عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عالمی ردعمل

Published by Murtaza Abbas on

syed asad abbas


تحریر: سید اسد عباس

عالمی عدالتِ انصاف نے جنوبی افریقہ کا کیس نہ سننے کی اسرائیلی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے پاس جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف غزہ میں مبینہ نسل کشی سے متعلق کیس سننے کا اختیار ہے۔ عدالت کی جانب سے اسرائیل کو غزہ میں ہلاکتوں اور نقصان کم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، تاہم اس فیصلے میں اسرائیل کو غزہ میں فوجی آپریشن بند کرنے یا جنگ بندی کا حکم نہیں دیا گیا۔ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے 26 جنوری 2024ء کو سُنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ عدالت اسرائیل کو حکم دیتی ہے کہ وہ اپنے اختیار میں موجود تمام اقدامات اٹھائے، تاکہ غزہ میں نسل کشی کے مترادف واقعات سے بچا جا سکے اور نسل کشی پر اُکسانے والوں کو سزا دی جائے۔ عالمی عدالت انصاف نے مزید کہا کہ اسرائیل اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی فوجیں غزہ میں نسل کشی نہ کریں اور مبینہ نسل کشی کے شواہد کو محفوظ رکھا جائے۔

عالمی عدالت انصاف نے یہ فیصلہ جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ میں نسل کشی کے حوالے سے قانونی درخواست کے جواب میں دیا۔ اس عدالت نے گیارہ اور بارہ جنوری کو اس مقدمے کی سماعت کی، جس میں جنوبی افریقہ اور اسرائیل کے وکلاء عالمی عدالت انصاف کے سامنے پیش ہوئے۔ عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ اسرائیل کو عدالت کے سامنے ایک ماہ کے بعد ایک رپورٹ پیش کرنی ہوگی، جس میں یہ بتانا ہوگا کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی سے بچنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔ عدالت نے لکھا کہ "اس فیصلے سے اسرائیل پر عالمی آئین کے مطابق ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں۔” فیصلے میں لکھا گیا کہ اسرائیل کو غزہ میں انسانی امداد اور بنیادی سروسز کی فراہمی کے لیے "فوری اور مؤثر اقدامات اٹھانے” کی ضرورت ہے۔

عدالت نے کہا ہے کہ یہ نسل کشی پر عدالت کا حتمی فیصلہ نہیں بلکہ عبوری حکم ہے، اس کیس کا مکمل فیصلہ آنے میں ابھی کئی سال لگ سکتے ہیں، تاہم جن اقدامات کا اعلان کیا گیا، ان کے باعث فلسطینیوں کو غزہ میں تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسرائیل کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس بارے میں کیا ردِعمل دیتا ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنا لازمی ہے، لیکن کوئی ایسا طریقہ کار موجود نہیں ہے، جس کے تحت ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔اٹلانٹک کونسل کے وکیل کیلسٹی کمیوٹک کا ان احکامات کے حوالے سے کہنا ہے: "عدالت کے حکم نامے نے ایک طرح سے اسرائیل کی مدد کرنے والوں کے لیے نوٹس جاری کر دیا ہے۔ یہ احکامات اگرچہ اس چیز کا فیصلہ کرنے کے لیے نہیں تھے کہ آیا اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مرتکب ہوا ہے یا نہیں، لیکن مقدمے کی سماعت کو جاری رکھنا اس چیز کا واضح اظہار ہے کہ جنوبی افریقہ کی جانب سے بتائے گئے بعض اسرائیلی اقدامات نسل کشی کے عالمی کنونشن کے زمرے میں آتے ہیں۔”

امریکی پالیسی کے ماہر اٹلانٹک کونسل کے ڈائیکٹر توقا نصیرات کہتے ہیں: "عدالتی احکامات نے امریکی انتظامیہ کے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دے دیا ہے کہ یہ کیس ضروری شواہد سے عاری ہے۔ امریکہ کو یہ بخوبی علم ہو جانا چاہیئے کہ اس کی اسرائیلی کے لیے بلا مشروط حمایت نہ فقط عالمی برادری کی جانب سے ٹھکرا دی گئی ہے بلکہ نسل کشی کے جرم میں تعاون کے زمرے میں بھی آسکتی ہے اور امریکہ کو اس کے لیے جوابدہ ہونا ہوگا۔” فلسطینی وزارت خارجہ نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے، فلسطینی وزارت خارجہ نے کہا کہ "یہ ایک اہم یاد دہانی ہے کہ کوئی بھی ریاست قانون سے بالاتر نہیں ہے۔” نیتن یاہو نے اس فیصلے کو اشتعال انگیز قرار دیا۔ نیتن یاہو نے کہا کہ "اسرائیل ایک قانونی جنگ لڑ رہا ہے اور کوئی دوسری جنگ اس جیسی نہیں ہے۔” نیتن یاہو نے کہا کہ وہ عالمی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اسرائیل کا دفاع جاری رکھیں گے۔

جنوبی افریقہ کی حکومت نے اس فیصلے کو عالمی قانون کی ایک واضح فتح قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ اسرائیل عدالتی احکامات کے اطلاق کو ناکام بنانے کے لیے کام نہیں کرے گا۔ جنوبی افریقہ کی حکومت نے اپنے بیان میں کہا کہ "یہ فیصلہ فلسطینی عوام کے لیے انصاف کی تلاش میں ایک اہم سنگ میل ہے۔” بیان میں اعادہ کیا گیا کہ جنوبی افریقہ غزہ میں فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عالمی اداروں کے اندر کام کرتا رہے گا۔ ہیگ میں عالمی عدالت انصاف کے ہیڈ کوارٹر کے باہر، جنوبی افریقہ کے بین الاقوامی تعلقات کے وزیر، نالیڈی پانڈور نے صحافیوں کو بتایا کہ "اگر اسرائیل عدالت کے احکامات پر عمل کرنا چاہتا ہے تو اسے غزہ میں لڑائی روکنا ہوگی۔”، "آپ جنگ بندی کے بغیر امداد اور پانی کیسے فراہم کرسکتے ہیں، اس حکم کے مطابق فوری جنگ بندی ہونی چاہیئے۔” حماس نے عدالت کے "اہم” فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ "اسرائیل کو تنہاء کرنے میں معاون ہے۔”

حماس نے اپنے بیان میں کہا: "انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا فیصلہ ایک اہم پیش رفت ہے، جو اسرائیل کو تنہاء کرنے اور غزہ میں اس کے جرائم کو بے نقاب کرنے میں معاون ہے۔” امریکی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ: "ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نسل کشی کے الزامات بے بنیاد ہیں اور یہ بات قابل غور ہے کہ عدالت نے نسل کشی کے بارے میں کوئی نتیجہ نہیں نکالا اور نہ ہی اپنے فیصلے میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور یہ کہ اس نے حماس کے زیر حراست تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط، فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔” قطر نے عبوری فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ "اسرائیل کو غزہ کے خلاف جنگ میں نسل کشی کنونشن کے تحت کارروائیوں کو روکنے کے لیے تمام اقدامات کو اپنانا چاہیئے۔” ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "قطر اس فیصلے کو انسانی ہمدردی کی جیت، قانون کی حکمرانی اور بین الاقوامی انصاف کی فتح سمجھتا ہے۔”

مصر کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا: "مصر غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کا منتظر ہے، جیسا کہ عدالت نے اسی طرح کے معاملات میں فیصلہ دیا ہے۔” ترک صدر رجب طیب اردگان نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ "انھیں امید ہے کہ اس سے شہریوں کے خلاف حملے رک جائیں گے۔” ایران کے وزیر خارجہ امیر عبد اللہیان نے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ "آج جعلی اسرائیلی حکومت کے اہلکار دنیا کی رائے عامہ میں سب سے زیادہ قابل نفرت لوگ ہیں، جنھیں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی اور جنگی جرائم کے ارتکاب پر فوری انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیئے۔” امیر عبد اللہیان نے جنوبی افریقہ اور فلسطینیوں کو کامیابی پر مبارکباد پیش کی۔

سعودی حکومت کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ "یہ فیصلہ اسرائیلی کے قابضانہ طرز عمل اور نسل کشی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن کی خلاف ورزیوں کو واضح طور مسترد کرتا ہے۔” ملائیشیا کی وزارت خارجہ نے 26 جنوری 2024ء کو بین الاقوامی عدالت انصاف کے تاریخی فیصلے کے بعد غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے لیے اسرائیل سے جوابدہ ہونے کے مطالبے کو درست قرار دیا ہے۔ ملائیشیا نے کہا کہ "وہ اس مقدمے کی آئندہ کارروائی کا منتظر ہے اور اس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن تسلیم کرنے اور 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے مطالبات کا اعادہ کیا۔”

کینیڈا اور برطانیہ نے اس فیصلے پر دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم اسرائیل کو دفاع کا حق دیتے ہیں۔ سپین کے وزیراعظم نے اس فیصلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا "ہم امن اور جنگ کے خاتمے، یرغمالیوں کی رہائی، انسانی امداد تک رسائی اور اسرائیل کے شانہ بشانہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی وکالت کرتے رہیں گے، تاکہ دونوں ممالک امن اور سلامتی کے ساتھ ساتھ رہ سکیں۔” آئر لینڈ کے وزیر خارجہ مچل مارٹن نے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ” آئرلینڈ توقع کرتا ہے کہ اسرائیل عدالت کے احکامات پر نیک نیتی اور فوری طور پر عمل درآمد کرے گا۔ اس تنازعے اور غزہ میں ہلاکتوں اور تباہی کا خاتمہ ایک ترجیح ہے، جسے سیاسی، سفارتی، انسانی اور قانونی تمام محاذوں پر آگے بڑھایا جانا چاہیئے۔” سکاٹ لینڈ کے وزیراعظم حمزہ یوسف نے اس فیصلے کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا "غزہ میں قتل و غارت گری بند ہونی چاہیئے۔ مزید مصائب سے بچنے کے لیے فوری انسانی امداد فراہم کی جانی چاہیئے۔ یرغمالیوں کو فوری رہا کیا جائے۔”

جرمنی کی وزیر خارجہ وزیر خارجہ اینالینا بیرباک نے اسرائیل کے فوجی حملے پر کھل کر تنقید کرنے سے گریز کیا، لیکن اس بات پر زور دیا کہ اسے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی پابندی کرنی چاہیئے۔ اینالینا نے کہا "بین الاقوامی عدالت انصاف نے کیس کے میرٹ پر فیصلہ نہیں دیا بلکہ عبوری کارروائی میں عارضی اقدامات کا حکم دیا۔ اس کے باوجود اسرائیل کو بھی ان کی تعمیل کرنی چاہیئے۔” فرانس کی وزارت برائے یورپ اور خارجہ امور نے کہا کہ "وہ بین الاقوامی قانون کا احترام کرنے کے لیے پرعزم ہے اور آئی سی جے پر اپنے اعتماد اور حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔” یورپی یونین نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے کہا "بین الاقوامی عدالت انصاف کے احکامات کی فریقین کو تعمیل کرنی چاہیئے۔ یورپی یونین ان کے مکمل، فوری اور موثر نفاذ کی توقع رکھتی ہے۔”

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل ایگنس کیلیمرڈ نے کہا: "اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف کے کلیدی فیصلے کی تعمیل کرنی چاہیئے، جس کے تحت وہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کو روکنے کے لیے اپنی طاقت سے ہر ممکن کوشش کرے۔ انھوں نے کہا کہ آج کا فیصلہ نسل کشی کو روکنے اور مظالم اور جرائم کے تمام متاثرین کو تحفظ فراہم کرنے میں بین الاقوامی قانون کے اہم کردار کی مستند یاد دہانی ہے۔ یہ واضح پیغام دیتا ہے کہ دنیا خاموش نہیں رہے گی، کیونکہ اسرائیل غزہ کی پٹی کی آبادی کو ختم کرنے کے لیے بے رحم فوجی مہم چلا رہا ہے۔” ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ جسٹس ڈائریکٹر بلقیس جراح نے اس فیصلے کے حوالے سے بیان میں کہا: "یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے، جس نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو نوٹس دیا کہ نسل کشی اور مزید مظالم کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔”