کربلا حقوق بشر اور حریت آدم کی ضامن ہے

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس

غلامی انسان اور بالخصوص مسلمان کی جبلت میں نہیں ہے۔ لا الہ الا اللہ کہنے والا بھلا کیسے کسی انسان کی غلامی کرسکتا ہے۔؟ اسلام کا انسانوں کو اس کلمے کی جانب دعوت دینے کا مقصد بھی انسانی شرف اور اس کے حقوق کا تحفظ ہے۔ یہ کلمہ ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، انسان کو اس کے سوا کسی کی بندگی زیب نہیں دیتی۔ یہی شعور تحریک آزادی پاکستان کا روح رواں بنا اور اسی سبب یہ نعرہ زبان زد عام ہوگیا: پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ یعنی پاکستان کا مطلب یہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، یعنی پاکستانی اللہ کے سوا کسی کے بندے نہیں بن سکتے۔ اسی جملے نے ہمیں انگریز کی غلامی سے نجات بخشی اور یہی جملہ ہمیں ہندو غلامی سے بچا لایا۔ اپنے ہی جیسے دیگر انسانوں کی غلامی، جبر، استبداد اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا پیغام اسلام کی بنیاد میں شامل ہے۔ یہی توحید کاہدف ہے۔ اسلام انسانیت کو یہی درس دیتا ہے کہ تمام انسان اللہ کی مخلوق ہیں، بحیثیت انسان سب انسان برابر ہیں نیز یہ کہ اللہ کے حضور ہی سجدہ ریز ہونا انسان کو زیبا ہے۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ میں دین اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا تو کئی ایک غلام اور معاشرے کے پسے ہوئے افراد آپ کی تعلیمات سے متاثر ہوئے۔ یہی لوگ پہلے پہل دین کو قبول کرنے والے تھے۔ معاشرے کا طاقتور طبقہ جن میں اکثر رسالت مآب کے رشتے دار بھی تھے، آپ کا مخالف اور جانی دشمن ہوگیا۔ آپ کے مخالفین اس بات کو بخوبی سمجھ رہے تھے کہ اگر نبی اکرم ؐ کی تعلیمات معاشرے میں سرایت کرتی ہیں تو ان کے اقتدار کا خاتمہ ہو جائے گا۔ آزاد اور غلام برابر ہو جائیں گے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں غلاموں کو وہی حقوق حاصل ہوں گے، جو سرداروں اور آزادوں کو حاصل ہیں۔ ان کے لیے قابل تحمل نہ تھا کہ خواتین بھی میراث کی حقدار قرار پائیں، ان کو برداشت نہ تھا کہ موجودہ معاشرتی نظام تہ و بالا ہو جائے۔ ظاہراً وہ کہتے تھے کہ محمد ؐ ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہتا ہے، تاہم حقیقتاً وہ جانتے تھے کہ اگر ہم محمد ؐ کے خدا پر ایمان لاتے ہیں تو پھر ہم اور ہمارے غلام سب ایک درجے کے انسان بن جائیں گے اور ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر ہمیں محمدؐ کے خدا کے حضور سجدہ ریز ہونا ہوگا۔ یہ مساوات ان کو برداشت نہ تھی۔

اسی انسانی مساوات اور حقوق کی تحریک کو روکنے کے لیے مکہ کے کفار نے دین محمد ؐ کا انکار کیا، بدر، احد، خندق کی جنگیں لڑیں۔ آخرکار نبی کریم ؐ کو فتح نصیب ہوئی اور کفار مکہ پسپا ہوئے۔ دین خدا یعنی ایک اللہ کی بندگی، انسانوں کی برابری، انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، والدین کے حقوق، ہمسایوں کے حقوق، اللہ کی دیگر مخلوقات کے حقوق کی تحریک کامیاب ہوگئی اور دین محمد ؐ کو غلبہ حاصل ہوا۔ اس غلبے سے یہ قطعاً مراد نہ تھی کہ معاشرے کو اب تربیت کی ضرورت نہ رہی تھی۔ حق و باطل کا معرکہ اب بھی جاری تھا۔ رسالت مابؐ کی رحلت کے بعد انسانی مساوات اور توحید کا یہ کارواں کسی نہ کسی انداز سے آگے بڑھتا رہا، تاہم حالات کی رفتار کچھ یوں رہی کہ ایک مرتبہ پھر نبی کریم ؐ کا پروردہ معاشرہ ملوکیت کی جانب گامزن ہوگیا۔ معاشرے میں ظلم، استبداد اور جبر کے سائے پھیلنے لگے۔ رسالت ماب ؐ کی دی ہوئی انسانی مساوات اور برابری کی تعلیمات کو دبایا جانے لگا۔

حاکم کے خلاف زبان کھولنا جرم بن گیا، توحید اور انسانیت کے علمبرداروں کو معاشرے میں دشنام دیا جانے لگا۔ جو شخص حاکم وقت کے خلاف بولا اسے یا شہر بدر کر دیا گیا یا کسی سازش کے ساتھ اس کو قتل کر دیا گیا۔ یہ صورتحال اس وقت اپنے عروج پر پہنچی، جب حاکم وقت نے اعلان کر دیا کہ بنی ہاشم نے اقتدار کے لیے ڈھونگ رچایا ہے، دین کو وہ رنگ دیا جانے لگا جو حاکموں کے مفاد میں تھا، عوام الناس زمانے کی مسافت کے ساتھ دین کے حقیقی مقصد سے دور ہونے لگے جبکہ ظواہر شریعت عام تھے۔ ایسے میں خانوادہ رسالت ؐ کا ایک فرد اٹھا اور اس نے ایک مرتبہ پھر جبر، ظلم اور استبداد کے سامنے کلمہ حق بلند کیا۔ امام حسین ؑ نے معاشرے میں پیدا کردہ خوف کی فضا کو یکسر توڑ کر رکھ دیا اور حقیقت دین کو آشکار کرنے کے لیے کمر ہمت باندھ لی۔ وہ جانتے تھے کہ میری اس تحریک کا نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ قوی امکان تھا کہ لوگ آپ کا ساتھ نہ دیں اور نتیجتاً جان و مال نیز عزت و ناموس کی قربانی دینی پڑے، تاہم امام حسین ؐ نے ذلت قبول کرنے کے بجائے عزت کی موت کا انتخاب کیا۔

یہ بھی خبریں ہیں کہ 1996ء میں ان سکولوں میں ورلڈ بینک کے ذیلی ادارے "انٹرنیشنل فائنانس گروپ” نے براہ راست کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کی۔ ایک اندازے کے مطابق بیکن ہاؤس ماہانہ 5 تا 6 ارب اور سالانہ 60 تا 70 ارب روپیہ پاکستانیوں سے نچوڑتا ہے۔ پاکستان کے تیس شہروں میں اس سکول کی 146برانچیں قائم ہیں۔ یہ سکول ہر سال مغربی ثقافت اور مادر پدر آزاد لبرل سوچ کے حامل کم از کم 4 لاکھ طلبہ پاکستانی معاشرے میں داخل کر رہا ہے، جن میں پاکستان کے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے سرکاری اداروں کے بڑے بڑے بیوروکریٹ، صحافی، سیاستدان، بزنس مین اور وڈیرے شامل ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں سرائیت کرنے والے ان طلباء کی اکثریت تقریباً لادین ہے۔ وہ ان تمام نظریات اور افکار کا تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں، جن پر نہ صرف ہمارا معاشرہ کھڑا ہے بلکہ جن کی بنیاد پر پاکستان بنایا گیا تھا۔ حد یہ ہے کہ ان طلباء کی اکثریت کو اردو سے بھی تقریباً نابلد رکھا جاتا ہے۔ ساہیوال بوائز کیمپس پالیسی لیٹر میں پنجابی زبان کو ’’فاول لینگوئج ‘‘ کے زمرے میں ڈالا گیا ہے، جو سکول میں نہیں بولی جاسکتی۔

امام حسین ؑ کی اس قربانی نے ظواہر شریعت اور حقیقت دین کے مابین وہ حد فاصل قائم کی، جو رہتی دنیا تک باقی رہے گی۔ امام عالی مقام نے اپنی قربانی کے ذریعے قیامت تک آنے والی انسانی نسلوں کو بتایا کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے قیام کرو گے، اس کے خاتمے کے لیے اتنی ہی بڑی قربانی دینا ہوگی۔ امام علیہ السلام نے واضح کیا کہ اسلام فقط ظواہر کا نام نہیں ہے بلکہ اس دین کا ایک باطن بھی ہے اور یہ باطن ایک اللہ کی حاکمیت، انسانی مساوات اور وہ آزادیاں ہیں، جو اللہ نے ہر انسان کو ودیعت کی ہیں۔ ان کا تحفظ عزت ہے اور کسی بھی خوف کے سبب ان حقوق پر سمجھوتہ ذلت ہے۔ امام عالی مقام کی اس حق کی حفاظت کے لیے قربانی رہتی دنیا کے لیے ایک اسوہ ہے۔ نبی کریم ؐ نے سچ ہی تو فرمایا تھا کہ حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں۔ اگر حسین ؑ اس وقت ظواہر شریعت اور باطن دین کے فرق کو واضح کرکے اس کے تحفظ کے لیے کھڑے نہ ہوتے تو آج دین تو ہوتا، تاہم اس میں روح محمدی نہ ہوتی۔ آج دنیا میں جہاں کہیں انسانی مساوات اور حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند ہوتی ہے، کوئی تحریر لکھی جاتی ہے، کوئی تقریر کی جاتی ہے یا کوئی قربانی دی جاتی ہے، اس میں جہاں دین الہیٰ کی تعلیمات کا حصہ ہے، وہاں حسینیت اس تحریک کے لیے عملی نمونہ عمل ہے۔

تحریک آزادی پاکستان کے قائدین نے جب انگریز سامراج اور ہندو استبداد سے آزادی کا نعرہ بلند کیا تو اس وقت ان کے پیش نظر بھی وہی اسلامی تعلیمات تھیں، جن کا عملی درس امام حسین علیہ السلام نے میدان کربلا میں دیا تھا۔ سر سید احمد خان، قائد اعظم محمد علی جناح، سر آغا خان، علامہ محمد اقبال، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور تحریک آزادی پاکستان کے دیگر قائدین نیز مسلمانان ہند اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ہمیں انگریز سامراج کے بعد ہندو استبداد کی ذلت کو قبول نہیں کرنا ہے۔ ان مسلمان قائدین نے کربلا سے آزادی کا شعور حاصل کرتے ہوئے ہر مصیبت کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا۔ اسلامیان ہند بھی جان و مال کی پرواہ کیے بغیر آزاد مملکت کے حصول کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ اللہ کریم نے ہمیں عظیم قربانیوں کے بعد پاک سرزمین سے نوازا۔ یہ وطن اگرچہ انگریز سامراج اور ہندو استبداد سے تو آزاد ہوگیا، تاہم حقیقی آزادی جو کہ قائدین پاکستان کی آرزو تھی، اب تک ہمیں حاصل نہیں ہے۔ اگر پاکستانی قوم اس آزادی کا حصول چاہتی ہے تو اسے ایک مرتبہ پھر شاہ کربلا کے در پر حاضری دینا ہوگی، وہیں سے عزم و ہمت کا درس لینا ہوگا اور ہر قسم کے ظلم، جبر، استبداد اور پابندیوں کے خلاف کمر ہمت باندھ کر قربانیاں دینی ہوں گی۔ تب ہی ہمارا وطن حقیقی معنوں میں ایک آزاد اور خود مختار ریاست بن پائے گا، جہاں اللہ کے قانون کو حاکمیت حاصل ہوگی اور سب انسان قانون اور ریاست کی نظر میں برابر ہوں گے۔