دوسری ترمیم کے بعد پاکستان میں قادیانیوں کی حکمت عملی(2)

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس
گذشتہ سے پیوستہ۔۔
میاں منیر احمد مزید لکھتے ہیں: ’’مرزا بشیر الدین محمود نے 1952ء کو قادیانیوں کا سال قرار دیا تھا۔ چودھری ظفر اللہ خاں وزیر خارجہ نے بیرون ممالک پاکستانی سفارت خانوں کو قادیانی تبلیغ کے اڈوں میں بدل کر رکھ دیا۔ جس کے جواب میں مجلس احرار ِ اسلام نے مشائخ و علماء کرام و زعماء جماعت اسلامی اور تمام مکاتب فکر کُل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم ِنبوت کے پلیٹ فارم پر یکجا ہوئے اور حکومت کو اپنے مطالبات پیش کیے:
1۔ لاہوری و قادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
 2۔ کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کو ہٹایا جائے اور چودھری ظفر اللہ خاں سے وزارت ِ خارجہ کا قلمدان واپس لیا جائے۔
مطالبات منظور کیے جانے کے بجائے ملک میں تحریک تحفظ ختمِ نبوت کو کچلنے کے لیے ریاستی تشدد کی انتہاء کر دی گئی۔ قادیانی تنظیم فرقان بٹالین نے عاشقان ِ مصطفیٰ پر گولیاں چلائیں۔ کراچی، لاہور، کوئٹہ، ملتان، ساہیوال، فیصل آباد (اس وقت لائل پور)، گوجرانوالہ اور دیگر شہروں میں ہزاروں فرزندانِ توحید کے خون سے ہاتھ رنگے گئے۔ مال روڈ لاہور پر لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ جزوی مارشل لا کا جبر پاکستان میں سب سے پہلے تحریک تحفظ ِختم ِنبوت پر آزمایا گیا۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی کے خلاف مارشل لا کے ضابطہ نمبر 8 اور تعزیرات کی دفعہ 153۔الف کے تحت مقدمہ چلایا گیا، مولانا کو سزائے موت سنائی گئی، تاہم اس سزا پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔‘‘

قادیانی 74 سے قبل اور بعد
قادیانیوں کو جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تو اس کے اثرات ملک بھر میں موجود کلیدی عہدوں کے حامل قادیانیوں پر پڑے۔ نوبل انعام یافتہ نیوکلیئر سائنسدان اور پاکستان کے اٹامک منصوبے کے بانی ڈاکٹر عبد السلام کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ 65 کی جنگ کے کئی ہیروز زیرو ہوگئے۔ رن آف کچھ کے ہیرو میجر جنرل افتخار جنجوعہ، 12 انفٹری کے کمانڈر افتخار حسین ملک، چونڈا سیکٹر میں تعینات کمانڈر لیفٹینٹ جنرل عبدالعلی ملک، ائیر مارشل ظفر چوہدری سب قادیانی ہونے کے سبب گمنام ہوگئے۔ یہ گمنامی فقط معاشرتی سطح پر تھی، ان کے متعلقہ شعبہ جات اور اداروں میں ان افراد کو ان کا جائز مقام دیا گیا۔ ڈاکٹر عبد السلام کے نام پر کئی اداروں کے نام رکھے گئے، جن میں قائداعظم یونیورسٹی کا فزکس ڈیپارٹمنٹ، جی سی لاہور میں شعبہ ریاضی، جی سی لاہور میں ہی ڈاکٹر عبد السلام فزکس چیئر شامل ہیں۔ اسی طرح میجر جنرل افتخار جنجوعہ کو ان کی خدمات کے صلہ میں ہلال جرات، ستارہ پاکستان اور ستارہ قائداعظم سے نوازا گیا۔ جنرل اختر حسین ملک کو ہلال جرات دیا گیا۔

ذرائع کے مطابق آج بھی کئی ایک قادیانی ملک میں کلیدی عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک ویب سائٹ کے مطابق کئی قادیانی اپنے آپ کو لبرل مسلمان کے طور پر متعارف کرواتے ہیں، یعنی وہ خود کو قادیانی نہیں لکھتے، تاہم درحقیقت وہ قادیانی ہی ہیں۔ ان افراد میں بیوروکریٹ، سیاستدان، فوجی افسر اور صحافی شامل ہیں۔ اس سائٹ کے مطابق طارق عزیز سابق سیکرٹری نیشنل سکیورٹی کونسل، سلمان بشیر سابق سیکرٹری خارجہ، سابق ایڈمیرل نعمان بشیر، میجر جنرل (ر) اعجاز امجد، میجر جنرل (ر) نذیر احمد، لیفٹینٹ جنرل محمود الحسن، میجر جنرل عبداللہ سعید، میجر جنرل مسعود حسن نوری۔ (سیاستدان) میاں منظور احمد وٹو، اسلم خٹک، آفتاب شیر پاؤ، ناہید خان، شیری رحمان، جی ایم سید، خورشید احمد قصوری، احمد رضا قصوری، صحبا مشرف(پرویز مشرف کی زوجہ)، عاصمہ جہانگیر(وکیل)، (صحافی) رانا مبشر، مبشر لقمان، نجم سیٹھی سب قادیانی ہیں یا تھے۔ اسی طرح پاکستان میں بہت سے کاروباری ادارے قادیانیوں کی ملکیت ہیں، جن میں شیزان، شوگر ملز، ٹیکسٹائل ملز، گھی ملز، فارماسیوٹیکل انڈسٹریز، کورئیر سروسز شامل ہیں۔

اب نہیں معلوم کہ اس سائٹ کے دعوے میں کس قدر صداقت ہے، تاہم یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ میجر جنرل (ر) اعجاز امجد موجودہ آرمی چیف کے سسر ہیں۔ یہی وجہ ہے جنرل باجوہ کے بارے میں ابتداء میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ان کا تعلق قادیانی فرقے سے ہے۔ بعد میں علماء نے اس بات کا اعلان کیا کہ جنرل باجوہ کا قادیانی فرقے سے کوئی تعلق نہیں، تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جنرل باجوہ کی پھپو کا عقد بھی احمدی جماعت میں ہوا تھا اور جنرل باجوہ کے والد کے احمدی جماعت سے اچھے روابط تھے۔ جنرل باجوہ کے ایک رشتہ دار کے مطابق میجر جنرل اعجاز امجد نے اپنے آخری زمانے میں احمدی جماعت کو چھوڑنے کا اعلان کیا تھا، تاہم اس کا مقصد چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے تک پہنچنا تھا، جس میں وہ کبھی کامیاب نہ ہوسکے۔

موجودہ حکمت عملی
اس امر میں تو کوئی شک نہیں کہ قادیانیوں کو برطانوی سامراج نے برصغیر کے معاشرے میں داخل کیا اور ان کا مقصد مسلمانوں کی طاقت کو کم کرنا نیز ان میں اختلاف کو فروغ دینا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قادیانی ابتداء سے ہی ایک منظم گروہ ہے۔ جس کے تحت کئی ایک تعلیمی، فلاحی اور سماجی خدمت کے ادارے اور پراجیکٹس کام کر رہے ہیں۔ انسانیت کی فلاح کے ساتھ ساتھ ان پراجیکٹس کا ایک اہم مقصد ان تک احمدی عقائد کو پہنچانا ہے۔ خود میرے خاندان کے ایک ہونہار فرزند ڈاکٹر سبطین کچھ عرصہ اس تبلیغ کے چنگل میں پھنسے، غربت کے مارے پڑھے لکھے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک لے جانا اور وہاں ان کو اپنے نیٹ ورک میں شامل کرنا وہ حکمت عملی ہے، جو ہم بذات خود مشاہدہ کرچکے ہیں۔ اللہ نے ڈاکٹر سبطین کو ہدایت دی اور وہ برطانیہ ترک کرکے پاکستان لوٹ آئے، تاہم ہر شخص ڈاکٹر سبطین جیسا خوش قسمت نہیں ہوتا۔ بہرحال 1974ء تک یہ منظم گروہ کھلے بندوں اپنے کام جاری رکھے ہوئے تھا، تاہم 1974ء کے بعد اس گروہ نے اپنی سرگرمیوں کو زیر زمین کر لیا۔ ملک میں ان کو کاروبار، ترقی اور عبادت کے مواقع میسر ہیں، تاہم وہ ہمیشہ اپنے ساتھ زیادتیوں کا شکوہ کرتے ہیں۔

یہاں میں خدا لگتی ایک بات ضرور کہوں گا کہ قادیانیوں کا عقیدہ جو بھی ہو، انھوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں وطن عزیز کی خدمت کی ہے۔ مشکل ان کی حب الوطنی اور پاکستانیت میں نہیں بلکہ ان کی عقیدتی نسبت میں ہے۔ وہ جماعت جو انگریز سامراج کی گود میں بیٹھ کر ایک سازش کے طور پر سامنے لائی گئی، جس کی سرپرستی آج بھی برطانیہ اور اسرائیل میں کی جاتی ہے۔ جس کے فنڈنگ کے ذرائع معلوم نہیں ہیں، جس کا ایجنڈا خفیہ ہے، اس سے تعلق کے ہوتے ہوئے اس جماعت سے وابستہ کسی بھی شخص پر کون اعتماد کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں علماء اور سیاستدانوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ کسی قادیانی کو ملک میں کوئی کلیدی عہدہ نہ دیا جائے۔ اس بداعتمادی، استعماری طاقتوں سے وابستگی کے باوجود پاکستانی معاشرے میں قادیانیوں کو ایک اقلیت اور پاکستانی شہری کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور ملک کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ان کو وہ حقوق حاصل ہیں، جو کسی بھی دوسرے پاکستانی شہری کو دستیاب ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز