ملی یکجہتی کونسل کا وفد فلسطینی سفارتخانے میں

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر
ملی یکجہتی کونسل جو مسلمانوں کے مابین اتحاد و وحدت پر یقین رکھتی ہے اور عالمی سطح پر حق و انصاف کی عمل داری کو ضروری سمجھتی ہے، نے پاکستان میں موجود دنیا کے مختلف سفارتخانوں سے ہم آہنگی و روابط کے حوالے سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں اب تک چین، ایران اور فلسطین کے سفارتکاروں سے ملاقات کی جا چکی ہے۔ 15 جون 2022ء کو ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل جناب لیاقت بلوچ کی سربراہی میں کونسل کے وفد نے فلسطین کے سفیر محمد جواد امین ربعی سے ملاقات کی۔ وفد میں راقم کے علاوہ علامہ عارف حسین واحدی نائب صدر اسلامی تحریک پاکستان، پیر صفدر شاہ گیلانی سیکریٹری جنرل جمعیت علمائے پاکستان، خواجہ معین الدین کوریجہ سربراہ علماء و مشائخ کونسل، مفتی گلزار احمد نعیمی سربراہ جماعت اہل حرم پاکستان، علامہ احمد اقبال رضوی وائس چیئرمین مجلس وحدت مسلمین، پیر عبد الشکور نقشبندی مرکزی راہنماء جمعیت علمائے اسلام سینیئر، ڈاکٹر طارق سلیم صدر ملی یکجہتی کونسل شمالی پنجاب، علامہ جعفر نقوی سیکریٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل شمالی پنجاب، طاہر تنولی سیکریٹری مالیات اور شاہد شمسی میڈیا کوآرڈینیٹر شامل تھے۔

جناب لیاقت بلوچ نے وفد کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عوام کے دل ہمیشہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اور ملک کی تمام مذہبی جماعتیں بانیان پاکستان کی تعین کردہ فلسطین پالیسی کے مطابق کبھی بھی اسرائیلی غاصب ریاست کو جائز ریاست کے طور پر قبول نہیں کریں گی، یہ ایک غیر قانونی ریاست ہے۔ انھوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے فلسطینی عوام جس طرح سے قربانیاں پیش کر رہے ہیں، وہ قابل قدر ہیں۔ فلسطینی ہم سب کی طرف سے قبلہ اول کے دفاع کی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں۔ ہم فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ علامہ اقبال اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اسرائیل کے قیام کی کوششوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ہم آج ان کے نظریے پر قائم ہیں۔

گفتگو کے آغاز میں جناب لیاقت بلوچ نے وفد کے اراکین کا تعارف کروایا اور ملی یکجہتی کونسل کے مقاصد کو بیان کیا۔ انھوں نے کہا کہ کونسل مسلمانوں کے مابین ہم آہنگی اور وحدت پیدا کرنے کے لیے 1995ء سے سرگرم عمل ہے۔ اس کے پہلے صدر مولانا شاہ احمد نورانی تھے اور بعدازاں قاضی حسین احمد کونسل کے صدر منتخب ہوئے اور اس وقت جناب ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر کونسل کے سربراہ ہیں۔ ہم ہر سال پاکستان میں یوم القدس مناتے ہیں اور فلسطین کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین اور کشمیر عالم اسلام کے دو اہم ترین مسئلے ہیں۔ اسرائیل اور بھارت کے درمیان ان خطوں کے عوام کے حقوق پامال کرنے کے لیے ہم آہنگی موجود ہے۔

فلسطین کے سفیر جناب احمد جواد امین ربعی نے وفد کا استقبال کیا۔ وفد سے ملاقات کے موقع پر ان کے چہرے پر خوشی کے آثار دیدنی تھے۔ انھوں نے خندہ پیشانی سے اراکینِ وفد کو خوش آمدید کہا۔ انھوں نے کہا کہ برصغیر کے مسلمان روز اول سے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ 1931ء میں بیت المقدس میں فلسطین کے لیے ہونے والی کانفرنس میں علامہ اقبال اور مولانا محمد علی جوہر شریک ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ آج بھی مولانا محمد علی جوہر کی قبر مسجد الاقصیٰ کے پاس موجود ہے۔ انھوں نے یہاں دفن ہونے کی وصیت کی تھی۔ فلسطینی سفیر نے فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی کے لیے عالمی سازشوں کا ذکر کیا۔ بعض مسلمان ملکوں کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ مسلمان عوام فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کی طرف سے اسرائیل کی سرپرستی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ فلسطینی اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انھوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ میں جانے والا ہر مسلمان شہادت کا ارادہ لے کر جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ مسجد کے اندر وہ شہید ہوسکتا ہے۔ لہٰذا وہ اس کے لیے تیار ہوتا ہے۔ گذشتہ دنوں یہی جذبہ لے کر ایک مسلمان صحافی خاتون مسجد میں گئیں، جنھیں شہید کر دیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ پاکستانیوں کا خون بھی فلسطین کی جدوجہد آزادی میں شامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور قائداعظم سے بھی ملاقات کی تھی۔ انھوں نے کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد کی بھی حمایت کی اور کہا کہ فلسطین ہمیشہ کشمیری عوام کی جدوجہد کا حامی رہا ہے۔ فلسطینی سفیر نے علامہ اقبال کے دورہ فلسطین کے موقع کی دو تصاویر بھی وفد کو دکھائیں۔ انھوں نے وفد کے اراکین کو فلسطینی جھنڈے کے رنگوں پر مشتمل ایک تسبیح پیش کی۔ انھوں نے فلسطین کا چھپا ہوا قرآن حکیم بھی ہدیہ کے طور پر عنایت کیا۔ وفد کے اراکین نے بھی مختصر اظہار خیال کیا۔ راقم کا کہنا تھا کہ فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے ہمیں یو این او سے کوئی توقع نہیں رکھنا چاہیے۔ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو جاری رہنا چاہیے، ہم اس مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں۔ اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ باہر سے لا کر آباد کیے گئے صہیونیوں کو واپس ان کے ملکوں اور گھروں میں بھیجا جائے اور فلسطینیوں کو ان کے اپنے گھروں میں واپس آکر آباد ہونے دیا جائے۔

مفتی گلزار احمد نعیمی نے اس موقع پر فلسطینی سفیر سے دریافت کیا کہ عرب ممالک جو اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں، اس کی ایک وجہ تو ان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا دبائو ہے، آپ اس کے علاوہ ان کے اسرائیل کی طرف میلان کی کیا وجہ سمجھتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں فلسطینی سفیر نے کہا کہ بنیادی بات تو یہی ہے کہ ان پر امریکہ اور اس کے حواریوں کا دبائو ہے، لیکن دوسری بات یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو انھیں معاشی لحاظ سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جناب علامہ عارف حسین واحدی اور علامہ احمد اقبال رضوی نے فلسطینی مزاحمت کی حمایت کی اور کہا کہ ہم پاکستان میں ہمیشہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہتے ہیں، پاکستان کے تمام شہروں میں یوم القدس کے موقع پر مسجد الاقصیٰ اور فلسطین کی آزادی کے لیے ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ اس موقع پر خواجہ معین الدین کوریجہ، پیر صفدر شاہ گیلانی، ڈاکٹر طارق سلیم، پیر عبدالشکور نقشبندی، جناب شاہد شمسی اور مولانا جعفر نقوی نے بھی مختصر گفتگو کی اور فلسطینی عوام کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا۔