امام خمینیؒ مفسر قرآن کی حیثیت سے

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر
امام خمینیؒ کی 33ویں برسی کی مناسبت سے
امام خمینیؒ کی شخصیت اور افکار کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ انھیں اسلام کا بطلِ جلیل قرار دیا گیا ہے۔ وہ ایک عبقری شخصیت کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ وہ عالم و عارف، فقیہ و مفکر، مجاہد سیاستدان، عالمی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اور عابد و زاہد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں مشرق و مغرب میں اپنوں اور پرایوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اب بھی یوں لگتا ہے کہ امام خمینیؒ کو سمجھنے کا عمل جاری و ساری ہے۔ ہم امام خمینیؒ کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر لکھ چکے ہیں اور اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ بہت سے اہم پہلوئوں پر بہت کچھ لکھنا باقی ہے۔ آج کی نشست میں ہم اختصار کے ساتھ قرآن حکیم کے ساتھ امام خمینیؒ کی وابستگی اور تفسیر قرآن کے بارے میں ان کے افکار اور منہج پر مختصراً  بات کریں گے۔ امام خمینیؒ قرآن حکیم سے گہری وابستگی اور شغف رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ عام دنوں میں وہ قرآن حکیم کا ایک پارہ ضرور تلاوت کرتے تھے، جب کہ رمضان شریف میں ہر روز دو پارے تلاوت کرتے تھے۔ ان کی زندگی کے دیگر کاموں اور کارناموں پر غور کیا جائے تو اس روز مرہ پر استمرار اور تسلسل کتنا مشکل ہے، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

امام خمینیؒ نے قرآن حکیم پر ایک معلم اخلاق، فیلسوف عارف، فقیہ اور اجتماعی امور کے ذمہ دار کی حیثیت سے نظر ڈالی ہے اور ہر پہلو سے گہرے مطالب اخذ کیے ہیں۔ انھوں نے باقاعدہ قرآن حکیم کی تفسیر تو نہیں لکھی، صرف چند سورتوں اور آیات کی بالالتزام تفسیر کی ہے، اس میں سورہ توحید اور سورہ قدر شامل ہیں۔ آپ کی چند تفسیری نشستیں ایران کے ٹیلی ویژن سے نشر ہوئیں، لیکن آپ کے بیان کردہ مطالب بعض ظواہر پرستوں اور جمود زدہ ذہنوں پر ناگوار گزرے۔ لہٰذا انھوں نے یہ سلسلہ ترک کر دیا۔ اب بھی بہت سے عاشقان قرآن یہ سمجھتے ہیں کہ ان ظاہر پرستوں کی وجہ سے ہم قرآن حکیم کے بہت سے معارف سے محروم رہ گئے ہیں، اگر امام خمینیؒ تمام تر تفسیر بیان کرسکتے تو ایک بڑا خزانہ ہمارے ہاتھ لگتا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے تفسیری دروس میں امامؒ نے تفسیر عرفانی کی روش کا دفاع کیا ہے اور عرفاء و اہلِ ظاہر کے فکری اختلافات کو واضح کیا ہے۔

تاہم امام خمینیؒ کی متعدد عرفانی و اخلاقی کتب، آپ کے بیان کردہ تفسیری مطالب، آپ کے خطبات اور مکتوبات کا مطالعہ کرکے بہت سے مرتبین اور شارحین نے تفسیری مطالب کو کتابی صورت میں جمع کیا ہے اور ان کی موضوع بندی کی ہے، اس سلسلے میں کئی ایک کتب شائع ہوچکی ہیں۔ سورہ بقرہ کی مجموعی طور پر پچاس آیات کی تفسیر امام خمینیؒ کے آثار سے اخذ کی گئی ہے۔ ان میں خلقت آدم، ملائک کا آدم کو سجدہ کرنا، آیت الکرسی اور آیہ قبلہ کے حوالے سے مبسوط مطالب شامل ہیں۔ سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران میں موجود آیات الاحکام کی تفسیر بھی تفسیر امام خمینیؒ کے حوالے سے بیان کی گئی ہے۔ آپ کی کتاب البیع میں بھی آیات الاحکام کے تفسیری مطالب موجود ہیں۔ علاوہ ازیں کتاب الطہارۃ اور المکاسب میں بھی آیات الاحکام سے استفادہ کیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت موسیٰؑ سے متعلق آیات سے امام خمینیؒ نے سیر و سلوک اور روحانی سفر کو بیان کیا ہے اور ان انبیاء ؑپر جو حق تعالیٰ کی تجلی کا ذکر مختلف سورتوں میں آیا ہے، اس کی وضاحت کی ہے۔ اس سلسلے میں سورہ انعام اور سورہ اعراف سے اخذ کیے گئے مطالب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح قرآن حکیم کی دیگر سورتوں سے امام خمینیؒ نے جو استفادہ کیا ہے، اسے شارحین و مرتبین نے بڑے اہتمام سے بیان کیا ہے۔ یہاں زیادہ تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں۔

امام خمینیؒ نے حقیقت وحی، جامعیت قرآن اور قرآن کے ناقابل تحریف ہونے کو متعدد مقامات پر واضح کیا ہے۔ امام خمینیؒ کے نزدیک قرآن میں مجاز گوئی نہیں ہے۔ ان کے نقطہ نظر سے قرآن میں وضعِ الفاظ ان کے حقیقی معانی میں ہے۔ تاہم قرآن میں مجاز کو قبول نہ کرنا امام خمینیؒ کی نظر میں اس کے الفاظ کو حسی معنی میں محدود کرنا نہیں ہے۔ امام خمینیؒ نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ قرآن کی حقیقت کیا ہے۔ اسی طرح انھوں نے قرآن کی حقیقتِ تنزیلی پر بھی بات کی ہے۔ امام خمینیؒ کی نظر میں ’’تنزیلِ قرآن‘‘ کا ایک خاص معنی ہے، جو قرآن کے قابلِ فہم ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ گویا تفسیر کو سمجھنے کے لیے عقل کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے اور بعض لوگوں کا یہ نظریہ درست نہیں کہ عقل کے ذریعے قرآن کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ ان کی نظر میں راہِ حقیقت انسانِ کامل کے علاوہ دیگر مجاہد اور تہذیبِ نفس کے حامل علماء کے لیے بھی کھلی ہے۔

امام خمینیؒ کہتے ہیں: ’’بعض نے آیات شریفہ میں تفکر و تدبر کو تفسیر بالرائے کے ہم معنی سمجھا ہے، جو ایک اشتباہ ہے، اس طرح تو انھوں نے قرآن کو مہجور کر دیا ہے۔۔۔ جہاں تک قرآن سے اخلاقی، ایمانی اور عرفانی حوالے سے استفادہ کرنا ہے تو یہ تفسیر ہی نہیں کہ اسے تفسیر بالرائے قرار دیا جائے۔‘‘  البتہ انھوں نے واضح کیا ہے کہ’’ ہم اپنی رائے سے قرآن کی تاویل نہیں کرسکتے، ہمیں چاہیے ’’اِنَّمَا یَعْرِفُ الْقرآن مَنْ خُوطِبَ بِہ‘‘ (یعنی قرآن کو ان سے سمجھنا چاہیے جو اس کے مخاطب ہے) کے مصداق قرآن کو وحی اور وابستگان وحی سے حاصل کرنا چاہیے اور الحمدللہ اس حوالے سے ہم غنی ہیں۔‘‘ یعنی ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے، وہ سب ہمیں میسر ہے۔ امام خمینیؒ قرآنی الفاظ کے معانی کی وضاحت، بدیعی خصوصیات، وجوہ اعجاز، اسباب نزول اور معرفت ناسخ و منسوخ کو تفسیر کے دائرے سے باہر سمجھتے ہیں۔ ان کی رائے میں یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی بیمار طبیب کے نسخے کی تفصیلات سے تو آگاہ ہو، لیکن اس کی حقیقت کی طرف متوجہ نہ ہو، جو دراصل اس پر عمل کرنا ہے۔

امام خمینیؒ کی رائے میں قرآن سے معنوی استفادہ اور معارفِ قرآن سے بہرہ گیری تمام انسانوں کے لیے ممکن ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فہم قرآنی کو ایک خاص گروہ کے لیے محدود تصور کرنا راہ سلوک کے راستے میں دبیز پردے حائل کرنے اور طریق الی اللہ میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔ وہ قرآنی آیات سے فقہاء، شعراء، علماء، فلاسفہ اور عرفاء وغیرہ کے مختلف طرح کے فہم کو اپنے مقام پر صحیح سمجھتے ہیں۔ وہ مفسرین جو تفسیر کو اپنے لیے مختص سمجھتے ہیں اور اپنی ہی تفسیری روش کو درست قرار دیتے ہیں اور دوسرے کے تفسیری مشرب کو غلط جانتے ہیں، ان پر امام خمینیؒ شدید تنقید کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں امام خمینیؒ آیات سے عرفانی مفاہیم اخذ کرنے کو بھی تفسیری روش سے ماورا قرار دیتے ہیں۔ اس طریقے کو آپ علم کلام کے لوازم میں سے جانتے ہیں کہ جو عقل پر مبنی ہوتے ہیں اور نظری مسائل کے دائرہ کار میں آتے ہیں، لہٰذا آپ منضبط باطنی عرفانی تفسیر کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو عقل پر انحصار کرتی ہے اور تفسیر بالرائے بھی نہیں ہے۔ دوسری طرف امام خمینی کا اعتقاد ہے کہ صرف رسول اکرمؐ اور ائمہ اہلِ بیتؑ قرآن کے تمام تر اسرار و حقائق کی معرفت رکھتے ہیں اور ہدایت کا سیدھا راستہ اختیار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اِنھیں اولیاء دین کے بتائے ہوئے آدابِ شرعی کو عملی زندگی میں اختیار کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز