پاکستان میں وقوع پذیر ہونیوالے واقعات استعماری اشارے ہیں

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس

9 مارچ 2022ء کی صبح پاکستان کے ضلع خانیوال کے قصبے میاں چنوں میں ایک انتہائی تیز رفتار شے اڑتی ہوئی مقامی رہائشی علاقے پر آ گری۔ ابتدائی اطلاعات یہ تھیں کہ ایک پرائیویٹ جہاز علاقے میں آ گرا ہے۔ بعد ازاں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر بابر افتخار نے ذرائع ابلاغ کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ انڈیا کی طرف سے بدھ کی رات اُڑتی ہوئی ایک تیز رفتار چیز ضلع خانیوال کے علاقے میاں چنوں میں گری ہے، جو غالباً ایک میزائل ہے لیکن یقینی طور پر یہ غیر مسلح  تھا۔ انھوں نے بتایا کہ 9 مارچ کی شام 6:43 پر پاکستان میں فضائی کارروائیوں کے پاک فضائیہ کے مرکز (ائیر ڈیفنس آپریشنز سینٹر) نے انڈین علاقے کے اندر سے ایک تیز رفتار چیز کی پرواز کرنے کا مشاہدہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ابتدائی پرواز کے بعد اس اُڑتی ہوئی چیز نے اچانک پاکستانی علاقے کی طرف رُخ کر لیا اور پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور آخرکار (پاکستانی وقت کے مطابق) شام 6:50 پر میاں چنوں کے قریب آ گرا۔

آج یعنی 11 مارچ 2022ء کو ہندوستان کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ 9 مارچ کو پاکستان کی حدود میں گرنے والا میزائل حادثاتی طور پر انڈیا سے فائر ہوا تھا، جس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ انڈیا کی وزارتِ دفاع کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ 9 مارچ کو معمول کی دیکھ بھال کے دوران ایک تکنیکی خرابی کے باعث میزائل حادثاتی طور پر فائر ہوگیا تھا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ان کی اطلاعات کے مطابق میزائل پاکستانی علاقے میں گرا ہے اور اگرچہ یہ حادثہ انتہائی افسوسناک ہے، مگر ہمیں یہ جان کر اطمینان ہوا ہے کہ اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ دو ایٹمی ممالک کے مابین اس طرح کی غلطی ایک سنگین غلطی ہے۔ یہاں کئی ایک ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں، جن کا درست تجزیہ کوئی دفاعی ماہر ہی کرسکتا ہے۔

مثلاً: میزائل کیسے اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔؟ کیا ان میں ہدف کی معلومات کا کوئی نظام موجود ہوتا ہے یا عام توپ کے گولوں کی مانند جس جانب رخ کیا، وہیں جا گرے؟ دفاعی آلات بالخصوص میزائلوں کے بارے میں میری معلومات تو یہ ہے کہ ان میں باقاعدہ جی پی ایس سسٹم ہوتا ہے، جو اپنے کسی بھی ہدف کو انتہائی درستگی کے ساتھ نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس میزائل میں ایسا کوئی نظام فعال نہیں تھا تو یہ میزائل پاکستان کی جانب ہی کیوں آیا، بحر ہند، بنگلہ دیش یا انڈیا کے ہی کسی شہر کی جانب کیوں نہیں گیا۔؟ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ میزائل کا بٹن کیا بجلی کے بٹن کی مانند ہے کہ بلب جلانا تھا اور غلطی سے پنکھا چل گیا یا اس کے بھی کچھ پروٹوکولز ہیں۔

گذشتہ دنوں نیوکلیئر ہتھیاروں کے نظام کے حوالے سے ایک ڈاکومنٹری دیکھی، جس میں ایک پیچیدہ نظام تھا، جس کے بعد ہی کوئی میزائل لانچ کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال یہ سوالات دفاعی ماہرین سے متعلق ہیں اور یقیناً ہمارے وطن کے دفاعی ماہرین اس معمہ کی ضرور پیروی کریں گے کہ کس طرح یہ میزائل تکنیکی خرابی کے باعث چلا اور پاکستان کی جانب آگیا، اس میں کیا ممکن ہے اور کیا نہیں۔ میرے خیال میں بھارت جس نے خود سے اس واقعہ کی تحقیقات کا دعویٰ کیا ہے، اسے اپنی رپورٹ پاکستانی ماہرین کے ساتھ بھی شیئر کرنی چاہیئے۔ اس مسئلہ کو دنیا میں بلاسٹک میزائلوں کی تخفیف کے ادارے کو بھی دیکھنا چاہیئے، کیونکہ اس طرح کی ایک اور غلطی اس خطے کو جہنم بنا سکتی ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندوستان نے روس سے ائیر ڈیفنس سسٹم ایس۔400 حاصل کیا ہے، جس کے ذریعے وہ 40 سے 400 کلومیٹر تک ہدف کو مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ میزائل لڑاکا طیاروں، کروز اور بعض طرح کے بیلیسٹک میزائلوں، بموں سمیت مختلف قسم کے اہداف کو نشانہ بنانے اور مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کو بھی اپنے ائیر ڈیفنس سسٹم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اس طرح کی کسی بھی غلطی یا جارحانہ اقدام کو فی الفور روکا جاسکے۔ روس اور یوکرائن کی جنگ میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ روس نے فقط ایک رات میں یوکرائن کی فضائیہ اور روایتی ائیر ڈیفنس کو تباہ کر دیا اور اب روس کے جہاز اور ہیلی کاپٹر آزادانہ طور پر یوکرائن کی فضا میں پرواز کر رہے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں کی جنگی کارروائیوں میں بھی ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ جارح سب سے پہلے کسی بھی ملک کی فضائیہ کو تباہ کرتا ہے، اور اس کارروائی میں کچھ گھنٹے لگتے ہیں۔

جدید میزائل دسیوں کی تعداد میں ایک ہی وقت میں پرواز کرتے ہیں اور اپنے اہداف کو نشانہ بنا کر کسی بھی نظام کو ناکارہ بنا سکتے ہیں۔ اس کے بعد حملہ آور کے لیے فضائی نقل و حمل مشکل نہیں رہ جاتی۔ یقیناً ہمارے دفاعی ماہرین اور ملک کا محافظ ادارہ اس امر کی جانب متوجہ ہوگا۔ یہاں میں متوجہ کرنا چاہوں گا کہ پاکستان میں گذشتہ چند دنوں میں تیزی سے بدلنے والے حالات اور واقعات اتفاقیہ طور پر یکے بعد دیگرے وقوع پذیر نہیں ہو رہے اور نہ ہی یہ کسی قسم کی غلطی ہیں بلکہ پاکستان کے مقتدر حلقوں کے لیے ایک خفیہ طاقت کی جانب سے مختلف آپشنز کی نشاندہی ہے۔ پشاور کی ایک مسجد میں خودکش دھماکہ، ملک میں سیاسی عدم استحکام، ہندوستان کے میزائل کا غلطی سے پاکستان آجانا یہ سب اشارے ہیں، اس خفیہ طاقت کی جانب سے جو پاکستان کو اپنی طفیلی ریاست رکھنا چاہتی ہے۔

یہ خفیہ طاقت جو اب اتنی بھی خفیہ نہیں۔ پاکستان کے ارباب اقتدار کو وہی پیغام دینا چاہ رہی ہے، جو بش نے افغانستان پر حملے سے قبل پرویز مشرف کو فون کال پر دیا تھا، یعنی (You are with us or against us)۔ یہ واقعات اس پیغام کا اگلا حصہ ہیں کہ اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو اس طرح کے واقعات کے لیے تیار رہیں۔ اس سے اگلا حربہ معاشی پابندیاں اور اقتصادی نقصانات ہوسکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں استقلال، آزادی، No More ،Absolutely Not اور "ہم تمہارے غلام نہیں” کا عنصر نہایت خوش آئند ہے۔ حالات نے ہمیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ ہم یہ مشکل فیصلہ کریں۔ اس موقع پر ہمیں اپنی اس غیر جانبدارانہ پالیسی کو قائم رکھنے کے لیے اتحاد، وحدت اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، ریاستی ادارے اور عوام ایک پیج پر ہوں، تاکہ ہر مشکل کا سامنا مل کر کریں اور آخر میں پاکستانیوں کے نام اقبال کا پیغام:
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

بشکریہ : اسلام ٹائمز