اسلام آباد میں ’’فاطمہ ‘‘نام کا گرجا

Published by fawad on

سید ثاقب اکبر
تقریباً نوے برس قبل پرتگال میں حضرت فاطمہ ؑ کے رونما ہونے والے معجزے کی تاثیر لہروں کی طرح آج بھی پھیلتی چلی جارہی ہے۔ دنیائے عیسائیت اس معجزے کی نورانی کرامات سے مسلسل منورہورہی ہے۔ اسے جتنی دبانے کی کوشش کی گئی ہے یہ اتنا ہی ابھرتا جارہا ہے۔ پوپ اور پادری حقائق چھپانے کے لئے مسلسل پابندیاں لگاتے رہے ہیں، اس کے باوجود اگر انٹرنیٹ پر تلاش کیا جائے تو دنیائے عیسائیت میں اس معجزے سے متاثر ہونے والوں نے اس کی یاد زندہ رکھنے کے لئے طرح طرح کے اقدامات کیے ہیں۔ کئی ایک ویب سائٹس خاص طور پر اسی موضوع سے متعلق ہیں۔ اس کی تاریخ کے حوالے سے کئی ایک یاد یں محفوظ کردی گئی ہیں۔ اس موقع پر چھپنے والے اخبارات کے تراشے تک ویب سائٹس پر مل جاتے ہیں۔ وہ تین بہنیں جن پر حضرت فاطمہؑ کے معجزے کا ظہور ہوا تھا ان کی تصاویر اور ان کی زندگی کی بہت سی تفصیلات محفوظ ہیں۔ یہاں تک کہ پوپ نے جو پابندیاں اس کے بعض حقائق منظرِ عام پر آنے سے روکنے کے لئے لگائی تھیں وہ بھی ذکر کی گئی ہیں۔
اس معجزے کی مناسبت سے دنیا میں کئی ایک کلیسائوں کا نام حضرت فاطمہؑ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ کئی ایک شفا خانے اسی نام سے قائم ہیں۔ متعدد خبر نامے، بلٹن اور کتابیں اس سے منسوب ہیں ۔ آج عالمِ عیسائیت حضرت مریم ؑ کے نام گرامی کے ساتھ ساتھ حضرت فاطمہ ؑکے اسم کریم سے بھی آشنا ہے، تو اس کی وجہ یہی معجزہ ہے۔ عیسائی دنیا میں ہی نہیں پاکستان جیسے مسلمان ملک میں بھی اس معجزے کی یادیں خود عیسائیوں نے قائم کررکھی ہیں۔ہمارے قارئین کے لئے یہ امر شاید باعث حیرت ہوکہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی ایک گرجا اس معجزے سے منسوب ہے۔ یہ گرجا ایف ایٹ فور میں ایک شاہراہ کے کنارے واقع ہے۔ اس سلسلے میں چند ایک تصاویر پیش کی جارہی ہیں۔
اس خصوصی مجلے کی تیاری کے دوران میں ایک روز جناب حسین عارف نقوی ’’پیام‘‘ کے دفتر میں تشریف لائے تو انھوں نے اسلام آباد میں واقع اس گرجے کا ذکر کیا۔ باہم گفتگو کے دوران میں ہم نے فیصلہ کیا کہ اس گرجے کو جاکر دیکھتے ہیں ۔ ہم وہاں پہنچے۔ جمعہ کا دن تھا۔ گرجے کے سربراہ کے بارے میں معلوم کیا اورپھر ان سے ایک ملاقات ہوئی۔ ہم نے وہاں جانے کی وجہ بتائی تو وہ فوراً بولے: اس کے نام کا فاطمہ بنت محمد سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ بس اتنا ہی جانتے تھے اور کچھ بھی نہیں۔البتہ انھوں نے یہ بتایا کہ سرگودھا میں عیسائیوں کے قائم کردہ ایک ہسپتال کا نام بھی ’’فاطمہ‘‘ نام سے منسوب ہے۔ ہم نے اردو میں شائع ہونے والے عیسائیوں کے ایک خبرنامے کا ذکر کیا تو اس کے بارے میں وہ لاعلم تھے جبکہ ہم خود گرجے کے ہال میں ایک بورڈ پر آویزاں اس خبرنامے کی مارچ کی کاپی دیکھ چکے تھے۔ ان سے ہم نے مکالمہ بین المذاہب کی اہمیت کا ذکر کیا تو انھوں نے بھی اس کی تائید کی۔ انھوں نے اس پر زور دیتے ہوئے کہا : میل ملاقات بہت مفید ہے، اس سے ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کاموقع ملتا ہے اور قربتیں پیدا ہوتی ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہر کسی نے اپنی رائے پر ہر صورت ’’ڈٹے‘‘ رہنے کا فیصلہ کیا ہو تو ’’تقریبات‘‘ تو ہو سکتی ہیں’’قربتیں‘‘ نہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات اہم ہے کہ مسلمان حضرت مریم ؑ ،حضرت عیسی ؑ اور ان دیگر ہستیوں کا بے حد احترام کرتے ہیں جو بالعموم اہل کتاب کے نزدیک محترم ہیں۔ یہ الٰہی ہستیاں دراصل کسی ایک دور، ایک گروہ اور ایک مذہب کی میراث نہیں ہوتیں بلکہ ان کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ ساری انسانیت کا گراں قدر اثاثہ ہیں۔ یہی کیفیت حضرت محمد مصطفیؐ اور اُن کی مایہ ناز دختر حضرت فاطمہ ؑ کے بارے میں بھی ہے۔ مسلمان بھی انھیں اپنے سے مختص نہ سمجھیں اور عیسائی بھی انھیں مسلمانوں کی جان کر ان سے منہ نہ موڑیں۔ ان کا کردار اور پیغام آج بھی انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے اور انسان کی دنیا و آخرت میں نجات کا سامان ہے۔ پرتگال میں رونما ہونے والے مذکورہ معجزے کے بارے میں عالمِ عیسائیت کے ذمہ داروں نے عموماً اور کیتھولک قیادت نے خصوصاً جو رویہ اختیار کر رکھا ہے وہ نظر ثانی کے قابل ہے۔ کیا بعید ہے کہ اسی معجزے کے حقائق کو تسلیم کرکے دونوں ایک دوسرے کے قریب آجائیں اور اس سے بشریت کے لئے روشن مستقبل کی نوید برآمد ہوجائے۔
یہ بھی پڑھیں: حضرت فاطمہ زہراؑ اوراکابر اسلام
https://albasirah.com/urdu/hazrat-fatima-akabar-islam/