اسرائیلی دستاویز "جیریکو وال” حقیقت یا فسانہ؟

Published by Murtaza Abbas on

syed asad abbas


تحریر: سید اسد عباس

حماس کے سات اکتوبر 2023ء کے حملوں کے بارے میں یہ اطلاعات منظر عام پر آرہی ہیں کہ ان حملوں کی بہت سی تفصیلات کے بارے میں اسرائیل کو پہلے سے آگاہی تھی۔ نیویارک ٹائمز کی 30 نومبر 2023ء کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کو اس حملے کی اطلاع ایک برس قبل ہوئی۔ اس حوالے سے نیویارک ٹائمز نے دستاویزات، ای میلز اور انٹرویوز کا حوالہ دیا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے اس رپورٹ کے حوالے سے کوئی ردعمل دینے سے انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فی الحال ہم جنگ لڑ رہے ہیں، ان معاملات کو بعد میں دیکھیں گے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق چالیس صفحات پر مشتمل اسرائیلی ادارے کی خفیہ رپورٹ جسے "Jericho Wall” کا نام دیا گیا ہے، اس میں اس حملے سے متعلق بہت سی تفصیلات درج تھیں۔ اس اخبار نے لکھا "اگرچہ اس دستاویز میں حملے کی تاریخ کا تعین نہیں تھا، تاہم جو تفصیلات اس حملے کی بیان کی گئی ہیں، وہ حیران کن حد تک ویسی ہی ہیں، جیسے حملہ انجام پایا۔”

نیو یارک ٹائمز کے مطابق اس رپورٹ میں جو حماس سے حاصل کردہ معلومات سے ترجمہ کی گئی ہیں، اس میں اسرائیلی افواج کی سرحدی علاقوں میں تعداد، حملے کے مقامات، حملہ آورں کی تعداد، کمیونیکیشن کے مراکز، مجاہدین کے نعرے، قیدی بنانے، اسرائیلی سرزمین کے اندر کارروائیوں، میزائل حملے، ڈرونز کے استعمال کے بارے میں تفصیلات درج ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی افواج کے اندر اس حوالے سے حیرت موجود رہی کہ اسرائیلی مراکز کے بارے اطلاعات حماس کو کہاں سے حاصل ہو رہی ہیں۔ اس دستاویز کو اسرائیلی افواج کے سربراہان اور انٹیلیجنس کے سربراہان کو بھی بھیجا گیا، تاہم نیویارک ٹائمز کے مطابق اس رپورٹ کو کبھی بھی سنجیدہ نہیں لیا گیا۔

جولائی 2023ء میں اسرائیلی سگنل انٹیلیجنس 8200 یونٹ جو کہ سرحدوں کی نگرانی پر مامور ہے، اس کی ایک افسر نے حملے سے تین ماہ قبل اعلیٰ عہدیداروں کو اطلاع دی کہ خفیہ دستاویز کے مطابق حماس نے سرحدی علاقوں کے قریب پورے دن پر مشتمل ایک مشق انجام دی ہے، تاہم اس یونٹ کے کمانڈنگ کرنل نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا۔ کرنل نے لکھا "میں اس منظر نامے کو خیالی تصور کرتا ہوں۔” دی گارڈین اخبار کی 12 اکتوبر 2023ء کی اشاعت کے مطابق امریکی رکن پارلیمان ایم سی کول نے بتایا کہ ہمیں مصدقہ اطلاعات ہیں کہ مصر نے حملوں سے تین دن قبل اسرائیل کو حماس کی سرگرمیوں اور حملے سے متعلق آگاہ کیا تھا، تاہم یہ معلوم نہیں کہ یہ اطلاع کس سطح پر دی گئی۔ ایک مصری ذمہ دار جو حماس اور اسرائیل کے مابین مصالحت کاری کی خدمات بھی انجام دیتا رہا ہے، اس نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اس نے خود اسرائیلی ذمہ داران کو متعدد مرتبہ آگاہ کیا کہ "کچھ بڑا ہونے والا ہے۔”

حال ہی میں بی بی سی نے بھی اسی سے ملتی جلتی ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں غزہ اسرائیل بارڈر کی نگرانی کرنے والی بہت سی خاتون فوجی افسران اور دیگر عہدیداروں کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ان کو بھی حماس کی سرگرمیوں کے بارے میں اطلاع تھی اور انھوں نے اپنے افسران کو کسی بڑی کارروائی کے بارے میں آگاہ بھی کیا تھا۔ ان خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غزہ کے ساتھ سرحد پر اسرائیل کی آنکھوں اور کان کے فرائض سرانجام دیتی ہیں۔ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کے حملوں سے پہلے ان خواتین نے سرحد کے ساتھ مشکوک حرکات دیکھنا شروع کر دی تھیں۔ جیسا کہ چھاپہ مار ٹیموں کی مشقیں، لوگوں کو یرغمال بنانے کی فرضی مشقیں، سرحدی باڑوں کو کاٹنے اور دیواروں کو دھماکے سے اڑانے کی مشقیں، ٹینکوں کو تباہ کرنے کی مشقیں وغیرہ۔ سرحدی نگہبانوں کے مطابق یہ مشقیں وسطی غزہ میں انجام دی جا رہی تھیں، جن کو سرویلنس کرنے والے غباروں پر لگے کیمروں کے ذریعے دیکھا گیا۔

انہی نگہبانوں میں سے ایک نوا (شناخت چھپانے کے لیے نام تبدیل کیا گیا ہے) کہتی ہے کہ وہ جو کچھ سرحد کے پار دیکھ رہی تھیں، وہ اس کی اطلاع باقاعدگی سے انٹیلیجنس اور سینیئر افسران کو کر رہی تھیں اور اس سے زیادہ وہ کچھ کرنے سے قاصر تھیں، کیونکہ اُن کا کام صرف مشاہدہ کرنا اور اس کی اطلاع افسران کو کرنا تھا۔ خواتین اہلکاروں کو واضح طور پر معلوم ہوچکا تھا کہ حماس کسی بڑے منصوبے کی تیاری کر رہی تھی اور نوا کے الفاظ میں یہ سب ایسا تھا کہ جیسے ایک غبارہ ہو، جو پھٹنے کے قریب ہو۔ ان میں سے کچھ کے لیے تو یہ بات ایک مذاق بن کر رہ گئی تھی۔ یہ سب سرحد پر قائم نگرانی کے اڈوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے یہ مذاق کیا کرتی تھیں کہ جب حملہ ہوگا تو اُس دن اور حملے کے وقت ڈیوٹی پر کون ہوگا۔؟

ایک خاتون اہلکار رونی لفشٹز، جو حماس کے حملے کے وقت بھی خدمات انجام دے رہی تھیں، اس کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن چیز جو انھوں نے گذشتہ ہفتوں میں دیکھی تھی، وہ حماس کے جنگجوؤں سے بھری گاڑیوں کا باقاعدہ گشت تھا، جو باڑ کے دوسری طرف واچ پوسٹوں پر رکتے تھے اور کیمروں نیز پوسٹوں کی تصاویر لیتے تھے۔ اسرائیلی نگران فوجی نوا کا کہنا ہے کہ وہ گن نہیں سکتی کہ اس نے اس کی دیگر ساتھیوں نے کتنی مرتبہ مشکوک سرگرمیوں کی رپورٹ اعلیٰ افسران کو کی۔ نوا کے مطابق ان رپورٹس کو یونٹ کے اندر ہر ایک نے اسے سنجیدگی سے لیا، مگر یونٹ سے باہر کے لوگوں نے اس کے بارے میں کچھ نہیں کیا۔ اویگیل ایک اور فوجی نگہبان کا کہنا ہے کہ جب سینیئر عہدیدار، ان کے مرکز پر آتے تھے تو کوئی بھی ہم سے بات نہیں کرتا تھا، ہماری رائے نہیں پوچھتا تھا یا ہمیں اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا جاتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔

گیل کہتی ہیں کہ اپنے یونٹ میں کمانڈر کی حیثیت سے انھیں جو معلومات اہلکاروں کی جانب سے موصول ہوتیں، وہ اسے اپنے سپروائزر کو دیتیں تھیں۔ وہ کہتی ہے کہ اسے بتایا جاتا کہ ان رپورٹس کو دیکھا جائے گا، مگر اس سے آگے کبھی کچھ نہیں ہوا۔ ان میں سے کئی خواتین کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی مایوسیوں اور پریشانیوں کا اظہار اپنے اہلخانہ کے ساتھ بھی کیا۔ اسرائیلی افواج میں ہونے والی اموات میں سے اکثر اموات انہی خواتین کی ہیں، جنھوں نے اسرائیل کے لیے سرحد کی بہت قریب سے نگرانی کی۔ مذکورہ بالا شواہد سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل ان حملوں کے بارے میں آگاہ تھا۔ سینیئر افسران جان بوجھ کر سرحدی نگران فورس کی جانب سے موصول ہونے والی اطلاعات کو سنجیدہ نہیں لے رہے تھے۔

ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے بعض سینیئر عہدیداروں کی جانب سے کوتاہی برتی گئی، جس کی انکوائری کا آغاز ہوچکا ہے، تاہم کوتاہی ایک یا دو دفعہ ہوتی ہے، پورے ایک برس کوتاہی، خفیہ رپورٹ موجود ہونے کے باوجود کوتاہی ایسا اسرائیل جیسے ملک سے متوقع نہیں ہے، جس کے خطے میں ہزار دشمن موجود ہیں۔ ایسی غلطی تو ایک علاقے کا عام تھانیدار بھی نہیں کرتا، جو اسرائیلی افسران اور انٹیلیجنس کے ذمہ دار کر رہے تھے۔ مصر کی جانب سے موصول ہونے والی حکومتی اطلاع کو بھی ہوا میں اڑا دیا گیا، جو واضح طور پر اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ کچھ بڑا تھا، جو اسرائیلی فیصلہ سازوں کے دماغ میں چل رہا تھا۔ ان رپورٹس کا ایک اور پہلو بھی ہوسکتا ہے، وہ یہ تاثر دینا کہ سب کچھ اسرائیلی افواج کے علم میں تھا، حماس نے کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا۔ حماس کی کارروائی فقط چند ایک افسران کی سستی اور کاہلی کا نتیجہ ہے۔

اس کے بھی امکانات موجود ہیں کہ اسرائیل نے 7 اکتوبر کی ناکامی کو چھپانے کے لیے ایک کہانی گھڑی ہو، جس میں حملے کی ذمہ داری چند افسران پر ڈال دی جائے۔ آج غزہ میں جاری نقل مکانی، آبادیوں کی تباہی، بڑے پیمانے پر آبادی کا انخلاء پہلے امکان کو تقویت دیتے ہیں۔ آج ایک دوست نے بتایا کہ ان کا دفتر ایک ایسی گلی میں شفٹ ہوگیا ہے، جہاں کچھ سابق فوجی افسران رہائش پذیر ہیں۔ دوست کا کہنا تھا کہ اس گلی میں کسی اجنبی کا داخل ہونا مشکل ہے۔ اگر کوئی انسان اس گلی میں غلطی سے داخل ہو جائے تو سکیورٹی کے افراد فوراً اس کے سر پر پہنچ جاتے ہیں اور پوچھ گچھ کرتے ہیں کہ آپ یہاں کیوں گھوم رہے ہیں۔ اس واقعہ سے مجھے خیال آیا کہ اگر مصر نے اطلاع دی تھی، ایک برس پرانی حملے کی رپورٹ موجود تھی اور سرحدی گارڈ حماس کی سرگرمیوں کے حوالے سے مطلع کر رہے تھے تو کیسے اسرائیلی ذمہ داران نے اس سب کو سنجیدہ نہ لیا۔؟ واللہ اعلم


0 Comments

جواب دیں

Avatar placeholder

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے