نورِچشم رحمت للعآلمین

Published by fawad on

saqib akbar

سید ثاقب اکبر
سیدالمرسلین حبیب خدا حضرت محمد مصطفیؐ کی دختر نیک اختر حضرت فاطمۃ الزہراؑ کی ولادت مشہورروایت کی بناپر بعثت کے پانچویں برس 20جمادی الثانیہ کو جمعہ کے روز مکۃ المکرمہ میںہوئی ۔آپ کی والدہ گرامی تُجارِ عرب کی ملکہ حضرت خدیجہ الکبریٰ ؑ تھیں،حضرت فاطمۃؑ حبیب ؐخدا کی نورِ عین، خدیجہؑ الکبریٰؑ کے دل کا چین، عالم نسواں کے لئے شرف وفضیلت، عفت وعصمت کا پیکر ،طہارت وپاکیزگی کا سراپا اور شریک کار رسالت بن کر رونق افروزِ جہاں ہوئیں۔ آپ نے بالکل نوعمری میں اپنے بابا کو دشمنوں کے نرغے میں گھِرے ہوئے پایا۔ اللہ اوراس کے دین کی پیغام رسانی کے لئے دکھ درد جھیلتے ہوئے دیکھا تو آپ اپنے عظیم بابا کی غم گسار اورشریک کار ہوگئیںاور پھر ساری عمر نیکی وپرہیز گاری اورعدل وانصاف کی اس تحریک کا ،جسے اسلام کہتے ہیں اس طرح سے ساتھ دیا کہ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا کہ فاطمہ میرا حصہ ہے، فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ اللہ رب العزت نے بھی قرآن حکیم میں حضرت فاطمۃ الزہراؑ کی عظمتوں کا ذکر کیا ہے۔ آپ کی اطاعت وعبادت ،ایثاروقربانی ،صداقت وطہارت اورراہ حق میں داد ودہش کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ آئیے اس سلسلہ میں قرآن حکیم کی چند آیات سے اپنی چشم بصیرت کو نورانی کرتے ہیں:
۱۔ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا
اس آیت کو آیۃ تطہیر کہتے ہیں۔ اس کا ترجمہ یوں ہے :
اللہ کا تو بس یہی ارادہ ہے کہ اے اہل بیت !تم سے ہر طرح کے رجس اورناپاکی کو دوررکھے اورتمھیں خوب پاک وپاکیزہ رکھے ۔ (احزاب۔۳۳)
اس کی شان نزول میں مفسرین کا اتفاق ہے کہ رسول اکرمؐ نے حضرت فاطمہؑ کے گھرمیں ایک چادر کے نیچے اپنے ساتھ حضرت علی ؑ، حضرت فاطمہؑ،امام حسنؑ اورامام حسین ؑکو اکٹھا کیا تو اللہ نے ان ہستیوں کی پاکیزگی اورطہارت کی سند کے طور پر یہ آیت نازل فرمائی۔
۲۔ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَ نَا وَ اَبْنَآئَ کُمْ وَ نِسَآئَ نَا وَ نِسَآئَ کُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ
اسے آیت مباہلہ کہتے ہیں، اس کا ترجمہ یوں ہے:
پس ان (نصاریٰ)سے کہیے کہ ہم اپنے بیٹے لے آتے ہیں تم اپنے بیٹے لے آئو ،ہم اپنی عورتیں لے آتے ہیں ،تم اپنی عورتیں لے آئو ، ہم اپنے نفوس اورجانیں لے آتے ہیں ،تم اپنے نفوس لے آئو،پھرمباہلہ کرتے ہیں اورجھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں ۔(آل عمران۔)
اس آیت کی شان نزول کے بارے میں مفسرین کہتے ہیں کہ جب عیسائی حضرت عیسیٰؑ کے خدا کا بندہ ہونے کے بارے میں دلیل سے قائل نہ ہوئے تو اللہ نے اسے دعوت مباہلہ کے طورنازل کیا اور پیغمبراکرمؐ مباہلے کے لئے اپنے ساتھ بیٹوں کے طور پر حسنین کریمینؑ، عورتوں کی نمائندگی کے لئے خاتون جنت ؑاورانفسنا کے مصداق کے طورپر حضرت علی ؑ کو اپنے ہمراہ لے کرنکلے۔
۳۔ قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی
تیسری آیت کوآیت مودّت کہتے ہیں۔اس کا ترجمہ یہ ہے:
اے نبی! کہیے میں تم سے اپنی رسالت کا اس کے سوا کوئی اجر نہیں مانگتا کہ تم میرے قریبیوں سے محبت ومودت اختیار کرو ۔(شوریٰ۔23)
نبی کریمؐ سے اس آیت میںموجودہ قربیٰ کی تفسیر کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ آپؐنے فرمایا وہ علی ؑ، فاطمہ ؑ،حسن ؑاورحسین ؑہیں۔
آپ کی شان کو بیان کرنے والی آیات تو بہت سی ہیں مختصراً دیکھا جائے تو سورۃ کوثر آپ ہی کی مجدوشان کو بیان کرتی ہے۔ سورہ دہر بھی حضرت فاطمہؑ اور ان کے گھرانے کا قصیدہ ہے اوراسی طرح سے بہت سی آیات۔
نبی کریمؐ نے بھی اپنی دختر عزیز کو ایسی محبت ،شفقت اوراحترام سے نوازا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ایسے لوگ موجود تھے جو اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے روایات کے مطابق حضرت فاطمہؑ جب بھی پدر گرامی کی خدمت میں تشریف لاتیں توآنحضرت ؐان کے استقبال کے لئے سروقد کھڑے ہوجاتے اورانھیں اپنی جگہ پر بٹھاتے ۔
مسند احمد ابن حنبل میں ہے کہ آنحضرتؐ جب کسی سفر کے لئے تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ ؑسے رخصت ہوتے اور جب لوٹتے تو سب سے پہلے اپنے اسی جگر گوشہ سے ملنے کیلئے تشریف لاتے ۔
حضرت فاطمہ ؑ کے بارے میں آپؐ نے عجیب اور حیران کن کلمات ارشاد فرمائے ہیں ۔صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضورؐ نے فرمایا:
’’ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے غضب ناک کیا اس نے مجھے غضب ناک کیا ۔‘‘
مستدرک حاکم میں ہے کہ آپ نے فرمایا :
اے فاطمہ! اللہ تیرے غضب ناک ہونے سے غضب ناک ہوتا ہے اور تیری خوشی پرخوش ہوتا ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضورؐ نے فرمایا :
’’ فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔‘‘
کنزالعمال میں مروی ہے :
’’ حضرت فاطمہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گی۔‘‘
حضرت فاطمہؑ کے لئے یہ سب کچھ برحق کیوں نہ ہو کہ ام المومنین حضرت عائشہ سے صحیح ترمذی میں روایت ہے ،وہ فرماتی ہیں:
’’ اٹھنے بیٹھنے ،چال ڈھال اورطور طریقوں میں حضرت فاطمہ سے بڑھ کر رسول اللہ سے مشابہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘
ہمیں قرآن وحدیث سے معلوم ہوگیا کہ کائنات نے عالم نسواں میں دختر رسولؐ حضرت فاطمہؑ جیسی کوئی ہستی نہیں دیکھی۔ اسلامی معارف کی کتابوں نے آپؑ کے بعض اقوال، واقعات،خطبات اوردعائیں بھی محفوظ رکھی ہیں۔ یہ بھی آپؑ کی جلالتِ شان اورعرفان الٰہی کی اعلیٰ ترین منزلوں کی غماز ہیں۔ آئیے آپؑ کی زبان سے نکلے ہوئے چند کلمات سماعت کرتے ہیں :
اللہ کی حمد وثنا بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں:
اللہ نے ہمیں دنیا بھر کی جو نعمتیں عنایت کی ہیں، اس مرحمت پر اس کی حمد وثنا۔
اس کے فضل سے ذہن وضمیر کو جواچھائیاں نصیب ہوئیں،اس کا لاکھ لاکھ شکر!
پھراس خصوص میں بھی اس کی تعریف وتوصیف کہ اس نے سب کو دیا اور سب کچھ دیا!
پالنے والے نے آغاز حیات ہی سے ہر ایک کوسازوسامانِ زندگی عطا فرمایا۔
اس کے فیض کی وسعت، دادودہش کی یک رنگی اور لطفِ عام کا کیا کہنا!
کمال توجہ سے اس کی لگاتار مہربانیاں بھی لائق صد ہزار ستائش ہیں۔
اس کے احسانات کا نہ کسی سے حساب ممکن اور نہ ہی کوئی ان کے شمار کی سکت رکھتا ہے۔
نیز دامنِ کرم اتنا پھیلاہوا ہے کہ پورے طورپر کوئی شکرانہ بھی ادا کرنے کے قابل نہیں!
ان نوازشوں کی انتہا کوکون پائے؟ آدمی کا تخّیل تک اس مقام پر پہنچنے سے قاصر ہے۔
نبی کریمؐ کے مقام اورمقصد بعثت کے بارے میں فرماتی ہیں :
خدا نے رسالت کا منصب دینے سے پہلے انھیں اس عہدے کے لئے چن لیا تھا۔
اس نے ابھی پیدا بھی نہیں کیا تھا کہ جہاں جہاں چاہا آپ کا نام روشن کردیا۔
نیز کارِ نبوت کی بجا آوری سے قبل نگاہِ قدرت آپ کو اس مقصد کے لئے منتخب کرچکی تھی۔
یہ اس دور کی بات ہے جب ساری خلقت نہاں خانۂ غیب میں پوشیدہ ، سب کے سب خوف ووحشت کے پردوں کے پیچھے دبکے ہوئے اورعدم کی آخری حدوں کے بالکل قریب تھے۔
آپ مزید فرماتی ہیں :
جب آپؐ مبعوث ہوئے تو ملاحظہ فرمایا کہ اقوامِ عالم دینی اعتبار سے بٹی ہوئی اور بڑے تفرقے کا شکار ہیں۔
ان میں سے بعض گروہ تو اپنے آتش کدوں کو سنبھالے بیٹھے ہیں۔
کچھ جتھے اپنے اپنے بتوں کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے ہیں۔
فطرت کے قاعدوں اور دماغ کی صلاحیت سے اللہ کو جاننے کے باوجود اس کی بندگی سے انکاری ہیں۔
لہٰذا پروردگارِ عالم نے میرے پدرِ بزرگوار کے ’’نور‘‘ سے جہالت کے گھپ اندھیروں کو چھانٹ کر دنیا میں اجالا کردیا۔
دلوں کے سارے بل نکال دیے۔
ظلمت آشنا آنکھوں کو روشنی عطا کی ۔
لوگوں کو ہدایت کی راہیں دکھائیں۔
طرح طرح کی گمراہیوں سے چھٹکارا دلایا۔
ذہن وضمیر کو حقیقت شناسی کا انداز سکھایا۔
سچا اور اچھا دین منوایا۔
اور سیدھے راستے پر لگادیا۔
پھر اللہ نے انھیں اپنے پاس بلالیا۔
اپنے شوہر نامدار کو یو ں خراج تحسین پیش کرتی ہیں:
دشمن جب بھی جنگ کے شعلے بھڑکاتے اللہ ان لوگوں کوبجھادیتااور جس لمحے بھی شیطان کے ساتھی کوئی فتنہ کھڑا کرتے یا مشرکوں میں سے کوئی اژد ہے کہ طرح بڑا سامنہ کھولتا، خاتم الانبیاءؐ اسلام کے تحفظ کے لئے اپنے بھائی علی ؑ کو آگے کر دیتے تھے! پھر علی ؑ چڑھائی کرنے والوں کو جب تک پامالِ شجاعت نہیں کردیتے واپس نہیں آتے تھے۔ ہاں!
فتنوں کی آگ اپنی تیغ کے پانی سے بجھا کر دم لیتے ۔ خدا کی راہ میں ہر سختی جھیلتے اور دین کو بچانے کے واسطے کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتے۔
وہ اللہ کے رسولؐ سے بہت قریب تھے اور پاک پروردگار نے انھیں اپنے اولیاء کی سروری عطا فرمائی تھی۔
علی ؑ جہاد کے واسطے ہمہ وقت کمر بستہ رہتے، وہ امت کے خیر خواہ تھے۔
اللہ کا ہر حکم دل سے بجا لاتے ۔دین کے تمام امور کے لئے جان توڑ کوشش کرتے۔
نیز جب بات خدا کی ہو تو پھر کوئی کچھ کہے اسے خاطر میں نہیں لاتے تھے!
رسول اللہؐ کی یہ محبوب بیٹی اورمخدومۂ کائناتؑ آنحضرتؐ کے بعد زیادہ دیر دنیا میں نہ رہ سکیں۔حدیث وتاریخ کی کتب یہ مدت تین سے چھ ماہ کے درمیان بیان کرتی ہیں۔
نبی پاکؐ کی رحلت کے بعد جناب فاطمہ ؑکی زندگی غم واندوہ میں ڈوبی ہوئی تھی۔سیدہؑ کے لئے دنیا بالکل بدل گئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے:
اب دن کے آستیں میں اندھیروں کے سانپ ہیں
تاروں کا پیرہن کبھی شب کا لباس تھا
بہرحال خاتون جنتؑ اُم الحسنین بنتِ رسولؐ زوجہ شیر خدا جلد اپنے بابا سے جاملیں۔ان کی جدائی پر حضرت علیؑ محبت وغم کا اظہار مختلف انداز سے کرتے ہیں۔ ایک شعر میں فرماتے ہیں :
فاطمہ ؑ جنت کاایک پھول تھیں جس کے مرجھانے کے بعد بھی میرا دماغ اس کی خوشبو سے معطر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں ’’فاطمہ ‘‘نام کا گرجا
https://albasirah.com/urdu/islamabad-me-fatima/