سید اسد عباس

سفر اربعین کے ناقابل فراموش تجربات(1)

2016ء میں مجھے اربعین حسینی کے موقع پر کربلا جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ عراق گیا تو عشق امام حسین ؑ میں تھا، تاہم دل نجف میں ہار آیا۔ یہ ایک کیفیت ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ مجھے زیادہ عرصہ نجف اشرف ہی رہنے کا موقع ملا، تقریبا 9 روز روزانہ میرا یہ معمول تھا کہ میں اپنی اقامت گاہ سے پیدل حرم امیر المومنین علیہ السلام کی جانب چل پڑتا تھا، وہاں سارا دن بیٹھا رہتا۔ کبھی ایک ہال میں، کبھی دوسرے ہال میں، کبھی ایک صحن میں، کبھی دوسرے صحن میں۔ کبھی حرم مطہر کے باہر کی دنیا کو محسوس کرتا۔ واقعات کا ایک اژدہام تھا جو میرے اردگرد وقوع پذیر ہو رہا تھا اور میں اس سب کو جذب کرنے کی ناکام کوشش میں تھا۔ (more…)

سید ثاقب اکبر

طالبان کی آمد اور بھارت کی گرم سرد پھونکیں

افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے حوالے سے مختلف ملکوں، قوموں اور مذہبوں سے تعلق رکھنے والے مختلف انداز سے تبصرے کر رہے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا تناظر ہے اور اپنے اپنے مفادات۔ خود طالبان نے بھی لوگوں کو اپنے بارے میں سوچنے پر لگا رکھا ہے۔ سب یہ تو سوچ ہی رہے ہیں کہ کیا یہ پہلے والے طالبان ہیں یا کچھ نئے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ انھوں نے لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے، ہیں یہ پہلے والے ہی اور بعض کا خیال ہے کہ وہ بدلے بدلے سے ہیں، اب کے ان کے خیالات کچھ مختلف ہیں، کچھ کام بھی قدرے مختلف کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ سے بھی امید رکھے ہوئے ہیں کہ وہ لوٹ آئے گا اور اب کے ان کے ساتھ تعاون کرے گا۔ انھیں یہ بھی توقع ہے کہ اب ساری دنیا انھیں تسلیم کرے گی، کیونکہ بزعم خویش وہ تبدیل ہوچکے ہیں۔ انھوں نے دوحہ میں مختلف طرح کے وعدے بھی کیے ہیں۔ (more…)

سید اسد عباس

افغانستان میں نئی عبوری حکومت اور خدشات(2)

طالبان نے افغانستان کے امور کو چلانے کے لیے اپنی 34 رکنی کابینہ کا اعلان کر دیا ہے، جس کا تعارف گذشتہ قسط میں پیش کیا گیا۔ اس کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے دنیا بھر میں جو اعتراض اٹھا، یہی تھا کہ اس کابینہ میں افغانستان کے تمام لسانی، علاقائی اور مذہبی گروہوں کو نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ یہ حکومت عبوری دور کے لیے ہے۔ طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ ہم افغانستان میں ایسی حکومت تشکیل دیں گے، جس میں افغانستان کی تمام قومیتوں، مسالک اور گروہوں کی نمائندگی ہوگی۔ (more…)

سید ثاقب اکبر

حکومت طالبان اور شیعیان افغانستان

گذشتہ دنوں شوریٰ علمائے شیعہ افغانستان کا تین روزہ اجلاس منعقد ہوا، جس کے اختتام پر ایک چودہ نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ اسی دوران میں افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف سے عبوری کابینہ کا اعلان ہوا۔ علمائے شیعہ کے اعلامیے کو پڑھ کر واضح ہوتا ہے کہ شیعہ اس نئی حکومت کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور طالبان سے ان کی توقعات اور مطالبات کیا ہیں۔ اسے سامنے رکھ کر طالبان حکومت اور شیعیان افغانستان کے مستقبل کے تعلقات کے بارے میں کچھ رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ماضی میں طالبان اور شیعوں کے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ اسی طرح ایران کے تعلقات بھی طالبان کے ساتھ تلخ ہی رہے ہیں، دونوں کے ایک دوسرے کے بارے میں شدید قسم کے جذبات پائے جاتے تھے۔ افغانستان میں گزرنے والے بیس سالہ دور نے طالبان اور شیعہ دونوں کو ایک دوسرے کے لئے تبدیل کر دیا ہے۔ (more…)

سید اسد عباس

افغانستان میں نئی عبوری حکومت اور خدشات(1)

افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے 23 دن بعد افغان طالبان کے ترجمان نے وزیراعظم اور ان کے دو معاونین سمیت طالبان کی 34 رکنی عبوری کابینہ اور حکومت کا اعلان کیا، جس میں 20 وزراء اور سات نائب وزراء شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فوج اور افغان مرکزی بینک کے سربراہ سمیت حکومت کے ڈائریکٹر برائے انتظامی امور کا بھی تقرر کیا گیا ہے۔ ان 34 عہدوں میں تین افراد کے علاوہ تمام پشتون النسل مرد افغان ہیں اور کابینہ میں کسی خاتون کو شامل نہیں کیا گیا۔ طالبان کی اس نئی حکومت اور کابینہ میں 15 افراد کا تعلق جنوبی افغانستان سے، 10 کا جنوب مشرقی، پانچ کا مشرقی اور تین کا شمالی افغانستان سے ہے۔ ملا ہبت اللہ اخونزادہ کو افغان حکومت میں رہبر یا امیر المومنین کی حیثیت حاصل ہے جبکہ ملا حسن اخوند افغانستان کے نئے وزیراعظم، ملا عبدالغنی برادر اور مولوی عبدالسلام حنفی کو نائب وزرائے اعظم مقرر کیا گیا ہے۔ (more…)

سید اسد عباس

9/11 کمیشن رپورٹ اور پاکستان

منگل گیارہ ستمبر 2001ء موجودہ صدی کا ایک اندوہناک دن تھا۔ ظاہراً تو اس روز دو امریکی عمارتیں جن کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، القاعدہ کے ایک فضائی حملے کے نتیجے میں زمین بوس ہوئیں، جس میں جاں بحق ہونے والوں کی کل تعداد 2996 تھی، تاہم اس حملے کے اثرات پوری دنیا میں دیکھنے کو ملے۔ عراق، افغانستان اور پاکستان تو آج بھی اس حملے سے اثرات سے گذر رہے ہیں، حالانکہ ان ممالک کا ایک بھی شہری ان حملوں میں ملوث نہ تھا۔ آج دنیا 9/11 کو یاد کرتی ہے، تاہم کسی کو 10/7 جب امریکی افواج 2001ء میں افغانستان میں داخل ہوئیں اور 3/20 جب امریکی فوجیں 2003ء میں عراق میں داخل ہوئیں، کسی کو یاد نہیں ہے۔ اگر جانی اور مالی نقصان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو عراق اور افغانستان میں ہونے والا نقصان امریکہ میں ہونے والے جانی و مالی نقصان سے بہت زیادہ ہے۔ اس حملے کے حوالے سے بہت سی تھیوریز اور حقائق سامنے آئے، جو وقت کے ساتھ ساتھ غائب ہوگئے یا غائب کر دیئے گئے۔ (more…)

سید اسد عباس

افغانستان کا معمہ اور عربوں کی چپ

افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال، طالبان کا بدلا ہوا رویہ اور اسلامی ممالک بالخصوص عرب دنیا جو کہ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے اور امریکہ کے جہاد افغانستان میں فعال کردار کے وقت سے افغان امور میں دخیل تھی، اس کی خاموشی، ایسے امور ہیں، جس نے حالات حاضرہ اور بالخصوص خطے کے مسائل میں دلچسپی لینے والے اذہان کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ تجزیہ کاروں کو اس وقت تک یہ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اچانک کیسے طالبان نے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا اور وہاں موجود عوامی حکومت کیسے ایک دم سے زمین بوس ہوگئی۔ امریکہ اور نیٹو کی تربیت یافتہ فوج اپنے جدید ترین ہتھیار زمین پر رکھ کر چلتی بنی اور طالبان نے دنوں میں پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ آیا یہ طالبان کا خوف ہے یا اس کے پیچھے کچھ اور وجوہات بھی ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور چند دیگر ممالک کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی تربیت یافتہ افواج کسی کرپٹ نظام کے لیے نہیں لڑ سکتی تھیں۔ لہذا افغانستان طالبان کے سامنے لمحوں میں زیر ہوگیا۔ (more…)

سید اسد عباس

اپ ڈیٹڈ طالبان، ایرانی پریس اور بی بی سی کا تجزیہ

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کا کہنا ہے کہ ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ اور اکثر جرائد، رسائل اور ٹی وی چینلز پر طالبان کی ایک معتدل تصویر پیش کی جا رہی ہے۔ ان کے خیال میں نشر و اشاعت کے کئی ادارے تو طالبان کو ایرانی عوام کو اپنا حامی بنانے اور اپنی صفائیاں پیش کرنے کا پورا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ طالبان حکام ایرانی نشریاتی اداروں کو مسلسل انٹرویوز دے رہے ہیں اور کم از کم دو مواقع پر طالبان کے رہنماؤں کے انٹرویو براہ راست نشر کیے گئے ہیں، جن میں وہ ایران کے عوام کو اس بات پر قائل کرتے نظر آئے کہ انھوں نے ماضی کی اپنی روش کو ترک کر دیا ہے۔ کیہان اور پاسداران انقلاب سے تعلق رکھنے والے اخبار جوان کے بارے کہا جا رہا ہے کہ یہ دونوں ادارے اِس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ طالبان بدل گئے ہیں۔ (more…)

سید اسد عباس

کربلا حقوق بشر اور حریت آدم کی ضامن ہے

غلامی انسان اور بالخصوص مسلمان کی جبلت میں نہیں ہے۔ لا الہ الا اللہ کہنے والا بھلا کیسے کسی انسان کی غلامی کرسکتا ہے۔؟ اسلام کا انسانوں کو اس کلمے کی جانب دعوت دینے کا مقصد بھی انسانی شرف اور اس کے حقوق کا تحفظ ہے۔ یہ کلمہ ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، انسان کو اس کے سوا کسی کی بندگی زیب نہیں دیتی۔ یہی شعور تحریک آزادی پاکستان کا روح رواں بنا اور اسی سبب یہ نعرہ زبان زد عام ہوگیا: پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ یعنی پاکستان کا مطلب یہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، یعنی پاکستانی اللہ کے سوا کسی کے بندے نہیں بن سکتے۔ اسی جملے نے ہمیں انگریز کی غلامی سے نجات بخشی اور یہی جملہ ہمیں ہندو غلامی سے بچا لایا۔ اپنے ہی جیسے دیگر انسانوں کی غلامی، جبر، استبداد اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا پیغام اسلام کی بنیاد میں شامل ہے۔ یہی توحید کاہدف ہے۔ اسلام انسانیت کو یہی درس دیتا ہے کہ تمام انسان اللہ کی مخلوق ہیں، بحیثیت انسان سب انسان برابر ہیں نیز یہ کہ اللہ کے حضور ہی سجدہ ریز ہونا انسان کو زیبا ہے۔ (more…)

سید اسد عباس

مغربی طرز کے تعلیمی ادارے معاشرے کیلئے زہر قاتل

تحریک انصاف کے قائد اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا پہلے روز سے نظریہ تھا کہ پاکستان مختلف طبقات کے مابین تقسیم ایک ریاست ہے، جس میں قوم کا مشترکہ ہدف اور لائحہ عمل نہیں ہے۔ وہ اپنی تقاریر میں اکثر کہا کرتے ہیں کہ ایسی ریاست کبھی قائم نہیں رہ سکتی، جہاں امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قوانین ہوں۔ وہ ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ ہمیں اس پاکستان کو ایک پاکستان بنانا ہے، جہاں ایک قوم بستی ہو۔ اس عنوان سے وزیراعظم عمران خان نے مشکل کاموں کو اپنے ذمے لیا ہے، جن میں ایک قانون و انصاف کا یکساں اطلاق اور دوسرا یکساں نصاب تعلیم ہیں۔ (more…)