افغانستان کا معمہ اور عربوں کی چپ

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس

افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال، طالبان کا بدلا ہوا رویہ اور اسلامی ممالک بالخصوص عرب دنیا جو کہ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے اور امریکہ کے جہاد افغانستان میں فعال کردار کے وقت سے افغان امور میں دخیل تھی، اس کی خاموشی، ایسے امور ہیں، جس نے حالات حاضرہ اور بالخصوص خطے کے مسائل میں دلچسپی لینے والے اذہان کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ تجزیہ کاروں کو اس وقت تک یہ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اچانک کیسے طالبان نے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا اور وہاں موجود عوامی حکومت کیسے ایک دم سے زمین بوس ہوگئی۔ امریکہ اور نیٹو کی تربیت یافتہ فوج اپنے جدید ترین ہتھیار زمین پر رکھ کر چلتی بنی اور طالبان نے دنوں میں پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ آیا یہ طالبان کا خوف ہے یا اس کے پیچھے کچھ اور وجوہات بھی ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور چند دیگر ممالک کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی تربیت یافتہ افواج کسی کرپٹ نظام کے لیے نہیں لڑ سکتی تھیں۔ لہذا افغانستان طالبان کے سامنے لمحوں میں زیر ہوگیا۔

ایک بڑے قطعہ زمین پر دنوں میں قبضے کا ایک واقعہ اس سے قبل عراق میں بھی وقوع پذیر ہوچکا ہے۔ جب اچانک موصل سے اٹھنے والے داعش نے عراق کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا اور وہاں موجود امریکہ کی تربیت یافتہ عراقی افواج ہتھیار پھینک کر تسلیم ہوگئیں۔ افغانستان اور عراق میں ایک گروہ کے تسلط کا یہ ایک جیسا انداز بھی بعض تجزیہ کاروں کے لیے سامان حیرت لیے ہوئے ہے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ داعش کا عراق میں پھیلاؤ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت ابو بکر البغدادی کو بطور امیر المومنین شناخت کرکے اس کا تنظیمی ڈھانچے عراقی جیلوں میں تیار ہوا، جس میں القاعدہ کے سابق اراکین کے ساتھ بعث پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کو قید رکھ کر ایک تحریک کی بنیاد رکھنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ پھر اچانک سے یہ تنظیمی ڈھانچہ امریکی قید سے آزاد ہوگیا۔ یہ شاید سابقہ دہائی کا سب سے بڑا انٹیلیجنس آپریشن تھا، جو عراق میں حشد الشعبی اور شام میں حزب اللہ لبنان، پاسداران انقلاب، شامی فورسز اور روسی افواج کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوا۔

افغانستان میں طالبان کی سریع پیش قدمی عراقی پیش قدمی سے مماثلت رکھتی ہے، ہم اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ طالبان کی ایک بڑی تعداد امریکی عقوبت خانوں میں زندگی گزار چکی ہے۔ طالبان کا یوں اچانک سے اپنے رویئے کو بدلنا ہر دو پہلو کا حامل ہوسکتا ہے۔ اس کا ایک پہلو تاریخ سے سبق ہے اور دوسرا پہلو وہی انٹیلیجنس آپریشن ہے، جس کا آغاز عراق کی جیلوں میں ہوا۔ اگر تو طالبان کے بدلے ہوئے رویوں کا سبب تاریخ سے سبق ہے تو یہ نہایت ہی خوش آئند ہے، تاہم اگر اس کا سبب کوئی انٹیلیجنس آپریشن ہے، جس کے اثرات بعد میں کھل کر خطے کے ممالک کے سامنے آنے ہیں تو یہ ایک خطرناک امر ہے۔ تاہم فی الحال تو ہمیں حال کی صورتحال کے مطابق ہی سوچنا اور عمل کرنا ہے۔ امریکہ کا یوں خاموشی سے اپنی شکست کو تسلیم کرکے نکل جانا اور اپنی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے ضیاع پر چپ سادھ لینا عقل میں نہیں آتا۔ ایسا قطعاً ممکن نہیں ہے کہ وہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے اس اہم خطہ کو جہاں اس کے تین بڑے حلیف چین، روس اور ایران موجود ہیں، اسے خیر باد کہ دے۔

عرب دنیا جو ہمیشہ سے افغان جہاد نیز مذاکرات میں امریکہ کی اتحادی رہی ہے، افغانستان مسئلہ پر چپ سادھے ہوئے ہے۔ ان کی خاموشی بھی سوال برانگیز ہے۔ 1996ء میں طالبان نے افغانستان میں جب اقتدار سنبھالا تھا تو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان وہ تین ممالک تھے، جنھوں نے سب سے پہلے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا۔ تاہم اس مرتبہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اب تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے بلکہ اس کے برعکس افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی عرب امارات کی سیاسی پناہ میں ہیں۔ یہ کام عرب امارات نے انسانی بنیادوں پر کیا۔ سعودی عرب کا فقط یہ کہنا ہے کہ افغانستان سے اس کے تمام سفارتکار بحفاظت ریاض واپس آگئے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب نے پورے معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ یہ امر سوال برانگیز ہے کہ 1996ء میں طالبان حکومت کو قبول کرنے والے اس مرتبہ خاموش کیوں ہیں۔؟

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ اس خاموشی کی وجہ سعودی پالیسی اور قیادت کی فکر میں آنے والا بدلاؤ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بظاہر یوں لگتا ہے کہ طالبان کے لیے قطر، متحدہ عرب امارات اور ترکی کہیں زیادہ اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ اسی لیے طالبان کا ہیڈ کوارٹر دوحہ میں تھا۔ کابل میں پاکستان کے سابق سفیر ابرار حسین اس خاموشی کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج سعودی عرب جہادی عناصر سے دوری اختیار کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور اس کے لیے اسرائیل اہمیت کا حامل ملک بن چکا ہے۔ صحافی راشد حسین کے مطابق اس وقت سعودی عرب میں طالبان کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے متعلق کوئی بحث نہیں چل رہی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب طالبان اور دیگر افغان دھڑوں کا مرکز طائف نہیں بلکہ دوحہ ہے۔ شمشاد احمد خان اور راشد حسین اس بات پر متفق ہیں کہ سعودی عرب اسلامی دنیا میں کسی حد تک اپنی اہمیت ضرور برقرار رکھنا چاہتا ہے، مگر اس وقت وہ افغانستان میں طالبان گیم کا مرکزی حصہ نہیں ہے۔

درج بالا تجزیہ کاروں کی رائے اپنی جگہ، تاہم میرے لیے یہ قابل فہم نہیں ہے کہ عرب دنیا کے یہ اہم ممالک جو امریکہ کے کلیدی اتحادی بھی ہیں، افغانستان میں ہونے والی ساری سرگرمی سے بالکل لاتعلق ہیں۔ ابھی 2011ء کی بات ہے کہ عراق اور شام میں یہ تمام ممالک بشمول ترکی امریکہ اور نیٹو کے ساتھ شریک عمل تھے۔ گذشتہ دہائی کا سب سے بڑا انٹیلیجنس آپریشن Catch the Pray انہی ممالک کی ہم آہنگی سے تیار کیا گیا، جس کے اثرات آج بھی شام اور عراق میں موجود ہیں۔ امریکہ کی موجودہ انتظامیہ سے اختلافات کے باوجود آج بھی سعودیہ، قطر اور امارات میں امریکی دفاعی یونٹس موجود ہیں، امریکہ ہی ان ممالک کو جنگی ہتھیار اور ساز و سامان اور تربیت مہیا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ افغان مسئلے میں یہ عرب ممالک ہمیشہ امریکہ کے شانہ بشانہ رہے ہیں۔

اسامہ بن لادن کی افغانستان آمد سے لے کر عرب جنگجوؤں کی جہاد افغانستان میں شرکت نیز ان کی گرفتاریوں تک ہر مرحلہ ان اتحادیوں نے مل کر طے کیا۔ سوال یہ ہے کہ اب ان کی راہیں کیسے جدا ہوگئی ہیں؟؟ عرب ممالک کی اسرائیل سے قربت سے مراد قطعاً یہ نہیں ہے کہ اب عرب ممالک جہادی عناصر سے دور ہو جائیں گے۔ اسرائیل سے قربت کا مطلب عالم اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں میں ان ممالک کا غیر آگاہانہ کردار ہے۔ خطے کے ممالک اور ان کے فیصلہ ساز ادارے یقیناً اس ساری صورتحال کو نہایت دقت سے مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ امید ہے کہ حالات جلد ہی واضح ہوتے جائیں گے۔ بہرحال انسان کو بہتری کی امید رکھنی چاہیئے۔ ہم یہاں امید کرتے ہیں کہ طالبان بھی اس صورتحال میں دانشمندانہ فیصلے لیں گے، تاکہ کسی غیر کو عالم اسلام اور خطے کے خلاف کوئی نئی سازشیں کرنے کا موقع نہ ملے۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز