اسلامی اتحاد کیسے قائم ہو؟

Published by سید نثار علی ترمذی on

سید نثار علی ترمذی


  آیت اللہ العظمی شیخ محمد حسین آل کاشف الغطا(قدس سرہ)
By Ayatullah Shaikh Muhammad Husayn Kashif al-Ghita Introduction Late Ayatullah Shaikh Muuammad Husayn Kashif al-Ghita is considered as one among the leading Muslims scholars. He was simultaneously skilled in Fiqh (jurisprudence), Arabic literature, philosophy, Hikmah (wisdom), Tafsir (exegesis) and Irfan (gnosticism) and was the first jurist who introduced comparative study of Fiqh at Hawza Ilmiyya in Najaf, Iraq. He penned several books including Asl al-Shia wa usuluha, Asl al-Shia wa Sunnah, Al-Ayat al-bayyinat, Tahrir al-majala, Al-Din wa l-Islam, Ayn al-Mizan, Al-Mawakib al-Husayniyya, Manasik Haj, Wajiza al-ahkam and Al-Urwa al-wuthqa. Aytullah Kashif al-Ghita was an ardent supporter of Muslim unity and used his writings, sermons and research papers to familiarize the nobles and the general masses of bringing different Muslim sects close to one another. The article under review is a reflection of the same belief and feeling. It has to be kept in mind while reading this paper that it was written almost 40 years earlier, but several points raised in it indicate that the situation is same as it was then. This piece of writing was selected by Nisar Ali Tirmzi to be published for the respected readers of the Monthly Payam.
دارالتقریب قاہرہ کے مجلے’’رسالۃ الاسلام‘‘ کے دوسرے سال کا پہلا شمارہ موصول ہوا جس قدر وقت اور فرصت مل سکی ہم نے اس کا مطالعہ کیا۔ اس شمارے کے آخری مقالے اور اس سے قبل کے شماروں کے مطالعے۔۔۔ سے اندازہ ہوا کہ ابھی تک اس جماعت (دارالتقریب) کے اراکین (اسلامی اتحاد کے بارے میں) اپنی راہ کا تعین نہیں کر سکے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کے ذہنوں میں یہ خیال آنے لگا ہے کہ اس جماعت کے مقصد اور ہدف تک رسائی ممکن نہیں ہے۔
ہاں، اس ہدف اور مقصد تک رسائی اس صورت میں ممکن ہے، جب غرض اور مقصد یہ ہو کہ اسلامی فرقوں کے درمیان پایا جانے والا آراء و نظرایات کا فرق یکسر نظر انداز کردیا جائے اور انھیں کسی ایک فرقے کی صورت آپس میں ضم کردیا جائے، یقیناً یہ کام ممکن نہیں، کیونکہ انسانوں کے درمیان آراء کا فرق ایک فطری اور طبیعی مسئلہ ہے اور شاید قرآن اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ O اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَ لِذٰلِکَ۔۔۔(۱)
اور اگر آپ کا پروردگار چاہ لیتا تو سارے انسانوں کو ایک قوم بنا دیتا( لیکن وہ جبر نہیں کرتا ہے) لہٰذا یہ ہمیشہ مختلف ہی رہیں گے۔ یہ ہمیشہ مختلف ہی رہیں گے علاوہ ان کے جن پر خدا نے رحم کر دیا ہو اور اسی لیے انھیں پیدا کیا ہے۔
ہمیں یہ بات جان لینا چاہیے کہ مختلف اسلامی فرقوں کو نزدیک لانے کے معنی یہ نہیں کہ ان فرقوں کے درمیان پائے جانے والے عقائد کے اصول اختلاف کو درمیان سے ہٹا دیا جائے بلکہ ہماری آرزو اور اہم ترین مقصد یہ ہونا چاہیے کہ یہ فکری اختلافات عداوت اور دشمنی کا سبب نہ بن سکیں اور ان فرقوں کے مابین فاصلے اور ان کے درمیان موجود تنازعات برادری اور قربت میں بدل جائیں۔
مسلمان اگرچہ اصولی اور فروعی معاملات و مسائل میں اختلاف نظر رکھتے ہیں لیکن اس حدیث پر متفقہ طور پر ایمان رکھتے ہیں کہ جو کوئی توحید باری اور رسالت محمدیؐ کی شہادت دے اور اس کو اپنا دین قرار دے، تو اس کی جان و مال، عزت و آبرو لائق احترام ہے اور یہ کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔
جمعیت تقریب کا شعار یہ ہونا چاہیے کہ کیونکہ تمام مسلمان اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن کریم خداوند عالم کی جانب سے نازل ہوا ہے، اس کے احکام اورتعلیمات پر عمل واجب ہے اور اگر کوئی اس کتاب کے آسمانی ہونے کا منکر ہے، تو وہ کافر ہے۔ یہ قرآن اتحاد و برادری کو ضروری قرار دیتا ہے، تفرقہ و دشمنی سے منع کرتا ہے اور مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے:
اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (۲)
مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کے شاید تم پر رحم کیا جائے۔
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا(۳)
اوراللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو۔
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْادِیْنَمُ وَکَانُوْ اشِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْئٍ اِنَّمَآ اَمْرُھُمْ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّئُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۴)
جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا معاملہ خدا کے حوالے ہے پھر وہ انھیں ان کے اعمال کے بارے میں باخبر کرے گا۔
ایسے مضامین پر مشتمل اور بہت سی آیات قرآن کریم میں موجود ہیں۔
جب مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ قرآنی نصوص پر عمل واجب اور لازم ہے، تو پھر مسلمانوں کے درمیان نااتفاقی، عداوت اور دشمنی کا کیا بہانہ باقی رہ جاتا ہے؟
قرآن کریم اصول اور فروع کے بے شمار مسائل میں تمام مسلمانوں کو متحد رکھنے اوران کے ارتباط کا باعث ہے اور ان کو توحید و رسالت اور اسی طرح کے مضبوط بندھنوں میں باندھتا ہے۔ قرآن کریم سے استنباط کیے جانے والے بعض اختلافی مسائل اجتہادی اختلاف کے زمرے میں آتے ہیں اور انھیں دشمنی اور عداوت کا سبب نہیں ہونا چاہیے۔
ہاں، سب سے بڑا بنیادی اختلاف، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ شیعہ اور سنی کے درمیان واحد اختلاف’’مسئلہ امامت‘‘ پر ہے، جس کی باعث یہ دونوں فرقے دو مخالف کناروں پر کھڑے محسوس ہوتے ہیں۔
شیعہ امامت کو اصول دین میں سے ایک اصل، یعنی توحید اور نبوت ہی کی صف میں قرار دیتے ہیں اور اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ امام خدا اور اس کے رسول کی جانب سے منتخب ہونا چاہیے اور اس انتخاب میں امت کا کوئی دخل نہیں۔ جیسے کہ نبوت (نبی کے تعین) میں امت کا کوئی کردار نہیں۔
لیکن برادران اہل سنت امامت کو اصول دین میں سے شمار نہیں کرتے، بلکہ اہل سنت کے نزدیک اجماع یا انتخاب کے ذریعے امام کا تعین امت پر واجب ہے اور بعض اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا اصول دین یا فروع دین سے کوئی واسطہ نہیں۔
ان دو فرقوں کے درمیان اس واضح اختلاف کے باوجود آپ کو کوئی ایسا شیعہ نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ امامت کا اعتراف نہ کرنے والا مسلمان نہیں۔ اسی طرح کوئی اہل سنت ایسا نہیں پائیں گے جو یہ کہے کہ جو امامت کا قائل ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ لہٰذا اس مسئلے میں اتفاق یا عدم توافق اسلامی معاشرے اور اس کے احکام سے کوئی ربط نہیں رکھتا اور مسلمانوں پر (دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کا) جان و مال اور عزت و آبرو محترم ہے اور ایک دوسرے کا احترام، برادری اور وہ تمام حقوق جو ایک برادردینی دوسرے کااحترام، برادری اور وہ تمام حقوق جو ایک برادر دینی دوسرے پر رکھتا ہے ان کا لحاظ رکھنا لازم و واجب ہے۔
شاید کوئی کہے کہ ان دونوں فرقوں کے درمیان دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ شیعہ خلفا کی توہین کو جائز سمجھتے ہیں اور ان پر طعن کرتے ہیں اور ان کا یہ عمل لازما دوسرے فرقے کے جذبات و احساسات کو بھڑکاتا ہے اور ان دونوں فرقوں کے درمیان دشمنی اور عداوت میں اضافہ کا موجب ہے۔ اس بات کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم چشم بینا سے دیکھیں اور عقل بلکہ شریعت سے رجوع کریں، تو اس مسئلے کو بھی دشمنی کا سبب نہیں پائیں گے، اس لیے کہ: اولاد تو یہ رائے اور عقیدہ تمام شیعوں کا نہیں، بلکہ یہ ان میں سے بعض کا نظریہ ہے اور اکثریت اس امر میں ان کی موافق نہیں۔ کیونکہ آئمہ معصومین علیہ السلام کی احادیث میں اس عمل سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔
لہٰذا مناسب نہیں کیونکہ آئمہ معصومین علیہ السلام کی احادیث میں اس عمل سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔
لہٰذا مناسب نہیں کہ بعض افراطی(حد سے گزر جانے والوں) کی غلط روش کی وجہ سے تمام شیعوں سے دشمنی برتی جائے۔ دوسرے یہ کہ اگر بالفرض محال یہ تصور کر بھی لیا جائے کہ تمام شیعہ اس عمل میں شریک ہیں، تو یہ بات بھی شیعوں کے کفر اور دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا سبب نہیں بن سکتی۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہر دو فرقوں میں کس قدر گناہگار ہیں؟
اور یہ بات درست نہیں کہ کسی گناہ گار سے اس کے گناہوں کی بنا پر برادرانہ اسلامی رابطہ قطع کر لیے جائیں۔ تیسرے یہ کہ اگر اس مسئلے کو اجتہاد اور اعتقاد کے زمرے میں لیا جائے، تو اگرچہ یہ خطا ہے، لیکن ممکن ہے گناہ کی حدود میں نہ آتا ہو اور فسق کا سبب قرار نہ پاتا ہو۔ جیسا کہ تمام فرقوں کے نزدیک باب اجتہاد میں مسلم ہے کہ (اجتہادمیں) خطا کرنے والے کے لیے ایک اجر اور حقیقت تک پہنچ جانے والے کو دو اجر ملیں گے۔
علمائے اہل سنت کے نزدیک ابتدائے اسلام میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مابین ہونے والے معرکے، جیسے جمل و صفین، وغیرہ درست ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ طلحہ، زبیر اور معاویہ، وغیرہ(نے اس سلسلے میں) اجتہاد کیاتھا، اگرچہ ان کا اجتہاد خطا پر مبنی تھا لیکن برادران اہل سنت کے نزدیک یہ خطا ان حضرات کی عدالت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان کی نظر میں (ان افراد کا یہ فعل) اجتہاد اور حسن میں شمار ہوتا ہے اور ہزار ہا مسلمانوں کا قتل عام اور خون ریزی ان کی نگاہ میں جرم نہیں۔ پس بہتر ہے کہ بعض افراطی افراد کی طرف سے خلفا کی توہین کو بھی جرم قرار نہ دیا جائے۔
اس گفتگو سے ہمارا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ہم تعصب کی عینک اتار دینے، خواہشات کو ایک طرف رکھ دینے گہری تحقیق اور عقلی و نقلی دلائل کی بنا پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان عداوت اور دشمنی کی کوئی حقیقی اور بنیادی وجہ موجودنہیں ہے۔
ہماری مذکورہ بالا گفتگو، اسلامی اتحاد کی بنیاد سے متعلق تھی۔ اب یہ کہ اس اختلاف و انتشار کی بدولت مسلمان کن کن بدبختیوں سے دو چار ہوئے اور کن کن بلائوں میں گرفتار ہوئے یہ ایک علیحدہ المناک داستان ہے۔
اب تک اسلامی ممالک مثلاً اندلس، قفقاز اور بخارا وغیرہ کے مسلمانوں سے چھن جانے کے سانحات یادوں سے محو نہیں ہوئے ہیں۔ اگر ان مواقع پر مسلمان خدائی فرمان کی تعمیل کرتے ہوئے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے، تو (دشمنان اسلام) مسلمانوں کی سرزمین سے ایک مشت خاک بھی نہ لے پاتے۔
(عرب اسرائیل جنگ میں) سات عرب ممالک ایک چھوٹی سی کم مایا قوم سے شکست کھا کر سخت ترین تلخیوں کا مزا چکھ چکے ہیں اور تقریباً دس لاکھ مسلمان، بلکہ اکثر فلسطینی بے گھر ہو گئے ہیں اور ان کے گھروں ان کی املاک زمینوں اوردولت پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور وہ بھوک رنج و الم اور موسم کی سختیاں سہنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں جب کہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان کے عیش و طرب اور آرام و سکون میں کوئی فرق نہیں آیا اور آج تک انھوں نے چند فضول بیانات دینے بے فائدہ نعرے بازی اور جھوٹے مژدے سنانے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ واللہ اگر یہ ممالک یہودیوں سے اپنا حساب بے باق کرنے کے لیے فلسطینیوں کو چھوڑ دیں، تو یہودی ان کے ایک قصبے حتی زمین کے ایک ٹکڑے پر بھی قابض نہیں رہ سکتے۔ مسلمانوں نے اپنے ان دینی بھائیوں کو بے سہارا چھوڑ دینے اورانھیں یہودیوں کے سامنے جھکا دینے ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ مسلسل یہودیوں سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اور مختلف ایسے میدانوں میں جن میں یہودی عاجز ہیں ان کی مدد کر رہے ہیں۔
مسلمان آپس کے تفرقے اور ایک دوسرے سے لا تعلق ہو جانے کی وجہ سے ان حالات کا شکار ہیں، کوئی چیز انھیں متحد کرنے والی نہیں، کوئی رابطہ انھیں باہم جوڑنے والا نہ رہا، کوئی عامل ان کے درمیان مہر ومحبت قائم کرنے والا نہیں ہے اور اسی وجہ سے یہ عذاب کے حقدار ہیں۔
فحقت علیھم کلمۃ عذاب۔
ایک بار پھر ہم گزارش کریں گے کہ دارالتقریب کو اسلامی فرقوں کے مابین فاصلے کم کرنے اور ان کے درمیان سے دشمنی اور عداوت ختم کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے کہ وہ ’’رشتہ اسلام میں جذب ہو جائیں اور انتشار و افتراق کو دور اٹھا پھینکیں‘‘ اسی طرح شاید وہ اپنی عظمت رفتہ پا لیں اور اپنے اوپر مسلط پست ترین دشمن سے چھٹکارا حاصل کرلیں۔ یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ اس سے قبل بھی پاکباز لوگوں کے ایک گروہ جیسے جمال الدین افغانی، ان کے شاگرد شیخ محمد عبدہ اورکواکبی وغیرہ نے اس طرف راہ قدم بڑھائے تھے لیکن ان کی دعوت انفرادی نوعیت کی تھی اس کے برعکس آپ کی دعوت اجتماعی انداز لیے ہوئے ہے (اور انفرادی دعوت کو جن حوادث کا سامنا ہوتا ہے ان سے مبراہے) شاید خداوند عالم جل شانہ آپ کے اخلاص اور صدق نیت کی بنا پر اس تحریک کو ثمر بخش اور سود مند بنا دے، خاص کر جب کہ یہ دعوت علمی بنیادوں پر استوار ہے۔
یہ حقیر بھی عرصہ دراز سے مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دے رہا ہے، چنانچہ ہماری تالیفات جیسے، ’’الدین والاسلام‘‘ اور ’’المراجعات‘‘ جو تقریباً چالیس سال قبل طبع ہوئی تھیں اس بات پر گواہ ہیں۔ ہم مسلمانوں کو بیدار کرنے اور مردگی سے جھنجوڑنے کے واسطے مسلسل جرائد و مجلات کا اجرا کررہے ہیں اور اس سلسلے میں اسلام مراکز اور منبروں سے سینکڑوں خطاب کیے ہیں، جیسے فلسطین کے بارے میں تاریخی خطاب، اقتصاد واتحاد کے موضوع پر مسجد کوفہ میں خطاب اور چہار خطبات وغیرہ شائع بھی ہو چکے ہیں لیکن جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ ان کے قلوب پر مہر لگا دی گئی ہے اور روشنی چھین لی گئی ہے اور انھیں تاریکی میں چھوڑ دیا گیا ہے کہ انھیں کچھ نظر نہیں آتا۔
ایک مرتبہ پھر ہم دارالتقریب مذاہب اسلامی سے کہیں گے کہ اسلامی فرقوں کو نزدیک لائیے اور جس برادری، اخوت اور یگانگی کا خداوند عالم نے اپنی کتاب میں حکم دیا ہے اسے بیدار کیجیے(نہ کہ شیعہ کو سنی اور سنی کو شیعہ بنائیے) ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس عالی ہدف کی تکمیل کے لیے اپنے بھائیوں کو کلام خدا اور مولفین کی تالیفات کے ذریعے پند و نصیحت کریں کہ وہ اپنے برادران ایمانی پر طعنہ زنی نہ کریں اور ان کی طرف فساد کی نسبت نہ دیں۔ کوئی سال ایسا نہیں گزرتا جس میں شیعوں کے خلاف الزامات پر مبنی کوئی کتاب یا رسالہ نہ چھپتا ہو اور لازمی بات ہے کہ شیعہ بھی اپنے دفاع میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور نتیجے کے طور پر مسلمانوں کے درمیان دشمنی اور عداوت میں اضافہ ہوتا ہے اور (داخلی جنگ کے شعلے بھڑکانا) دشمنان اسلام اور استعمار گروں کی بہت بڑی خدمت ہے۔
تمام اسلامی فرقوں پر لازم ہے کہ جدال و اختلاف کے دروازے بند کردیں۔ کیونکہ اگر یہ عمل بذاتہ حرام اور مضر نہ بھی ہو تب بھی اس زمانے میں جب کہ دشمنان اسلام نے ہمیں ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے اور خاص کر اس وقت جب کہ داخلی دشمن جو اسلام کے دعویدار ہیں اور ان کی طرف سے پہنچایا جانے والانقصان خارجی دشمن سے زیادہ ہے(اور جو سرگرمی کے ساتھ انتشار و افتراق کو ہوا دے رہے ہیں) یہ عظیم ترین محرمات(حرام کاموں) میں سے ہے۔
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ وَ سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (۵) آپ کہہ دیجیے کہ یہی میرا را
ستہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے اور خدا پاک بے نیاز ہے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔
نہج البلاغہ خطبہ نمبر۲۰۴ میں امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے سپاہیوں کو معاویہ پر لعن طعن سے منع فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ اس سلسلے میں آئمہ کا طرز عمل جاننے کے لیے آیت اللہ العظمی سید محمد حسین فضل اللہ کی گرانقدر تالیف’’اسلامی اتحاد مسلک اہل بیت علیہ السلام کی روشنی میں‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ حال ہی میں آیت اللہ فضل اللہ نے خلفاء پر لعن کوممنوع قرار دیا ہے۔
۲۔ شیعوں اور سنیوں کو اتحاد کی دعوت دینے والے تمام داعیان اتحاد کا مقصد یہی ہے، وہ یہ نہیں چاہتے کہ کوئی ایک گروہ(شیعہ یا سنی) اپنے عقیدے سے دستبردار ہو کر دوسرے فرقے میں ضم ہو جائے، کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو تفاہم و رواداری اور علمی تحقیق و استدلال کے ذریعے عمل میں آسکتا ہے، صرف زبانی اتحاد کی دعوت سے نہ اتحاد پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ عداوت اور دشمنی کا قلع قمع ممکن ہے۔
حوالہ جات
۱۔ ھود:۱۱۸و۱۱۹
۲۔ حجرات:۱۰
۳۔ آل عمران:۱۰۳
۴۔ انعام:۱۵۹
۵۔ یوسف:۱۰۸