حکومت اور ریاست کا مذہبی تصور تاریخ انبیاء کے تناظر میں(2)

Published by fawad on

syed asad abbas

تحریر: سید اسد عباس

قرآن کریم میں مقاصد بعثت انبیاء:
قرآن کریم میں مقاصد نبوت کو درج ذیل چند آیات میں بیان کیا گیا ہے: "اللہ کی بندگی اور طاغوت کی بندگی سے بچانا۔” (النحل:36) تلاوت آیات، تزکیہ نفوس، کتاب اور دانائی کی تعلیم (اٰلِ عمرٰن:164) (الجمعۃ:2) بشارت دینا، ڈرانا یعنی نذیر، اتمام حجت (النساء:165) ہدایت و دین حق پہنچانا (التوبہ:33) بشارت دینا، کج روی کے نتائج سے ڈرانا، اختلافات کے فیصلے (البقرۃ: 213) شاہد (المزمل:15) جہانوں کے لیے رحمت۔( الانبیاء:107) درج بالا مقاصد کے حصول کے لیے اقتدار کا حصول، ریاست کا قیام، سیاسی نظام کی تشکیل کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے اور کوئی بھی شخص جو عقل سلیم رکھتا ہے، یہی کہے گا کہ درج بالا مقاصد اقتدار میں آکر احسن طریقے سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد گذشتہ صدی کے چند مسلم مفکرین نیز بعض معاصر مفکرین حکومت اور ریاست کے قیام کو اسلام کے نفاذ کا لازمہ قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں اسلام کے اجتماعی مسائل، فقہی احکام، اجتماعی عبادات کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔

کیا انبیائے ماسبق کی تعلیمات فقط انفرادی اور عبادی پہلو کی حامل تھیں؟
اسلامی حکومت کی تشکیل کے ذیل میں عموماً یہ دلیل دی جاتی ہے کہ گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات عبادات، اخلاقیات اور انفرادی معاملات تک محدود تھیں اور چونکہ اسلام کی تعلیمات انفرادی کے ساتھ ساتھ اجتماعی مسائل کی حامل ہیں، لہذا ان کے نفاذ کے لیے حکومت اور اقتدار لازم ہیں۔ یہ امور اسلامی حکومت کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم ذیل میں انبیائے ما سبق کی بعض تعلیمات کو دیکھیں گے، تاکہ جان سکیں کہ یہ تعلیمات انفرادی نوعیت کی تھیں یا اجتماعی۔ موسیٰ علیہ السلام کے لائے ہوئے احکام میں اسلام کی مانند دو طرح کے حقوق تھے۔ حقوق اللہ و حقوق العباد۔ ان حقوق اور حدود کی خلاف ورزی کے حوالے سے انجیل مقدس میں مختلف سزاؤں کو تعین کیا گیا ہے۔

حقوق اللہ: بت پرستی غیر اللہ کے لیے قربانی کرنے والے کا رجم (خروج) 22:20 ملوچ اور دیگر بتوں کی بارگاہ میں اولاد کی قربانی کرنے والے کا رجم (احبار 20:3) جادوگر اور جادوگرنیوں کو رجم کرنا (خروج 22:18) (احبار 20:27) توہین کرنے والے کا رجم (خروج :22:28) (احبار24:11-23) نبوت کا غلط دعویٰ کرنے والے اور خدا کے نام سے غلط بات منسوب کرنے والے کی سزا (استثنا18:20) یوم شبت (ہفتے کے روز کام نہ کرنے) کی خلاف ورزی کرنے والے کی سزا (خروج 31:13)
حقوق العباد: کسی بھی شخص کو قتل کرنے کی سزا (پیدائش 9:6) اس جرم سے متعلق دیگر احکام (خروج) (احبار) (گنتی) (استثناء) کے ابواب میں موجود ہیں، جس میں حملے اور زخم کی سزائیں موجود ہیں۔ چوری کی سزا انجیل کی کتاب (احبار) (خروج) میں درج ہیں۔ ایسے ہی جنسی جرائم کی سزائیں بھی انجیل کے باب (احبار اور استثنا میں موجود ہیں) ان جرائم میں تقریباً سبھی جنسی مسائل کے حوالے سے احکامات موجود ہیں۔ والدین کو زد و کوب کرنے کی سزا قتل درج ہے (یہ احکامات انجیل کی کتب احبار اور استثنا میں درج ہیں)۔ اغواء کی سزا (احبار و استثنا میں دیکھی جا سکتی ہے)۔

ان سزاؤں کا طریقہ کار بھی انجیل کے مختلف احکامات میں موجود ہے۔ مثلاً تلوار سے قتل، رجم، جلانا، اعضاء کا قطع کیا جانا، کوڑے، قید میں ڈالنا، رقم کی ادائیگی وغیرہ۔ اگر ان تمام سزاؤں کو دیکھا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ شریعت موسیٰ علیہ السلام جسے مسیحی بھی قبول کرتے ہیں، میں جرائم کی سزائیں سخت تھیں۔ ایسا نہیں کہ فقط یہ سزائیں کتابوں میں درج رہیں۔ ان سزاؤں پر عمل بھی کیا گیا، جس کی مثالیں انجیل میں موجود ہیں۔ درج بالا احکامات کو دیکھ کر تو یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام اور اس سے پہلے والی شریعت میں فقہی عنوان سے مسائل میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد تقریباً ایک سے ہیں۔ ان حقوق کی خلاف ورزی کی سزائیں میرے خیال میں شریعت موسوی میں زیادہ سخت تھیں۔ یہ سزائیں یقیناً حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے اوصیاء کی زندگیوں تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ ان پر عمل درآمد کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔ بنی اسرائیل نے جو اللہ کے نمائندوں کو قتل کیا، وہ انہی احکام سے غلط استفادہ کرتے ہوئے کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب بھی انہی احکام سے سوئے استفادہ کرتے ہوئے کیا گیا۔

یقیناً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد سے بنی اسرائیل میں تورات و زبور کے علماء موجود ہوں گے، جن سے لوگ احکامات کے لیے رجوع کرتے ہوں گے۔ حضرت یوشع بن نون نے بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں بارہ امراء کا تعین کیا تھا، جو انہی امور کو دیکھتے تھے اور ان امور پر عمل درآمد کا سلسلہ کوئی مرکزی حکومت یا اقتدار نہ ہونے کے باوجود حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک قائم رہا۔ چرچ کے تحت قائم ہونے والی حکومت جو ایک طویل عرصے تک یورپ پر حاکم رہی، اس نے ایک مرتبہ پھر ان احکام کو زندہ کیا اور انہی احکام کے مطابق مختلف سائنس دانوں کو سخت سزائیں دی گئیں۔

حکومت کا قیام عقلی تقاضا ہے یا دینی؟
اس سوال کا جواب دینے سے قبل ہم پہلے یہ معلوم کریں گے کہ انسانی معاشرے میں حکومت یعنی عوامی امور کو منظم انداز سے چلانے کے لیے نظام قائم کرنے کا تصور کتنا قدیم ہے۔ تاریخ انسانی کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں پانچ ہزار قبل مسیح میں بھی حکومت اور تہذیب کی تشکیل کا تصور ملتا ہے۔ سمر، میسیپوٹیمیا میں قائم ہونے والی تہذیب ہے، جس نے منظم حکومت تشکیل دی، ان کے بعد مصر اور وادی سندھ میں بھی تہذیبوں اور حکومتوں کا تصور موجود تھا۔ یہ تہذیبیں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والا سیاسی نظام تین ہزار قبل مسیح سے ہزار قبل مسیح تک قائم رہا۔ قرآن کریم سے ہمیں ابراہیم علیہ السلام کے دور میں نمرود کی حکومت کا پتہ ملتا ہے، جو خدائی کا دعویٰ کرتا تھا۔ مصری تہذیب میں تو حضرت یوسف ؑ ایک الہیٰ نمائندے کے طور پر وارد ہوئے۔ ان قدیم تہذیبوں کے آثار آج بھی انسانی معاشروں میں موجود ہیں۔ مصر میں قدیم احرام، ہنوط شدہ لاشیں، موہنجا دڑو میں سیوریج اور آبپاشی کے نظام، مٹی سے برتنوں کی تشکیل اور ایسے ہی جدید چیزوں کی تشکیل انسانی تہذیبوں اور ان میں موجود پیش رفتہ نظام ہائے مملکت کی نشاندہی کرتی ہیں۔

اپنے امور کو نظم دینا اور ان کو اچھے طریقے سے انجام دینا عقلی تقاضا ہے، تاہم انسان کی روز ازل سے یہ کوشش رہی ہے کہ اپنے کاموں کو خدا کی جانب نسبت دے، یاکم از کم اپنے کاموں کے لیے خدا کی توثیق کا دعویٰ کرے۔چاہے فراعین مصر ہوں، ہندوستان کے مہاراجے ہوں، مغل حکمران ہوں یا اموی و عباسی بادشاہ تقریباً سبھی کی جانب سے الہیٰ توثیق کا اشارہ دیا گیا، اہل کلیسا نے بھی اسی دعوے کے ساتھ حکومت قائم کی، آج صہیونی ریاست انہی دعوؤں پر تشکیل دی گئی ہے، یعنی اکثر نے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے مذہب کا نام استعمال کیا اور صہیونیوں نے مذہب کے نام پر ریاست مذہب قائم کی۔

نبی کریم ؐ جو ہادی بھی تھے، امیر بھی انہوں نے اپنی زندگی میں ہی خدا کی جانب سے اپنے وصی و جانشین کا اعلان کیا تھا۔ یہ واقعہ مسلمانوں میں "اعلان غدیر” کے نام سے معروف ہے۔ نبی کریمؐ کی اپنے اوصیاء کے حوالے سے ایک اور معروف حدیث نقبائے بنی اسرائیل کی تعداد کے برابر اوصیاء کا ہونا بھی ہے، تاہم اوائل اسلام کے بزرگوں نے اس نص رسول ؐ کی موجودگی میں اجتہاد و مشاورت سے کام لیا اور مسلمانوں کی امارت کا فیصلہ ثقیفہ بنی سعدہ میں انجام دیا۔ اگرچہ وصی رسول ؐ سے امارت مسلمین کا حق لے لیا گیا، تاہم مسلمان وہ تمام اختیارات وصی رسول ؐ سے نہ لے سکے، جو کہ جانشینی نبوت کے نتیجے میں وصی نبیؐ کو حاصل تھے۔ اگر ہم مقاصد نبوت کو دیکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وصی و جانشین پیغمبرؐ ہادی بھی تھے، رہبر بھی، بشیر و نذیر بھی تھے، داعی الی اللہ بھی، رحمت للعالمین بھی تھے، حجت الہیٰ بھی، وہ گواہ بھی تھے، مربی و استاد بھی تھے اور نمائندہ الہیٰ بھی۔

اس واقعہ کے بعد سے عمومی طور پر دین اسلام سے مراد حکومت و ریاست کے امور لیا جانے لگا۔ خلافت بادشاہت میں بدلی، مگر اوصیائے رسولؐ وہ امور انجام دیتے رہے، جو کہ ایک ہادی کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ آج نہ خلافت ہے، نہ بادشاہتیں، لیکن دین الہیٰ کی تعلیمات ہمارے مابین موجود ہیں، جو انہی اوصیائے رسول ؐ اور ان کے شاگردوں کی محنتوں کا ثمرہ ہیں۔ ہم مسلمانوں کی جانب سے قائم کی گئی حکومتوں کے بارے میں مختلف نظریات رکھ سکتے ہیں کہ فلاں شخصیت کا دور اچھا دور تھا، فلاں کا دور ترقی و پیشرفت کا دور تھا، فلاں دور میں ظلم روا رکھا گیا، لیکن کسی حکومت کو بھی الہیٰ یا اسلامی حکومت نہیں کہا جاسکتا۔ الہیٰ یا اسلامی حکومت فقط وہ ہے، جس میں الہیٰ نمائندہ امیر سلطنت ہو۔ اس کے علاوہ جو بھی حکومت ہو، وہ صالح ہوسکتی ہے، عادلانہ ہوسکتی ہے، دینی تعلیمات پر عمل کرنے والی، ان کا نفاذ کرنے والی ہوسکتی ہے، تاہم الہیٰ یا اسلامی حکومت قطعاً نہیں ہے۔ اسلام ایک دین ہے، جو کہ خدا کی طرف سے ودیعت کردہ ہے، اس کا حاکم و مقتدر بھی خدا کا متعین کردہ ہوگا۔

قارئین کرام جانتے ہوں گے کہ آئین پاکستان میں درج ہے "اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے، وہ اُس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا، نیز مملکت اس اختیار و اقتدار کو منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔” لہذا یہ ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ اللہ کے نظام اقتدار و اختیار میں کہیں بھی درج نہیں ہے کہ عوامی رائے سے اللہ کا اقتدار اعلیٰ یا اختیار کسی منتخب نمائندے کو تفویض کیا جاسکتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ عوام کی اکثریت نے مل کر اپنا مقتدر و صاحب اختیار چنا ہو اور اللہ نے بھی اس نمائندگی کو قبول کر لیا ہو۔ بنی اسرائیل حضرت شیموئیل کے پاس گئے کہ ہمارے لیے ایک سردار کا تعین کریں، اللہ نے طالوت کو ان کا سردار بنایا، جس سے بنی اسرائیل کو اختلاف تھا، لیکن بنی اسرائیل کو اسی کو سردار ماننا پڑا۔

اسلامی احکامات پر عمل کرنا، ان کو نافذ کرنا، ان احکام کے مطابق زندگی گزارنا الگ چیز ہے اور الہیٰ نمائندے کا تعین بالکل الگ چیز ہے۔ ہم اللہ کے حق اور اختیار کو عوام کے ذریعے قطعاً استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ ایک مغالطہ ہے۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، جہاں اسلام کو بطور مذہب قبول کیا گیا ہے، اس کوشش میں ہم کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، یہ خدا جانتا ہے۔ اسے اسلامی جمہوریہ کہنا ایک مذاق ہے، جو اکثر مسلمان ممالک میں جاری ہے۔ الہیٰ نمائندے کی غیر موجودگی میں ہم جو بھی حکومت تشکیل دیں، ہماری صوابدید پر ہے، جمہوریت اپنائیں یا آمریت کو قبول کریں، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان دونوں یا کسی دیگر نظام حکومت میں سے کونسا نظام اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے نیز مفاد عامہ کے اعتبار سے ہمارے لیے سود مند ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت اور ریاست کا مذہبی تصور تاریخ انبیاء کے تناظر میں(1)
https://albasirah.com/urdu/hakomat-aur-siasat-ka-mazhabi/

بشکریہ اسلام ٹائمز