عالمی پابندیوں میں ایران کی پیشرفت(2)

Published by Murtaza Abbas on

syed asad abbas


تحریر: سید اسد عباس

گذشتہ تحریر میں ہم نے ایران پر مختلف عالمی اداروں اور ممالک کی جانب سے عائد پابندیوں کے بارے میں جانا۔ اتنی پابندیوں کے ساتھ کسی بھی ملک کا دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ روابط رکھنا، تجارت کرنا اور اپنی معیشت کو بہتر بنانا تقریباً ناممکن ہے۔ شمالی کوریا کو ہی دیکھا جائے تو اس کے مختلف علمی شعبوں میں 1996ء سے 2022ء تک لکھے جانے والے تحقیقی مقالات کی کل تعداد 1901 ہے۔ یہ ملک فقط دفاعی شعبے بالخصوص میزائل ٹیکنالوجی میں ہی ترقی کر رہا ہے، دیگر شعبوں میں اس ملک کی حالت کچھ اچھی نہیں۔ شمالی کوریا دنیا کے کم تنخواہ والے ملکوں میں شمار ہوتا ہے، اس ملک کے عام شہری کی سالانہ آمدن دنیا کی کم ترین آمدن میں سے ہے۔ ملک میں بجلی کا بحران رہتا ہے۔ بجلی کی درآمد کے باوجود اس ملک کا گرڈ سسٹم ایسا نہیں کہ وہ شہریوں کی ضروریات کو پورا کرسکے، جبکہ اس کے مقابل جنوبی کوریا ترقی کے میدان میں دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک سے مقابلہ کر رہا ہے۔

شمالی کوریا سفارتی میدان میں بھی دنیا سے کٹا ہوا ملک ہے، جبکہ اس کے برعکس اتنی ہی بلکہ اس سے سخت پابندیوں کے باوجود ایران کے دنیا کے دوسرے ممالک اور ہمسایوں سے روابط مثالی ہیں۔ ایران اقوام متحدہ سمیت علاقائی تعاون تنظیموں کا رکن ہے۔ حال ہی میں ایران شنگھائی تنظیم اور برکس کا رکن بھی بنا ہے۔ ٹائمز رینکنگ ڈیٹا بیس میں 2012ء سے 2014ء تک ایران کی صرف ایک یونیورسٹی عالمی معیار کی یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی تھی، لیکن 2022ء میں 99 ممالک کی 160 بہترین یونیورسٹیوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی 58 یونیورسٹییاں شامل ہیں۔ 2022ء کی ٹائمز رینکنگ میں 26 اسلامی ممالک ہیں، جن میں اعلیٰ یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ ان ممالک میں یونیورسٹیوں کی تعداد کے لحاظ سے ایران میں 58 یونیورسٹیاں، ترکی میں 54 اور مصر میں 23 یونیورسٹیاں ہیں۔

ایران اس وقت سائنس میں دنیا میں بارہویں نمبر پر ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ قابل اعتماد حوالہ ڈیٹا بیس (ISI) کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران اسلامی ممالک کی کل سائنسی و علمی پیداوار میں سے 22 فیصد سے زیادہ حصہ ہے۔ ایران کی سائنسی ترقی کی شرح عالمی اوسط سے گیارہ گنا زیادہ ہے۔ایس جے آر، جو تحقیقی مقالات کی ایک ڈیٹا بیس ہے، اس کی سائٹ کے مطابق ایران اس وقت تحقیقی مقالات کی تحریر کے حوالے سے دنیا میں اکیسویں نمبر پر ہے۔ 1996ء سے 2022ء تک ایرانی لکھاریوں کی جانب سے مختلف شعبہ جات میں لکھے جانے والے کل مقالات کی تعداد آٹھ لاکھ سے زیادہ ہے، جبکہ پاکستان اس رینکنگ میں اکتالیسویں نمبر پر ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایران ترکی کے بعد دوسرا ملک ہے، جس میں ریسرچ پیپرز جمع کروائے گئے۔ 1996ء میں ایرانی ریسرچ پیپرز کی تعداد 851 تھی اور دنیا میں ایران کی رینکنگ 54 نمبر پر تھی، جو اب ترقی کرکے اکیس تک پہنچ چکی ہے۔

1996ء میں پاکستان تحقیقی مقالات کی رینکنگ کے لحاظ سے 51 ویں نمبر پر تھا۔ فقط 2022ء میں ایران میں 78 ہزار کے قریب تحقیقی مقالات تحریر کیے گئے اور اس برس ایران کی عالمی رینکنگ 15ویں نمبر پر تھی۔ پاکستان 41 ہزار مقالات کے ساتھ 2022ء میں 21ویں نمبر پر رہا۔ ایران نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں 56ویں نمبر سے 19ویں نمبر پر آیا، ادویات سازی کے علم میں ایران 24ویں نمبر سے 8ویں نمبر پر آیا، نیوکلیئر سائنسز میں ایران 80ویں نمبر سے 12ویں نمبر پر آیا، ایرو سپیس انجئیرنگ کے شعبے میں 45ویں نمبر سے 12ویں نمبر پر آیا۔ اس کے علاوہ ایران نے زندگی کے دیگر شعبہ جات میں بھی خاطر خواہ ترقی کی ہے، جن میں صحت عامہ، زراعت، سٹیل انڈسٹری، ہوا بازی اور دفاع کے شعبے شامل ہیں۔

ایران نے دل کے والو بنائے، بہرے پن کے علاج کی ٹیکنالوجی حاصل کی، ایٹمی توانائی حاصل کی، پاور ٹرانسمیشن تیار کرنے والا تیسرا ملک بنا، سپیس ٹیکنالوجی کے مکمل مدار کا حامل آٹھواں ملک بنا، ورچوئل نیٹ ورک سکیورٹی میں ایران کا پانچواں نمبر ہے، لیزر ٹیکنالوجی میں دسواں نمبر ہے، دنیا کی دوسری بڑی سائبر آرمی، کلوننگ، جینیات، سولر انرجی، آبدوز سازی، روبوٹ کی تیاری، ہڈیوں کے گودے کی پیوندکاری، دودھ کے دانتوں سے بنیادی خلیہ جات کی تیاری، مصنوعی اعضاء کی ساخت غرضیکہ سائنس کا کونسا شعبہ ہے، جس میں ایران نے پیشرفت نہیں کی۔ ایران نے گذشتہ چند برسوں میں دفاعی ساز و سامان کی تیاری، ایرو سپیس، سیٹلائیٹ کے شعبے میں بھی خود کفالت حاصل کر لی ہے۔ اس وقت ایران کے ڈرونز اپنی صلاحیت کا لوہا پوری دنیا میں منوا رہے ہیں۔

ایسا بھی نہیں کہ کمیاں نہیں ہیں، لیکن اگر شمالی کوریا کی مثال کو سامنے رکھ کر موازنہ کیا جائے تو ایران نے بہت خوبصورت انداز سے عالمی پابندیوں کا سامنا کیا ہے۔ ایران کی علمی، تحقیقی، دفاعی، سیاسی، سفارتی اور معاشرتی پیشرفت کا سلسلہ روز افزوں جاری ہے۔ یہ قوم مردانہ وار تمام تر پابندیوں اور مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ ایران نے ہر میدان میں ترقی کرکے نہ فقط استعمار اور استکبار جہان کے سیاسی، سفارتی اور فوجی تسلط کو نیچا دکھایا ہے بلکہ علم اور تحقیق کے میدان بھی ایرانی دانشور اور محققین اپنی صلاحیات سے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ایران پوری مسلم امہ کے لیے ایک مثال ہے، جس نے دینی اقدار اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ترقی کرکے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ اسلامی تہذیب کوئی متروک یا شکست خوردہ تہذیب نہیں بلکہ آج بھی انسانیت کے مسائل کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔