تعصب، نسلی تعصب، تصادم اور نسل کشی (1)

Published by fawad on

سید اسد عباس
تحریر: سید اسد عباس

تعصب عربی کا لفظ ہے جس سے مراد ہے بے جا طرف داری، ہٹ دھرمی (بات صحیح ثابت ہوجانے پر بھی نہ ماننا)، پٹی باندھنا وغیرہ۔ تعصبات کسی شخص، شے یا صورتحال کے بارے میں پہلے سے طے شدہ عقائد ہیں۔ یہ عقائد کچھ حوالوں سے درست ہوسکتے ہیں تاہم ان کا استعمال عموما غلط ہی ہوتا ہے۔ تعصبات رسم و رواج، روایات، خرافات یا اعتقادات کی بنیاد پر قائم کئے جاتے ہیں۔ تعصبات کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ آپ کو زندگی کے بہت سے مسائل کے بارے میں سوچنے سے بچاتے ہیں اور آپ کو آسان راہ مہیا کرتے ہیں، تاہم ان کا استعمال ہمیشہ منفی ہی کیا جاتا ہے۔ پس ایک بات تو واضح ہوئی کہ تعصبات کے پیچھے بنیادی چیز معلومات کی کمی اور لاعلمی ہوتی ہے اور اس کا مقصد سوچ و وچار سے فرار ہے۔ تعصبات کو فروغ دینے میں سب سے اہم کردار انسان کا خاندان ادا کرتا ہے، بچہ اپنے اہل خانہ کے عقائد کو ہی بلاتحقیق قبول کرتا ہے اور اکثر انہی عقائد کو تحقیق کے بغیر آگے منتقل کرتا ہے۔ اس کی مثالیں ہمارے معاشرے میں جا بجا پائی جاتی ہیں۔

قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہے: اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت (آدم و حوا) سے بنایا اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں صاحب کرامت وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے (سورہ الحجرات آیت 13)۔ عرب معاشرے میں نسلی، نسبی اور لسانی تعصب عام تھا، قرآن کریم میں اس آیت کے ذریعے انسانوں کو بتایا گیا ہے کہ ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے، خاندان اور قومیں نسلی تفاخر کے لئے نہیں بلکہ تمہارے تعارف کے لئے ہیں۔ اسی آیت میں کرامت کا معیار بھی بیان کیا گیا کہ خدا کی نظر میں صاحب کرامت وہ ہے جو پرہیزگار ہے۔ تعصب کی کئی شاخیں ہیں حسب و نسب، قبیلہ، نسل، ذات، برادری کا تعصب، لسانی و وطنی تعصب ملکی و قومی تعصب، علاقائی و قومی تعصب، مذہبی و مسلکی تعصب وغیرہ۔

ابونضرة کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جو مقام منیٰ میں ایامِ تشریف کے درمیان میں حضور صلى الله علیہ والہ وسلم کے خطبوں میں حاضر تھا درانحالیکہ آپ اونٹ پر سوار تھے۔ آپ صلى الله علیہ والہ وسلم نے فرمایا اے لوگو خبردار تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ (آدم) ایک ہے، خبردار کسی عربی آدمی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کسی کالے و سیاہ آدمی کو کسی سرخ پر اور نہ کسی سرخ کو کسی سیاہ آدمی پر کوئی فضیلت ہے، ہاں تقویٰ فضیلت کا معیار ہے۔ پھر آپ نے صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کیا میں نے پیغام الٰہی امت تک پہنچا دیا؟ صحابہ نے جواب دیا جی ہاں آپ نے پہنچا دیا۔ آپؐ نے فرمایا جو یہاں موجود ہے وہ اس تک پہنچا دے جو موجود نہیں ہے (روح المعانی ۸/۱۶۴ من روایت البیہقی والمردویہ، تفسیر قرطبی ۸/۶۰۵)۔

یہ خطبہ حجۃ الوداع کے جملے ہیں جن میں رسول اکرمؐ نسلی و لسانی تعصب کی مذمت کی ہے۔ بات فقط مذمت تک محدود نہیں ہے رسول اکرمؐ کی ایک حدیث ہے جس میں آپ نے متعصب شخص کو اپنوں سے ہی خارج قرار دیا ہے آپؐ نے فرمایا: جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا جو عصبیت کا داعی ہو اور عصبیت کی خاطر قتال و جنگ و جدل کررہا ہو اور جو تعصب کی خاطر قتال کرتا ہوا مرجائے وہ ہم میں سے نہیں ہے (رواہ ابوداوٴد، مشکوة/۴۱۸)۔ ایک اور مقام پر رسول اکرمؐ کی صحیح حدیث ہے: جو شخص گمراہی کے جھنڈے تلے لڑے، عصبیت کی دعوت دے اور عصبیت کے سبب غضبناک ہو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی (سنن ابن ماجہ حدیث : ۳۹۴۸)۔ صحاح ستہ میں بہت سی احادیث موجود ہیں جس میں عصبیت کی تعریف کرتے ہوئے رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ اپنی قوم کا ظلم و ناانصافی میں ساتھ دینا عصبیت ہے۔ قرآن و سنت کے واضح احکامات کے باوجود جب ہم اپنے معاشرے کی جانب نظر کرتے ہیں تو ہمیں جا بجا عصبیت دکھائی دیتی ہے۔

نسلی تعصب
نسلی تعصب کی اصطلاح عموما تو کسی ایک خاص نسل سے متعصب رویہ رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے تاہم اس کے اسباب مختلف ہو سکتے ہیں، جن میں زبان، مذہب، فرقہ یا کسی گروہ کا کوئی اور مشترک اصول ہو سکتے ہیں اور اسے ہی نسلی تعصب کہا جاتا ہے۔ سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد اپنی معروف کتاب The Punjab bloodied , partition and cleansed کے دوسرے باب میں نسل کشی کا نظریہ کے زیر عنوان لکھتے ہیں کہ کوئی نسلی گروپ ایسے افراد پر مشتمل ہو سکتا ہے جو سمجھتا ہے کہ وہ ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، شاید یہ بالکل سچ نہ ہو لیکن نام نہاد مشترکہ آباو اجداد یکجہتی کے جذبات پیدا کرنے کا موجب ہو سکتے ہیں

وہ لکھتے ہیں کہ جب اس قسم کے جذبات ایسے افراد میں پائے جائیں جو ایک مذہب، زبان یا ایسا ہی کوئی اور مشترکہ پہلو رکھتے ہوں تو ان کو بھی نسلی گروہ کہا جاسکتا ہے، جب ایسے ہی دو یا دو سے زائد گروہ جو نسلی، مذہبی، فرقہ وارانہ یا ان جیسا کوئی اور مشترکہ اصول رکھتے ہوں باہم ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے تو اس واقع کو نسلی تصادم کہا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق مزید کہتے ہیں کہ نسل کشی ایک مستعمل اصطلاح ہے جس سے مراد مخصوص یا مختلف آبادی کو (قتل عام یا جبری نقل مکانی یا دونوں طرح سے) نسل، مذہب، فرقے یا دیگر ایسے ہی عوامل کی بنیاد پر مخصوص علاقے سے مٹا دینا ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق کے مطابق پنجاب کے معاملے میں مذہبی فیکٹر سیاسی طرز کی نسل کشی کی بنیاد بنا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر اشتیاق احمد نے پنجاب کی تقسیم پر جو تحقیقی کام کیا ہے وہ دنیا میں بہت سے اداروں سے داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق نے لکھا کہ پنجاب میں ہندو، سکھ اور مسلمان صدیوں سے مل کر رہ رہے تھے۔ سکھوں اور ہندو کی پنجاب میں آبادی تقریبا 47 فیصد تھی۔ اپنی تحقیق میں جہاں ڈاکٹر اشتیاق احمد میں پنجاب میں ہونے والے واقعات کو تحریر کیا ہے وہیں ان عوامل کا بھی جائزہ لیا ہے جس کے سبب پنجاب کا معاشرہ نسلی تعصب سے نسلی تصادم اور نسل کشی کی جانب گیا اور جس کے نتیجے میں مختلف اندازوں کے مطابق بیس لاکھ کے قریب انسان قتل ہوئے، کروڑوں بے سروسامانی کے عالم میں گھروں سے بے گھر کئے گئے۔ ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئی اوران کو اغواء کرکے جبراً مذہب بدلوایا گیا۔
بشکریہ اسلام ٹائمز
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی سیاست کا نازک موڑ https://albasirah.com/urdu/pak-siasat-nazuk-mor/