چین کے خلاف امریکہ کے جارحانہ اقدامات

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید ثاقب اکبر
امریکہ یوکرائن کے ذریعے روس اور اب تائیوان کے ذریعے چین کے امور میں مداخلت کرچکا ہے۔ اس وقت امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی تائیوان پہنچ چکی ہیں۔ نینسی پلوسی ایشائی ممالک کے دورے پر ہیں، جس میں وہ سنگاپور اور ملائشیاء کا دورہ کرچکی ہیں اور انھیں جاپان اور جنوبی کوریا جانا ہے۔ تائیوان کے دورے کا باقاعدہ طور پر اعلان نہیں کیا گیا تھا، تاہم اس کا عندیہ دیا جا رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چین اس دورے کے حوالے سے پہلے ہی تنبیہ جاری کرچکا تھا۔ یہ مسئلہ بنیادی طور پر ون چائینہ پالیسی سے متعلق ہے۔ چین تائیوان کو اپنا حصہ شمار کرتا ہے اور اس نے اس مسئلے پر دنیا بھر سے تعلقات اسی پالیسی کے تحت قائم کیے ہیں۔ اس پالیسی کے تحت دنیا بھر کے ممالک تائیوان کے ساتھ تجارت اور ثقافتی روابط قائم کرنے میں آزاد ہیں، تاہم ون چائنہ پالیسی کے تحت کوئی بھی ملک تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرسکتا۔

23 مئی کو راقم نے اپنے ایک آرٹیکل ’’تائیوان، چینی سفارتکاری کی انوکھی مثال“ کے ذیل میں چین اور تائیوان کے مسئلے کی حقیقت کے حوالے سے تحریر کیا تھا۔ تذکر کی غرض سے بتاتا چلوں کہ تائیوان چینی ساحل سے 117 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم مختلف جزائر ہیں، جن میں تائیوان، پینگھو، کنمن، مسٹو اور چند چھوٹے جزائر ہیں، جو مشترکہ طور پر تائیوان کہلاتے ہیں۔ ان جزائر کی آبادی تقریباً 23 ملین ہے۔ تائیوان بنیادی طور پر دو کیمونسٹ جماعتوں ریپبلک آف چائنہ اور پیپلز ریپبلک آف چائینہ کے مابین ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ تائیوان پہلے پہل ہالینڈ کی کالونی بنا، ہان چائنیز نسل نے اس خطے کے کچھ علاقے پر 1661ء سے 1683ء تک حکومت کی۔ اس کے بعد چنگ خاندان کا تائیوان کے جنوبی علاقوں پر اقتدار قائم ہوا۔

پہلی چین جاپان جنگ کے نتیجے میں 1895ء میں تائیوان اور پینگھو جاپان کے زیر قبضہ چلے گئے۔ ریپبلک آف چائنہ نے 1912ء میں تائیوان میں چنگ حکومت کا تختہ الٹ دیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اتحادی افواج کا ساتھ دیتے ہوئے تائیوان میں موجود جاپانی افواج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ یوں پچاس برس کے بعد پورے تائیوان پر چینی قبضہ ہوگیا۔ 1945ء میں جنگ عظیم دوئم کے بعد چین میں ROC ریپبلک آف چائینہ اور PRC پیپلز ریپبلک آف چائینہ کے مابین سول جنگ کا آغاز ہوا، جس کا اختتام PRC کی کامیابی کی صورت میں سامنے آیا۔ ROC تائیوان کی جانب چلی گئی اور وہاں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ ROC کے سربراہ کو منگ تنگ نے چالیس برس تک تائیوان پر حکومت کی۔ ROC  اپنے آپ کو مین لینڈ چائینہ اور تائیوان کی قانونی حاکم سمجھتی ہے، یعنی وہ اس امر کی دعویدار نہیں ہے کہ تائیوان چین سے الگ کوئی خطہ ہے، تاہم تائیوان میں ایسی کچھ قوتیں موجود ہیں، جو تائیوان کو ایک خود مختار علاقہ قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب جاپان نے تائیوان کو چھوڑا تو اس نے اس علاقے کو چین کے سپرد نہیں کیا بلکہ تائیوان کے عوام کے سپرد کیا ہے۔

بہرحال 1980ء میں تائیوان میں جمہوری اصلاحات کی گئیں، جس سے 1996ء میں صدارتی انتخابات ہوئے اور تائیوان ایشیاء میں چوتھی بڑی صنعتی طاقت کے طور پر ابھرا۔ 1971ء میں PRC نے اقوام متحدہ میں ROC کی جگہ لی اور متعدد خود مختار ریاستوں نے چین پر PRC کی حکومت کو تسلیم کر لیا۔ ROC کی حکومت کو 2000ء تک 15 ریاستوں نے قبول کیا ہے، حتی کہ امریکہ کا تائیوان میں کوئی سفارت خانہ نہیں ہے، بلکہ ایک انسٹی ٹیوٹ عارضی سفارت خانے کے طور پر کام کرتا ہے۔ مین لینڈ چائینہ کا کہنا ہے کہ ہم دونوں ایک چین کا حصہ ہیں، جہاں دو الگ الگ نظام ہیں۔ چین نے اگرچہ کبھی بھی تائیوان میں قائم حکومت میں مداخلت نہیں کی، لیکن چین میں بر سر اقتدار پارٹی تائیوان کو اپنا حصہ قرار دیتی ہے۔ چین کے موجودہ صدر زی جنگ پنگ کا کہنا ہے کہ تائیوان اور چین کا اتحاد بدیہی ہے، تاہم اس کے لیے کسی قسم کی قوت کا استعمال بعید از قیاس ہے۔

امریکی صدر بائیڈن نے 23 مئی 2022ء کو جاپان کے دورے کے دوران اعلان کیا تھا کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ تائیوان کا ساتھ دے گا۔ اس بیان کی اگرچہ وائٹ ہاوس نے فوراً وضاحت کی تھی کہ ہماری پالیسی میں اب تک کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے، تاہم آج امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی کا تائیوان کا دورہ واضح طور پر بتا رہا ہے کہ امریکہ چین سے تصادم کی راہ پر گامزن ہے اور اس مقصد کے لیے وہ تائیوان جیسے حساس مسئلے کو چھیڑ رہا ہے۔ امریکا جانتا ہے کہ چین کی کیمونسٹ پارٹی متعدد مرتبہ اس بات کا اظہار کرچکی ہے کہ ون چائینہ پالیسی پر کوئی لچک نہیں دکھائی جائے گی، اس کے باوجود امریکا کا یہ اقدام آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ اسی بات کا اظہار آج چین کی وزارت خارجہ نے بھی کیا ہے کہ امریکا جس آگ سے کھیل رہا ہے، اس کا اچھا نتیجہ نہیں ہوگا۔ اس متوقع دورے کے اعلان کے ساتھ ہی چین نے تائیوان بارڈر، تائیوانی جزائر کے اردگرد فوجی مشقوں کا آغاز کر دیا تھا۔ چین متعدد دنوں سے امریکہ کو متنبہ کر رہا تھا کہ امریکا کا یہ اقدام چین کی ریاستی سالمیت سے متصادم اقدام ہے۔

بہرحال امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی کا تائیوان کے وزیر خارجہ اور امریکی عہدیدار نے استقبال کیا اور نینسی پلوسی نے لینڈ کرتے ہی اعلان کیا کہ ہم تائیوان کی پرجوش جمہوریت کے حامی ہیں۔ ہم تائیوان میں بسنے والے 23 ملین انسانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دوسری جانب امریکی بحری بیڑا یو ایس ایس رونلڈ ریگن اور چار بحری جنگی جہاز تائیوان کے مشرقی پانیوں میں سے گزرنے کے بعد اس وقت فلپائین کے قریب عالمی پانیوں میں موجود ہیں۔ روس نے اس دورے کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکہ چین پر دباؤ بڑھانا چاہتا ہے، ون چائینہ پالیسی کے حوالے سے چین کے واضح موقف کے باوجود نینسی پلوسی کا دورہ تائیوان، تائیوان میں موجود علیحدگی پسندوں کے لیے ایک سگنل ہے۔

تائیوان کے عوام اس وقت دو گروہوں میں منقسم ہیں، ایک گروہ اپنے آپ کو چین کا حصہ سمجھتا ہے، جبکہ دوسرا جمہوریت پسند گروہ چین سے آزادی کا قائل ہے اور اس وقت تائیوان میں اسی دوسرے گروہ کی حکومت ہے۔ چین کے ساتھ الحاق کے حامی گروہ نے نینسی پلوسی کے دورہ کے حوالے سے تائیوان میں مظاہرہ بھی کیا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ نے بھی اس دورے کے حوالے سے مذمتی بیان جاری کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ دورہ چین کی علاقائی سالمیت کے منافی ہے۔ چینی صدر زن پیانگ بائیڈن کو ون چائنہ پالیسی سے متصادم کسی بھی اقدام کے بارے متنبہ کرچکے ہیں۔ اتنی تنبیہ کے بعد بھی کسی امریکی عہدیدار کا تائیوان کا سرکاری دورہ چین کو جنگ میں دھکیلنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اس کے لیے تائیوان کو بلی چڑھایا جا رہا ہے، جیسے روس کے معاملے میں یوکرائین کو بلی چڑھایا گیا۔

یقیناً چین اس معاملے پر خاموش نہیں رہے گا۔ دم تحریر چینی وزارت خارجہ کا بیان بھی سامنے آچکا ہے کہ یہ دورہ ون چائنہ پالیسی اور تین چین امریکا معاہدوں کی خلاف ورزی ہے، نیز چین کی علاقائی سالمیت پر حملہ ہے۔ چین نے واضح کیا ہے کہ وہ ہر سطح پر اس اقدام کا متناسب جواب دیں گے اور اس کی تمام تر ذمہ داری امریکا اور تائیوان میں برسر اقتدار جمہوری قوتوں پر ہوگی۔ تائیوان میں برسر اقتدار لوگوں پر حیرت ہے، جنھوں نے یوکرائن کی حالت دیکھ کر بھی آگ میں کودنے کا فیصلہ کیا۔ غلام ایسے ہی ہوتے ہیں، جو عوام کے مفاد کے بجائے اپنے ذاتی نفع کو ترجیح دیتے ہوئے پوری قوم کو عذاب میں جھونک دیتے ہیں۔