ایران پاکستان تناؤ، اعتماد و ہم آہنگی کا فقدان

Published by Murtaza Abbas on

syed asad abbas

تحریر: سید اسد عباس

برصغیر، بالخصوص پاکستانی خطے اور ایران کا تعلق دہائیوں پر نہیں بلکہ صدیوں پر مشتمل ہے۔ محمد بن قاسم کا لشکر جو پاکستان کی سرزمین سندھ پر وارد ہوا، وہ عراق سے ایران کے رستے ہی آیا تھا۔ محمد بن قاسم سے قبل بھی اہل فارس اور اہلیان برصغیر کے روابط کا تذکرہ کتب تاریخ میں موجود ہے۔ محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، تیمور اور بابر کا تعلق تو تھا ہی فارس سے۔ ایران اور برصغیر کے روابط کو عروج ہمایوں کے دور میں حاصل ہوا، جب مغل بادشاہ ہمایوں شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران میں پناہ گزین ہوا اور پھر 1555ء میں ایک ایرانی لشکر کے ہمراہ برصغیر میں داخل ہوا۔ ہمایوں کے لشکر میں آنے والے سرداروں کی نسلیں آج بھی پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں۔ قزلباش خاندان، شیرازی سادات کا خانوادہ انہی خانوادوں میں سے ہے۔

فارسی زبان برصغیر کی سرکاری زبان قرار پائی، قدیم دستاویزات، کتب، اشعار سب فارسی میں ہی تھے۔ دینی مدارس سے لے کر حکومتی ایوانوں تک تقریباً سات سو برس فارسی برصغیر کی سرکاری زبان رہی۔ یہاں تک کہ 1836ء میں انگریز حاکم چارلس ٹیری نے انگریزی زبان کو سرکاری زبان کے طور پر روشناس کروایا۔ اس کے باوجود علامہ محمد اقبال کی کتاب اسرار خودی اور برصغیر کے دیگر لکھاریوں کی فارسی تحریریں، اس زبان سے برصغیر کے باسیوں کے تعلق کو واضح کرتی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ایران وہ پہلا ملک ہے، جس نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح ایران سے سفارتی روابط کو بہت اہمیت دیتے تھے، اسی وجہ سے آپ نے اپنے معتمد ساتھی راجہ غضنفر علی خان کو ایران کے سفیر کے طور پر تعینات کرکے ایران بھیجا۔

65 کی جنگ، 71 کی پاک بھارت لڑائی میں ایران ہمیشہ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا رہا۔ بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند تحریک کو کچلنے میں بھی ایران نے پاکستان کا ساتھ دیا، تاہم انقلاب اسلامی ایران کے بعد سے ایران پاکستان تعلقات میں پہلے جیسی گرمجوشی نہ رہی۔ ایران پاکستان روابط میں سرد مہری کی پہلی وجہ ایران کا مغربی بلاک سے نکلنا تھا۔ پاکستان سینٹو کا ممبر تھا اور امام خمینی کا ایران سینٹو کا مخالف ہوگیا۔ یہ ان دونوں ممالک کے مفادات میں دوری کی پہلی اینٹ تھی۔ ایرانی انقلاب کی نظریاتی ترویج نے جہاں خطے کے دیگر ممالک کو متاثر کیا، وہاں پاکستان میں بھی اس کے اثرات دیکھے گئے، جو عرب ممالک کی مانند پاکستانی حکومت کے لیے بھی قابل تحمل نہ تھے۔ اس نظریاتی ترویج کو روکنے کے لیے پاکستان میں مخالف مسلکی، لسانی و سیاسی گروہوں کی بنیاد رکھی گئی اور نوبت قتل و غارت تک پہنچ گئی۔

اسی مسلکی قتل و غارت کے دوران نوے کی دہائی میں پاکستان میں کچھ ایرانی سفارتکار بھی قتل ہوئے۔ جس نے پاک ایران روابط کو کم ترین سطح پر پہنچا دیا۔ 2000ء کی دہائی میں ایک مرتبہ پھر پاک ایران روابط نارملائزیشن کی جانب آنے لگے، تاہم ان میں وہ گرمجوشی نہ تھی، جو قیام پاکستان کی پہلی نصف صدی میں رہی۔ پاکستان اور ایران میں تجارتی روابط کبھی بھی اس سطح کے نہیں رہے، جس سطح پر ہونے چاہیئے تھے۔ اس کی ایک وجہ ایران پر عالمی پابندیاں ہیں، دوسری وجہ بارڈر ایریا میں بنیادی انفرا سٹرکچر کا نہ ہونا، تجارتی لین دین کے لیے بینکاری کے نظام کی عدم موجودگی ہے۔ ایران اور پاکستان میں اشیاء کی زیادہ تر ترسیل سمگلنگ کے ذریعے ہی ہوتی رہی ہے۔بارڈر کے علاقے جو زیادہ تر بلوچ آبادی پر مشتمل ہیں، میں بھی سکیورٹی کے مسائل روز کا معمول ہیں۔

ایران مخالف بلوچ پاکستان میں پناہ گزین ہیں اور پاکستان مخالف بلوچ ایران میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ایران اور پاکستان میں ہونے والی تازہ ترین کارروائیاں انہی بلوچ گروہوں کی وجہ سے عمل میں آئیں۔ ایران میں گذشتہ ایک برس میں بہت سے دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں، جن میں بارڈر فورسز پر حملے، بلوچ علاقوں میں موجود تھانوں پر حملے، شہری علاقوں میں حملے، امام زادوں کے مزارات پر حملے شامل ہیں۔ ان واقعات کا تازہ ترین واقعہ کرمان میں پیش آیا، جس میں تقریباً سو کے قریب شہری شہید ہوئے۔ ایران نے ان واقعات کے ردعمل کے طور پر عراق کے کرد علاقے اربیل، شام میں دہشت گردوں کے ٹھکانے اور پاکستان کے بلوچ علاقے میں میزائل حملے کیے۔ عراق حکومت نے ایران کی جانب سے کیے جانے والے ان حملوں کی مذمت کی۔

پاکستان جس کے علاقے میں یہ پہلا حملہ تھا، اس نے اس حملہ کے جواب میں سفارتی روابط کو منقطع کر لیا اور جواباً ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان کے علاقے سراوان میں میزائل داغے۔ ایرانی وزیر خارجہ کے مطابق ہم ایک عرصے سے پاکستانی حکومت کو کراس بارڈر دخل اندازی کے بارے آگاہ کر رہے تھے اور اس حملے کے حوالے سے بھی میری پاکستانی وزیر خارجہ سے بات ہوئی تھی۔ پاکستان نے ایران کی جانب سے میزائل حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور جوابی پریس ریلیز میں لکھا کہ ہم بھی ایرانی اداروں کو کراس بارڈر دخل اندازی کے بارے آگاہ کر رہے ہیں، تاہم اس حوالے سے کبھی عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی۔ دونوں ممالک نے دعویٰ کیا کہ ہم نے دوسرے ملک کے شہریوں پر نہیں بلکہ غیر ملکی دہشت گردوں پر حملہ کیا ہے۔ دونوں جانب سے ہونے والے حملوں میں تقریباً پانچ بچے اور دو خواتین قتل ہوئیں۔

خدا کا شکر ہے کہ دونوں ممالک نے دانشمدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفارتی روابط کو بحال کر لیا ہے، تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک اپنے روابط میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات کو گفت و شنید کے ذریعے سنجیدگی سے حل کریں۔ ایران اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بلین ڈالرز کی تجارت کر رہا ہے، تاہم پاکستان اور ایران کی تجارت کبھی بھی ملین کی حد عبور نہیں کر پائی۔ ایران پاکستان کی توانائی کی مشکلات کے حل میں ہماری مدد کرسکتا ہے، اسی طرح پاکستان سے ایران کی خوراک، ادویات، سرجیکل پراڈکٹس، دفاعی مصنوعات کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔ روابط کو بڑھانے کی نیت کی جائے تو ان کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ ایران اور پاکستان کے مشترکات ان کے تنازعات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ ہمیں چین کے عالمی روابط سے سبق لیتے ہوئے اپنے سیاسی مسائل کے باوجود اپنے مشترکات کی بنیاد پر روابط کو فروغ دینا چاہیئے۔ ایران اور پاکستان کے اعتماد اور ہم آہنگی پر مبنی روابط خطے کی کلی صورتحال کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔


0 Comments

جواب دیں

Avatar placeholder

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے