امام علی ؑ: عدالت و انسانیت کے علمبردار

Published by fawad on

saqib akbar


سید ثاقب اکبر
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو بعض ایسے شرف حاصل ہیں جو کسی اور کو نصیب نہیں ہوئے ۔ آپ ابھی بچے تھے کہ نبی کریمؐ نے اپنے چچا حضرت ابوطالب سے آپ کو گود لے لیا۔اس کے بعد آپ کی پرورش اور نشوونما آنحضرتؐ ہی کے زیرسایہ ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی اور انسان کو آنحضرتؐ کے زیرسایہ اتنی مدت نصیب نہ ہوئی جتنی امیرالمومنین حضرت علیؑ کو۔حضرت علی ؑ خود فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمؐ کے ساتھ یوں ہوتاتھا جیسے اونٹنی کے ساتھ اس کا بچہ ۔آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مجھے آنحضرتؐ نے اس طرح سے علم دیا جیسے فاختہ دانہ دانہ کرکے اپنے بچے کودیتی ہے۔ حضرت علی کا کہنا ہے کہ جب پہلی وحی نازل ہوئی تو میں غار حرا میں آنحضرت ؐکے ساتھ تھا۔ اس موقع پر میں نے ایک زبردست چیخ سنی تو میں نے آنحضورؐ سے پوچھاکہ یہ کیسی آواز ہے؟آپؐ نے فرمایا یہ شیطان کی چیخ ہے۔ پھر فرمایا: علی! جومیں دیکھتاہوں وہ تم دیکھتے ہواورجو میں سنتا ہوں وہ تم سنتے ہو لیکن تم نبی نہیںہو۔
ایسے دامن میں پروان چڑھنے والا عدل وانصاف کا پیکر اور حقوق انسانی کامحافظ اور علمبردار نہ ہو توکیاہو۔ آنحضرتؐ جو قرآن لے کر آئے وہ انہی اقدار اور آفاقی تعلیمات کا ترجمان تھا۔ حضرت علیؑ سے آپؐ فرما چکے تھے:
جیسے میں نے تنزیل قرآن پرجنگ کی ہے اے علی تم اسی طرح تاویل قرآن پر جنگ کرو گے۔
آپؐ نے یہ بھی فرمایا:
قرآن علی کے ساتھ ہے اور علی قرآن کے ساتھ ہیں۔
آپؐ کایہ فرمان تو زبان زدخاص و عام ہے :
میں علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہم حضرت علیؑ کو قرآنی تعلیمات کے پرچم بردار اور حامل کے طور پر دیکھتے ہیں۔
18ذالحجہ کو عالمی سطح پر یوم غدیر اس مناسبت سے منایا جاتا ہے کہ آنحضرتؐ نے اپنے آخری حج کے بعد مدینہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں غدیر خم کے مقام پر تمام صحابہ کرامؓ کو اکٹھا کیا اور ان کے سامنے ایک فصیح و بلیغ خطبہ دیا۔ خطبہ کے آخر میں آپؐ نے حضرت علی کو اپنے ساتھ منبر پر کھڑا کیا اور یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:
من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ
جس جس کا میں مولا ہوںاس اس کے یہ علی بھی مولا ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ معنوی اور روحانی طور پر علی علیہ السلام نبوی مقاصد کے تسلسل کی علامت ہیں اور آپ کو آنحضرتؐ کے بعد نبوی مقاصد کا امین اور ترجمان بنایا گیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرتؐ کے بعد حضرت علی علیہ السلام انہی مقاصد کی حفاظت کے لیے مصروف جدوجہد رہے ۔ اس سلسلے میں ہم ذیل میں چند پہلوئوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
قضاوت:صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے حکم دے رکھا تھا کہ جس وقت مسجد نبوی میں علی موجود ہوں کوئی اور قضاوت نہ کرے۔ پھر حضرت عمرؓ نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے رسول اللہؐ سے سنا ہے کہ آپؐ نے فرمایا:علی تم میں سے بہترین قاضی ہیں۔ امام فخرالدین رازی کہتے ہیں کہ یہی ایک حدیث امت پر حضرت علی کے شرف وفضل کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے چونکہ بہترین قاضی وہی ہوسکتاہے جو بہترین عادل، بہترین شجاع اور بہترین عالم ہو۔
اپنے دور خلافت میں حضرت علی نے محکمہ قضا کی طرف خصوصی توجہ مبذول رکھی۔ آپ کی رائے تھی کہ قاضیوں کو اس قدر وظیفہ ملنا چاہیے کہ وہ رشوت اور ناجائز آمدنی کی طرف مائل نہ ہوسکیں اور خوشحالی کی زندگی بسر کریں۔ ایک قاضی کے بارے میں آپ کو خبر ملی کہ اُس نے 80دینار میں ایک مکان خریدا ہے۔ آپ نے اسے طلب کیا اور فرمایا:
’’مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم نے ایک مکان 80دینار میں خریدا ہے۔‘‘
اس نے کہا: ہاں۔
آپ نے غصے کی نظر سے اسے دیکھا اور کہا:
’’ایسا تو نہیںہے کہ تم نے اس گھر کو دوسرے کے مال سے خریدا ہو یا حرام کی کمائی سے قیمت ادا کی ہو، اگر ایسا ہے تو تم نے دنیا بھی کھوئی اورآخرت بھی۔‘‘
’’وفیات الاعیان‘‘ میں ہے کہ ایک مرتبہ امام علی ایک ذمی کے ساتھ فریق مقدمہ کی حیثیت سے قاضی شریح کی عدالت میں آئے۔ قاضی نے کھڑے ہوکر آپ کا خیرمقدم کیا۔اس پر آپ نے فرمایا’’یہ تمھاری پہلی نا انصافی ہے۔‘‘
ایک مرتبہ ایک شخص آپ کے ہاں مہمان تھا۔ انہی دنوں اس نے آپ کی عدالت میں ایک شخص کے خلاف دعویٰ دائر کردیا۔ آپ نے فرمایا کہ تم فریق مقدمہ ہو اور پیغمبراکرمؐ فرماتے ہیں کہ یہ امر انصاف کے منافی ہے کہ فریقین مقدمہ میں سے ایک کو مہمان ٹھہرایا جائے اور دوسرے کو مہمان نہ کیا جائے۔ لہٰذا تم میرے ہاں سے رخصت ہوجائو۔
بے غرضی:حضرت علیؑ کا خلوص اور للّٰھیت اپنی مثال آپ ہے۔آپ کو کبھی بھی ذاتی اقتدار کی طلب نہ تھی۔ آپ کے پیش نظر حکومت کا مقصد عدل الٰہی کا قیام تھا۔ ایک مرتبہ آپ اپناجوتا گانٹھ رہے تھے۔ ابن عباسؓ پاس ہی تھے۔ اُن سے پوچھنے لگے: اس جوتے کی کیا قیمت ہوگی؟ انھوں نے کہا:اب تو اس کی قیمت کچھ بھی نہیں ۔اس پر امیرالمومنینؑ نے فرمایا:خدا کی قسم اگر میرے پیش نظرحق کا قیام اور باطل کا مٹانا نہ ہو تو میری نظر میں اس حکومت کی قیمت اس جوتے کے برابر بھی نہیں۔
احتساب :آپ اپنے عمّال کا بے لاگ احتساب کرتے تھے۔ آپ کی عدل پروری کی اس روش کی وجہ سے ہی دنیا پرست آپ کے مخالف تھے۔ آپ اپنے عمّال کو عدل و انصاف کے قیام کا حکم دیتے۔ کسی حاکم کی طرف سے خلاف عدل حرکت کی شکایت ملتی تو احتساب کرتے اور اللہ کے حضور اس کے عمل سے اپنی برأت کا اظہار کرتے۔صاحبِ استیعاب کہتے ہیں کہ ایسے موقع پر وہ اپنے اللہ کے حضور یوں عرض کرتے:
’’یا اللہ! تو جانتا ہے کہ میں نے انھیں تیری مخلوق پر ظلم کرنے اور تیرے حق کو نظرانداز کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔‘‘
بصرہ کے گورنر عثمان ابن حنیف کے نام آپ کا ایک مکتوب نہج البلاغہ میں موجود ہے۔ یہ مکتوب آپ نے اس وقت تحریر فرمایا جب آپ کو شکایت ملی کہ اُس نے ایک ایسی دعوت میں شرکت کی ہے جو ایک عادل حکمران کے شایان شان نہیں۔ آپ لکھتے ہیں:’’ مجھے امید نہ تھی کہ تم ایسی دعوت میں شرکت کرو گے جس سے فقیرو نادار محروم رکھے گئے ہوں اور جس میں دولت مند مدعو کیے گئے ہوں۔ جو لقمے چباتے ہو انھیں دیکھ لیا کرو اور جس کے متعلق شبہ بھی ہوا سے چھوڑ دیا کرو اور جس کے پاک وپاکیزہ طریق سے حاصل ہونے کا یقین ہو اس میں سے کھائو۔ اے ابن حنیف! اللہ سے ڈرو اور اپنی روٹیوں پر قناعت کرو تاکہ جہنم کی آگ سے نجات پا سکو۔‘‘
امانت دار عمّال:امام علی ؑعمال کے تعین و تقرر میں اُن کی امانت داری کو بنیادی اہمیت دیتے تھے۔ اگر کسی عامل کی امانت ودیانت مشکوک ہوجاتی تو فوراً اس کے خلاف کارروائی کرتے۔ ایسی ہی ایک شکایت پر اپنے چچا زاد ابن عباس تک کو بھی طلب فرما لیا۔ ابن عبدالبراستیعاب جلد3میں لکھتے ہیں:
’’حضرت علی انہی لوگوں کو والی وحاکم مقرر کرتے جو امین اور دیانت دار ہوتے۔‘‘
اس سلسلے میں آپ سفارش اور خاندانی قرابت وغیرہ کی ہرگز رعایت نہ کرتے۔ اپنے عمال کے لیے بھی آپ کی یہ ہدایت تھی:
’’کارندوں اور کار پردازوں کو عہدہ دینے میں کسی کی سفارش قبول نہ کرو بلکہ یہ دیکھو کہ وہ امین اور اس کام کے لیے موزوں ہیں۔‘‘
اصلاح معیشت:امیرالمومنین حضرت علی ؑنے اسلام کا عادلانہ اور مساویانہ نظام ِ معیشت رائج کیا۔ بیت المال کے وظائف کی تقسیم کو مساوات کی بنیاد پر قائم فرمایا۔لٹیروں اور سرمایہ داروں کے پاس عوام کاجو مال تھا اُن سے واپس لینے کے لیے اقدامات فرمائے۔ آپ کے ایسے ہی اقدامات کی وجہ سے استحصالی طبقہ آپ سے ناراض ہوگیا تھا۔
بعض سرمایہ دار جن کے پاس ناجائز مال تھا انھوں نے حضرت علیؑ سے کہا کہ ہم اس شرط پرآپ سے بیعت کرنے کو تیار ہیں کہ ہم سے یہ مال واپس نہ لیا جائے۔ اس پرامام علی ؑنے فرمایا:
’’یہ میرے بس میں نہیں کہ میں وہ مال تمھارے پاس چھوڑدوں جو تم نے لوگوں سے ہتھیا لیا ہے۔ میں یہ نہیں کروں گا کہ اللہ کے اس حق سے دستبردارہوجاؤں جو تمھارے علاوہ دوسروں کے ذمے ہے۔‘‘
آپ تو خود اپنے بارے میں فرماتے تھے کہ کیا میں اس بات پر خوش ہورہوں کہ لوگ مجھے امیرالمومنین کہتے ہیں اور ان کے دکھ درد میں شریک نہ ہوں؟
آپ کا یہ فرمان ہر ہر دور کے لیے بہت معنی خیز حیثیت رکھتا ہے:
’’اللہ نے دولت مندوں کے مال میں غریبوں کا حصہ فرض کیا ہے۔ اگر کوئی غریب بھوکا رہتا ہے تو اس لیے کہ دولت مند نے دولت کو سمیٹ لیا ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے اس کے بارے میں باز پرس کرے گا۔‘‘
بیت المال کی تقسیم میں حضرت کا اصول یہ تھا کہ اسے جلد از جلد اُس کے حق داروں تک پہنچاتے تھے۔ بلکہ اسے تقسیم فرما کر خود بیت المال میں جھاڑو دیتے اور دونفل ادا کرتے۔ ابن عبدالبر اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
حضرت علی نے یہ نوبت نہیں آنے دی کہ رات گزاریں اور مال بیت المال میں پڑا رہے بلکہ رات سے پہلے اسے تقسیم کردیا کرتے تھے۔ البتہ اگر کوئی مانع ہوتا تو صبح ہونے دیتے۔
ایک دفعہ اس وقت مال آیا جب رات کا اندھیرا شروع ہوچکاتھا۔ فرمایا کہ اس مال کو ابھی تقسیم کردیا جائے ۔ لوگوں نے کہاکہ اب تو رات ہوچکی ہے اسے کل پر اٹھا رکھیے۔فرمایا: کیا تمھیں یقین ہے کہ میں کل تک زندہ رہوں گا۔ وہ کہنے لگے: موت کا علم اللہ کے سوا کس کو ہوسکتا ہے۔ فرمایا: پھر دیر نہ کرو اوراسے ابھی تقسیم کردو۔چنانچہ چراغ روشن کیے گئے اور سارا مال راتوں رات تقسیم کردیا گیا۔
درویشانہ زندگی:اگر ہم حضرت علیؑ کے انداز حکمرانی پر ایک نظرڈالیں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ آپ ایک عظیم انسان دوست حکمران تھے۔آپ کی عدالت کے بارے میں تویہ جملہ مشہور ہے کہ آپ اپنے شدت عدالت کی وجہ سے قتل کردیے گئے۔ آپ خود ایک سادہ و درویشانہ زندگی گزارتے تھے۔ جوکی روٹی کھاتے،آپ کے لباس پر پیوند لگے ہوتے، جوتا خود گانٹھ لیتے۔آپ کا کہنا تھا:اے دنیا!جاکسی اور کو فریب دے۔علی تجھے تین مرتبہ اطلاق دے چکا ہے جس کے بعد رجوع ممکن نہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو امام المتقین کہا جاتاہے۔
یتیموں پر شفقت :آپ خلق خدا کے مسائل و مشکلات کے حوالے سے بہت دلسوز تھے۔ یتیموں کے بارے میں آپ کا دل خاص محبت و شفقت سے لبریز تھا۔ ایک مرتبہ حلوان اورہمدان سے انجیریں اور شہد کے مشکیزے آئے۔ آپ نے چند آدمیوں کا حکم دیا کہ یتیم بچوں کوجمع کرکے لائیں۔ جب بچے اکٹھے ہوئے تو آپ نے مشکیزوں کے منہ کھول کر ان بچوں کے ہاتھوں میں دے دیے اور پیالوں میں شہد بھر بھرکے تقسیم کرنے لگے۔ بچے شہد بھی انڈیلتے جاتے اور مشکیزوں کے دہانوں پر لگاہوا شہد بھی چاٹتے جاتے تھے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ان بچوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس طرح شہد چاٹ رہے ہیں اور امیر المومنین انھیں منع بھی نہیں کرتے ۔آپ نے فرمایا:
امام یتیموں کا باپ ہوتاہے اور میں نے اسی پدری تقاضے کی بناپرانھیں شہد چاٹنے دیاہے۔
انسانی جان کی حرمت:امیر المومنین جہاں انسانی اقدار کے محافظ تھے وہاں انسانی زندگی کی قدروقیمت سے بھی آگاہ تھے اور کسی صورت میں اتلاف جان اور خون ناحق کو گوارا نہ کرتے تھے۔ اگرچہ پیغمبر اکرم ؐ کے دور میں جنگوں میں سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے عہد میں بھی خونریز جنگیں لڑیں مگر ان میں سے ہر جنگ دفاعی اور حفاظت خود اختیاری کے لیے تھی ۔پیغمبر اکرمؐ نے اس وقت تلوار اٹھائی جب دشمن آپ پر حملہ آور ہوااور حضرت نے اپنے دور میں اس وقت قدم اٹھایا جب دشمن نے لشکر کشی کے کرکے امن عامہ کو تباہ کردینا چاہا ۔اس صورت میں بھی آپ امکان بھر یہ کوشش کرتے رہے کہ جنگ کی نوبت نہ آئے اور کشت و خون کے بغیر حالات سدھر جائیں۔جنگ چھڑنے سے پہلے صلح وآشتی کی دعوت دی’’پرامن رہنے کی تلقین کی اور جب ساری کوششیں بے اثر ثابت ہوئیں اور فریق مخالف جنگ پر تل گیا تو اس وقت تک ہاتھ نہیں اٹھایا جب تک دشمن کی طرف سے پہل نہیں ہوئی اور جس حد تک دشمن کی پسپائی کے لیے جنگ ضروری تھی اس سے آگے نہیں بڑھے اور جنگ کے خاتمہ پر خون کے پیاسوں تک کی جان بخشی کردی۔چنانچہ جنگ جمل کے اختتام پر اہل بصرہ کو یک قلم معاف کردیا۔
آزادی:امیر المومنین کا دور حریتِ فکر کا شاہکار ہے۔ آپ نے آزادی فکرکا پرچم بلند کیا اور انسان کو اس کی بھولی بسری آزادی یاد دلاتے ہوئے فرمایا: لا تکن عبد غیرک و قد جعلک اللّٰہ حرّا۔ جب اللہ نے تمھیں آزاد پیدا کیا ہے تو دوسروں کی غلامی کا جوأ اپنی گردنوں میں نہ ڈالو۔
امیر المومنین فکری آزادی کی طرح عملی آزادی کے بھی حامی اور اس پر سختی سے عامل تھے۔انھوں نے کسی فرد کو ایسے عمل پر مجبور نہیں کیا جس پر اس کادل آمادہ او ر ضمیر مطمئن نہ ہو۔چنانچہ جب کچھ لوگوں نے آپ کی بیعت سے انکار کیا تو کسی کو بیعت پر مجبور نہیں کیا۔
حضرت کی نظروں میں اس شخصی آزادی کا اتنا احترام تھا کہ نازک سے نازک موقع پر بھی اس آزادی پر حرف نہیں آنے دیا اور جنگ کے موقع پر کہ جب ایک ایک آدمی پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے یہ حق آزادی برقرار رکھا کہ چاہے کوئی آپ کے لشکر میںشامل رہے یادشمن کے لشکر سے جاکرمل جائے حالانکہ ہنگامی حالات میں ملکی تحفظ کے لیے چند بندشیں شخصی آزادی کے منافی نہیں سمجھی جاتیں۔ مگر آپ نے ان حالات میںبھی نہ کسی کے روکنے کی فکر کی اور نہ کسی کے جانے کی پرواہ ۔

یہ بھی پڑھیں: علی ؑمولود کعبہ
https://albasirah.com/urdu/ali-molod-kaba/