کیا فقط سیلاب ہی آفت ہے؟

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس
اس وقت ملک میں جاری سیلابی صورتحال کے تناظر میں کسی اور موضوع پر لکھنا میرے خیال میں زیادتی ہے۔ سوشل میڈیا اور خبروں سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ملک کے بہت سے علاقے حالیہ بارشوں کے سبب زیر آب آچکے ہیں۔ سوات اور مینگورہ میں بھی سیلاب کی اطلاعات ہیں۔ سوشل میڈیا کی ویڈیوز اور اطلاعات سے محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت اس صورتحال سے نمٹنے میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔ ہر جانب فریادیں ہی فریادیں ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ہم تین روز سے بھوکے پیاسے ہیں، کوئی پانی سے انسانوں کی لاشیں نکال رہا ہے اور کہیں مکانات گرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تقریباً ہر شخص نے ایک چندہ بکس بھی رکھا ہوا ہے، تاکہ مخیر حضرات اس میں چندہ ڈالیں۔ بدنظمی سی کوئی بدنظمی ہے، ایسے میں حکومت کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔

 فقط یہ اطلاع ہے کہ اس سیلاب سے اب تک نو سو کے قریب لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ بے گھر ہونے والوں کی امداد کا کوئی خاطر خواہ نظام موجود نہیں ہے۔ ملک میں فلاحی کام کرنے والی تنظیمیں اور افراد اپنے طور پر عوام کی مدد کی کوشش کر رہے ہیں۔ پی ڈی ایم اے سندھ کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں میں صوبے میں سیلاب کی وجہ سے 13 اموات ہوئی ہیں، جس کے بعد اب تک سندھ بھر میں مجموعی طور پر 306 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کی جانب سے جاری تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران دادو، مٹیاری، ٹنڈو اللہ یار، شہید بینظیر آباد اور نوشہرو فیروز میں پانچ بچوں سمیت 13 افراد جاں بحق ہوئے۔ دوسری جانب اسی دورانیے میں 75 ہزار گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے جبکہ ایک لاکھ 37 ہزار مکانات جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد نقصانات لاڑکانہ میں ہوئے ہیں۔

وفاقی وزیرِ ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان میں سیلابی صورتحال کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک انتہائی غیر معمولی انسانی المیہ بن چکا ہے، جس پر قابو پانا کسی ایک صوبہ یا ملک کے بس کی بات نہیں ہے، اس لیے اقوام متحدہ سے مدد کی اپیل کرنے جا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب تک تین کروڑ افراد متاثر ہوچکے ہیں اور اب تک مون سون کے چھ سے سات سپیل آچکے ہیں اور ابھی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ستمبر کے وسط میں بارشوں کا ایک اور سپیل آسکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ صورتحال پہلے کبھی نہیں دیکھی کہ ہم ابھی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کہیں اور سیلابی ریلے آگئے، کہیں اور سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی۔ شیری رحمان نے کہا کہ اتنے زیادہ پانی کو سنبھالنے کے لیے ہمیں قدرت کے نظام کو مستحکم کرنا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث پیدا ہونے والا یہ انتہائی غیر معمولی انسانی المیہ بن چکا ہے۔

پنجاب میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے کے مطابق سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے افراد کی امداد کے لیے سرگرمیاں جاری ہیں، جن میں پاکستانی فوج اور ریسکیو 1122 سمیت دیگر ادارے حصہ لے رہے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے ترجمان کے مطابق ریسکیو آپریشن کے دوران اب تک 42 ہزار سے زیادہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے جبکہ دور دراز اور مشکل رسائی والے علاقوں میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے سیلاب متاثرین تک خوراک پہنچانے کا عمل جاری ہے۔ ترجمان کے مطابق سیلابی علاقوں سے 6279 جانوروں کو بھی بچا کر نکالا گیا ہے۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق اب تک متاثرین کے لیے 99 فلڈ ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں، جن میں رہائش پذیر 641 گھرانوں کے 7446 افراد کو کھانے اور صاف پانی سمیت دیگر ضروری سہولیات کی فراہمی کا عمل جاری ہے، جبکہ اب تک 43,437 گھرانوں کو ایک ماہ کے لیے خشک راشن بھی فراہم کیا جا چکا ہے۔

محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ 25 اور 26 اگست کے دوران قلعہ سیف اللہ، کوئٹہ، زیارت، ہرنائی، پشین، لورالائی، بارکھان، کوہلو، ڈیرہ بگٹی، جھل مگسی، موسیٰ خیل، ژوب، شیرانی، سبی، نصیر آباد، بولان، آواران، قلات، خضدار، لسبیلہ اور ڈیرہ غازی خان کے برساتی اور مقامی ندی نالوں میں طغیانی کا خطرہ ہے۔ اس کی پیشگوئی کے مطابق 25 اگست کے دوران موسلادھار بارش کے باعث خطہ پوٹھوہار، سیالکوٹ، نارووال اور گوجرانوالہ میں نشیبی علاقے زیر آب آنے کا خطرہ ہے۔ 25 اور 26 اگست کے دوران موسلادھار بارش کے باعث راولپنڈی، اسلام آباد، ایبٹ آباد، مانسہرہ، دیر، سوات، کوہستان، کرک، بنوں، لکی مروت اور کشمیر کے مقامی ندی نالوں میں طغیانی کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر، خیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقوں، گلیات، مری، چلاس، دیامیر، گلگت، ہنزہ، استور اور سکردو میں لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ ہے۔

پاکستان میں سیلاب کوئی نئی چیز نہیں ہے، تاریخ میں پہلا سیلاب جو ریکارڈ پر موجود ہے، بابر کے دور میں آیا تھا، اتنی بڑی سیلابی تاریخ کے حامل ملک کو چاہیئے تو یہ تھا کہ وہ اس قدرتی پانی کو جو اس وقت یورپ کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے، محفوظ کرکے اسے آفت کے بجائے ایک موقع میں تبدیل کرتا۔ جی ہاں! یورپ اس وقت پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے، اس کے کئی ایک دریا اور آبی ذخائر خشک ہوچکے ہیں۔ اگلے چند برسوں میں یہ خشک سالی مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے، جو معاشی مشکلات کا باعث بنے گی اور ایک جانب ہم ہیں کہ انسانی ضروریات کے لیے اس قابل استعمال پانی کو آفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یقیناً اس وقت اس پانی کی وجہ سے بہت سے لوگ مشکلات سے دوچار ہیں، تاہم اس میں نظام قدرت کا نہیں خود انسانوں کا اپنا قصور ہے، جنھوں نے اس پانی کی منصوبہ بندی نہیں کی اور اس کو ذخیرہ کرکے اپنے کھیت اور کھلیان ہرے بھرے کرنے کے بجائے ان کھیتوں اور کھلیانوں  کو اجاڑ دیا۔ قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہے: "اور تمھیں جو مصیبت پہنچی، وہ اس کے سبب سے ہے، جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرما دیتا ہے۔"(الشوری:۳۰)

بہرحال اس وقت ہم اپنی ہی کمائی کے سبب مصیبت کا شکار ہیں، تاہم ہماری بڑی مصیبت یہ پانی نہیں بلکہ ہمارے رویئے ہیں۔ ہم نشانیاں دیکھنے کے باوجود ان سے سبق لینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ہماری آفت بداعتمادی ہے، ہماری آفت لالچ ہے، ہماری آفت بدعنوانی ہے، جو ایسی مصیبتوں کو دو چند کر دیتی ہے۔ حکومت، شخصیات اور تنظیمیں عوام سے مدد کی اپیل کرتی ہیں، لیکن عوام اس طرح دل کھول کر مدد نہیں کر رہی، جیسے ایک قوم کو اپنے بھائیوں کی کرنی چاہیئے۔ ہم بحیثیت قوم مل کر اس مصیبت سے نبرد آزما ہوسکتے تھے، تاہم ہمارے حکومتی عہدیدار اقوام متحدہ کی جانب دیکھ رہے ہیں اور وہاں سے کچھ رقم ملنے کی توقع لگائے ہوئے ہیں۔ غریب متاثرین کو معلوم ہے کہ میری مدد کو کوئی نہیں آئے گا، لہذا وہ مسلسل چیخ و پکار کر رہا ہے، مخیر لوگ دیکھ رہے ہیں کہ مدد کس طرح کی جائے، تاکہ مستحقین تک پہنچے۔ یہ پانی سے بڑی مصیبت ہے۔ یہ پانی تو چند روز میں اتر جائے گا، لیکن ہمارے رویئے نہ جانے کب بدلیں گے۔ عمران خان جیسے عوامی مقبولیت کے حامل راہنماء کا سیلاب متاثرین کی جانب متوجہ ہونا اور سیلابی علاقوں کا دورہ کرنا خوش آئند ہے، ان کو چاہیئے کہ وہ اس وقت سیاست کے ساتھ ساتھ سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے بھی ایک عوامی تحریک کی بنیاد رکھیں، تاکہ ہم مل کر اس مشکل سے نبرد آزما ہوسکیں۔