دوسری ترمیم کے بعد پاکستان میں قادیانیوں کی حکمت عملی(1)

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس
7 ستمبر 1974ء تاریخ پاکستان کا وہ دن ہے، جب ملک کی پارلیمان نے اتفاق رائے سے قادیانیوں کو اسلام سے خارج قرار دینے کے لیے دوسری ترمیم منظور کی۔ اس قرارداد کے اسمبلی میں پیش ہونے، اس پر بحث اور پاس ہونے کے مرحلے کی ایک تفصیلی تاریخ ہے، جو کہ اس وقت موجود کئی شخصیات نے تفصیلاً تحریر کی ہے۔ اس تحریر میں میرا مقصد اس سارے واقعے کا ایک اجمالی جائزہ ہے۔ قادیانیوں کے خلاف پیش کی جانے والی قرارداد جو بعد میں آئین کا حصہ بنی، کی محرکین درج ذیل شخصیات تھیں: مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری، پروفیسر غفور احمد، مولانا سید محمد علی رضوی، مولانا عبدالحق (اکوڑہ خٹک)، چودھری ظہور الہیٰ، سردار شیر باز خان مزاری، مولانا محمد ظفر احمد انصاری، جناب عبدالحمید جتوئی، صاحبزادہ احمد رضا قصوری، جناب محمود اعظم فاروقی، مولانا صدر الشہید، مولانا نعمت اللہ، جناب عمر خان، مخدوم نور محمد، جناب غلام فاروق، سردار مولا بخش سومرو، سردار شوکت حیات خان، حاجی علی احمد تالپور، جناب راؤ خورشید علی خان، جناب رئیس عطاء محمد خان مری۔

بعد میں حسب ذیل ارکان نے بھی قرارداد پر دستخط کئے: نوابزادہ میاں محمد ذاکر قریشی، جناب غلام حسن خان ڈھاندلا، جناب کرم بخش اعوان، صاحبزادہ محمد نذیر سلطان، مہر غلام حیدر بھروانہ، میاں محمد ابراہیم برق، صاحبزادہ صفی اللہ، صاحبزادہ نعمت اللہ خان شنواری، ملک جہانگیر خان، جناب عبدالسبحان خان، جناب اکبر خان مہمند، میجر جنرل جمالدار، حاجی صالح محمد، جناب عبدالمالک خان، خواجہ جمال محمد کوریجہ۔
آئین کی دفعہ 106 میں ترمیم
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں جسے بعد ازیں آئین کہا جائے گا۔ دفعہ 106 کی شق (3) میں لفظ فرقوں کے بعد الفاظ اور قوسین اور قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کے اشخاص (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) درج کئے جائیں گے۔

آئین کی دفعہ 260 میں ترمیم
آئین کی دفعہ 260 کی شق (2) کے بعد حسب ذیل شق درج کی جائے گی۔
(3) مسلمان وہ ہے، جو اللہ کی واحدانیت نیز حضرت محمدﷺ جو آخری نبی ہیں، کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ حضرت محمدﷺ کے بعد کسی بھی شخص کو جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہو، لفظ یا کسی بھی وضاحت کے کسی بھی معنی میں اس پر یقین نہیں رکھتا، یا اسے ایک نبی یا مذہبی مصلح کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔
(ب) "غیر مسلم” سے مراد وہ شخص ہے، جو مسلمان نہیں ہے اور اس میں عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ یا پارسی برادری سے تعلق رکھنے والا فرد، قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ کا کوئی فرد شامل ہے، (جو خود کو احمدی یا کچھ اور کہتے ہیں) یا بہائی، اور ایک شخص جو درج فہرست ذاتوں میں سے کسی سے تعلق رکھتا ہو۔

کہا جاتا ہے کہ شروع میں ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے انکار کیا، کیونکہ ان کے نزدیک پارلیمنٹ وہ فورم نہیں تھا، جس پر مذہبی بحثیں ہوں یا مذہبی فیصلے کیے جائیں، لیکن جب 18 مئی کو بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تو بھٹو مذہبی جماعتوں کے دباؤ میں آگئے اور انہیں مذہبی جماعتوں کا یہ فیصلہ قبول کرنا پڑا کہ یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے۔ ملک کا دانشور طبقہ اس آئینی ترمیم کے حوالے سے دو رائے رکھتا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ ایک انتہائی بروقت اقدام تھا اور کچھ کا کہنا ہے کہ اس اقدام کے سبب دیگر مخالف مسالک کو بھی پارلیمان کے ذریعے اسلام سے خارج قرار دینے یا کم از کم ان کو اقلیت قرار دینے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے، جو سرے سے ہی کسی ایسے اقدام کا مخالف ہے۔

اگرچہ قادیانیوں کو اسلام سے خارج قرار دینے کی ظاہری وجہ اپریل یا مئی میں ربوہ سٹیشن پر ہونے والے فائرنگ کے نتیجے میں کچھ طلبہ کے قتل اور اس کے بعد پھوٹنے والے قادیانیت مخالف فسادات کو قرار دیا جاتا ہے، تاہم اس سارے عمل کا ایک تاریخی پس منظر بھی ہے، جس کو سمجھے بغیر ہم مسلمانوں کے دل میں پائے جانے والی قادیانیت بیزاری کو نہیں سمجھ سکتے۔ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ رسالت ماب ؐ اللہ کے آخری نبی اور رسول ؐ ہیں۔ ختم نبوت کے اس عقیدے پر ایمان لائے بغیر کوئی بھی شخص مسلمان ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ قادیانی اس کے برعکس مرزا احمد قادیانی کی نبوت کے قائل ہیں، اس کے باوجود خود کو مسلمان قرار دیتے ہیں۔ قادیانیوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، اس سلسلے میں میاں منیر احمد اپنے ایک مقالے بعنوان ’’7 ستمبر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:

’’قادیانیت کی تاریخ کے مطابق 1857ء کی جنگ ِآزادی میں مسلمانوں کے ’’جذبہ جہاد‘‘ کے تجزیے کے لیے برطانوی تھنک ٹینکس بیٹھے اور ’’ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی آمد‘‘ (The arrival of British Empire in India) کے عنوان سے ایک رپورٹ تیار کی گئی، جو انڈیا آفس لائبریری (لندن) میں آج بھی موجود ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک (ہندوستان) کی آبادی کی اکثریت اپنے پیروں یعنی روحانی پیشواؤں کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے۔ اگر اس مرحلے پر ہم ایک ایسا آدمی تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں، جو اس بات کے لیے تیار ہو کہ اپنے لیے ’’ظلی نبی‘‘ (Apostolic Prophet) ہونے کا اعلان کر دے تو لوگوں کی بڑی تعداد اس کے گرد جمع ہو جائے گی، لیکن اس مقصد کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔‘‘

منیر احمد لکھتے ہیں کہ ’’برصغیر پاکستان و ہند میں علماء کی قادیانیوں کے حوالے سے  رائے اور فتویٰ ایک تھا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر علامہ اقبال مرحوم اور مولانا ظفر علی خاں مرحوم نے اپنی بہترین صلاحیتوں سے منکرین ِختم ِنبوت کے عقائد کو بے نقاب کیا۔ 21 تا 23 اکتوبر 1934ء کو قادیان میں پہلی احرار تبلیغ کانفرنس کا انعقاد اور اس میں ہندوستان کی چوٹی کی مذہبی قیادت کی شرکت مجلس احرار ِاسلام کے شعبہ تبلیغ تحفظ ختم ِنبوت کا وہ جرأت مندانہ تاریخی اقدام تھا، جس نے پوری دنیا کے سامنے قادیانیت کو بے نقاب کیا اور خود برطانوی راج پر یہ واضح ہوگیا کہ یہ کام اِتنا آسان نہیں ہے کہ اقتدار اور دولت کے زور پر جھوٹی نبوت کو اسلام کے نام پر متعارف کرایا جاسکے۔‘‘

میاں منیر احمد قادیانیوں کی سیاسی ریشہ دوانیوں کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں: ’’قیام پاکستان کے وقت قادیانیوں نے باؤنڈری کمیشن میں ضلع گورداسپور کو شامل نہ کرنے کی سازش کی، تاکہ پاکستان کے لیے کشمیر جانے کا راستہ باقی نہ رہے، پھر ایک دوسرا موقع آیا، جب 1949ء میں پاکستانی فوج نے پونچھ پر قبضہ کرکے سری نگر کی طرف پیش قدمی کرنے کی پوری تیاری کرلی تھی، بھارتی وزیراعظم نے برطانوی وزیراعظم سے مدد طلب کی تو قادیانی وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خاں نے برطانیہ کی مدد کرتے ہوئے حکومت کو حملہ روکنے پر راضی کر لیا۔ پاکستان بننے کے بعد اس فتنہ نے یہاں اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کی بلکہ یہ مشہور کر دیا کہ مرزا محمود کو خواب میں بھی بشارتیں ملی ہیں کہ صوبہ بلوچستان عن قریب مرزائی اسٹیٹ ہوگا، لہٰذا اسی لیے انہوں نے آزاد بلوچستان کی تحریک کی مدد کی، جس کو برطانیہ کی پشت پناہی حاصل تھی، اس وقت کی جانے والی سازش کو آج کے بلوچستان خصوصاً پاک چائنا اقتصادی راہداری کے تناظر میں بھی دیکھا جائے تو اس فتنہ کے عزائم کی سمجھ آجاتی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز