حکومت اور ریاست کا مذہبی تصور تاریخ انبیاء کے تناظر میں(1)

Published by fawad on

تحریر: سید اسد عباس

چند ایک سوال مجھے اکثر پریشان کرتے ہیں۔ سوالات ہیں بھی اساسی نوعیت کے، جس سے ممکن ہے کہ ہمارے بہت سے مسائل حل ہو جائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آدم سے خاتم تک تمام انبیاء ایک ہی دین کی ترویج و تبلیغ کر رہے تھے، حالات و واقعات کے تناظر میں احکامات میں تبدیلی آتی تھی۔ تاہم بنیادی پیغام یعنی توحید الہیٰ کا تصور، خالق و مخلوق کا ربط نیز عبادت کا تصور، معاد کا تصور اور اخلاقیات ایک ہی تھیں۔ بحیثیت مسلمان ہمیں تمام انبیاء کی نبوت پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے، اگرچہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ان انبیاء کی موجودہ تعلیمات میں تحریفات ہوچکی ہیں، تاہم اس سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ ان کی تمام تعلیمات ہی باطل ہوچکی ہیں۔ قرآن کریم اس حوالے سے ایک بہترین معیار ہے۔ انبیائے ما سبق کی موجودہ تعلیمات جو قرآن کریم سے متصادم ہیں، وہ یقیناً تحریف ہیں اور وہ تعلیمات جو قرآن سے ہم آہنگ ہیں، درست تعلیمات ہیں۔

بہرحال میں اپنے سوالات کی جانب آتا ہوں:
کیا سب انبیاء نے حکومتیں، ریاستیں یا سیاسی نظام دیا۔؟ کتنے انبیاء اور ان کے نقباء نے حکومت، ریاست یا سیاسی نظام قائم کرنے کی کوشش کی یا اس کے لیے جدوجہد کی۔؟ انسانی معاشرے میں منظم حکومت، ریاست اور سیاسی نظام کی تشکیل کا آغاز کس نبی کے دور سے ہوا۔؟ اکثر انبیاء نے حکومتی نظام یا دینی ریاستیں کیوں قائم نہ کیں؟ انبیاء کی قائم کردہ حکومتوں کا نظام انبیاء کے بعد کیسے چلایا گیا۔؟ یہ اور ایسے ہی دیگر سوالات اساسی نوعیت کے ہیں، تاہم اس سلسلے میں کوئی منظم تحریر اب تک میری نظر سے نہیں گزری۔ انبیاء کے حکومت یا ریاست قائم نہ کرنے اور اس کے لیے کوشش نہ کرنے کی ایک وجہ تو ان کو عوامی تائید کا دستیاب نہ ہونا ہوسکتا ہے، ایک اور جواز یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ ان انبیاء کے پاس انفرادی نوعیت کی تعلیمات تھیں، لہذا حکومت اور ریاست کا قیام یا سیاسی نظام دینا ان کی ذمہ داری ہی نہ تھی، جبکہ اس کے برعکس اسلام کے احکامات چونکہ اجتماعی نوعیت کے ہیں، اس لیے اس کے لیے حکومت و ریاست کی تشکیل ضروری ہے۔

یہ دونوں دلائل قابل تحقیق ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام جو فرعون کے زیر انتظام ایک بڑی تہذیب کے ولی عہد تھے اور بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کی سرداری و نبوت رکھتے تھے، چاہتے تو مصری ریاست کے مقابل ایک بڑی ریاست اور حکومت تشکیل دے سکتے تھے، تاہم انھوں نے ایسا نہ کیا، نہ ہی کوئی سیاسی نظام حکومت دیا۔ ان کے جانشین یوشع بن نون علیہ السلام نے بھی بارہ قبائل میں بیت المقدس کی زمین تقسیم کی اور ان میں سردار متعین کر دیئے۔ جانشینی یا ریاستی نظام تشکیل نہ دیا۔ بنی اسرائیل ہمیشہ نبی اور ہادی کے منتظر رہے، ساتھ ساتھ ان انبیاء کو قتل کرتے رہے۔ بنی اسرائیل پر مصر اور بیت المقدس پر حاکم ایک شخص جالوت کے حملوں اور تابوت سکینہ کے اٹھا کر لے جانے کے بعد بنی اسرائیل شیموئلؑ نبی کے پاس گئے، جسے قرآن نے فقط نبی کہا ہے کہ ہم میں سے کسی سردار کا تعین کریں، تاکہ ہم متحد ہو کر اپنا دفاع کرسکیں۔

شیموئیل نے بنی اسرائیل کے اصرار پر ایک شخص طالوت کا تعین کیا، تاہم یہ تعین بھی شیموئیلؑ نے خود نہیں کیا بلکہ اللہ کے حکم پر کیا، جس کے بارے قرآن کریم میں یوں درج ہے: "اور اُن کے نبی ؑ نے اُن سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ’’طالوت‘‘ کو تمھارا سردار بنا دیا ہے۔” بنی اسرائیل کو حیرت ہوئی کہ طالوت نہ نقباء کی نسل سے ہے، نہ دولت مند ہے، گدھوں کو پانی پلانے والا سقہ ہے، یہ کیسے کمانڈر اور خدا کا چنا ہوا ہوسکتا ہے۔ لہذا انھوں نے شموئیل علیہ السلام سے استفسار کیا کہ یہ کیسے؟ جس کے جواب میں نبی ؑ نے جو جواب دیا، وہ قرآن کریم میں درج ہے: "اللہ نے تمھارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو علمی و جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اُس کے علم میں ہے۔”

نبی ؑنے اُن سے مزید کہا: "خدا کی طرف سے اُس کے سردار مقرر ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے عہد میں وہ صندوق تمھیں واپس مل جائے گا، جس میں تمھارے رب کی طرف سے تمھارے لیے سکون قلب کا سامان ہے، جس میں آل موسیٰؑ اور آل ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہیں اور جس کو اس وقت فرشتے سنبھالے ہوئے ہیں۔ اگر تم مومن ہو، تو یہ تمھارے لیے بہت بڑی نشانی ہے۔” (سورۃ البقرہ آیات 247، 248) ان نشانیوں کو دیکھنے کے بعد بنی اسرائیل طالوت کی سرداری کے قائل ہوئے۔ جالوت سے مقابلے کے دوران جب طالوت نے قوم بنی اسرائیل کی کمزوری کو دیکھا تو انھوں نے اعلان کیا کہ جو جالوت کا سامنا کرے گا اور اسے قتل کرے گا، میں اس سے اپنی بیٹی کا عقد کروں گا اور سرداری میں حصے دار بناؤں گا۔

حضرت داؤد علیہ السلام جو اس وقت کمسن تھے، انہوں نے اس چیلنج کو قبول بھی کیا اور مکمل بھی کیا۔ اللہ نے داؤد علیہ السلام اور پھر ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز کیا۔ ان دونوں انبیاء نے بنی اسرائیل اور بیت المقدس نیز اردگرد کے علاقوں پر حکومت کی۔ حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمان ؑ کے بعد سلیمان کے بیٹے "ریہابم” حاکم ہوئے، تاہم بنی اسرائیل کے دس قبائل نے ان کی حکومت سے اختلاف کیا، ظاہراً "ریہابم” کی داؤد ؑیا سلیمان ؑ کی مانند توثیق موجود نہیں تھی، اسی لیے قرآن کریم نے ان شخصیات اور ان سے متعلق واقعات کا تذکرہ نہیں کیا۔ اس کے مقابل بننے والی ریاست "یروبم” کے زیرانتظام قائم ہوئی۔ ان دونوں ریاستوں میں داخلی جنگیں ہوئیں، جس کی تفصیل کتب تاریخ میں موجود ہے۔

بہرحال حضرت سلیمان علیہ السلام ایک انتہائی طاقتور ریاست ہونے کے باوجود کوئی سیاسی نظام نہ دے کر گئے، جن کے جانے کے بعد اسرائیلی ریاست میں دو بادشاہتیں تشکیل پائیں۔ یہ دونوں ریاستیں تقریباً سات سو قبل مسیح میں اسیرین اور بابل حکومتوں کے تحت رہیں، پھر یہودیوں کی بڑی تعداد کو اس سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا۔ آج بہت سے یہودی اپنی مذہبی تعلیمات کے تحت یہ سمجھتے ہیں کہ خدا نے بنی اسرائیل کی دوسری جلا وطنی کے دوران، ان سے عہد لیا ہے کہ بنی اسرائیل کسی کو فتح نہیں کریں گے، وہ جلا وطنی کے دوران میں کسی کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے اور اسرائیل کو اس وقت عروج نصیب ہوگا، جب مسایا دنیا میں تشریف لائیں گے۔ یہ یہودی صہیونی ریاست کے خلاف ہیں اور اسے مذہبی عقائد کے خلاف سمجھتے ہیں۔

بنی اسرائیل میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبوت و رسالت کے منصب پر فائز ہوئے، تاہم آپ کے پاس حکومت یا اقتدار نہ تھا اور نہ آپ نے اس کے حصول کی کوشش کی۔ آپؑ میں مسیحائی کا عنصر تھا، تاہم یہودیوں کو ایسا لگا کہ یہ وہ مسایا نہیں، جس کا ہمیں انتظار ہے، اسی وجہ سے اکثر یہودی عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف ہوگئے۔ عیسیٰ علیہ السلام کا کام دراصل یہودیت میں موجود تحریفات کا خاتمہ تھا۔ عیسیٰ نبیناؑ ظاہراً سولی پر چڑھائے گئے اور ان کو ایک معین مدت کے لیے محفوظ کر لیا گیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد رسالت ماب ؐ ایک نئی کتاب اور شریعت کے ساتھ دنیا میں تشریف لائے۔ نبی کریم ؐ نے بھی اپنی زندگی کے مکی برس بغیر حکومت اور اقتدار کے گزارے اور مدنی زندگی میں وہ امور انجام دیئے جو کہ ایک ریاست انجام دیتی ہے، یعنی عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے، خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی، جہادی احکامات، قضاوت و نفاذ احکام اسلامی وغیرہ۔

اگر ہم درج بالا باتوں پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا بالکل نہیں کہ گذشتہ امتوں کی تعلیمات فقط انفرادی نوعیت کی تھیں، طالوت کو سردار بنانا، داؤد کا نبی بننا، بنی اسرائیل کو طالوت اور داؤد کی اتباع کا کہنا، آنکھ کے بدلے آنکھ، زندگی کے بدلے زندگی کا حکم، بلکہ بت پرست کو قتل کرنے، بچے کو قتل کرنے کی سزا رجم، جادوگر کا رجم، توہین کرنے والے کا رجم، نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے کی سزا، یوم شبت کی توہین پر رجم، چوری، زنا کی سزائیں جو کہ بائبل میں موجود ہیں، یہ سب اجتماعی تعلیمات ہیں۔ ہاں ایک امر درج بالا قرآنی مثالوں میں بالکل واضح ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور ان کے نقباء میں سے جن چند شخصیات نے حکومت قائم کی، اس کی تنصیب خدا کی جانب سے کی گئی۔

درج بالا مثالوں اور اکثریت انبیاء کی زندگیوں کے حالات سے ہمیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کا ہدف و مقصد حکومت و ریاست کا قیام نہیں تھا، بلکہ وہ ہدایت انسانیت کے منصب پر فائز تھے اور بعض نے تو عوامی تائید اور سابقہ حکومتی تجربہ ہونے کے باوجود کسی ریاستی یا سیاسی نظام کی بنیاد نہیں رکھی، نہ ہی اسے دینی شعبہ کے طور پر متعارف کروایا۔ شیموئل نبیؑ نے تو خود سرداری لی ہی نہیں بلکہ طالوت کو سرداری کے لیے متعین کیا۔
جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دوسری کرونائی عید الفطر
https://albasirah.com/urdu/scnd-eid-in-corona/