ریاست کس کی ملکیت ہے؟

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس
ریاست کا حقیقی مالک کون ہے؟ ریاست کس سے اختیارات اخذ کر رہی ہے؟ یہ سوال کسی بھی قوم کی ترقی اور پیشرفت کے لیے نہایت اہم ہے۔ جب تک ہم بحیثیت قوم، اس سوال کا ایک متفقہ جواب تلاش نہیں کرتے، ہم ہمیشہ سیاسی اور سماجی مشکلات کا شکار رہیں گے۔ مغربی معاشروں میں ریاست کو عوام کی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ مملکت کا نظام عوام سے، عوام کے لیے، عوام پر ہوتا ہے، تاہم اسلامی معاشرے میں اس کو نظریاتی ترمیم کے ساتھ کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔ پاکستانی آئین کے مطابق مقتدر اعلیٰ، حاکم اعلیٰ، مالک اعلیٰ اللہ کی ذات ہے، جبکہ عوام کو اس اقتدار اعلیٰ کے استعمال کا حق دیا گیا ہے۔ اس امر کو قرارداد مقاصد کی پہلی شق میں بیان کیا گیا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیر ے حاکمِ مطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے، وہ اُس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

اگلی شقیں اسی پہلی شق کی مزید وضاحت ہیں:
مجلس دستور ساز نے جو جمہور پاکستان کی نمائندہ ہے، آزاد و خود مختار پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
جس کی رو سے اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدل ِعمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔
جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔
جس کی رو سے اس امر کا قرار واقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں، اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اپنی تقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔
جس کی رو سے وہ علاقے جو اب تک پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں، ایک وفاق بنائیں گے۔

جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات و اقتدار کی حد تک خود مختاری حاصل ہوگی۔
جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون و اخلاق اجازت دیں، مساوات، حیثیت و مواقع کی نظر میں برابری، عمرانی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، اظہارِ خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور جماعت کی آزادی شامل ہوگی۔
جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقات کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔
جس کی رو سے نظام ِعدل گستری کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی۔
جس کی رو سے وفاق کے علاقوں کی صیانت، آزادی اور جملہ حقوق، بشمول خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا، تاکہ اہل ِپاکستان فلاح و بہبود کی منزل پاسکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امن عالم اور بنی نوع انسان کی ترقی و خوش حالی کے لیے اپنا بھرپور کر دار ادا کرسکیں۔

درج بالا عبارتیں ہیں تو فقط الفاظ، تاہم ہر وہ ریاست جو درج بالا الفاظ بالخصوص پہلی (پانچ) شقوں پر جس قدر ایمان رکھتی ہے اور ان کے مطابق عمل کرتی ہے، وہی حقیقی معنوں میں جمہوری فلاحی ریاست بنتی ہے۔ ہر وہ ریاست اور اس کے ارکان جو ان الفاظ سے خود کو دور کرتے جائیں گے، ان کا جمہوریت اور فلاح سے فاصلہ اسی قدر زیادہ ہوتا چلا جائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک میں حلف تو انہی عبارتوں پر لیا جاتا ہے اور عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ملک میں کوئی ادارہ، گروہ یا شخص بزعم خود ریاست کا مالک بن جاتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی بھی ریاست کے مفاد کو نہیں سمجھتا، حالانکہ اس کا یہ عمل حلف اور عمرانی معاہدے کے منافی ہے۔ مغربی دنیا جس کے مفادات، مسائل اور وسائل ہم سے بہت زیادہ ہیں، وہاں کوئی بھی ادارہ یا شخص اپنے آپ کو ریاست کا مالک نہیں سمجھتا بلکہ ہر شخص اس بات کو جانتا ہے کہ ریاست کی حقیقی مالک عوام ہے اور ہم اپنے اختیارات اور ذمہ داریوں کو اسی عوام سے اخذ کر رہے ہیں اور اسی عوام کو جوابدہ ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایسا بھی نہیں کہ یورپ اور مغربی دنیا میں ادارے، لوگ یا اشخاص ریاست کا مقتدر اعلیٰ بننے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہاں بھی عوامی رائے کو بدلنے، اسے اپنا حامی بنانے نیز اپنے مفادات کو عوامی مفادات بنا کر پیش کرنے کے لیے اپنے تئیں بھرپور کوشش کی جاتی ہے، تاہم یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چلتا۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ میں برسر اقتدار قوتوں نے ابتداء میں عراق پر حملے، افغانستان پر حملے کو قومی مفاد کے طور پر پیش کیا، تاہم جلد ہی ان ممالک میں Anti War کمپینز کا آغاز ہوا اور فقط چند برسوں میں ان ممالک کو عراق اور افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنی یا کم ترین سطح پر لانی پڑیں۔ امریکہ اور برطانیہ اپنے سامراجی مفادات کے تحفظ کے لیے برسوں یمن جنگ میں سعودیہ اور عرب امارت کی حمایت کرتے رہے، تاہم آج امریکی عوام نے اس جنگ میں سعودیہ کی حمایت کو روکنے کا مطالبہ کیا، جسے بہرحال حکومتوں کو ماننا پڑا۔ یہ ہے عوام کو مقتدر اعلیٰ قرار دینے اور سمجھنے کا نتیجہ۔

مغرب اور یورپ میں برسر اقتدار قوتیں اسرائیل کے حامی ہیں، تاہم وہاں کے بیدار عوام جو حقائق سے آگاہ ہیں، فلسطین کی حمایت کرتے ہیں اور اس ظلم و بربریت کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، اگرچہ ان کی آواز اس قابل نہیں کہ وہ ایک پاپولر موومنٹ کا روپ دھار سکے۔ مغربی دنیا میں موجود اس غیر مقبول تحریک کا اثر ہے کہ وہاں موجود حکمران چاہنے کے باوجود اس انداز سے کھل کر اسرائیل کی حمایت نہیں کرسکتے، جیسے وہ کرنا چاہتے ہیں۔ اکثر مغربی ممالک کو فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے بیلنس پالیسی رکھنی پڑتی ہے، جس میں بہرحال اسرائیل کی حمایت کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ اگر مغرب اور یورپ تک اسرائیلی جرائم کی اطلاع درست انداز سے پہنچ جائے اور اسرائیل کی حمایت بند کرنے کی تحریک ایک پاپولر موومنٹ کی شکل اختیار کر لے تو مغربی حکمران اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ وہ اسرائیل کی حمایت سے ہاتھ کھینچیں۔

اس کے برعکس تیسری دنیا کے ممالک جہاں عوام کو اقتدار اعلیٰ کا مالک قرار تو دیا جاتا ہے، تاہم سمجھا نہیں جاتا، وہاں صورتحال یکسر مختلف ہے۔ ایک ادارہ، ایک شخص، ایک تنظیم، ایک گروہ اپنے آپ کو ریاست کا مالک سمجھنے لگتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے وہی ایک ہی ریاستی مفادات کا محافظ ہے۔ ریاست کی تقدیر، اہم فیصلہ جات، مفادات کا تعین اسی کا استحقاق ہے۔ وہی ملکی وسائل کو خرچ کرنے کا مجاز ہے۔ اس طرح کا اقتدار جمہوریت نہیں بلکہ آمریت کی ایک منافقانہ صورت ہے۔ جہاں ہر مشکل فیصلے کی توقع اس ایک سے رکھی جاتی ہے۔ یہ قطعاً جمہوری حکومت نہیں ہے۔ اسلامی دنیا کے بہت سے ممالک میں ہم ایسا ہی ریاستی ڈھانچہ دیکھ سکتے ہیں۔ مصر میں حسنی مبارک اور اب سیسی، یمن میں علی عبد اللہ صالح اور اب عبد الرب منصور الہادی، عرب ممالک میں قائم جمہور نما اقتدار سب اسی کی مثالیں ہیں۔ جب کسی بھی ریاست میں اقتدار اعلیٰ کا ایسا نظام رائج ہوگا تو پھر اس ریاست میں نہ حکومتیں جمہوری ہوں گی، نہ پالیسیاں جمہوری اور نہ ہی فیصلے جمہوری۔ ایسے ہی ممالک میں آزادی اور جمہوری بالادستی کی بات کرنے والے حکمران تہ تیغ کیے جاتے ہیں اور پھر ان کے قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز