔ اس موقع پر اتحاد امت کے لیے ان کی کوششوں سے ہم آگاہ ہوئے۔ عالمی سطح پر اباضیہ کو دیگر مسلمہ فرق اپنے میں سے ایک شمار کرتے ہیں۔ اعلان عمان جو جاری کیا گیا اور جس کا مقصد امت میں اتحاد کو فروغ دینا تھا۔ اس میں بھی دیگر فرق کے عالمی سطح کے مذہبی رہنمائوں کے ساتھ ساتھ، اباضیہ کے مفتی اعظم کی تائید کا ذکر تھا اور اس طرح سے اباضیہ کو اس اعلان میں بھی ایک مسلمان مکتب فکر کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، علاوہ ازیں مجمع تقریب بین المذاہب الاسلامیہ، جس کا صوبہ دفتر تہران میں قائم ہے، نے بھی اباضیہ کو ایک مسلمان فرقے کے طور پر قبول کر رکھا ہے۔
اس عالمی فورم کی سپریم کونسل میں بھی اباضیہ کی نمائندگی موجود ہے اور سالانہ اجتماعات میں عمان سے اباضیہ کے مذہبی نمائندگان، ہمیشہ شریک ہوتے ہیں۔ ہم نے مناسب سمجھا کہ پاکستان میں اہل پاکستان کو اباضیہ کے عقائد و نظریات اور تاریخی پس منظر سے آگاہ کیا جائے۔ پیش نظر تحریر میں ان پہلوئوں کے علاوہ اباضیہ کے بعض عقائد اور عبادت و معاملات میں ان کے فکر و عمل کی بعض جہتوں کا ہم نے بعض دیگر مسلمہ مکاتب فکر کے ساتھ موازنہ بھی کیا ہے تاکہ اباضیہ کی جہت فکر و عمل کا بہتر طور پر اندازہ کیا جاسکے۔ اباضیہ کے بانیوں کے علاوہ ہم نے ان کی امہات کتب کا بھی تعارف کروایا ہے۔ اپنی معلومات کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے ہم نے اباضیہ کے بعض اہل علم سے بھی رابطہ کیا تاکہ ان کے افکار و نظریات کو خود ان کی زبانی ہی سنا، جانا جاسکے۔ اس طرح سے ہمارا پیش نظر مضمون فقط کتابی معلومات پر مشتمل نہیں بلکہ اباضیہ کے ذمہ داروں کے عصری فہم پر بھی مشتمل ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق اباضیہ کے بارے میں ہمارا یہ مقالہ اردو میں اباضیہ کا کسی حد تک پہلا جامع تعارف ہے۔ امید ہے ہماری یہ کوشش آئندہ کے محققین کے لیے بنیاد اور مہمیز کا کام کرے گی۔
اباضیہ کا تعارف، اُن کی اپنی زبانی
اردو میں اباضیہ کی ایک کتاب ’’مسلک اباضی اور نماز‘‘ کے نام سے سلطنتِ عمان سے شائع ہوئی جسےاباضی عالم محمد معولی نے ترتیب دیا جبکہ اردو ترجمہ سید ازہر حسین ندوی نے کیا ہے، یہ کتاب ہمارے ہاں عمومی طور پر دستیاب نہیں ہے، اس میں اباضیہ کا مختصر تعارف اور تاریخی پس منظر کچھ یوں بیان ہوا ہے:
مسلک اباضی بھی اسلامی مسالک میں سے ایک مستند مسلک ہے ان کی بنیاد بھی قرآن و سنت اوراجماع امت ہے، لیکن یہ مسلک دیگر مسالک کی طرح شہرت نہیں حاصل کر سکا۔
اس مسلک کے ماننے والوں کو لفظ اباضی سے دوسرے لوگوں نے تعبیر کیا ہے اور یہ نام ان کو سیاسی طور پر دیا گیا ہے، یہ نسبت عبداللہ بن اباض تمیمی تابعی کی طرف ہے، ان کا شمار اس مسلک کے سیاسی قائدین میں ہے، آپ کی قیادت میں مسلک اباضی کے لوگوں نے اموی حکام کی سنت نبوی اور خلفاء راشدین کے نہج سے ہٹ جانے کی وجہ پر جوش انداز میں تنقید کی اور اسی طرح آپ نے عبدالملک بن مروان کو خطوط لکھے جو مشہور و معروف ہیں، ان خطوط میں آپ نے ان کے سامنے حق واضح فرما دیا تھا اور اس جماعت کا دفاع کیا تھا جس جماعت سے آپ کو نسبت تھی۔
اس سے پہلے وہ اپنے لیے جماعۃ المسلمین یا اہل الدعوۃ یا اہل الاستقامۃ کے الفاظ استعمال کرتے تھے، ان کے لیے سب سے پہلے لفظ اباضیہ کا استعمال تیسری صدی ہجری کے آخر میں کیا گیا، اور پھر یہ لفظ عام ہو گیا، اور اس کے لفظ کو اپنے لیے اس مسلک کے ماننے والوں نے بھی پسند کیا۔
مسلک اباضی کے ماننے والے دینی امور کے اندر قرآن و سنت اور اجماع امت کو ہی اصل ماخذ قرار دیتے ہیں اور تشریع اسلامی کے اندر انہی کو اساس و بنیاد مانتے ہیں اور انپے مذہبی امور میں انہی سے دلائل اخذ کرتے ہیں، چنانچہ ان کے یہاں عقیدہ یا فقہ کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کا استنباط انھوں نے قرآن و سنت یا ان سے متعلق دلائل کو چھوڑ کر کیا ہو۔
سنت نبوی پر عمل کرنے میں اباضیوں کا کارواں سب سے آگے ہے اور یہ لوگ اتباع رسولؐ کے سب سے زیادہ حریص ہیں، اس بات کا اعتراف غیروں نے بھی مختلف زمانوں میں کیا ہے اور جو شخص بھی ان کی کتابوں اور ان کے تاریخ کا مطالعہ کرے گا اسے اس بات کا بخوبی علم ہو جائے گا۔
اباضیوں کے یہاں حدیث کی کتابوں میں معتمد علیہ کتاب مسند امام ربیع بن حبیب فراہیدی ہے اور یہ کتاب حدیث کی کتابوں میں صحیح ترین کتاب ہے، کیونکہ اس کی حدیثیں ثلاثی السند ہیں اور اس کے راوی ثقہ ہیں اور اس کی اکثر حدیثیں ابو عبیدہ مسلم بن ابو کریمہ عن جابر بن زیدازدی عن الصحابہ سے مروی ہیں، اس کے ساتھ اباضی حدیث کی دوسری کتابوں پر بھی اعتماد کرتے ہیں، چنانچہ یہ لوگ ہر اس حدیث کو قبول کر لیتے ہیں جو حضورؐ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہو اگرچہ اس کو روایت کرنے والا غیر اباضی ہو۔
مسلک اباضی کے پیروکار اپنی وسعت فکری و فقہی اوروسعت قلبی سے ہمیشہ معروف و مشہور رہے ہیں، وہ حق کی پیروی کرتے ہیں اور قرآن کریم اور تمام کتب حدیث میں صحیح مروی حدیثوں کو اختیار کرتے ہیں، اور غیر مسلک والوں کے اقوال کو پوری امانتداری کے ساتھ نقل کرے ہیں اور جس کے قول کی دلیل کو قوی دیکھتے ہیں اس کو راجح قرار دیتے ہیں خواہ اس قول کا قائل کوئی بھی ہو، یہ حقیقت ان کی کتابوں میں آشکارا ہے۔
مسلک اباضی کے ماننے والوں پر یہ الزام لگانا کہ وہ سنت کی مخالفت کرتے ہیں فقہ اباضی کے اصول و قواعد سے عدم واقیت کی دلیل ہے اور یہ چیز ان تاریخی و سیاسی واقعات و حوادث کے نتیجہ میں پیدا ہوئی جو زمانے قدیم میں پیش آئے اور جن کے اثرات دوسروں کی کتابوںمیں موجود ہیں۔
ابتداء میں مسلک اباضی چند اسلامی علاقوں میں پھیلا جیسا کہ اس کا ذکر آگے آئے گا، لیکن اس کے بعد اس کی شہرت کم ہو گئی، اس کا سبب یہ ہوا کہ جن گروپوں نے سیاسی طور پر اموی اور عباسی حکومت کی سخت مخالفت کی تھی ان میں سے ایک گروہ اباضیوں کا تھا جن میں سر فہرست عبداللہ بن اباض تھے، چنانچہ اموی اور عباسی حکمران اِس مسلک اور اس مسلک کے ماننے والوں کے خلاف میدان جنگ میں کود پڑے اور لوگوں کے درمیان اور اسلام کی حقیقت کو سمجھنے کے درمیان حائل ہو گئے، وہ لوگوں کو ان سے متنفر کیا کرتے تھے اور ان کے لیے خوارج کا لفظ استعمال کرتے تھے۔
مسلک اباضی ملک عمان کے ساتھ ساتھ جزائر، تونس، لیبیا، یمن اور کئی افریقی ملکوں میں جیسے تنزانیا، اوغندا، کینیا، غانا اور مالی اور ان کے علاوہ دوسرے ممالک میں موجود ہے، یہ مسلک پہلے عراق، خراسان، سندھ وغیرہ میں بھی موجود تھا، بہت سے علاقوں میں اس مسلک کے ختم ہونے کا سبب یہ ہوا کہ ان ملکوں کی سیاست اس مسلک اور اس مسلک کے ماننے والوں کے خلاف ہے اور یہ مخالفت اس درجہ کو پہنچی کہ انھوں نے اس مسلک کے ماننے والوں پر کفر کا فتوی چسپاں کیا، انھیں قتل کیا اور ان کی کتابوں کو نذر آتش کر دیا اور اس کے علاوہ دوسرے مظالم ان پر ڈھائے، جب کہ اباضی سلطنتوں نے اپنے مخالفین کے ساتھ یہ طریقہ نہیں اختیارکیا، کیونکہ اباضیہ کا طرہ امتیاز رواداری ،دوسروں کا احترام کرنا، انھیں دینی بھائی شمار کرنا اور دوسروں کو طاقت کے بل بوتے اس مسلک کے قبول کرنے پر مجبور نہ کرنا ہے۔
اباضی مسلک کی خوبیوں سے ناواقفیت کی وجہ تاریخ کے مختلف دور میں مذہبی تعصب، ظلم و ستم، بغض وحسد، اباضی علمی سرمایہ کو نذر آتش کرنا، اس مسلک کے ماننے والوںکو جلاوطن کرنا، ان کو قتل کرنا اور ان کو اپنے مسلک کے ترک کرنے پر مجبور کرنا ہے۔
مسلک اباضی کے سلسلے میں جو غلط باتیں عام ہوئیں اس کا سبب حکمرانوں کا ظلم و ستم ہے، جن کے ہاتھوں میں ابتدائی دور میں امت مسلمہ کی باگ ڈور تھی اور ان کی ظالمانہ اور جابرانہ سیاست اور ہر اس شخص کے ساتھ برسرپیکار ہونا ہے جو ان کے ظلم وجور کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرتا تھا، وہ لوگ ہر اس شخص کو جلاوطن کر دیتے تھے جو لوگوں کے سامنے حق کو بیان کرتا اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی صدا لگاتا اور ان حکمرانوں نے ہر اس شخص سے امت کو متنفر کیا جو ظالم و جابر حاکم کے خلاف خروج کو جائز قرار دیتا ہو اور امت کے ساتھ اس کے ظالمانہ رویے کی مخالفت کرتا ہو، ان حکمرانوں نے ایسے لوگوں پر دین سے نکل جانے کا نام (خوارج) چسپاں کیا اور ان کی تصویر بدنما شکل میں پیش کی، چنانچہ اس وقت جو کتابیں تصنیف پائیں ان میں اسی طرح کی افترا پردازی اور کذب بیانی پائی جاتی ہے، ان باتوں کو بہت سے ان لوگوں نے تسلیم کرلیا جوواقعات کی جانچ پڑتال نہیں کرتے ہیں اور معاملہ یہاں تک پہنچا گیا کہ اس وقت کے علماء نے حکام کو اباضیوں کے قتل کرنے کے جواز کا فتوی دے دیا۔
مسلک اباضی کے ماننے والے، تمام لوگوں کے نزدیک اپنے طرز اور اپنے نہج کے اندر اعتدال اور وسطیت میں مشہور ہیں، وہ اپنے ہر معاملے کے اندر دقیقہ رسی اور باریک بنی میں میں مشہور ہیں حتیٰ کہ دوسرے مسالک کے پیروکاروں کے ساتھ بھی ان کا طرز عمل دوسروں کی طرح نہیں ہے جو مخالف مسلک کے ماننے والوں پر شرک و کفر کا حکم لگاتے ہیں، اور دوسرے مسلک والوں کے پیچھے نماز کے عدم جواز کا فتوی دیتے ہیں اور ان کے ساتھ شادی کرنے کو ناجائز قرار دیتے ہیں بلکہ ان کے خون کو حلال سمجھتے ہیں، حلانکہ اباضی ان افعال کے مرتکب نہیں ہیں۔
مسلک اباضی کی تاریخ ،معاشرتی اور اجتماعی اعتدال سے لبریز ہے، چنانچہ دوسرے اسلامی مسالک کے ماننے والوں کو اباضی حکومتوں کے سایہ میں وہ تمام حقوق و واجبات حاصل ہوتے ہیں جو اباضی اور غیر اباضی مسلم کو حاصل ہوتے ہیں، اباضی دوسروں کے ساتھ اچھا برتائو کرتے ہیں اور اگر کبھی کبھار اس کے خلاف کوئی واقعہ ظہور پذیر ہوا تو وہ ظلم ہے جسے اباضی اصول و ضوابط کی جانب سے سند جواز فراہم نہیں۔
حضرت علیؑ سے متعلق اباضیہ کا موقف:
عمان سے تعلق رکھنے والے، اباضی عالم حافظ صوافی نے حضرت علیؑ کے حوالے سے اباضیہ کا موقف کچھ یُوں پیش کیا کہ اباضیہ یہ سمجھتے ہیں کہ اہلِ نہروان سے آپؑ کا قتال درست نہ تھا۔ اِسی طرح اہلِ شام سے بھی آپؑ کو مکمل لڑنا چاہیے تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ماضی کے بعض اباضی عالم، حضرت علی کی تحسین نہیں کرتے تھے، جبکہ بعض اباضی علماء آپؑ کو رضی اللہ عنہ کہہ کر یاد کرتے ہیں۔ اباضیہ کی کتبِ حدیث میں آپؑ کے فرمودات و احادیث موجود ہیں۔
حال ہی میں اباضی عقائد و تاریخ کے حوالے سے اباضی عالم شیخ سالم بن حمد بن سلیمان الحارثی کی کتاب ” العقود الفضیۃ فی اصول الاباضیۃ” کے صفحہ 41 پر “فصل خلافۃ علی بن ابی طالب” کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
آپ کا نام علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب تھا، آپ نبی کریمؐ کے چچا زاد اور آپ کی بیٹی فاطمہ زہراؑ کے شوہر، حسنین کے والد، نبی کریمؐ کی ولادت کے ۳۲سال بعد پیدا ہوئے۔ نبی کریمؐ کی گود میں پرورش پائی۔ انوارِ نبوت و سعادت کے سائے میں ترتیب پائی۔ آپ جاہلیت کی گندگی اور بت پرستی سے محفوظ تھے۔ تبوک کے علاوہ سبھی غزوات میں شرکت کی۔ ذی الحج کے ختم ہونے میں پانچ دن باقی تھے کہ 35ہجری میں آپ کی بیعت کی گئی۔ اباضی عالم علامہ شماخی نفوسی لکھتے ہیںکہ قتل عثمان کے دن آپ کی بیعت کی گئی۔ مسلمانوں کے اہل حل وعقد کے اجماع کی رو سے آپ کی خلافت برحق ہے، اہل سنت نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے۔
اس اختلاف پر ابن اثیر اور طبری کی یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ آپ کی بیعت ہوئی تو طلحہ، زبیر، سعد، عبداللہ بن عمر جیسے صحابہ حاضر نہ ہوئے۔
علم کی وسعت، احکام کے استنباط اور مشکلات کے حل کے سلسلے میں علی بہت بڑے عالم تھے۔ مشکل مسائل کے حل کے لیے عمربن خطاب آپ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے، آپ ہی کے متعلق ہے کہ قضیۃ ولا أباحسن لھا کہ مشکل ہے لیکن ابوالحسن(علی) نہیں ہیں۔ آپ بلندی پر فائز تھے اورکہتے تھے میرے پاس بہت علم ہے جس کا میں کوئی حامل نہیں پاتا۔
آپ بچوں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ آپ اسلام کے پہلے مجاہد اور پہلے فرد ہیں جن کی رسول اللہؐ نے کفالت فرمائی۔ آپ پہلے ہیں جنھوں نے علمی لحاظ سے مشکل ترین قضایا کو حل کیا۔ آپ پہلے خلیفہ ہیں جنھوں نے مدینہ کو چھوڑا۔ بدر کے دن پہلے مبارز اور مسلمان باغیوں سے لڑنے والے پہلے خلیفہ۔ آپ سے بہت سی احادیث مروی ہو۔ مسند ربیع بن حبیب میں آپ کی کئی احادیث ہیں اور آپ کی مرویات کے الگ باب بھی ہیں۔
مختلف اسلامی فرق کا تعارف کروانے والے بعض علماء کی، اباضیہ سے متعلق آراء کو نقل کرنا فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔ میں یہاں استاد ابوزہرہ اور مولوی نجم الغنی کی کتب سے ہی تعارف پیش کرنے پر اکتفاء کرتا ہوں۔
استاد ابو زہرہ کی نظر میں “اباضیہ”:
آپ اپنی کتاب “اسلامی مذاہب” ، جس کا اردو ترجمہ پروفیسر غلام احمد حریری نے کیا، کے صفحہ 130 و 131 پر اباضیہ کا تعارف یوںکرواتے ہیں کہ یہ عبداللہ بن اباض کے پیرو تھے۔ یہی فرقہ خارجیوں میں معتدل تھا اور فکر و رائے میں عامۂ مسلمین سے زیادہ قریب۔ یہ لوگ غلو اور انتہا پسندی سے بالکل الگ تھے۔ میانہ روی اور اعتدال و توسط ان کا شعار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کے بعض اطراف میں یہ اب تک موجود ہیں۔
فرقہ اباضیہ والوں نے نہایت عمدہ فقہ مرتب کی۔ ان میں مماتز عالم دین پائے جاتے تھے۔ ان کے بعض طوائف مغربی صحرائوں میں بودوباش رکھتے تھے اور بعض بلاد زنجبار میں اقامت گزیں تھے ۔ ان کے کچھ فقہی آراء بھی تھے۔ موجودہ مصری قانون میں مواریث سے متعلق ان کے بعض افکار کو اخذ کیا گیا ہے اور وہ ولاء عتق کی بناء حصول میراث کا مسئلہ ہے۔ مصری قانون میں ولاء عتق کو سب وارثوں سے پیچھے رکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ زوجین میں سے ایک کو باقی ماندہ میراث دینے سے بھی اس کا درجہ موخر رکھا گیا ہے۔ حالانکہ مذاہب اربعہ میں ولاء عتق کا مرتبہ عصبۂ نسبیہ کے بعد اور اصحاب فروض اقارب کو بقایا میراث ادا کرنے سے مقدم ہے۔
اباضیہ مندرجہ ذیل نظریات رکھتے تھے:
۱۔ غیر خارجی مسلمان نہ مشرک ہیں نہ مومن۔ البتہ انھیں کفرانِ نعمت کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے کافر ِ نعمت کہا جائے گا۔
۲۔ غیر خارجی مسلمانوں کا خون بہانا حرام ہے۔ ان کا ملک دار التوحید ہے۔ البتہ بادشاہ کی چھائونی کفرگاہ ہے مگر وہ اس کا اظہار نہیں کرتے ان کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ مخالفین کی خونریزی حرام ہے اور ان کا ملک دارالتوحید ہے۔
۳۔ غیر خارجی مسلمان پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے اسلحہ جنگ گھوڑوں اور جانوروں کو نیز ان تمام چیزوں کو جن سے جنگ میں کام لیا جاتا ہے، مالِ غنیمت میں شمار کیا جائے گا۔ البتہ سونا چاندی وغیرہ ان کے مالکوں کو واپس کر دیے جائیں گے۔
۴۔ غیر خارجی مسلمانوں کی شہادت قبول کی جاسکتی ہے ان سے معاملات نکاح و وراثت کے تعلقات قائم کیے جاسکتے ہیں۔
اباضیہ کے ان افکار و آراء سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوسرے خارجی فرقوں کے مقابلہ میں یہ لوگ اعتدال پسند تھے اور اپنے مخالفوں کے ساتھ نسبتاً رواداری اور انصاف کا سلوک کرنے پر آمادہ رہتے تھے۔
مولوی محمد نجم الغنی رام پوری کی نظر میں “اباضیہ”:
مولوی موصوف کی کتاب” مذاہب الاسلام” کو ادارہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز نے شائع کیاہے، آپ نے اباضیہ کا شمار خوارج کے فرقوں میں کیا ہے، چنانچہ صفحہ 537 پرلکھتے ہیں
“یہ عبداللہ بن اباض کے اصحاب ہیں اس کا نام حارث بن عمر بھی لکھا ہے۔ بعض نے عبداللہ بن یحییٰ اباضی لکھا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ فرقہ منسوب ہے طرف اباض کے، اباض ایک گاؤںہے یمامہ کے علاقہ میں مراصدالاطلاع علی اسماء الامکنۃ والبقاع میں لکھا ہےکہ اباض الف کے ضمے اور باے موحدہ کی تخفیف اور اس کے بعد الف اور ضاد معجمہ سے گاؤں ہے یمامہ کے علاقہ میں اس مقام پر خالد بن ولید اور مسیلمہ سے جنگ ہوئی تھی اور استحاف ذوی الباب بشواردلب الالباب میں رضی الدین نے اباضی الف کے کسرے سے لکھا ہے اور کہا ہے کہ اباضی فرقہ اباضیہ میں کا ایک شخص اور اباضیہ کا پیشوا حارث اباضی ہے یہ منسوب ہے طرف عبداللہ اباض کے اور معارف ابن قتیبہ میں مذکور ہے کہ عبداللہ بن اباض قبیلۂ بنو مرہ سے ہے جو عبید سے ہے اور وہ تمیم سے کہ احنیف بن قیس کا ایک گروہ ہے اُس شخص نے مروان بن محمد کے عہد میں خروج کیا تھا۔ مروان کے حکم سے عبداللہ بن محمد بن عطیہ نے اس سے جنگ کرکے قتل کیا اور بعض کہتے ہیں کہ عبداللہ تمام معاملات میں اس کا رفیق تھا ۔تاریخ کامل میں لکھا ہے کہ جب خوارج نے عبداللہ بن زبیر سے مفارقت کی تو یہ بھی اس گروہ کے ہمراہ تھا اور بصرے میں چلا آیا اور نافع بن ازرق کے ساتھ خروج نہ کیا اور جب نافع نے اس مضمون کا خط اس کو لکھا کہ جو شخص اہل قبلہ میں سے ہمارا مخالف ہے وہ کافر ہے اس کے ساتھ مناکحت ناجائز ہے اس کے ہاتھ کا ذبیچہ کھانا نادرست ہے اس کو وراثت نہیں پہنچ سکتی، اس کے بچوں کو قتل کرنا چاہیے اس سے نفرت کرناچاہیے تو عبداللہ بن اباض نے اس رائے سے نافع کی اختلاف کرکے کہا کہ جو اہل قبلہ میں سے ہمارا مخالف ہے وہ کافر نعمت والا حکم رکھتا ہے ، وہ مشرک نہیں اوراس کا حکم منافق کا ہے اس کے ساتھ مناکحت اور اس کی وراثت جائز ہے اور ہتھیارا اور گھوڑا مخالفوں کا جنگ میں لے لینا جائز ہے اور اس کے علاوہ کچھ لینا ناجائز ہے اور کہا ہے ہمارے مخالفین کے شہر دار اسلام ہیں مگر جو پایۂ تخت سلطان کا ہے وہ دارالکفر ہے اور مخالفوں کی گواہی ہم پر مقبول ہے اوراس کے نزیک ایمان تمام نہیں بغیر عمل صالح کے اور اس کے زعم میں مرتکب کبیرہ موحد مومن نہیں اس لیے کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اور یہ مرتکب کبیرہ کو کافر نعمت جانتا ہے نہ کہ کافر ملت اور اس کے اعتقاد میں استطاعت قبل فعل کے ہے اور بندوں کے افعال کا خالق خدا ہے اور تمام عالم اصل تکلیف کے فنا ہونے کے ساتھ فنا ہوجائے گا اور اولاد کفار کی تکفیر و تعذیب میں متوقف ہے اور متوقف ہے اس میں بھی کہ نفاق شرک ہے یا نہیں اور اس بات میں متردد ہے کہ کوئی ایسا رسول ہونا جائز ہے یا نہیں جس کے ساتھ صدق دعوی ٰ نبوت پر کوئی معجزہ نہ ہو اور جن احکام کی اس پر وحی آتی ہو ان کی تعمیل کا اس کے امتیوں پر حکم نہ ہو اور امیر المومنین علی اور اکثر صحابہ کو کافر کہتا ہے۔۔۔
اباضیہ میں سے ایک شخص جس کا نام مختار بن عوف ازدی تھا اور ابو حمزہ کہلاتا تھا، ہر سال موسم حج میں آتا اور برخلاف مروان بن محمد کے لوگوں کو ابھارتا تھا۔ ۱۲۸ھ میں عبداللہ بن یحییٰ معروف بہ طالب الحق حضر موت سے آیا ابو حمزہ کے کلام سن کے بولا تم میرے ساتھ چلو میں اپنی قوم کا سردار ہوں چنانچہ ابو حمزہ طالب الحق کے ساتھ حضر موت گیا اور اس کی بیعت کرلی اگلے سال ۱۲۹ھ میں طالب الحق نے ابو حمزہ کو مع بلخ بن عقبہ ازدی کے ساتھ سو کی جمعیت سے موسم حج میں مکے کی جانب روا نہ کیا ۔موقف میں پہنچ کے ان لوگوں نے اپنے قصد کو ظاہر کیا ان دنوں مکہ و مدینہ کا عامل عبدالواحد بن سلیمان بن عبدالملک تھا اس نے ابو حمزہ سے تا انقضائے ایام حج و واپسی حجاج مصالحت رکھنے کی درخواست کی۔ ابو حمزہ وبلخ بن عقبہ اس امر پر راضی ہو گئے۔ عبدالواحد نے مقام منیٰ میں قیام کیا اور ابو حمزہ قرن الثعالب میں خیمہ زن ہوا۔ عبیداللہ بن حسن مثنیٰ بن حسین بن علی بن ابی طالب، محمد بن عبداللہ بن عمر بن عثمان بن عفان ،عبدالرحمن بن قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق، عبیداللہ بن عمر بن حفص بن عاصم بن عمر خطاب اور بیعہ بن ابی عبدالرحمان کو مع چند ایسے ہی بزرگوں کے ابو حمزہ کے پاس مصالحت کی مضبوطی کی غرض سے بھیجا ۔ابو حمزہ کا علوی و عثمانی کا نام سنتے ہی چہرہ بگڑ گیا مگر بکری(صدیقی) عمری(فاروقی) کا نام سنتے ہی بشاش ہو کے بولاکہ ہم نے تمھارے ہی دونوں کے باپوں کی سیرت کے پھیلانے اور انہی کی اقتداء کے خیال سے خروج کیا ہے۔ عبید اللہ بن حسن نے کہا ہم اس غرض سے تمھارے پاس نہیں آئے کہ تم ہمارے آباء و اجداد کی باہمی تفصیل بیان کرو بلکہ ہم امیر کی طرف سے سفیر ہو کے آئے ہیں اور یہ ربیعہ بن ابی عبدالرحمان اس سفارت کو ادا کریں گے، غرض ربیعہ اور ابو حمزہ میں مصالحت تا انقضائے میعاد مقررہ قائم رکھنے کا باہم عہد و پیمان ہو گیا مگر عبدالرحمان پہلے ہی قافلے کے ساتھ مکہ معظمہ سے مدینہ چلا گیا اور اہل مدینہ کو ابو حمزہ کے آنے سے خبردار کرکے اس کی جنگ پر ابھار دیا روزینہ میں بھی دس دس در اہم کا اضافہ کردیا پس لشکر کو ابو حمزہ کی جنگ کے لیے مرتب کیا اس پر عبدالعزیز بن عبداللہ بن عمر بن عثمان کو مقرر کرکے کوچ کا حکم دے دیا۔ مقام قدید میں جس وقت یہ لشکر پہنچا ابو حمزہ کے سفیر امن حاصل کرکے اہل مدینہ کے لشکر میں آئے اور یہ درخواست پیش کی کہ تم ہم سے جنگ نہ کرو ہم کو اور ہمارے دشمن کو چھوڑ دو ہم اور وہ نبٹ لیں گے۔
اہل مدینہ نے اس کو منظور نہ کیا اس اثنا میں ابو حمزہ بھی مع اپنے ہمرا ہیوں کے مدینے میں آ اترا لوگ بظاہر آلات حرب یس آراستہ نہ تھے اور نہ اس کی شکل و صورت سے یہ سمجھا جاتاتھا کہ یہ لوگ لڑیں گے مگر جس وقت اہل مدینہ کے انکار کا حال معلوم ہوا ابو حمزہ کے ہمراہ ہی جھرمٹ باندھ کے نکل پڑے اور نہایت بے رحمی سے قتل کرنا شروع کردیا۔ تقریباً سات سو آدمی قبیلۂ قریش کے مارے گئے اس کی خبر عبدالواحد تک پہنچی تو وہ مدینہ منورہ چھوڑ کر شام چلا گیا اور ابو حمزہ نصف ماہ صفر ۱۳۰ھ میں داخل مدینہ ہوا۔ لوگوں کو جمع کرکے ممبر پر گیا خطبہ دیا اور علیٰ الاعلان اپنی دعوت کا اظہار کیا وعظ کہا اور ان لوگو ںکے اقوال کو رد کیا اور ان کی رائے کی برائی بیان کی جو اس کے معائب بیان کرتے تھے اور ایسے حسن سلوک اور اخلاق سے پیش آیا کہ کل اہل مدینہ نے بطیب خاطر اس کی تقیریر سنی کہتا تھا : من زنی فہو کافرو من سرق فھو کافر جس شخص نے زنا کیا وہ کافر ہے اور جس نے چوری کی وہ کافر ہے۔یہ تین ماہ تک مدینے میں ٹھہرا رہا بعدازاں ان لوگوں سے رخصت ہو کے شام کی طرف روانہ ہوا اس کی روانگی سے پیشتر مروان نے خوارج سے جنگ کرنے کو عبدالملک بن محمد بن عطیہ بن ہوازن کو چار ہزار کی جمعیت سے روانہ کردیا تھا جو رفتہ رفتہ یمن پہنچ گیا۔ دادی القری ٰمیں خوارج سے مد بھیڑ ہوئی خوارج شکست کھا کے بھاگے ابو حمزہ مارا گیا بقیۃ السیف نے بھاگ کے مدینے میں جان بچائی ابن عطیہ بھی ان کے تعاقب میں مدینے تک پہنچ گیا ایک ماہ قیام کرکے یمن کی طرف روانہ ہوا عبداللہ طالب الحق کو اس کی روانگی کی خبر لگی اس وقت وہ صنعا میں تھا اس نے اپنے ہمراہیوں کو جمع کرکے بارادۂ جنگ خروج کردیا۔ طالب الحق اور ابن عطیہ سے لڑائی ہوئی طالب الحق مارا گیا اور ابن عطیہ نے صنعا پر پہنچ کے کامیابی کے ساتھ قبضہ کرلیا۔”
عمان کے اباضیہ کی بعض اہم شخصیتیں
1 -امام جابر ابن زید انہوں نے مذہبِ اباضیہ کے اصول وقواعد ترتیب دیئے۔
2 -ابو عبیدہ مسلم ابن ابی کریمہ تمیمی ؛ان کے زمانے میں اباضیہ مستقل مذہب کی حیثیت سے سامنے آیا اور اسی زمانے میں اس مذہب کی کلامی آراء کو مدون کیا گیا ۔
3 -ربیع ابن حبیب فراہیدی : یہ بزرگ فقیہ و محدث تھے ۔
اباضی مسلک کی خصوصیات
اباضی مسلک میں منابع شریعت قرآن سنت اجماع و قیاس و استدلال ہیں ان کے نزدیک عقائد ، عبادات ،اخلاق و معاملات کا بنیادی منبع قرآن ہے ۔
دوسرامنبع سنت ہے جو تواتر کی حد تک ہو ۔
تیسرا منبع اجماع ہے البتہ اجماع قولی کو حجت قطعی اور اجماع سکوتی کو حجت ظنی قراردیتے ہیں ۔
چوتھا منبع قیاس ہے جس کی تفصیلات اور اصول و قواعد ان کی کتب اصول میں مذکورہیں ۔
پانچواں منبع استدلال ہے جس میں استصحاب ،استحسان و مصالح مرسلہ شامل ہیں ۔
اباضیہ کے بعض ممیزات :
1 – اباضیہ خداکی یکتائی ،نبوت ،حقانیت قرآن اور روزہ نماز جیسی عبادات کو جز ایمان سمجھتے ہیں
2 – اباضیہ کا ایک فقہی امتیاز اعتدال پسند ہونا ہے وہ مسئلہ حدیث و رائے ، نیزسیاسی و مذہبی روش میں میانہ روی کے قائل ہیں ۔
اباضیہ کے بعض فقہی مسائل :
1-طعام اہل کتاب کو حرام سمجھتے ہیں مگر یہ کہ وہ ذمی ہوں ۔
2 – دفع مفسدہ جلب منفعت پر مقدم ہے ۔
3 – مسافر کی نماز قصر ہے ۔
4 – ان کے نزدیک باب اجتہاد کھلا ہے اور مجتہد کے لیے لغت و اصول دین ،فقہ و مصادر ادلہ میں ماہر ہونا ضروری ہے ۔
5 – ان کے نزدیک واجبات میں علم و ایمان ،نماز و روزہ ، زکات ،حج و توبہ، امربہ معروف و نہی ازمنکر و جہاد ہیں ۔
6 – ان کے نزدیک نمازجمعہ واجب ہے
7 – اباضیہ قنوت نہیں پڑھتے ۔
اباضیہ کی بعض کتب فقہی :
بیان الشرع
قاموس الشریعۃ
شرح کتاب النیل و شفاء العلیل
معارج المآل
المدونۃ لابی غانم الخراسانی فی آثار الائمۃ الاوائل
جامع ابن برکۃ
کتاب الوضع
قواعد الاسلام
جامع البسیوی
اجوبۃ ابی نھیان
اجوبہ فقہیہ ابو یعقوب و ارجلانی
احکام الدماء ابی العباس احمد بن محمد
احکام الزکات جاعد بن خمیس خروصی
احکام السفر فی الاسلام یحی معمر
رسالۃ فی احکام الزکات مسلم بن ابی کریمہ ۔
حدیث اور تفسیر کی بعض کتب:
حدیث میں مسند ربیع بن حبیب کو اصح الکتب کا درجہ حاصل ہے جبکہ تفسیر میں
تفسیر الکتاب العزیز ، علامہ ہود بن محکم ہواری کی
ھیمان الزاد اِلی دار المعاد، امام اطفیش کی
نیز اِنہی کی تیسیر التفسیر، مشہور کتبِ تفسیر میں شمار ہوتی ہے۔
اباضیہ تاریخی نشیب و فراز میں :
ایک سوبتیس ہجری قمری سے اباضی مسلک عمان کا سرکاری مسلک قرارپایا البتہ تاریخ میں یہ ملتاہے کہ اباضیہ 75 سے لیکر 95 ہجری قمری میں سب سے پہلے عمان پہنچے، جب حجاج ابن یوسف نے جابر ابن زید کو عمان کی طرف ملک بدرکیا ۔اہل عمان کا جابر ابن زید کی دعوت کو قبول کرنے کی وجوہات میں یہ ایک اہم بات ہےکہ وہ خود عمان کے علاقے ازد کے رہنے والے تھے اور ازد ہی عمان کا سب سے بڑا قبیلہ ہے اس کے علاوہ جابر ابن زید کی معتدل آراء و نظریات بھی ان کے مسلک کے پھیلنے میں موثر واقع ہوئے ۔
اموی دور کے آخر میں اباضی فرقہ کے پیرو اپنے مسلک کو مخفی رکھ کر پہاڑی علاقوں میں زندگی گزارا کرتے تھے یہ لوگ عمرابن عبدالعزیز کو امیرالمومنین کہاکرتے تھے ، عباسی حکمرانوں کے زمانے میں جناح ابن عبادہ اور محمد ابن جناح عمان کے حاکم تھے اور انہوں نے اباضیہ کو اقتدارتک پہنچانے میں اہم کردار اداکیا ۔
اباضی رہنماوں نے برسوں تک خفیہ طور پر تبلیغ کی اور ان ہی کی کوششوں سے اباضیہ فرقہ کو ترقی ملی ۔
اباضیہ مذہب کے چند آئمہ :
جابر بن زید
غزان بن صقر
لواب بن سلام
ربیع بن حبیب
افلح بن عبد الوہاب
عمروس بن فتح
ابو القاسم یزید بن مخلد
ابو خزر یغلا بن زلتاف
محمد بن محبوب
شیخ مصالۃ
اباضیہ کے کلامی نظریات ۔
بعض علماءکا کہنا ہےکہ اباضیہ صرف حکمیت کے بارے میں اور امام کے قرشی ہونے کے مسئلے میں دیگرفرقوں سے اختلاف رکھتے ہیں جبکہ دیگر مسائل میں کسی نہ کسی فرقے سے اتفاق رکھتے ہیں چنانچہ صفات خدا ،رویت و تنزیہ ،تاویل و حدوث قرآن کے بارے میں معتزلہ اور شیعہ سے اتفاق رکھتے ہيں ،شفاعت کے بارے میں اباضیہ کی نظر معتزلہ سے نزدیک ہے ۔ اِسی طرح اباضیہ کا نظریہ ہے کہ حضرت عیسیؑ، وفات پا چکے ہیں۔ نزولِ عیسیٰؑ، خروجِ دجال اور آمدِ امام مہدیؑ کے اباضیہ قائل نہیں ہیں۔ اُن کے معاصر عالم، حافظ صوافی نے مجھے بتایا کہ اِن نظریات کو قرآن یا اُن کے پاس موجود احادیث میں نہیں بیان کیا گیا، اِس لیے وہ قائل نہیں ہیں۔
مختلف فرقوں کے ساتھہ اباضیہ کے بعض اختلافات و اتفاقات
جمہور اہلِ سنت کے ساتھ ان کے اختلافات
جمہور اہل سنت کے نزدیک گناہ کبیرہ کے مرتکبین کی شفاعت ممکن ہے، اباضیہ اِس کا انکار کرتے ہیں۔
جمہور اہل سنت کے نزدیک صفات خدا زائد برذات ہیں، جبکہ اباضیہ کے نزدیک، صفاتِ خدا عینِ ذات ہیں۔
جمہور کے مطابق ،گناہ کبیرہ کے مرتکبیں لازمی نہیں ہے کہ دوزخ میں جائيں، اباضیہ دوزخ کے قائل ہیں۔
جمہور اہلِ سنت کے نزدیک بغیر تاویل کے صفات خبریہ کا اثبات ممکن ہے ، اباضیہ اس کا انکار کرتے ہیں۔
جمہور اہل سنت کے مطابق مومنین قیامت میں خدا کو آنکھوں سے دیکھیں گے، اباضیہ رؤیتِ باری کا انکار کرتے ہیں۔
قدریہ اور معتزلہ سے ان کا اختلاف۔
قدریہ اور معتزلہ، انسانی افعال میں قدرِ الٰہی کی نفی کرتے ہیں جبکہ اباضی نفی نہیں کرتے۔
قدریہ اور معتزلہ کی اِس بات کہ ارادہ خداوندی افعال قبیح سے متعلق نہیں ہوتا اور یہ کہ گناہ کبیرہ کے مرتکبین کے لیے ایمان وکفر کے درمیان ایک منزل ہے ، کا بھی اباضیہ انکار کرتے ہیں۔
ان امور میں قدریہ اور معتزلہ سے موافق ہیں ۔
صفات خدا عین ذات خدا ہيں ،خدا کو آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا
مسئلہ امامت میں نص سے انکار ،اثبات استحقاق ثواب براے مومن
اس صورت میں کہ وہ جب بھی گناہ کرے استغفارکرلے ۔
دار العلوم دیوبند کا “اباضیہ” سے متعلق موقف:
دار العلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر اباضیہ کے متعلق ایک تفصیلی مضمون موجود ہے، جس میں اہلِ سنت سے اُن کا اختلاف اور اُن کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم یُوں درج کیا گیا ہے
عقائد میں اباضیہ کا اہل السنہ والجماعہ سے اختلاف
چند اہم عقائد جن میں اباضیہ کا نقطئہ نظر اہل السنہ والجماعہ سے مختلف ہے، درج ذیل ہیں:
۱- اباضیین صفاتِ الٰہی کا انکار کرتے ہیں،اور صفات کو عین ذات باری تعالیٰ قرار دیتے ہیں؛ جبکہ اہل السنہ والجماعہ، ذات باری تعالیٰ کے لیے صفات کو ثابت جانتے ہیں۔
۲- آیات ربانیہ اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آخرت میں اہل ایمان کو اللہ پاک کا دیدار نصیب ہوگا؛ چنانچہ سورئہ یونس کی آیت کریمہ ”للذین أحسنوا الحسنٰی وزیادة“ (یونس:۶) ”جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے اور مزید برآں بھی“ میں زیادہ کی تفسیر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیدار الٰہی سے کی ہے؛ چنانچہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت پاک ”للذین أحسنوا۔۔۔کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا، اے جنتیو! اللہ پاک نے تم سے ایک وعدہ کررکھا ہے، اللہ اپنے اس وعدے کو پورا کرنا چاہتا ہے، تو جنتی جواب دیں گے، وہ کیا ہے؟ کیا اللہ پاک ہمارے ترازو کو بھاری، ہمارے چہروں کو روشن اور ہمیں دوزخ سے دور کرکے جنت میں داخل نہیں کردیاہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اس کے بعد پردہ ہٹادیا جائے گا اور جنتی اللہ پاک کا دیدار کریں گے، تو خدا کی قسم اللہ کی عطا کردہ ساری نعمتوں میں اللہ کا دیدار سب سے پسندیدہ اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخشنے والا ہوگا“۔ یہ حدیث مسلم شریف، ترمذی شریف سمیت کئی کتب حدیث میں موجود ہے، اور اس مضمون کی اور بھی متعدد روایات ہیں، لہٰذا قرآنی آیات اور احادیث وآثار کے پیش نظر اہل السنہ کا اجماعی عقیدہ ہے کہ آخرت میں اللہ پاک کا دیدار ہوگا؛ لیکن اباضیین اس کا انکار کرتے ہیں اورکہتے ہیں یہ ممکن ہی نہیں ہے۔
۳- اباضیین، قرآن کریم کے مخلوق اور حادث ہونے کے قائل ہیں، جو معتزلہ کا مشہور عقیدہ ہے۔ اسی کے انکار کی وجہ سے معتزلہ کی ایماء پر عباسی خلفاء نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر کوڑے برسائے اور سخت اذیتیں دیں؛ لیکن حضرت امام کے پائے استقامت میں ذرا جنبش نہیں ہوئی اور وہ اہل السنہ والجماعہ کے اس عقیدے پر جمے رہے کہ قرآنِ مقدس مخلوق نہیں، جو حادث ہو، یہ اللہ پاک کا کلام ہے جو اس کی صفات میں سے ہے۔
۴-اباضیین کا عقیدہ ہے کہ جو شخص گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرکے دنیا سے جائے گا؛ اگرچہ وہ کلمہ گو اور پابند نماز وغیرہ ہو، پھر بھی اسے ہمیشہ کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔ اسے کبھی جنت نصیب نہیں ہوگی؛ جبکہ اہل السنہ والجماعہ کا متفقہ عقیدہ ہے کہ مرتکب کبیرہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔ اگر ایمان پر اس کا خاتمہ ہوا ہے تو اسے بھی اللہ پاک جنت کا داخلہ نصیب کریں گے، یا تو اللہ پاک اس کا گناہ معاف کردیں یا گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد اللہ پاک اس کے حق میں جنت کا فیصلہ فرمادیں؛ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”اہل توحید میں سے کچھ لوگوں کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ اس میں کوئلہ بن جائیں گے، پھر اللہ کی رحمت متوجہ ہوگی، تو انھیں آگ سے نکال کر جنت کے دروازوں پر ڈال دیا جائے گا، تو جنتی ان پر پانی چھڑکیں گے جس کے نتیجے میں وہ اس طرح اگیں گے جس طرح سیلاب کے بہاؤ میں گھاس اگ جاتی ہے“۔
۵- جنھوں نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے، اباضیین کے نزدیک وہ مستحق شفاعت نہیں ہیں، جبکہ اہل السنہ والجماعہ کا عقیدہ ہے کہ ان کے حق میں بھی شفاعت ہوگی۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لیخرجن قوم من امتی من النار بشفاعتي یُسمّون الجہنمیین“
ترجمہ: میری سفارش کی وجہ سے میری امت کے ایک گروہ کو جن کا لقب جہنمی پڑجائے گا، جہنم سے نکالا جائے گا۔
۶- قرآن وحدیث میں آخرت کے متعلق کئی چیزوں کا تذکرہ ہے، مثلاً میزانِ عدل قائم کیا جائے گا، پل صراط سے گزرنا ہوگا؛ لیکن اباضیین اس طرح کی چیزوں میں تاویل کرتے ہیں اور احادیث میں ان چیزوں کی جو تفصیلات ہیں انھیں نہیں مانتے ہیں؛ جبکہ اہل السنہ والجماعہ اسی طرح ان کو مانتے ہیں جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔
۷- اہل السنہ والجماعہ کا اتفاق ہے کہ قرآنِ مقدس کے بعد روئے زمین پر سب سے صحیح کتاب بخاری شریف ہے،اس کے بعد مسلم شریف وغیرہ دیگر کتب احادیث کا مقام ہے؛ لیکن اباضیین اس تصور کو خارج کردیتے ہیں، ان کے نزدیک بخاری ومسلم سے بڑھ کر مسند ربیع بن صہیب
ہے۔ قرآن مجید کے بعد سب سے اہم کتاب وہ اسی مسند کو قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح اباضیین نے بہت سے اجماعی مسائل کا بھی انکار کیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: موسوعۃ الأدیان والمذاہب المعاصرۃ ۱/۶۲)
چند متفقہ فقہی مسائل میں اباضیہ کا شذوذ:
جب اصول وعقائد میں اباضیہ کا نقطئہ نظر اہل السنہ والجماعہ کے نقطئہ نظر سے مختلف ہے، تو فروع وجزئیات فقہیہ میں اختلاف تو لابدی اور فطری ہے۔ ہم یہاں چند اہم مسائل درج کررہے ہیں، جن میں اباضیین نے اہل السنہ والجماعہ کے اجتماعی موقف سے شذوذ کیاہے۔
۱-شیعوں کی طرح اباضیین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ خفین پر مسح کرنا جائز نہیں؛ حالاں کہ چمڑے کے موزے پر مسح کا جواز اہل السنہ کا متفقہ مسئلہ ہے اورامام ابوحنیفہ نے خفین پر مسح کے جواز کو اہل السنہ والجماعہ کی علامتوں میں شمار کیا ہے۔
۲- نماز کے آغاز میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانے کے قائل نہیں، اور پوری نماز ہاتھ چھوڑ کر ہی ادا کرتے ہیں۔
۳- اگر رمضان میں حالت جنابت میں صبح ہوئی تواس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔
۴- جو جزیہ نہیں دیتے، مثلاً موجودہ اہل کتاب، ان کا ذبیحہ حرام ہے۔
۵- ورثہ کے علاوہ دیگر رشتہ داروں کے لیے وصیت واجب ہے۔
۶- مکاتب، عقد کتابت کے وقت سے ہی آزاد ہے۔
اباضیین کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم:
اباضیین کے پیچھے نماز پڑھنے کا بھی وہی حکم ہوگا،جو حکم خوارج کے پیچھے نماز پڑھنے کا ہے۔ یعنی اگرچہ اہل السنہ والجماعہ انھیں کافر نہیں قرار دیتے؛ لیکن ان کے عقائدِ فاسدہ اور اعمالِ شنیعہ کی وجہ سے ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے ضرور منع کرتے ہیں، عرب علماء، چوں کہ اباضیین کے احوال سے زیادہ واقف ہیں؛اس لیے ہم اس سلسلے میں زیادہ تر انھیں کے فتاویٰ نقل کرتے ہیں۔
مشہور عرب عالم ابن جبرین فرماتے ہیں: ”ثم ہم مع ذٰلک یکفرون أہل السنة ویمنعون خلفنا، فلذٰلک یقول: لا یصلی خلف ہٰذہ الطائفة“
ترجمہ:اباضیین اپنے غلط افکار کے ساتھ اہل السنہ کو کافر قرار دیتے ہیں اور ہمارے پیچھے نماز پڑھنے سے روکتے ہیں؛ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اس فرقے کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جائے گی۔
شیخ محمد بن ابراہیم نے تو اباضیہ کے پیچھے نہ صرف نماز پڑھنے کو ناجائز قرار دیا ہے؛ بلکہ واضح طور پر کہا ہے کہ فرقہٴ اباضیہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کی گواہی بھی شرعاً معتبر نہیں ہوگی۔ (دیکھیے: فتاویٰ الشیخ محمد بن ابراہیم ۱۳/۳۰)
سعودی عرب کے مفتیان کرام کی جماعت نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے کہ اباضیین کے پیچھے نماز درست نہیں ہوتی؛ کیوں کہ اباضیہ فرق ضالہ میں سے ہے۔ (دیکھیے: فتویٰ اللجنۃ الدائمۃ رقم: ۶۹۳۵)
ان کے علاوہ شیخ سلمان العودۃ اور شیخ سلمان الغصن بھی اباضیہ کے پیچھے نماز درست نہیں قرار دیتے۔
حضرت مولانا مفتی رشیداحمد صاحب لدھیانوی نے بھی ایک سوال کے جواب میں تحریر کیا ہے: ”عبداللہ بن اباض کی جانب منسوب جو فرقہٴ اباضیہ ہے اورجو خوارج ہی کی شاخ ہے، ان کے عقائد کتابوں میں ملتے ہیں، اگر یہ فرقہ بعینہ وہی ہے یا ان کے عقائد ان کے مطابق ہیں تو ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی؛ اس لیے ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے“۔ (احسن الفتاویٰ:۱/۱۹۸)
مفتی شعیب اللہ خاں مفتاحی مدظلہ فرماتے ہیں:
”عمان کے اباضیہ دراصل خوارج ہیں؛ لہٰذا ان کے پیچھے نماز درست نہ ہوگی، اگرچہ یہ بہ نسبت دیگر فرق خوارج کے معتدل ہیں، تاہم جو بنیادی عقائد خوارج کے ہیں، ان میں یہ بھی شامل ہیں۔“ (نفائس الفقہ ۴/۴۲۰)
اہل السنہ والجماعہ کے تئیں اباضیہ کا سخت موقف:
یہاں اس امر کا بھی اظہار مناسب ہے کہ خوارج کی طرح، اباضیین بھی اپنے علاوہ اہل السنہ والجماعہ اور عامہ المسلمین کے حوالے سے انتہا پسندانہ نظریات رکھتے ہیں۔ ان کی رائے میں ان کے علاوہ تمام مسلمان کافر ہیں۔ اورجنت میں وہی داخل ہوگا جو اباضی عقیدے پر مرا ہو۔ اباضیین
کے علاوہ جتنے مسلمان ہیں سب کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔
چنانچہ مشہور اباضی عالم ابوبکر بن عبداللہ الکندی نے لکھا ہے:
”ونحن نَشْہَدُ لمن مات من ہٰوٴلاء مصرا علی خلاف ما دانت بہا الاباضیة بالخزی والصغار والخلود فی النار“ (الجوہر المقتصر ص ۱۲۱)
ترجمہ: اور ان مسلمانوں میں سے جو اباضیہ کے عقیدے سے ہٹ کر کسی اور عقیدے پر مرے ہم اس کے لیے رسوائی، ذلت اور ہمیشہ کے لیے جہنم کی شہادت دیتے ہیں۔
ایک اور اباضی عالم مہنا بن خلفان نے اباضیہ کے معتقدات وافکار ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: ”وان مات علی خلافہ فلیس لہ فی الآخرۃ الا النار وبئس المصیر“ (لباب الآثار ۱/۲۷۸)
ترجمہ:اوراگر کوئی اس کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مرے تو آخرت میں اس کے لیے صرف جہنم ہے اور جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔
درج بالا تصریحات سے واضح ہے کہ فرقہٴ اباضیہ اپنے معتقدات کی وجہ سے اہل السنہ والجماعہ سے خارج ہے اور یہ ایک گمراہ فرقہ ہے جو دیگر مسلمانوں کو جہنمی خیال کرتا ہے؛ اس لیے اس فرقے کے زہریلے اثرات سے اپنے معاشرے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اوراس کے پیچھے نماز پڑھنے سے بالکلیہ احتراز کرنا چاہیے۔
عالمِ اسلام کا موقف:
برصغیر کی، مسلکِ دیوبند کی معروف درسگاہ، دار العلوم دیوبند کے موقف کے بعد ہم عالمِ اسلام کا “اباضیہ” سے متعلق موقف پیش کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم ابتداء میں اشارہ کر چکے ہیں کہ عالمی سطح کے اسلامی اداروں اور عالمی کانفرنسوں کے اعلامیوں میں اباضیہ کو اسلامی فرق میں شمار کیا گیا ہے۔ اِسی ضمن میں ہم عالمِ اسلام کی بین الاقوامی کانفرنس کا اعلامیہ نقل کرتے ہیں جسے “اعلانِ عمان” کہا جاتا ہے، اِس کی تفصیل کچھ یُوں ہے
اردن کے دارالحکومت عمان میں ۲۷۔۲۹؍جمادی الاولیٰ ۱۴۲۶ھ؍۴؍۶ جولائی ۲۰۰۵ کو’’اسلام کی حقیقت اورمعاصر معاشرے میں اس کا کردار‘‘ کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں یہی موقف اختیار کیا گیا اوران فتاویٰ اورکانفرنس کی سفارشات کو بنیاد بنا کرکانفرنس نے اعلان عمان کے نام سے ایک بیان جاری کیا۔ اس اعلان کا متن مع ترجمہ قبل ازیں اسلامی نظریاتی کونسل کی ۲۰۰۶ء میں شائع ہونے والی رپورٹ ’’اسلام اور دہشت گردی ‘‘ میں بھی شامل کیا جا چکا ہے ۔یہاں ہم اس اعلان کی اہمیت اوراس حوالے سے عالم اسلام کے دیگر اہم اعلانات کے ساتھ اس کی ہم آہنگی کے پیش نظر قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
والصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد وعلی آلہ وسلم
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ۔(النساء۔۱)
بیان صادر عن المؤتمر الاسلامی الدولی الذی عقد فی عمان،عاصمۃ المملکۃ الأردنیۃ الھاشمیۃ ، تحت عنوان (حقیقۃ الاسلام ودورہ فی المجتمع المعاصر)،فی المدۃ ۲۷۔۲۹ جمادی الاولیٰ۱۴۲۶ھ؍۴۔۶ تموز(یولیو)۲۰۰۵م
وفقاًلماجاء فی فتوی فضیلۃ الامام الأکبر شیخ الأزھرالمکرّم، وفتوی سماحۃ آیۃ اللہ العظمی السید علی السیستانی الأکرم، وفتوی فضیلۃ مفتی الدیار المصریۃ الاکرم، وفتاوی المراجع الشیعیۃ الأکرمین (الجعفریۃ والزیدیۃ)،وفتوی فضیلۃ المفتی العام لسلطنۃ عمان الأکرم، وفتوی مجمع الفقہ الاسلامی الدولی (منظمۃ المؤتمر الاسلامی۔جدۃ، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ)،وفتوی المجلس الأعلی للشؤون الدینیۃ الترکیۃ،وفتوی فضیلۃ مفتی المملکۃ الأردنیۃ الھاشمیۃ ولجنۃ الافتاء الأکرمین فیھا، وفتوی فضیلۃ الشیخ الدکتور یوسف القرضاوی الأکرم،
ووفقاً لما جاء فی خطاب صاحب الجلالۃ الھاشمیۃ الملک عبداللہ الثانی ابن الحسین ملک المملکۃ الأردنیۃ الھاشمیۃ فی افتاح مؤتمرنا،
ووفقاً لعلمنا الخالص لوجہ اللہ الکریم،
ووفقاً لما قدم فی مؤتمرنا ھذا من بحوث ودراسات ومادار فیہ من مناقشات، فاننا، نحن الموقعین أدناہ،نعرب عن توافقنا علی مایرد تالیاً، واقرارنا بہ:
(۱) انّ کل من یتبع أحد المذاھب الأربعۃ من أھل السنّۃ والجماعۃ (الحنفی،والمالکی ، والشافعی،والحنبلی)والمذھب الجعفری، والمذھب الزیدی، والمذھب الاباضی،والمذھب الظاھری، فھومسلم، ولا یجوز تکفیرہ، ویحرم دمہ وعرضہ ومالہ۔ وأیضاً،ووفقاً لما جاء فی فتوی فضیلۃ شیخ الأزھر،لایجوز تکفیر أصحاب العقیدۃ الأشعریۃ، ومن یمارس التصوف الحقیقی۔وکذلک لایجوزتکفیر أصحاب الفکر السلفی الصحیح۔
کمالا یجوز تکفیر أی فئۃ أخری من المسلمین توٌمن بااللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ وبرسولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأرکان الایمان، وتحترم أرکان الاسلام، ولا تنکر معلوماً من الدین بالضرورۃ۔
(۲) ان مایجمع بین المذاھب أکثر بکثیر ممّا بینھا من الاختلاف۔ فأصحاب المذاھب الثمانیۃ متفقون علی المبادی الأساسیۃ للاسلام۔ فکلھم یؤمنون باللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ، واحداً أحداً، وبأنّ القرآن الکریم کلام اللّٰہ المنزَّل، وسیدنا محمد علیہ الصلاۃ والسلام نبیاً ورسولاً للبشریۃ کافۃ۔ وکلھم متفقون علی أرکان الاسلام الخمسۃ: الشھادتین، والصلاۃ ،والزکاۃ،وصوم رمضان، وحج البیت، وعلی أرکان الایمان: الایمان باللّٰہ، وملائکتہ،وکتبہ ،ورسولہ، والیوم الآخر، وبالقدر خیرہ وشرہ۔ واختلاف العلماء من أتباع المذاھب ھواختلاف فی الفروع ولیس فی الأصول ،وھورحمۃ،وقدیماً قیل، ان اختلاف العلماء فی الرأی أمرجید۔
(۳) ان الاعتراف بالمذاھب فی الاسلام یعنی الالتزام بمنھجیۃ معینۃ فی الفتاوی:فلا یجوز لأ حد أن یتصدّی للافتاء دون مؤھّلات شخصیۃ معینۃ یحددھا کل مذھب، ولا یجوز الافتاء دون التقید بمنھجیۃ المذاھب،ولا یجوز لأحدأن یدعی الاجتھاد ویستحدث مذھباً جدیداً أو یقدّم فتاوی مرفوضۃ تخرج المسلمین عن قواعد الشریعۃ وثوابتھا وما استقرَّمن مذاھبھا۔
(۴) ان لب موضوع رسالۃ عمان التی صدرت فی لیلۃ القدر المبارکۃ من عام ۱۴۲۵ للھجرۃ وقُرئت فی مسجد الھاشمیین، ھوالالتزام بالمذاھب وبمنھجیتھا؛ فالاعتراف بالمذاھب والتاکید علی الحوار والا لتقاء بینھا ھوالذی یضمن الاعتدال والوسطیۃ،والتسامح والرحمۃ، ومحاورۃ الآخرین۔
(۵) اننا ندعوالی نبذالخلاف بین المسلمین والی توحید کلمتھم، ومواقفھم، والی التأکید علی احترام بعضھم لبعض، والی تعزیز التضامن بین شعوبھم ودولھم، والی تقویۃ روابط الآخوّۃ التی تجمعھم علی التحاب فی اللّٰہ، وألایترکوا مجالاً للفتنۃ وللتدخل بینھم۔
فاللّٰہ سبحانہ یقول:
اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔(الحجرات۔۱۰)
(۶) یؤکدالمشار کون فی المؤتمر الاسلامی الدولی، وھم یجتمعون فی عمّان عاصمۃ المملکۃ الارٔدنیۃ الھاشمیۃ، علی مقربۃٍ من المسجد الأقصی المبارک والأرآضی الفلسطینیۃ المحتلۃ،علی ضرورۃ بذل کل الجھود لحمایۃ المسجد الأقصی، أولی القبلتین وثالث الحرمین الشریفین، فی وجہ مایتعرض لہ من أخطار واعتداء ات،وذلک بانھاء الاحتلال وتحریر المقدسات۔وکذلک ضرورۃ المحافظۃ علی العتبات المقدسۃ فی العراق وغیرہ۔
(۷) یؤکد المشار کون علی ضرورۃ تعمیق معانی الحریۃ واحترام الرأی والرأی الآخر فی رحاب عالمنا الاسلامی۔
والحمد للہ وحدہ۔
ترجمہ:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد وعلی آلہ وسلم
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ۔(النساء۔۱)
(لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا۔)
اعلانِ عمان
عزت مآب امام اکبر مکرم جناب شیخ الازھر کے فتویٰ
سماحۃ آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے فتویٰ
دیار مصر کے مفتی اعظم کے فتویٰ
شیعیان جعفریہ وزیدیہ کے قابل احترام مراجع کے فتاویٰ
سلطنت عمان کے مفتی العام عزت مآب کے فتویٰ
بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی(اسلامی کانفرنس تنظیم ،جدہ،سعودی عرب) کے فتویٰ
ترکی کی سپریم کونسل برائے دینی امور کے فتویٰ
اردن کی سلطنت ہاشمیہ کے مفتی اعظم اورفتویٰ کمیٹی کے مفتیانِ کرام کے فتویٰ
اور عزت مآب جناب ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے فتویٰ کے مطابق؛
ہماری اس کانفرنس میں سلطنت ہاشمیہ اردن کے عزت مآب بادشاہ عبداللہ ثانی بن حسین کے افتتاحی خطاب کے مطابق :
خالصتاً اللہ کی رضا کے لئے ہمارے علم کے مطابق؛
اور ہماری اس کانفرنس میں پیش کیے گئے مقالات ،لیکچرز اورمذاکرات کے مطابق ہم زیر دستخطی درج ذیل بیان سے اتفاق کرتے اوراس کا اقرار کرتے ہیں:
۱۔ جو شخص اہل سنت والجماعت کے مذاہب اربعہ(حنفی، مالکی،شافعی، حنبلی) میں سے کسی ایک یا مذہب جعفری، مذہب زیدی، مذہب اباضی یا مذہب ظاہری کی اتباع کرے، وہ مسلمان ہے اوراس کی تکفیر جائز نہیں ہے، اس کا خون، اس کی عزت اوراس کا مال حرام ہے اور جناب شیخ الازھر کے فتویٰ کے مطابق اشعری عقیدہ رکھنے والوں،حقیقی تصوف سے شغف رکھنے والوں اورصحیح سلفی فکررکھنے والوں میں سے بھی کسی کی تکفیر جائز نہیں ہے۔
جیسا کہ مسلمانوں کی کسی بھی ایسی جماعت کی تکفیر جائز نہیں ہے، جواللہ سبحانہ وتعالیٰ، اس کے رسولؐ اورارکان اسلام پرایمان رکھتی ہو، ارکان اسلام کا احترام کرتی ہو اوردین کی جو باتیں بالضرورۃ معلوم ہیں، ان میں سے کسی کا انکار نہ کرتی ہو۔
۲۔ مختلف مذاہب کی متفق علیہ باتیں ان کی نسبت بدر جہا زیادہ ہیں، جن میں باہمی اختلاف ہے۔ مذکورہ بالا آٹھوں مذاہب اسلام کی اساسی مبادیات پرمتفق ہیں، یہ سب اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ واحد واحد ہے، قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والا کلام ہے، سیدنا حضرت محمد علیہ الصلاۃ والسلام ساری انسانیت کے لئے نبی اوررسول ہیں اور یہ سارے مذاہب اسلام کے ارکان خمسہ شہادتین،نماز،زکوٰۃ، رمضان کے روزوں اور بیت اللہ کے حج پر بھی متفق ہیں۔ان مذاہب کا ارکان ایمان یعنی اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں،یوم آخرت اوراچھی بری تقدیر پرایمان میں بھی اتفاق ہے۔ مختلف مذاہب کے علماء میں اگر اختلاف ہے، تو وہ فروع میں ہے، اصول میں نہیں اور یہ اختلاف باعث رحمت ہے، جیسا کہ ایک قدیمی قول ہے کہ’’رائے میں علماء کا اختلاف ایک اچھی بات ہے۔‘‘
۳۔ اسلام میں مذاہب کا اعتراف یعنی فتاویٰ میں ایک معین اسلوب کی پابندی کے ضمن میں کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان متعین شخصی صلاحیتوں کے بغیر فتویٰ دے، جن کا ہر مذہب نے تعین کیا ہے، مذاہب کے اصولوں کی پابندی کے بغیر بھی فتویٰ دینا جائز نہیں اورنہ کسی کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اجتہاد کا دعویٰ کرے اور کوئی نیا مذہب پیدا کرے یا ایسے مردود فتاویٰ کو ترجیح دے، جو مسلمانوں کو شریعت کے قواعد، مستقل اصولوں اورمذاہب کے متفق علیہ امور سے خارج کردے۔
۴۔ اعلانِ عمان جومبارک لیلۃ القدر ۱۴۲۵ھ کو جاری ہوا اورمسجد الہاشمین میں پڑھ کرسنایا گیا، کا خلاصہ یہ ہے کہ مذاہب اور ان کے اسالیب کی پابندی کی جائے، مذاہب کااعتراف، ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور اورباہمی ملاقاتیں اس اعتدال، میانہ روی، درگزر،رحمت اوردوسروں سے تبادل خیالات کی ضامن ہیں۔
۵۔ ہم دعوت دیتے ہیں کہ مسلمان باہمی اختلاف ترک کردیں، ایک بات اور ایک موقف پرمتحد ومتفق ہوجائیں۔ایک دوسرے کا احترام کریں،قوموں اورحکومتوں کے تعلقات کو مضبوط کریں،اخوت ومحبت کے ان تعلقات کو مستحکم کریں، جو انھیں الحب فی اللّٰہ کی سلک مروارید میں منسلک کردیں اورفتنہ اور دراندازی کے لئے کوئی راستہ نہ چھوڑ دیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔(الحجرات۔۱۰)
مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں،تو اپنے دو بھائیوںمیں صلح کرا دیا کرو اوراللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔
۶۔ بین الاقوامی اسلامی کانفرنس کے شرکاء، جو اردن کی سلطنت ہاشمیہ کے دارالحکومت عمان میں اورمبارک مسجد اقصیٰ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے قریب جمع ہیں،اس امر کی ضرورت پر زوردیتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ جو قبلہ اولیٰ اورتیسرا حرم محترم ہے، کی حفاظت اوراسے پیش آنے والے خطرات اورمظالم کو دورکرنے کے لئے تمام کوششوں کو بروئے کار لایا جائے اوریہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ غاصبانہ قبضہ ختم ہو اورمقامات مقدسہ کو آزاد کردیا جائے، اسی طرح کانفرنس کے شرکاء سرزمین عراق میں اوردیگر مقامات مقدسہ کی حفاظت کی ضرورت پربھی زوردیتے ہیں۔
۷۔ کانفرنس کے شرکاء نے عالم اسلام میں آزادی اوراحترام رائے کے معانی کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔
والحمدللہ وحدہ۔
ایران میں قائم،مجمع تقریب بین المذاہب الاسلامیہ نے بھی اباضیہ کو اسلامی فرق میں شمار کیا ہے، اباضیہ باقاعدہ اِس ادارے کا حصہ ہیں۔
اباضیہ کے “خارجی” ہونے سے متعلق راقم کا نظریہ:
اباضیہ کو ہمیشہ “خوارج” کا گروہ کہا گیا ہے، اِس کی بنیادی وجہ اُن کادیگر خارجی رہنماؤں کے ساتھ مل کر اموی حکمرانوں کے خلاف برسرِ پیکار رہنا ہے۔ حافظ صوافی کے مطابق، عبداللہ بن اباض، امام علیؑ کے عہد میں موجود تھا، لیکن اُس کا جنگِ نہروان میں شریک ہونا ثابت نہیں؛ تاہم اباضیہ اہلِ نہروان (خوارج) سے حضرت علیؑ کی جنگ کو درست نہیں جانتے یہ ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ عبداللہ بن اباض مسلمانوں کی تکفیر نہیں کرتا تھا، تاریخِ طبری کے مطابق عبداللہ بن اباض اپنے مخالفین کو “کافرِ نعمت” قرار دیتا تھا، حقیقی کافر یا مشرک نہ جانتا تھا۔ وہ مخالفین (جنگجوؤں) کے قتل کا قائل تھا لیکن اُن کے مال لوٹنے اور غنیمت سمیٹنے کا مخالف تھا، تب ہی نافع بن ارزق خارجی سے اِس کا اختلاف ہوا۔ اِن دو پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ تاریخی نسبت کے اعتبار سے اباضیہ خوارج کا معتدل فرقہ ہے، جو ابھی تک باقی ہے۔
مراجع:
مسلکِ اباضی اور نماز، مؤلف: حمد معولی، مترجم: سید ازہر حسین ندوی، ناشر: نور الاستقامۃ، عمان
العقود الفضیۃ فی اصول الاباضیۃ، مؤلف: شیخ سالم بن حمد الحارثی، ناشر: وزارۃ التراث و الثقافۃ، سلطنت عمان،ط2، 2017ء
اسلامی مذاہب، مؤلف: شیخ محمد ابوزہرہ مصری، مترجم: پروفیسر غلام احمد حریری، ناشر: ملک سنز پبلیشرز، فیصل آباد، 2004ء
مذاہب الاسلام، مؤلف: مولوی محمد نجم الغنی خان رام پوری، ناشر: ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور، 2001ء
www.istiqama.net
(سلطنتِ عمان کے چند معاصر اباضی علماء جیسے شیخ حافظ صوافی جیسے دوستوں سے بھی معلومات حاصل کی ہیں، اِس تعاون پر میں اُن کا شکرگزار ہوں۔)