قضیہ فلسطین کے بعض پہلو اور یوم القدس
تحریر: سید اسد عباس
29 نومبر 1947ء کے دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد 181 (II) جو کہ قرارداد تقسیم کے نام سے مشہور ہے، پاس ہوئی، اسی مناسبت سے 29 نومبر کو اقوام متحدہ کی سطح پر یوم یکجہتی فلسطین کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی اس قرارداد کے مطابق اقوام متحدہ نے فیصلہ کیا کہ فلسطین میں یہودی اور عرب ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جس میں یروشلم یعنی بیت المقدس ایک جداگانہ حیثیت کا حامل شہر ہوگا اور اس کا انتظام عالمی اداروں کے تحت ہوگا۔ اب تک اس قرارداد کے مطابق ایک ریاست تشکیل پائی ہے، جس کا نام اسرائیل ہے جبکہ فلسطینی ریاست ستر برس سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود معرض وجود میں نہیں آسکی۔ تقسیم کی اس قرارداد کو فلسطینیوں اور عربوں نے مسترد کیا، تاہم عرب فلسطین کو سلطنت عثمانیہ سے نکل کر برطانوی مینڈیٹ میں جانے سے نہ روک سکے، وہ لیگ آف نیشن کو نہ روک سکے کہ وہ فلسطینی سرزمین پر برطانوی تسلط کو قانونی قرار دے، بلکہ اس کے برعکس نہایت افسوس سے کہا جاسکتا ہے کہ آج کی اکثر عرب ریاستیں برطانوی آشیرباد اور تعاون سے معرض وجود میں آئیں۔
سلطنت عثمانیہ سے عربوں کا اختلاف جس نوعیت کا بھی تھا، ان کو کسی صورت برطانوی ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے مسلمانوں کی ایک مرکزی حکومت کا خاتمہ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ اردن میں شریف مکہ، نجد میں آل عبد العزیز، کویت، بحرین، قطر میں آل ثانی اور آل خلیفہ سب برطانوی ایما پر آئے۔ مسلمانوں نے جب اپنے ذاتی مفادات اور اقتدار کے لیے برطانیہ سے ساز باز کی، اسی دن وہ اپنے اقتدار اعلیٰ اور حقوق کا سودا کر بیٹھے تھے۔ ان عربوں سے کیا توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ فلسطین کے برطانوی مینڈیٹ میں جانے پر احتجاج کریں گے یا فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کے حوالے سے ان کو کوئی اعتراض ہوسکتا تھا۔ بہرحال اقوام متحدہ کے قیام اور 1947ء میں فلسطین کی تقسیم کی قرارداد کے بعد عربوں کی غیرت جاگی اور انھوں نے اس تقسیم کے منصوبے کو قبول کرنے سے انکار کیا، تاہم اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
یہودیوں یا صہیونیوں کی فلسطین میں آبادکاری کا سلسلہ نیا نہ تھا، سلطنت عثمانیہ میں سلطان عبد الحمید کے زمانے سے ہی یہودی فلسطین کے علاقے میں آنا شروع ہوچکے تھے، تاہم یہودیوں کی بڑی تعداد فلسطین پر برطانوی قبضے اور بالفور ڈیکلیریشن 1917ء کے بعد شروع ہوئی۔ 1929ء تک فلسطین کے علاقوں میں صہیونیوں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی تھی کہ دونوں طبقات میں بے چینی اور شدت پسندی کا باعث بنی۔ بیت المقدس میں فلسطینیوں اور صہیونیوں میں جھڑپیں، ہیبرون کے علاقے میں فلسطینیوں کے ہاتھوں 67 صہیونیوں کا قتل اور ایسے ہی واقعات اب فلسطینی معاشرے کا معمول بن چکے تھے۔ 1931ء تک فلسطین کی آبادی کا 17 فیصد یہودی تھے۔ اسی دوران شام سے عز الدین قسام فلسطین میں وارد ہوئے اور انھوں نے ایک مسلح تنظیم کی بنیاد رکھی۔ عرب دباؤ اور عز الدین قسام بریگیڈ کے سبب فلسطین میں صہیونی ہجرت کم ہوگئی۔
جنگ عظیم دوم کے دوران یورپ سے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد فلسطین میں وارد ہوئی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہودیوں کی فلسطین کی جانب ہجرت کی دو وجوہات ہیں، ایک وجہ ان کا اسرائیلی ریاست کے حوالے سے مذہبی عقیدہ ہے اور دوسری وجہ یورپ میں یہودیوں کے لیے ناقابل تحمل حالات زندگی تھے۔ یورپی اقوام یہودیوں کو ایک خارجی نسل کے طور پر دیکھنے لگے، جرمنی میں یہودیوں کو مار بھگانے سے قبل ان کے خلاف قانون سازی کرکے ان کو دیوار سے لگایا جا چکا تھا۔ جرمنی کا سول سروس لاء 1933ء، شہریت کا قانون 1933ء، زرعی زمین کی ملکیت کا قانون 1933ء، ثقافتی سنٹر قائم کرنے کا قانون 1933ء، جرمن خون کے تحفظ کا قانون شامل ہیں۔
یہودیوں کے خلاف دوسری قانون سازی کی لہر 1938ء سے 1939ء میں آئی۔ ان قوانین کے تحت جرمنی میں بسنے والے یہودیوں کو بہت سے بنیادی شہری حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ حتی کہ یہ قانون بھی پاس کیا گیا کہ کوئی یہودی داودی ستارہ پہنے بغیر گھر سے نہیں نکلے گا، تاکہ اس کی آسانی سے پہچان کی جاسکے۔ یہاں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر جرمنی یہودیوں کے لیے عرصہ حیات تنگ نہ کرتا تو صہیونیوں کی فلسطین میں ریاست قائم کرنے کی تحریک اس قدر زور نہ پکڑ پاتی، جتنا جرمن قانون سازی اور پھر پکڑ دھکڑ کے بعد ہوا۔ یہاں یہ سوال ضرور جنم لیتا ہے کہ کیا ہٹلر صہیونی ایجنڈے پر عمل پیرا تھا اور کیا وہ فلسطین میں صہیونی ریاست کی تشکیل میں برطانیہ اور صہیونی تنظیم سے ہم آہنگ تھا یا یہ دونوں واقعات ایک دوسرے کے ردعمل میں وقوع پذیر ہو رہے تھے۔ اس موضوع پر مزید تفصیلات سامنے لانے کی ضرورت ہے۔
بہرحال فلسطین کی تقسیم کی قرارداد کے بعد فلسطینی علاقے میں یہودیوں اور فلسطینیوں کے مابین خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا، جس میں شدت 1948ء میں صہیونیوں کی جانب سے اسرائیلی ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد آئی۔ بہت سے یہودی ہمسایہ عرب ریاستوں سے فلسطین یا نئی یہودی ریاست کی جانب آئے۔ جیویش ورچوئل لائبریری کے مطابق 1948ء میں ان مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی۔ 1949ء میں تقریبا اڑھائی لاکھ صہیونی اسرائیل آئے، 1950ء میں ایک لاکھ ستر ہزار صہیونی مقبوضہ فلسطین پر قابض ہوئے اور 1951ء میں مزید قابضین کی تعداد ایک لاکھ پچھتر ہزار تھی۔ ورچوئل سائٹ کے مطابق اس کے بعد اتنی بڑی تعداد میں یہودیوں نے مقبوضہ فلسطین یعنی اسرائیل کی جانب ہجرت نہ کی۔
پہلی عرب اسرائیل جنگ مصر، اردن، لبنان، شام اور عراق نے 1948ء میں اسرائیل کے خلاف لڑی۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ برطانوی آشیرباد سے قائم ہونے والی عرب ریاستیں اس جنگ کا حصہ نہیں تھیں، ممکن ہے کہ اخلاقی یا مالی طور پر انھوں نے میدان میں موجود عربوں کی مدد کی ہو، لیکن ان کی واضح عدم موجودگی قابل غور ہے۔ منقسم عرب اس جنگ کو کیسے لڑتے، جو فلسطین کاز کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے میدان میں اترے تھے، یہ جنگ عربوں کی شکست پر منتج ہوئی۔ اس کے بعد 1967ء تک مصر، اردن، شام اور لبنان کے مابین مسلسل کشیدگی ایک اور جنگ کا باعث بنی، تیسری جنگ 1973ء میں اسرائیل نے مصر اور شام سے لڑی۔ ان تمام جنگوں میں فقط اسرائیل کے ہمسایہ ممالک ہی سامنے آئے، باقی عرب دنیا دامے درہمے و سخنے مدد کرتی رہی ہو تو الگ بات ہے، قدمے کوئی بھی میدان جنگ میں وارد نہ ہوا۔
اس کے بعد مقبوضہ فلسطین کے ہمسایہ عربوں کی جانب سے معاہدوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ 1970ء، لبنان اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی بحالی کا معاہدہ 1984ء، اردن کے ہمراہ ہونے والا معاہدہ 1994ء، اوسلو معاہدہ 1993ء مسئلہ فلسطین کو تاریخ کے سرد خانے میں دھکیلنے کی کوششیں تھیں۔ ایسے میں انقلاب اسلامی ایران وقوع پذیر ہوا، جس کی قیادت نے مسئلہ فلسطین کو امت مسلمہ کا بنیادی مسئلہ سمجھا۔ رہبر انقلاب ایران آیت اللہ سید روح اللہ موسوی الخمینی جو امام خمینی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، انہوں نے عرب دنیا کے اس مسئلے کے حوالے سے ردعمل کو دیکھتے ہوئے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا کہ اس قضیہ کو مسلم حکمرانوں کی صوابدید پر چھوڑنا نہایت خطرناک ہے۔
امام خمینی جانتے تھے کہ ہم مسئلہ فلسطین کی یاد کو اقوام متحدہ کے حوالے بھی نہیں کرسکتے۔ اسی لیے انھوں نے سب سے پہلے ایران میں موجود اسرائیلی سفارتخانے کو فلسطینیوں کے حوالے کیا، ایران میں قدس فورس قائم کی گئی اور امام خمینی کا مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے کے لیے سب سے اہم اقدام رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دینا ہے۔ آج پوری دنیا میں اگر فلسطین کے حق میں کوئی منظم آواز بلند ہو رہی ہے تو وہ اسی یوم القدس کے طفیل ہے۔ یوم القدس اسرائیلی ارادوں اور مغربی ممالک کی کوششوں کے برعکس مسئلہ فلسطین کو مسلم معاشروں میں زندہ رکھے ہوئے ہے، چاہے پوری دنیا کے انسان فلسطینیوں کے حق کو فراموش کر دیں، یوم القدس اس مسئلے کی حقیقت کو دنیا کے سامنے آشکار کرتا رہے گا۔ ان شاء اللہ
تحریر: سید اسد عباس
29 نومبر 1947ء کے دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد 181 (II) جو کہ قرارداد تقسیم کے نام سے مشہور ہے، پاس ہوئی، اسی مناسبت سے 29 نومبر کو اقوام متحدہ کی سطح پر یوم یکجہتی فلسطین کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی اس قرارداد کے مطابق اقوام متحدہ نے فیصلہ کیا کہ فلسطین میں یہودی اور عرب ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جس میں یروشلم یعنی بیت المقدس ایک جداگانہ حیثیت کا حامل شہر ہوگا اور اس کا انتظام عالمی اداروں کے تحت ہوگا۔ اب تک اس قرارداد کے مطابق ایک ریاست تشکیل پائی ہے، جس کا نام اسرائیل ہے جبکہ فلسطینی ریاست ستر برس سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود معرض وجود میں نہیں آسکی۔ تقسیم کی اس قرارداد کو فلسطینیوں اور عربوں نے مسترد کیا، تاہم عرب فلسطین کو سلطنت عثمانیہ سے نکل کر برطانوی مینڈیٹ میں جانے سے نہ روک سکے، وہ لیگ آف نیشن کو نہ روک سکے کہ وہ فلسطینی سرزمین پر برطانوی تسلط کو قانونی قرار دے، بلکہ اس کے برعکس نہایت افسوس سے کہا جاسکتا ہے کہ آج کی اکثر عرب ریاستیں برطانوی آشیرباد اور تعاون سے معرض وجود میں آئیں۔
سلطنت عثمانیہ سے عربوں کا اختلاف جس نوعیت کا بھی تھا، ان کو کسی صورت برطانوی ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے مسلمانوں کی ایک مرکزی حکومت کا خاتمہ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ اردن میں شریف مکہ، نجد میں آل عبد العزیز، کویت، بحرین، قطر میں آل ثانی اور آل خلیفہ سب برطانوی ایما پر آئے۔ مسلمانوں نے جب اپنے ذاتی مفادات اور اقتدار کے لیے برطانیہ سے ساز باز کی، اسی دن وہ اپنے اقتدار اعلیٰ اور حقوق کا سودا کر بیٹھے تھے۔ ان عربوں سے کیا توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ فلسطین کے برطانوی مینڈیٹ میں جانے پر احتجاج کریں گے یا فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کے حوالے سے ان کو کوئی اعتراض ہوسکتا تھا۔ بہرحال اقوام متحدہ کے قیام اور 1947ء میں فلسطین کی تقسیم کی قرارداد کے بعد عربوں کی غیرت جاگی اور انھوں نے اس تقسیم کے منصوبے کو قبول کرنے سے انکار کیا، تاہم اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
یہودیوں یا صہیونیوں کی فلسطین میں آبادکاری کا سلسلہ نیا نہ تھا، سلطنت عثمانیہ میں سلطان عبد الحمید کے زمانے سے ہی یہودی فلسطین کے علاقے میں آنا شروع ہوچکے تھے، تاہم یہودیوں کی بڑی تعداد فلسطین پر برطانوی قبضے اور بالفور ڈیکلیریشن 1917ء کے بعد شروع ہوئی۔ 1929ء تک فلسطین کے علاقوں میں صہیونیوں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی تھی کہ دونوں طبقات میں بے چینی اور شدت پسندی کا باعث بنی۔ بیت المقدس میں فلسطینیوں اور صہیونیوں میں جھڑپیں، ہیبرون کے علاقے میں فلسطینیوں کے ہاتھوں 67 صہیونیوں کا قتل اور ایسے ہی واقعات اب فلسطینی معاشرے کا معمول بن چکے تھے۔ 1931ء تک فلسطین کی آبادی کا 17 فیصد یہودی تھے۔ اسی دوران شام سے عز الدین قسام فلسطین میں وارد ہوئے اور انھوں نے ایک مسلح تنظیم کی بنیاد رکھی۔ عرب دباؤ اور عز الدین قسام بریگیڈ کے سبب فلسطین میں صہیونی ہجرت کم ہوگئی۔
جنگ عظیم دوم کے دوران یورپ سے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد فلسطین میں وارد ہوئی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہودیوں کی فلسطین کی جانب ہجرت کی دو وجوہات ہیں، ایک وجہ ان کا اسرائیلی ریاست کے حوالے سے مذہبی عقیدہ ہے اور دوسری وجہ یورپ میں یہودیوں کے لیے ناقابل تحمل حالات زندگی تھے۔ یورپی اقوام یہودیوں کو ایک خارجی نسل کے طور پر دیکھنے لگے، جرمنی میں یہودیوں کو مار بھگانے سے قبل ان کے خلاف قانون سازی کرکے ان کو دیوار سے لگایا جا چکا تھا۔ جرمنی کا سول سروس لاء 1933ء، شہریت کا قانون 1933ء، زرعی زمین کی ملکیت کا قانون 1933ء، ثقافتی سنٹر قائم کرنے کا قانون 1933ء، جرمن خون کے تحفظ کا قانون شامل ہیں۔
یہودیوں کے خلاف دوسری قانون سازی کی لہر 1938ء سے 1939ء میں آئی۔ ان قوانین کے تحت جرمنی میں بسنے والے یہودیوں کو بہت سے بنیادی شہری حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ حتی کہ یہ قانون بھی پاس کیا گیا کہ کوئی یہودی داودی ستارہ پہنے بغیر گھر سے نہیں نکلے گا، تاکہ اس کی آسانی سے پہچان کی جاسکے۔ یہاں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر جرمنی یہودیوں کے لیے عرصہ حیات تنگ نہ کرتا تو صہیونیوں کی فلسطین میں ریاست قائم کرنے کی تحریک اس قدر زور نہ پکڑ پاتی، جتنا جرمن قانون سازی اور پھر پکڑ دھکڑ کے بعد ہوا۔ یہاں یہ سوال ضرور جنم لیتا ہے کہ کیا ہٹلر صہیونی ایجنڈے پر عمل پیرا تھا اور کیا وہ فلسطین میں صہیونی ریاست کی تشکیل میں برطانیہ اور صہیونی تنظیم سے ہم آہنگ تھا یا یہ دونوں واقعات ایک دوسرے کے ردعمل میں وقوع پذیر ہو رہے تھے۔ اس موضوع پر مزید تفصیلات سامنے لانے کی ضرورت ہے۔
بہرحال فلسطین کی تقسیم کی قرارداد کے بعد فلسطینی علاقے میں یہودیوں اور فلسطینیوں کے مابین خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا، جس میں شدت 1948ء میں صہیونیوں کی جانب سے اسرائیلی ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد آئی۔ بہت سے یہودی ہمسایہ عرب ریاستوں سے فلسطین یا نئی یہودی ریاست کی جانب آئے۔ جیویش ورچوئل لائبریری کے مطابق 1948ء میں ان مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی۔ 1949ء میں تقریبا اڑھائی لاکھ صہیونی اسرائیل آئے، 1950ء میں ایک لاکھ ستر ہزار صہیونی مقبوضہ فلسطین پر قابض ہوئے اور 1951ء میں مزید قابضین کی تعداد ایک لاکھ پچھتر ہزار تھی۔ ورچوئل سائٹ کے مطابق اس کے بعد اتنی بڑی تعداد میں یہودیوں نے مقبوضہ فلسطین یعنی اسرائیل کی جانب ہجرت نہ کی۔
پہلی عرب اسرائیل جنگ مصر، اردن، لبنان، شام اور عراق نے 1948ء میں اسرائیل کے خلاف لڑی۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ برطانوی آشیرباد سے قائم ہونے والی عرب ریاستیں اس جنگ کا حصہ نہیں تھیں، ممکن ہے کہ اخلاقی یا مالی طور پر انھوں نے میدان میں موجود عربوں کی مدد کی ہو، لیکن ان کی واضح عدم موجودگی قابل غور ہے۔ منقسم عرب اس جنگ کو کیسے لڑتے، جو فلسطین کاز کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے میدان میں اترے تھے، یہ جنگ عربوں کی شکست پر منتج ہوئی۔ اس کے بعد 1967ء تک مصر، اردن، شام اور لبنان کے مابین مسلسل کشیدگی ایک اور جنگ کا باعث بنی، تیسری جنگ 1973ء میں اسرائیل نے مصر اور شام سے لڑی۔ ان تمام جنگوں میں فقط اسرائیل کے ہمسایہ ممالک ہی سامنے آئے، باقی عرب دنیا دامے درہمے و سخنے مدد کرتی رہی ہو تو الگ بات ہے، قدمے کوئی بھی میدان جنگ میں وارد نہ ہوا۔
اس کے بعد مقبوضہ فلسطین کے ہمسایہ عربوں کی جانب سے معاہدوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ 1970ء، لبنان اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی بحالی کا معاہدہ 1984ء، اردن کے ہمراہ ہونے والا معاہدہ 1994ء، اوسلو معاہدہ 1993ء مسئلہ فلسطین کو تاریخ کے سرد خانے میں دھکیلنے کی کوششیں تھیں۔ ایسے میں انقلاب اسلامی ایران وقوع پذیر ہوا، جس کی قیادت نے مسئلہ فلسطین کو امت مسلمہ کا بنیادی مسئلہ سمجھا۔ رہبر انقلاب ایران آیت اللہ سید روح اللہ موسوی الخمینی جو امام خمینی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، انہوں نے عرب دنیا کے اس مسئلے کے حوالے سے ردعمل کو دیکھتے ہوئے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا کہ اس قضیہ کو مسلم حکمرانوں کی صوابدید پر چھوڑنا نہایت خطرناک ہے۔
امام خمینی جانتے تھے کہ ہم مسئلہ فلسطین کی یاد کو اقوام متحدہ کے حوالے بھی نہیں کرسکتے۔ اسی لیے انھوں نے سب سے پہلے ایران میں موجود اسرائیلی سفارتخانے کو فلسطینیوں کے حوالے کیا، ایران میں قدس فورس قائم کی گئی اور امام خمینی کا مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے کے لیے سب سے اہم اقدام رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دینا ہے۔ آج پوری دنیا میں اگر فلسطین کے حق میں کوئی منظم آواز بلند ہو رہی ہے تو وہ اسی یوم القدس کے طفیل ہے۔ یوم القدس اسرائیلی ارادوں اور مغربی ممالک کی کوششوں کے برعکس مسئلہ فلسطین کو مسلم معاشروں میں زندہ رکھے ہوئے ہے، چاہے پوری دنیا کے انسان فلسطینیوں کے حق کو فراموش کر دیں، یوم القدس اس مسئلے کی حقیقت کو دنیا کے سامنے آشکار کرتا رہے گا۔ ان شاء اللہ