غزہ میں قحط کا اندیشہ اور مسلمانوں کے دسترخوان
تحریر: سید اسد عباس
قحط اس کیفیت کو کہا جاتا ہے، جب کسی ملک میں خوراک کی اتنی شدید قلت ہو جائے کہ اس کی آبادی کو غذائی کمی کے سبب موت کا سامنا ہو۔کسی ملک میں قحط کا اعلان عام طور پر اقوام متحدہ کرتی ہے اور بعض اوقات اس کا فیصلہ متاثرہ ملک کی حکومت اور دیگر بین الاقوامی امدادی تنظیموں یا انسانی ہمدردی کے اداروں کے ساتھ مل کر کیا جاتا ہے۔ قحط پڑنے کا فیصلہ انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن نامی اقوام متحدہ کے پیمانے کا استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ اس پیمانے کے تحت کسی ملک میں خوراک کی قلت یا غذائی عدم تحفظ کی شدت کی درجہ بندی پانچ مراحل میں کی جاتی ہے اور قحط پانچواں اور شدید ترین درجہ ہے۔ اس پانچویں مرحلے سے قبل چار درجے ہیں، جس میں بھی بھوک، غذائی کمی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔
تاہم قحط کے اعلان کے لیے ضروری ہے کہ جس علاقے میں قحط کا اعلان کیا جا رہا ہے، وہاں کے کم از کم 20 فیصد گھرانوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہو۔ دوم یہ کہ کم از کم 30 فیصد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہوں اور تیسرا یہ کہ دس ہزار کی آبادی میں روزانہ دو بالغ یا چار بچے بھوک سے ہلاک ہوں۔ اقوام متحدہ کے مطابق شمالی غزہ میں مارچ سے مئی 2024ء کے درمیان قحط کبھی بھی پڑ سکتا ہے۔ اس کی وجہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد غزہ پر اسرائیل کی فوج کشی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ہے۔ عالمی اداروں کے اپنے معیارات ہیں، ورنہ دس فیصد ، پانچ فیصد یا ایک فیصد کی بھوک بھی بھوک ہی ہے اور ان کی بھوک کی وجہ سے ہلاکت کسی صورت بھی قابل تحمل نہیں ہے۔
عالمی ادارے کے ایک اندازے کے مطابق غزہ کی نصف آبادی یعنی تقریباً 11 لاکھ لوگ، بھوک سے مر رہے ہیں اور بدترین صورتحال ہوئی تو غزہ کی پوری آبادی جولائی 2024ء تک قحط کا شکار ہو جائے گی۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سوڈان میں بھی درپیش ہے۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اپریل 2023ء میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں سوڈان میں تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو خوراک کے معاملے میں شدید عدم تحفظ کا سامنا ہے۔یونیسیف کا کہنا ہے کہ اس نے چھوٹے بچوں میں غذائی قلت کو بدترین اندازوں سے بھی زیادہ دیکھا ہے، جبکہ ساتھ ہی ساتھ بچوں میں ہیضہ، خسرہ اور ملیریا بھی پھیل رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم “ایکشن اگینسٹ ہنگر” کا کہنا ہے کہ دیگر کئی ممالک میں بھی بھوک کی سطح انتہائی تشویشناک ہے۔ان میں افغانستان، جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا کا علاقہ ٹائیگرے، پاکستان، صومالیہ، شام اور یمن شامل ہیں۔ ایکشن اگینسٹ ہنگر کا کہنا ہے کہ تنازعات دنیا بھر میں بھوک کا کلیدی محرک ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ یمن میں جنگ کے دوران لوگوں کو خوراک کی کمی کا سامنا رہا اسی طرح شام میں جنگ کے دوران بھی ایسی تصاویر سامنے آئیں، جس میں بچے خوراک کی شدید کمی کا شکار تھے۔ جنوبی سوڈان میں آخری قحط کا اعلان 2017ء میں کیا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں 80 ہزار افراد کو فاقہ کشی کا سامنا کرنا پڑا اور لاکھوں دیگر بھی قحط کے دہانے پر تھے۔ اسی طرح 1984ء میں ایتھوپیا میں آنے والے قحط کے دوران میں تقریباً دس لاکھ لوگ لقمہ اجل بنے۔ ماضی میں 2011ء میں جنوبی صومالیہ، 2008ء میں جنوبی سوڈان، 2000ء میں ایتھوپیا کے صومالی علاقے گوڈے، سنہ 1996ء میں شمالی کوریا، 1991-1992ء میں صومالیہ اور 1984-1985ء میں ایتھوپیا میں قحط پڑ چکا ہے۔ مزید ماضی کو کھنگالیں تو سنہ 1845ء اور سنہ 1852ء کے درمیان، آئرلینڈ کو فاقہ کشی، بیماری اور ہجرت کے دور کا سامنا کرنا پڑا، جو عظیم قحط کے نام سے مشہور ہوا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کسی بھی ملک یا خطے میں قحط کا اعلان کیے جانے سے کسی قسم کی مخصوص فنڈنگ کا اجرا تو نہیں ہوتا، تاہم اس کے نتیجے میں اکثر اقوام متحدہ اور عالمی حکومتوں کی طرف سے ردعمل سامنے آتا ہے، جو خوراک کی فراہمی اور ہنگامی فنڈنگ فراہم کرسکتی ہیں۔ کچھ انسانی امداد کے ادارے جیسے عالمی ریڈ کراس غذائی قلت کے علاج کی سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ فلسطین کے مسئلہ کے حوالے سے عام مسلمانوں کی بالعموم اور مسلم حکمرانوں کی بالخصوص، بے حسی اور بے بسی واقعاً تشویشناک ہے، یمن پر ہم خاموش رہے، کیونکہ اسے ہم نے ایک مسلکی مسئلہ بنا دیا، شام پر ہم میں اختلاف رہا، کیونکہ وہ بھی ایک سیاسی یا مسلکی مسئلہ کے طور پر دکھایا گیا، لیکن غزہ تو مسلکی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ امت مسلمہ اور عالم اسلام کا مشترکہ مسئلہ ہے۔
مارنے والا صہیونی ہے، مرنے والے عام مسلمان ہیں۔ بھوک کا شکار معصوم بچے، خواتین اور بوڑھے ہیں۔ جہاں لوگ گھاس کھانے پر مجبور ہوچکے ہوں، وہاں ادویات اور دیگر وسائل زندگی کی کیا بات کی جائے۔ نہیں معلوم مسلمان حکمرانوں، ذمہ داران، درد مند انسانوں کو غزہ میں ہونے والے مظالم کو دیکھ کر کیسے نیند آتی ہوگی۔ یہاں شتر مرغ کے گوشت کی کڑاہیاں، اس کے آملیٹ کی سحریوں پر جنگ جاری ہے۔ ابھی کچھ ادارے غزہ کے نام پر بہت بڑے بڑے سیمینارز منعقد کریں گے اور ہوٹلوں میں افطاریاں منعقد کی جائیں گی۔
ہمارے گھروں میں دسترخوان طرح طرح کے کھانوں سے پر ہیں، افطار پارٹیاں، افطار ڈنرز کا دور دورہ ہے۔۔۔۔ اور غزہ کے بچے گھاس کھانے پر مجبور ہیں۔۔۔ بیس لاکھ کی آبادی فاقوں پر مجبور ہے۔۔۔ مصر اپنی سرحدیں نہیں کھولتا کہ یہ لوگ صحرائے سینا تک نہ آجائیں۔۔۔ اسرائیل کی بمباری کو روکنے کی کسی عرب و عجم میں ہمت نہیں۔۔۔ انروا اور دیگر عالمی اداروں نے اپنی امدادی سرگرمیاں سست کر دی ہیں۔۔۔ اہل غزہ کو بھوک، افلاس کی جانب دھکیلا جا چکا ہے۔۔۔ دنیا تماشائی ہے۔۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا خدا بھی تماشائی ہے؟۔۔۔ میرا ایمان ہے کہ ایسا نہیں ہے۔۔۔ بہت جلد دست قدرت حرکت میں آئے گا اور ظالموں، ظلم پر خاموش رہنے والوں، ظلم کا تماشا کرنے والوں، سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔۔۔۔ خداوند کریم ہمیں حقیقی تقوی الہیٰ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مظلومین کے حامیوں میں سے قرار دے۔ آمین