سید اعجاز علی شاہ کی یاد میں

Published by fawad on

ایسے لوگ تو کم ہوتے ہیں۔

تحریر: سید نثار علی ترمذی

دیو سماج لاہور کا اپنا سماج تھا۔ دن ڈھلے وہاں خوب رونق ہوتی۔ جونہی مغرب ہوتی تو صحن میں صفیں بچھ جاتیں۔ سب اللہ کے حضور سر بسجدہ ہوجاتے۔ اگر کسی دن کوئی عالم دین میسر آجاتا تو نماز با جماعت کا اہتمام ہوجاتا۔ ان نوجوانوں میں ایک روحانی شخصیت جو سفید شلوار قمیض، شیروانی اور جناح کیپ پہنے ہوئے موجود ہوتی، اول وقت میں نماز کی ادائیگی کے لیے کوشاں رہتی۔ان کا انداز گفتگو اس قدر دلنشیں تھا کہ لوگ فوراً متوجہ ہوجاتے۔


میں کیونکہ نیا نیا تنظیم میں وارد ہوا تھا اس لیے اپنے ساتھ والے سے پوچھا کہ یہ بزرگ کون ہیں جو جوانوں کا سا عزم رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سید اعجاز علی، پان گلی، انار کلی ہیں۔ ایک سکول میں ہیڈ ماسٹر ہیں۔ ان سے مل کر ایسا محسوس ہوا گویا کہ ہم صدیوں سے آشنا تھے۔ چند دن میں ان سے قربت اس قدر بڑھی کہ میں ان سے ایک عجیب خواہش کا اظہار کر بیٹھا۔ شاہ صاحب! آپ روزانہ دفتر میں تشریف لاتے ہیں تو نماز مغربین کی جماعت کروا دیا کریں۔ انھوں نے فوراً کانوں کو ہاتھ لگائے اورتوبہ توبہ کی گردان کی، کہا بچیا! میں تو اس قابل نہیں ہوں کہ میری نماز قبول ہوجائے بجائے اس کے دوسروں کی نمازوں کو اپنے ذمہ لوں۔میں نے جواب دلائل دینے شروع کر دیے کہ پیش نماز میں جو شرائط ہیں وہ آپ میں بدرجہ اتم موجود ہیں بلکہ ملا کی نماز اور ہے مجاہد کی نماز اور جیسا تفاوت موجود ہے۔ مگر شاہ صاحب کی نہ ہاں میں نہ بدل سکی۔ میری روزانہ کی تکرار سے وہ اس بات پر قائل ہو گئے کہ اگر ڈاکٹر صاحب کہہ دیں تو وہ یہ فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ اس سے تو گویا یہ مسئلہ آسان ہوگیا۔


یہ مسئلہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیش کیا تو انھوں نے فوراً شاہ صاحب سے فرمایا’’ شاہ صاحب! نوجوانوں کو جماعت کروا دیا کریں۔ اب شاہ صاحب کے پاس انکار کی گنجائش نہ تھی اور میری خوشی کا ٹھکانا نہ تھا۔ شاہ صاحب نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا بچیا! تو بڑا شرارتی ہو گیاایں۔


کئی دن ایسا ہوا شاہ صاحب دفتر آئے ، جوں ہی مغرب کی اذان ہوئی، لوگ نماز کے تیار ہوتے، شاہ صاحب سے عرض کرتا کہ جماعت کروائیں۔ تو لیت ولعل سے کام لیتے۔ مگر جب میں کہتا کہ شاہ صاحب! ڈاکٹر صاحب کو بتا دوں گا تو فوراً مصلے پر کھڑے ہوجاتے۔ یوں کئی نمازیں آپ کی اقتدا میں ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ بعض اوقات تو ڈاکٹر صاحب بھی شامل جماعت ہوتے۔ پھر شاہ صاحب عجزوانکساری کی وجہ مغرب کے وقت غیر حاضر ہونے لگے اورخود میں بھی تنظیمی مصروفیات بڑھ جانے کی وجہ سے متوجہ نہ ہو سکا۔


اعجاز علی شاہ صاحب شکر گڑھ کے رہنے والے تھے۔ پان گلی، انار کلی لاہور میں اپنے ذاتی گھر میں اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ لاہور میں ایک سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ آپ خوش خط تھے اور طلاب کے لیے نمونہ عمل۔ پہلے سلیمانیہ پبلک ہائی سکول سمن آباد میں تعینات تھے۔ مگر اپنی اصول پسندی کی وجہ سے زیادہ عرصہ چل نہ سکے۔ مگر اپنی تنظیمی ذمہ داری کی وجہ سے ایک غیر معروف سکول گورنمنٹ پاک سٹینڈرڈہائی سکول میں شاہ عالمی سلیمانیہ پبلک ہائی سکول سمن آباد تعیناتی کروائی ہوئی تھی۔ خود کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ محکمہ تعلیم کے لوگ انسپکشن کے لیے آئے تو وہ سکول ڈھونڈ نہ سکے ۔


اپنے ماضی کے بارے میں بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بچپن سے مجلس،ماتم اور نمازسے رغبت رہی۔ جہاں مجلس ہوتی، جلوس ہوتا پہنچ جاتا۔ پورا پورا دن ساری ساری رات مجالس سنتا، پھر انقلاب اسلامی نے انقلاب برپا کردیا۔


وہ خود کہتے ہیں کہ میں سنا کرتا تھا کہ فلاں پیر دیوار پر بیٹھے اور دیوار چلنے لگی۔ میں دیوار تھا مگر ڈاکٹر صاحب وہ پیرہیں جس نے اس دیوار کو چلا دیا۔اعجاز علی شاہ صاحب ڈاکٹر صاحب کے والد کے ہم عمر ہوں گے۔ مگر وہ اپنی محبت، انکساری اور خلوص کی بنا پر ڈاکٹر صاحب کو جو مقام دیتے تھے اس سے ڈاکٹر صاحب کے مقام کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ جس قدراعجاز علی شاہ ڈاکٹر صاحب سے محبت و عشق کرتے تھے اور ان کے حکم کی تعمیل میں ہمہ وقت مستعد رہتے تھے اس کی کوئی اور مثال پیش کرنا ممکن نہیں۔


اعجاز علی شاہ صاحب کا ایک مستند حوالہ معلمی ہے۔ آپ سرتاپا استاد تھے اور ہم عصر اساتذہ میں ہر دلعزیز،نہ کسی کو نقصان پہنچایا اور نہ کسی کی ٹانگ کھینچی، بلکہ کوشش کی کہ ہرکسی کے کام آسکیں۔ لاہور میں ایک دور ایسا آیا کہ ایک متعصب ڈی پی آئی تعینات ہو گیا۔اس نے ایک فرقہ کے لوگوں کو تنگ کرنا شروع کردیا۔ ان کے لاہور سے باہر تبادلے اور ترقیوں میں رکاوٹ پیدا کرنے لگا اور اپنے من پسند اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرنے لگا۔ اس صورت حال میں اس مسلک کے اساتذہ مل بیٹھے اورامامیہ ٹیچرز آرگنائزیشن کے نام سے اپنی الگ تنظیم بنا لی۔ اس نے کوشش کرکے اپنے حقوق کا تحفظ کیا بلکہ اس متعصب افسر کی چھٹی بھی کروا دی۔

سید اعجاز علی شاہ

جب ہدف حاصل ہو گیا تو تنظیم بھی فعالیت کھو بیٹھی۔ جب علامہ عارف الحسینی شہیدؒ نے تحریک کے شعبہ جات کا اعلان فرمایا تو امامیہ ٹیچرز آرگنائزیشن اپنے ماضی کے ساتھ تحریک کا حصہ بن گئی۔ صدر کوئی ہو، جنرل سیکرٹری کوئی مگر اس کے روح رواں شاہ صاحب تھے۔ شاہ صاحب کسی کو ساتھ لے کر دفتر آتے اور تعارف کرواتے کہ یہ اب I.T.O کے لیے کام کرے گا۔ چند دن کے بعد وہ غائب ہوجاتا۔ پتا چلتا کہ وہ تو اپنے کسی کام کے سلسلہ میں آیا تھا اور شاہ صاحب نے اس شرط پر اس کا کام کروا دیا کہ وہ تنظیم کے لیے کام کرے گا۔ مگر کہاں؟ شاہ صاحب پھر کسی اور شخص کو لیے ہوئے سرگرداں نظر آتے۔کتنے ہی لوگوں نے شاہ صاحب کے احساسات سے استفادہ کیا۔ مگر شاہ صاحب تھے کہ دن رات اپنے مشن میں لگے رہتے۔


شاہ صاحب جب دفتر تشریف لاتے تو کئی نوجوان اپنی اسناد کی نقول لیے تصدیق کے منتظر ہوتے۔ شاہ صاحب پورے اعتماد سے ان کی تصدیق کرتے جاتے۔ اپنے تھیلے سے سٹیمپ نکال کرثبت کردیتے۔ اس کارخیر سے پورا پنجاب مستفید ہوا۔ کسی من چلے نے شاہ صاحب کی مہر مستقل دفتر میں رکھ لی تاکہ ایمرجنسی میں کام آسکے۔ دور دراز سے سفر کرتے دیوسماج پر پہنچنے والے لوگ جب دریافت کرتے کہ انھوں نے تو اسناد بھی تصدیق کروانی ہیں تو انھیں انار کلی والے گھر کا پتا سمجھا دیا جاتا۔ یوں وہ شاہ صاحب سے اسناد کی تصدیق کے ساتھ مہمان نوازی کا لطف بھی اٹھاتے۔


کئی مرتبہ مجھے یہ شرف حاصل ہوا کہ کسی مہمان کے ساتھ صبح کے وقت شاہ صاحب کے دردولت پر حاضری دوں۔ شاہ صاحب انتہائی محبت سے ملتے۔ وہاں خود لوہاری گیٹ سے جا کر ناشتہ لے کر آتے اور شوق سے مہمان کے سامنے پیش کرتے۔ بعض اوقات میں کوشش کرتا کہ آپ کو یہ زحمت نہ اٹھانی پڑے مگر شاہ صاحب کسی کام کو ہاتھ لگانے نہ دیتے۔ مہمان جس شوق سے شاہ صاحب کی زیارت کرنے، ان سے اپنا مسئلہ بیان کرنے اور حل کروانے کے لیے آیا ہوتا وہ مہمان نوازی کے انداز سے اپنے دکھ درد بھول کر شاہ صاحب کی شخصیت میں گم ہوجاتا اور اسے یقین ہوجاتا کہ اس کی مشکل آسان ہو گئی ہے۔


ان دنوں دیوسماج کا دفتر مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب مرکزی رابطہ سیکرٹری تھے یہ دفتر کسی حد تک مرکزی دفتر کا کام انجام دیتا تھا۔ پنجاب کا صوبائی دفتر تو تھا ہی مگر لاہور کے کارکنوں کا نقطہ اتصال و تحرک یہی دفتر تھا۔پنجاب بھر سے،دور دور سے آنے والے مہمانوں کے لیے دفتر دیدہ و د ل فرش راہ کیے ہوئے تھا۔ اس دفتر کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ایک نظام مالیات تھا۔ جس کے روح رواں شاہ صاحب تھے۔ اس نظام مالیات نے ماہانہ چھ ساڑھے چھ ہزار روپے اکٹھے کرنا ہوتے تھے۔ دفتر میں ایک رجسٹر موجود تھا جس میں عطیہ دینے والوں کے نام لکھے ہوتے تھے جس میں پانچ روپے دینے والے معطی حضرات سے لے کر ایک سو روپے تک دینے والے شامل تھے۔ سو پچاس دینے والے بہت کم تھے۔ اس فہرست میں بڑے بڑے سیٹھوں کے نام کے ساتھ ساتھ عام کارکنوں کے نام شامل تھے۔ دفتر میں متواتر آنے والے کارکنوں سے چندہ وصول کیا جاتا۔


شاہ صاحب کے ذمہ تھا کہ وہ نہ صرف چندہ کی وصولی کو ممکن بنائیں بلکہ اس میں اضافہ کی کوششیں کریں۔ ایسا بھی ہوتا کہ شاہ صاحب آکر ڈاکٹر صاحب کو رپورٹ دیتے کہ فلاں نے نہ صرف ماہانہ چندہ دینے سے انکار کردیاہے بلکہ بہت سی نازیبا باتیں بھی کی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مسکرا کر شاہ صاحب کو تسلی دیتے اور کہتے میں خود اس سے بات کروں گا۔ اس کام کے لیے ایک عدد رسید بک شاہ صاحب کے بیگ میں موجود ہوتی۔ ہر مہینہ دفتر ریگولر ادائیگی کرنے والوں کی رسید یں کاٹ کر شاہ صاحب کے سپرد کر دیتا۔ جب کبھی کوئی پروگرام ہوتا تو ڈاکٹر صاحب شاہ صاحب سے کہتے کہ وہ مارکیٹوں کا چکر لگائیں۔


اسی دوران ڈاکٹر مصطفی چمران کی کتاب کا ترجمہ چھپ کر مارکیٹ میں آگیا۔ جس سے یہ آئیڈیا ملا کہ مالیات کے جمع کرنے کے لیے ڈبے رکھوا دیے جائیں۔ ایک مخیر نے ڈبے بنوا کر دیے تو یہ ذمہ داری بھی شاہ صاحب کے نازک کندھوں پر آپڑی۔ اس لوہے کے ڈبے کے تین خانے تھے جن بالترتیب صدقہ، امام ضامن اور مال امام درج تھا۔


اب شاہ صاحب یہ ڈبے گھر گھر رکھوانے لگے۔جب سو ڈبے رکھے گئے تو شاہ صاحب کی خوشی دیکھنے والی تھی۔ کہنے لگے بچیا! اک ہزار ڈبے رکھوانے نیں۔ ڈبوں سے حاصل ہونے والی رقم مالیات میں ایک اچھا خاصا اضافہ تھا مگر اس سے یہ نقصان بھی ہوا کہ پہلے والا نظام تنزل کا شکار ہو گیا۔ اس طرح شاہ صاحب ارتقائی مراحل طے کرتے کرتے نظام مالیات یعنی نظام خمس و زکوٰۃ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: https://albasirah.com/urdu/ghulam-hussain-naeemi/


رجوعہ سادات چنیوٹ میں تحریک کے پہلے تنظیمی کنونشن منعقدہ 1985ء کے موقع پر خمس وزکوٰۃکے نظام کے لیے ایک قرارداد منظور ہوئی مگر اس پر شہید عارف الحسینی کی زندگی میں عمل نہ ہو سکا۔ مگر شاہ صاحب کا خلوص اور ملت کے مسائل کے درد نے انھیں اطمینان سے بیٹھنے نہ دیا۔ انھوں نے اس قرارداد کو عملی شکل دینے کے لیے مشاورت کا عمل شروع کیا۔ بالآخر انھوں نے جعفریہ ویلفیئر فنڈ کے نام ایک ادارہ تشکیل دے دیا وہ مسائل اور مشکلات کو وسائل کی عدم دستیابی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔


جعفریہ ویلفیر فنڈ ایک نظام کی صورت میں کام کرنے لگا۔ ملک بھرمیں بنک اکاؤنٹ کھولا گیا۔ اس کی شرعی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے علماء کرام کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اضلاع میں نمائندے تعین کیے گئے۔مرکزی قیادت کی سرپرستی میں چلنے والا نظام شاہ صاحب کی زندگی کا ہدف بن گیا۔ یہ ایسا نظام تھا کہ جس سے شاہ صاحب ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کر سکتے تھے۔ مگر اس کے روح رواں شاہ صاحب ہی ہیں۔ جس قدر خمس وزکوٰۃ کی ادائیگی کی تبلیغ اس ادارہ نے کی ہے اتنی سعادت کسی اور کو نصیب نہ ہو سکی۔ ظاہر ہے اس کا فائدہ مستحق لوگوں کو پہنچا۔ شاہ صاحب جب بات کرتے تو نظام کی بات کرتے یہی ان کی پہچان بن گئی۔ یہ شعر اکثر نے شاہ صاحب کی زبانی سنا ہوگا۔


تجسیم رسالت میں بس دو ہی تو چیزیں ہیں
اک مال خدیجہؑ کا اک خونِ ابو طالبؑ


اس نظام مالیات کی تشکیل میں بھی ڈاکٹر صاحب کا مشورہ سر پرستی اور تعاون حاصل تھا۔ 1995ء کا یوم القدس تھا۔ ڈاکٹر صاحب جلوس میں شاہ صاحب کے ساتھ چل رہے تھے اور شاہ صاحب حسب عادت نظام پر بات کرتے جارہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ شاہ صاحب اب اس نظام کو فلائنگ گیئر لگائیں ،ان شاء اللہ میں پورا وقت نظام کو دوں گا۔ یہ سننا تھا کہ شاہ صاحب کی خوشی دو چند ہو گئی اور وہ نظام کی کامیابی کے لیے پرامید ہو گئے مگر قدرت کچھ اور طے کر چکے تھی۔ ڈاکٹر صاحب شوال کے پہلے ہفتے میں شہادت کا سرخ جوڑا پہن کر لوگوں کے کاندھوں پر سوار اپنی ابدی آرام گا میں جا سوئے اور نظام پھر شاہ صاحب کی ذمہ داری ٹھہرا۔ اس کے بعد نظام کو بہت دھچکے پہنچے مگر شاہ صاحب کے خلوص کی بدولت نظام چلتا رہا اور چل رہا ہے۔ یہ سب اس ایک شخص کے دم قدم سے ہے۔ اس نظام نے کس قدر خدمات انجام دیں ہیں اس کے لیے بندہ کا قلم اپنی بے بضاعتی کا اظہار کرتا ہے۔


جب ملت کرائسز میں تھی تو ایک بڑی شخصیت نے شاہ صاحب کی دیانت پر شک کا اظہار کیا۔ اس رویے نے جو شاہ صاحب کو جو اذیت پہنچائی وہ شاید سعودی پولیس نے بھی نہ پہنچائی ہو۔ جس شخص نے تمام عمر انتہائی محتاط گزاری ہو، رزق حلال کمایا ہو اور ملی معاملات میں اپنا وقت، طاقت اور دولت کو بے دریغ خرچ کیا ہو، جس ادارہ کی تاسیس میں اس کا خون جگر شامل ہو، اس کے بارے میں کوئی ایسے بھونڈے الزامات لگائے تو اس کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر شاہ صاحب نے اس اذیت کو ایک اور جذبہ میں بدل دیا۔ یوں یہ ادارہ اپنے نئے سیٹ اپ کے تحت ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔


اسے شاہ صاحب کا خلوص کہیں یا سادہ لوحی کی جو بات ان کے ذہن میں بیٹھ گئی اس کو کرکے چھوڑا حالانکہ علاج تنگی دامان اب بھی موجود ہیں۔ اس ادارہ کو جدید تقاضوں اور تازہ افکار کے مطابق آ گے بڑھانے کی ضرورت ہے۔


جن میں مقاصد کا از سر نو تعین، فیصلہ کن اداروں کی تطہیر وہمہ گیر تعمیر، جدید پیغام رسانی کے ذرائع سے کام لینا اور مسؤلین کی پیشہ وارانہ ، نظریاتی اور اخلاقی تربیت اور اس میں تسلسل شامل ہے۔ نیز خمس و زکوٰۃ کے مسائل کو پاکستان کے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ حاصل کیے گئے نتائج کی مناسب تشہیر ضروری ہے۔


بہرحال یہ ادارہ شاہ صاحب کی زیر نگرانی تا ظہور امام زمانہؑ چلتا رہے۔ آمین ثم آمین۔
شاہ صاحب کیونکہ ہمہ صفت انسان ہیں جہاں وہ مرد میدان ہیں تو وہ اپنے رب ذوالجلال کی بارگاہ میں سجدہ ریز نظر آئیں گے۔ بارہا کا مشاہدہ ہے کہ نماز کو اولین ترین وقت میں ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو ماحول کے مطابق ان کا عمل عجیب بھی لگتاہے۔ دعائے کمیل کی ہر محفل میں لاہور میں موجود ہوتے ہیں۔ دعائے کمیل کمیٹی کے روح رواں ہیں۔ انھوں نے اس محفل کے کئی نشیب و فراز دیکھے۔ کبھی آقائے علی الموسوی قاری دعائے کمیل کے فرائض انجام دے رہے ہیں تو کبھی مولانا ھادی حسن نقوی۔ اس پاک محفل کو شہید حسینی بھی اپنے نورانی وجود سے سرفراز فرماچکے ہیں۔ مگر آپ ان چند افراد میں شامل ہیں جو تواتر کے ساتھ انتظامات کرتے، دعوت دیتے تلاوت دعائے کمیل کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔


اپنے رب سے لو لگانے سے شاہ صاحب کو جو ایمانی قوت حاصل ہوئی کہ وہ کسی بھی موقع پر حق بات کہنے سے نہیں ہچکچاتے بلکہ دھڑلے سے اپنا موقف پیش کیا۔خواہ مخاطب کو وہ بات کتنی ہی بری کیوں نہ لگے۔


آپ ہر احتجاجی جلوس میں شامل رہے خواہ یہ دور جنرل ضیاء کے مارشل لاء کا تھا یا زمانہ جمہوریت، جب بھی کوئی احتجاجی مظاہرہ ہوتا تو شاہ صاحب کے ذمہ کئی کام ہوتے۔ لوگوں کو شرکت کی دعوت دینا۔ اگر بڑا جلوس ہے تو زاد راہ مہیا کرنا۔ اگرہینڈبل ہے تو اسے تقسیم کرنا شامل تھا مگر آپ ہر جلوس کی رونق رہے ہیں۔یوم القدس کا کوئی جلوس آپ کی شرکت کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوا۔ آپ شدید ترین بیماری کے عالم میں بھی ایک با ہمت نوجوان کی طرح جلوس میں خراما خراما چلتے ہوئے منزل کی طرف رواں رہتے۔


انقلاب اسلامی کے ظہور کے ساتھ ہی جنگ چھڑ گئی۔ بے گناہ نہتے عوام پر ڈھائے گئے مظالم کے خلاف مال روڈ پر احتجاجی جلوس نکلنا ایک معمول تھا۔ شاید ہی کوئی ہفتہ جاتا ہو کہ جس میں احتجاجی مظاہرہ نہ ہوتا ہو۔ یہ ایک علیحدہ اوردلچسپ موضوع ہے جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے کہ ’’انقلاب کے ساتھ ساتھ‘‘ یہاں پاکستان میں جو سرگرمیاں ہوئی ہیں انھیں محفوظ کیا جائے۔مگر ان احتجاجات میں شاہ صاحب کا نحیف جسم متحرک اوررواں دواں نظر آئے گا۔


اسی دوران ایران کے نہتے حاجیوں پر نجدی فوج کے حملہ سے جہاں سینکڑوں سرزمین مکہ میں شہید ہوئے وہیں آئندہ حج پر برآت از مشرکین کے اظہار کی ذمہ داری پاکستانی حجاج کے کندھوں پر آ پڑی۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید ایک حکمت عملی کے تحت حج کے لیے روانہ ہوئے تو وہاں اعجاز علی شاہ صاحب بمعہ اہلیہ حج کی سعادت کے لیے موجود تھے۔ بھلا شاہ صاحب اس قافلہ سالار سے کس طرح جدا رہ سکتے تھے۔ وہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ قدم بقدم چلنے کا عزم رکھتے تھے۔


حج کے دوران ایک میٹنگ میں ڈاکٹر صاحب نے پروگرام پیش کیا کہ دوران طواف برائت از مشرکین کے پمفلٹ پھیلاتے ہیں اس کے لیے دس افراد درکار ہیں جبکہ میں(ڈاکٹر صاحب) اوراعجاز علی شاہ صاحب کے علاوہ آٹھ افراد درکار ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو اعجاز شاہ صاحب کی ہمت اور حوصلہ پر کس قدر اعتماد تھا۔


بہرحال یہ تمام مراحل بخوبی طے پا گئے۔ میڈیا احتجاجات کی خبریں شائع کر چکا تو نجدی سپاہی اپنی خفت مٹانے کے لیے باؤلے ہوئے پھر رہے تھے۔ کسی طرح اس گروپ کے دو ارکان گرفتار ہوئے تو انھوں نے ٹھکانوں کی نشاندہی کردی۔ ایک صبح لشکر جرار نے دھاوا بول دیا۔ ڈاکٹر صاحب سمیت دیگر لوگوں کو گرفتار کرلیا تو شاہ صاحب ایک بستر میں دبکے ہوئے تھے۔ وہ انھیں اٹھانے لگے تو ڈاکٹر صاحب نے مریض مریض کا نعرہ لگایا۔ یوں وہ لوگ اس وقت تو شاہ صاحب کو چھوڑ کر چلے گئے۔ مگر کچھ ہی دیر کے بعد پھر آئے تو شاہ صاحب کو ساتھ لے گئے۔


نجدی سپاہیوں نے اپنے ظلم کی انتہا کردی۔ ڈاکٹر صاحب و دیگران نے جب محسوس کیا کہ پورا منصوبہ تو پہلے ہی آشکار ہوچکا ہے، اس لیے حقیقت حال بتا دینا چاہیے۔ یوں وہ تشدد کے طویل مراحل میں تخفیف حاصل کر پائے۔ مگر اعجاز علی شاہ صاحب کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی۔ متواتر آٹھ دن تشدد برداشت کیا۔ زبان سے افشا ئے راز نہ کیا۔ جب یہ خبر کسی طرح ڈاکٹر صاحب تک پہنچی تو انھوں نے سپاہیوں سے گزارش کی کہ ایک مرتبہ مجھے شاہ صاحب کے پاس لے چلیں۔ کافی لیت ولعل کے بعد اجازت ملی تو ڈاکٹر صاحب نے شاہ صاحب کو گلے لگا لیا اور ان کا بوسہ لیتے ہوئے کہا شاہ صاحب ہم سب کچھ بتا چکے ہیں، آپ بھی بتا دیں۔ جب لیڈر کا حکم ملا تب شاہ صاحب نے اپنی زبان کھولی۔ یوں اذیت کی کوٹھری سے جیل میں منتقل ہو گئے۔ اس جیل خانے میں ان عاشقان کو قائد علامہ عارف الحسینی کی شہادت کی خبر بھی ملی۔ اس نے ان کے دکھوں میں مزید اضافہ کردیا اور یہ شہادت ہی ان اسیران حرم کی رہائی کا سبب بنی۔


اعجاز علی شاہ صاحب اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک دن پہلے لاہور آچکے تھے جبکہ ڈاکٹر صاحب تاخیر سے آئے تو یوں شاہ صاحب دیو سماج پر ڈاکٹر صاحب کا استقبال کرنے والوں میں شامل تھے۔ یہ استقبال تونہ تھا بلکہ قائد شہید کا ڈاکٹر صاحب کو پرسہ دینا تھا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ جیسے ہی ڈاکٹر صاحب کی نظر اعجاز علی شاہ صاحب کے چہرے پر پڑی تو ڈاکٹر صاحب بے ساختہ شاہ کے قدموں پر گر گئے اور رو رو کر کہنے لگے شاہ صاحب مجھے معاف کر دینا، میری وجہ سے آپ کو بہت زحمت اٹھانا پڑی۔ شاہ صاحب نے آگے بڑھ کر ڈاکٹر صاحب کو گلے لگایا اورخوب روئے۔


ڈاکٹر صاحب نے برائت ازمشرکین اور اسیری کی تفصیلات بہت کم بتائی ہیں اگر بتائیں بھی تو ایک آدھ مرتبہ کے بعد چپ سادھ لی۔ جتنے واقعات ہم تک پہنچے ہیں اس کے راوی یہی بزرگ ہیں۔


عزم و ہمت کے اس پیکر نے ہر مرحلے پر پروگریسو لوگوں کی حمایت کی اور ایسے کارنامے انجام دیے کہ جہاں لوگ ڈر اور خوف کی وجہ سے یا مصلحت کی بنا پر دبک گئے۔ مگر یہ بزرگ شخصیت ایک آہنی چٹان کی طرح میدان عمل میں کھڑی نظر آئی۔ جب قیادت کا بحران پیدا ہوا تو شاہ صاحب نے ’’نظام خمس وزکوٰۃ‘‘ کے مستقبل کا خیال نہ کرتے ہوئے پیروان محمد بن ابی بکر کا ساتھ دیا۔ اس سے انھیں کافی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جو لوگ جو جیل میں تھے ان کے مقدمات کی پیروی رک گئی۔ وکلاء کی فیس اور دیگر معاملات کے لیے کثیر رقم درکار تھی۔ گویا پریشانی ہی پریشانی تھی۔ مایوسی ہی مایوسی، پھر لوگوں نے دیکھا کہ مقدمات کی پیروی شروع ہو گئی اور اسیران کی دلجوئی کی جانے لگی۔ اعجاز علی شاہ کے نظام خیروبرکت نے اپنی شفقت کی چادر تان لی۔ وہ قدم جو مالی مسائل کی وجہ سے قصر قائد کی طرف بڑھتے تھے رک گئے۔ مقدمات اپنے انجام کو پہنچے اور نظام چلتا رہا۔


اعجاز علی شاہ کے بارے میں جتنا لکھنا چاہتا تھا اس سے کہیں کم لکھا ہے کیونکہ قلم بہت سے مناظر کی تصویر کشی نہیں کرسکتا۔ نہ ہی پوری طرح جذبات اور احساسات کو لفظوں میں پرو کر کاغذ پر بکھیر سکتا ہے۔ ہر ایک چیز کی محدویت ہوتی ہے جو ہمیشہ آڑے آتی ہے۔


میں انتہائی وثوق سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ زندگی میں ہزاروں لوگوں سے ملا ہوں۔ کئی لوگوں نے متاثر بھی کیا۔ ایسے لوگ کم ہیں کہ جن کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ ہو۔ اعجاز علی شاہ صاحب اسے ہی کم یاب لوگوں میں سے ہیں۔


میں بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہوں اللہ تعالیٰ اعجاز علی شاہ صاحب کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین
اعجاز علی شاہ کی زبانی


سید اعجازعلی شاہ ولد فیروز علی شاہ نقوی البخاری سادات، سید جلال الدین بخاری کی اولاد، شاہ لطیف، شاہ دیوان، شاہ حسین قفیال سادات جموں وکشمیر سے 1947 میں ہجرت کرکے لاہور میں آباد ہوئے۔ والد مرحوم 100 سال تک حیات رہے۔ بڑے متقی اور پرہیزگار تھے۔ مرنے سے دو دن پہلے مجھے مولانا صفدر حسین نجفی مرحوم کی خدمت میں بھیجا کہ جمعرات کے روز آکر میری نماز جنازہ پڑھانی ہے۔ ایسے ہی ہوا۔


تاریخ پیدائش 25-03-1933 ۔دینی تعلیم والد محترم سے حاصل کی۔ دنیاوی تعلیم ، بی اے بی ایڈ۔ تین بہنیں اور تین بھائی۔ سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے گھر والوں کا بہت پیارا تھا۔


1960 میں شیرازی فیملی میں شادی ہوئی۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ سب نے قم سے تعلیم حاصل کی۔ شادی شدہ عیال دار ہیں۔ قومی فکر و جذبے کے تحت ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے ساتھ مل کر کام کیا اور ابھی تک کام کررہا ہوں۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا ادنیٰ رکن ہونے کی وجہ یہ مجھے سعادت ملی کہ میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا فنانس سیکرٹری رہا اور 1988 میں فریضہ ٔحج کے دوران برآت از مشرکین کرنے پر سعودی عرب میں گرفتار ہوا۔


قائد ملت علامہ عارف حسین الحسینی شہید اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے ساتھ مل کر نظام خمس و زکوٰۃ جعفریہ ویلفیئر فنڈ کی بنیاد رکھی اور تاحال اس ادارہ کے ساتھ مربوط ہوں۔


جب تک زندگی ہے خدمت خلق میری عبادت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ماتمی عزاداروں پر خصوصی توجہ دی جائے اور انھیں صحیح معنوں میں عزادار امام حسینؑ بنایا جائے۔