جنوبی افریقہ کا عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کیخلاف نسل کشی کا مقدمہ

Published by Murtaza Abbas on

syed asad abbas

تحریر: سید اسد عباس

اقوام متحدہ کے 1948ء میں جاری کردہ نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کے مطابق، نسل کشی کا مطلب ہے کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کارروائیوں کا کمیشن۔ نسل کشی درج ذیل اقدامات کو تصور کیا جاتا ہے:
گروپ کے ارکان کو قتل کرنا۔
گروپ کے اراکین کو شدید جسمانی یا نفسیاتی نقصان پہنچانا۔
جان بوجھ کر گروپ کو زندگی کے حالات کے تابع کرنا، جس کا مقصد اسے جسمانی طور پر، مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنا ہے۔
گروپ کے اندر بچوں کی پیدائش کو روکنے کے لیے اقدامات نافذ کرنا۔
بچوں کو گروپ سے دوسرے گروپ میں زبردستی منتقل کرنا۔

جنوبی افریقہ نے 29 دسمبر 2023ء کو دنیا کے 193 ممالک کے مابین تنازعات کو حل کرنے والی عالمی عدالت انصاف میں صہیونی حکومت کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ دائرکر دیا۔ یہ مقدمہ اگرچہ مسلمان ممالک کی جانب سے دائر ہونا چاہیئے تھا، تاہم شاید کسی بھی مسلمان ملک میں اتنی اخلاقی و سیاسی جرات نہیں ہے کہ وہ صہیونی مظالم کے خلاف یہ مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں لے کر جاتا۔ ہم سیاسی بیانات، مظاہروں اور ہائے، ہوئی سے آگے نہیں بڑھتے۔ بہرحال جنوبی افریقہ نے یہ مقدمہ دائر کرکے نہ فقط اپنی انسانیت کو ثابت کیا ہے بلکہ اپنی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی برتری کو بھی راسخ کر لیا ہے۔ یہ مقدمہ جہاں قابل تعریف ہے، وہاں جرات و ہمت کا متقاضی بھی ہے، کیونکہ یہ مقدمہ فقط صہیونی حکومت کے خلاف نہیں بلکہ پورے مغربی بلاک کے خلاف ہے، جو صہیونی حکومت کی پشت پناہی کر رہا ہے۔

اس مقدمے کی سماعت 11 اور 12 جنوری کو ہو رہی ہے، جس میں جنوبی افریقہ کے وکلاء اور اسرائیلی وکلاء عالمی عدالت انصاف کے سامنے پیش ہوں گے۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر درخواست میں پیش کیے گئے دلائل کے مطابق، زیر بحث قتل و غارت گری کی کارروائیوں میں فلسطینیوں کو قتل کرنا، شدید جسمانی اور نفسیاتی نقصان پہنچانا اور جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کرنا شامل ہیں، جن کا مقصد "ایک گروہ کے طور پر ان کی جسمانی تباہی کو حاصل کرنا” ہے۔ 84 صفحات پر مشتمل درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام کے عوامی بیانات ہمارے دعوے کا ثبوت ہیں، جن میں فلسطینیوں کی تباہی کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔

اس مقدمے نے اسرائیل کو پریشان کر دیا ہے، اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو کا کہنا ہے کہ ان کا ملک غزہ کے اندر اپنی فوجی مہم میں "بے مثال اخلاقیات” کے ساتھ کام کر رہا ہے، جبکہ اسرائیلی حکومت کے ترجمان نے جنوبی افریقہ کے مقدمے کا موازنہ "خون کی توہین” سے کیا ہے۔ جنوبی افریقہ کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت انصاف فیصلہ کرے کہ کیا اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے یا نہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ پاکستان ممتاز بلوچ نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ پاکستان جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالت انصاف کے سامنے درخواست کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کو بھی یہی تحفظات ہیں، جو درخواست میں بیان کیے گئے ہیں۔

ترجمان کے مطابق اس وقت فلسطینیوں کے خلاف جاری جارحیت اور کارروائیاں جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے اور یہ نسل کشی کے مترادف ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان فوری طور غیر مشروط جنگ بندی اور فلسطینی عوام کے قتل عام کو روکنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ انھوں نے فوری طور پر فلسطینی لوگوں کے لیے انسانی امداد کی بحالی کو بھی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ جنوبی افریقہ کی عالمی عدالت انصاف میں جمع کروائی گئی 84 صفحات پر مشتمل قانونی درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات "نسل کشی کے مترادف” ہیں، کیونکہ ان کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کے ایک اہم حصے کو تباہ کرنا ہے۔

یاد رہے کہ سات اکتوبر 2023ء کو حماس کے سینکڑوں جنگجو غزہ سے جنوبی اسرائیل میں داخل ہوئے تھے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اور اس حملے میں 1300 افراد ہلاک جبکہ 240 کو یرغمال بنا کر واپس غزہ لے جایا گیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیلی ردعمل کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک غزہ میں 23000 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، ان میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت میں لبنان کی سابق وکیل دیالہ شہادیہ کہتی ہیں”نسل کشی کو ثابت کرنے سے زیادہ اہم چیز تباہ کرنے کے ارادے کو ثابت کرنا ہے اور یہی وہ چیز ہے، جو جنوبی افریقہ کی درخواست میں شامل ہے، کیونکہ اس میں اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ کا صفایا کرنے اور فلسطینیوں کو قتل کرنے کا مطالبہ کرنے والی عوامی تقاریر کو دستاویز کیا گیا ہے۔

اسرائیل جنوبی افریقہ کے دعوے کو بے بنیاد کہ رہا ہے، اس نے اپنے سفارتکاروں کو اس مقدمے کے حوالے سے سفارتکاری کے لیے کہا ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ کچھ اسرائیلی اس مقدمے کے حق میں پٹیشن پر بھی دستخط کر رہے ہیں، جس میں کئی ایک اسرائیلی عہدیدار بھی شامل ہیں۔ مسلمان ممالک کو اب ہمت کرکے اس مقدمے کے شواہد کے حوالے سے جنوبی افریقہ کی مدد کرنی چاہیئے، تاکہ یہ مقدمہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکے۔ اس مقدمے میں خواہ کتنی ہی دیر کیوں نہ لگے، یہ مقدمہ اسرائیل کی بربریت کو ثابت کرنے کے لیے ایک اہم اقدام ہوگا۔ اس مقدمے کے بعد یقیناً اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں میں کمی واقع ہوگی، چونکہ اب یہ مقدمہ عالمی عدالت انصاف کے تحت ہے، لہذا اندھا دھند کارروائی کرنا ممکن نہیں رہا، جو ایک خوش آئند خبر ہے۔


0 Comments

جواب دیں

Avatar placeholder

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے