طلبہ تنظیم اور اسلامی طلبہ تنظیم(1)

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس

طلبہ کا کام تو فقط تعلیم حاصل کرنا ہونا چاہیئے، جس مقصد کے لیے والدین ان کو کالج یا یونیورسٹی میں بھیجتے ہیں۔ عالمی سیاست، علاقائی سیاست، سماجی خدمات، طلبہ کو مدد فراہم کرنا، تنظیم سازی اور اس جیسے کام طلبہ کو نہیں کرنے چاہئیں۔ یہ ایک نکتہ نظر ہے، جو اکثر سننے کو ملتا ہے۔ تاہم معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، جس قدر دکھائی دیتا ہے۔ دنیا میں طلبہ تنظیم، سوسائٹی، کلب کا تصور بہت پرانا ہے۔ پندھرویں صدی عیسویوں میں یورپ میں طلبہ سوسائٹیوں کا آغاز ہوا۔ دنیا کی اکثر یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں مختلف قسم کی سوسائٹیاں موجود ہیں، جن میں ڈیبیٹ سوسائٹی، انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ سوسائٹی، راک سوسائٹی، پروفیشنل سوسائٹیاں قابل ذکر ہیں۔ یہ تنظیمیں اور سوسائٹیاں ساتھی طلبہ کو مختلف موارد میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمارے معاشرے میں سب والدین اور طلبہ اس استعداد کے حامل نہیں ہیں کہ یونیورسٹی اخراجات اور ضروریات کو پورا کرسکیں، یہی وجہ ہے کہ بہت سے طلبہ کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑتی ہے۔ یہاں مختلف طلبہ تنظیمیں میدان عمل میں اترتی ہیں اور وہ طلبہ جو صاحب استطاعت نہیں ہیں یا جن کو اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے، کی مدد کی جاتی ہے۔ ہوسٹل یا رہائش کی فراہمی، ٹیوشن فیس، کیرئیر گائڈنس اور اسی طرح کے دیگر امور طلبہ باہمی تعاون سے انجام دیتے ہیں۔ یہ ایک احسن عمل ہے، جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ سماجی، سیاسی، فلاحی کام تعلیم کے نقصان کی قیمت پر نہیں ہونے چاہئیں، کیونکہ تعلیم کا حصول طالب علم کا پہلا اور آخری ہدف ہے۔

آج کے دور میں طلبہ تنظیم کا کردار یونیورسٹی امور سے بڑھ کر علاقائی اور عالمی سیاسی امور نیز نظری و فکری تحریک تک پھیل چکا ہے۔ اکثر طلبہ تنظیمیں سیاسی، مذہبی اور سماجی تحریکوں کا ہراول دستہ ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ سوشلزم کی آمد کے ساتھ یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سوشلسٹ تنظیموں کا قیام عمل میں آیا۔ سوشلزم چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقابل پیش کیا گیا تھا اور اس میں معاشرے کے متوسط اور غریب طبقے کو قوی کرنے کی بات کی گئی تھی، لہذا مسلم دنیا میں اس کو خوب رواج ملا۔ بہت سے مسلمان طلبہ سوشلسٹ تحریکوں کا نہ صرف حصہ بنے بلکہ انھوں نے ملک کے تعلیمی اداروں میں سوشلسٹ طلبہ تنظیموں کی بنیاد رکھی۔ ان کو آج بھی سرخے کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔

سوشلسٹ نظریات کی حامل یہ تنظیمیں نہ فقط سوشلزم کے سیاسی نظریات کی ترویج کرنے لگیں بلکہ ان تنظیموں نے سوشلزم کے بانیوں کے عقیدتی اور فکری پیکیج کو بھی قبول کیا اور یوں مسلمان طلبہ آہستہ آہستہ لادینیت، بے راہ روی، مسلم اقدار سے دوری کا شکار ہونے لگے۔ سوشلزم کے ہمارے معاشروں پر اثرات اس قدر تھے کہ مفکر اور دانشور بھی اسلام اور سوشلزم کے مابین مشترکات کی تلاش میں مصروف عمل ہوگئے۔ مقصد یہی تھا کہ کسی طرح معاشرے کے ایک بڑے طبقے کو سوشلزم کے دھارے میں لایا جائے۔ عرب دنیا میں بعث پارٹیاں، ان کے طلبہ ونگ سبھی اسی سوشلسٹ تحریک کا شاخسانہ ہیں۔

اسلامی فکر کے حامل افراد جو سوشلزم کے اسلامی معاشرے میں پھیلاؤ کے اثرات کو محسوس کر رہے تھے، ان کے لیے یہ ایک تشویشناک لمحہ تھا، جس کا سدباب نہایت ضروری تھا۔ تعلیمی اداروں میں اس نظریاتی بحران کا سدباب اسلامی فکر کے حامل افراد اور شخصیات کا ہم و غم تھا، جس کے لیے مختلف لوگوں نے اسلامی فکر کی حامل طلبہ تنظیموں کی بنیاد رکھی۔ ان تنظیموں نے سرمایہ دارانہ نظام کی آفات سے بچاؤ کے لیے اسلامی تعلیمات کو منشور کے طور پر متعارف کروایا۔ مقصد یہی تھا کہ وہ طلبہ اور سماج کی اکائیاں جو سوشلزم کو معاشرتی مسائل کے حل کے طور پر دیکھ رہی ہیں، فکری اور نظری طور پر اس نظام کے ہاتھوں یرغمال نہ ہو جائیں۔ اسلامی تنظیمیں اس عمل میں کافی حد تک کامیاب ہوئیں، اگرچہ معاشرتی مسائل کے حل کے عنوان سے پیش کرنے کے لیے ان کے پاس جدید دنیا میں ایسی کوئی مثال موجود نہ تھی، جیسا کہ سرمایہ دارنہ نظام اور سوشلزم کے پاس موجود تھیں۔

ان اسلامی تنظیموں نے چودہ سو سال قبل تشکیل پانے والی ریاست کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کیا۔ اس رول ماڈل میں بھی مسلمان معاشرہ بنیادی طور پر دو طبقات میں تقسیم ہوگیا، ایک خلافت کے پیروکار تھے اور دوسرے امامت کے۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی نے اسلامی نظریاتی سیاست میں ایک اور باب کا اضافہ کیا، لا شرقیہ ولا غربیہ کا نعرہ اسی امر کی جانب اشارہ کر رہا تھا کہ اس انقلاب کے بانی کی نظر میں سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم دونوں ہمارے معاشرتی مسائل کا حل نہیں ہیں بلکہ اس کے برعکس ہمیں اسلامی تعلیمات کی جانب رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلام یقیناً انسانوں کے انفرادی، اجتماعی اور معاشرتی مسائل کے حل کا الہیٰ نظام ہے، تاہم مسلمانوں نے ہمیشہ اسلامی اصولوں اور تعلیمات کے بجائے اس کے ظواہر کو زیادہ اہمیت دی، جس کے سبب اول تو اسلام کا کوئی ایک مشترکہ سیاسی نظریہ پیش نہ کیا جاسکا اور دوسرا یہ کہ معاشرے کی نظر میں اسلامی سیاسی نظریہ مسائل کو حل کرنے والے نظام کے بجائے مسائل کی پیداوار کا منبع قرار پایا۔ قصور نظریہ پردازوں کا بھی نہیں ہے، وہ جس معاشرے میں اسلام کے معاشرتی مشکلات کے حل کے حوالے سے مشکل کشاء نظریات کی ترویج کر رہے تھے، اس کی فہم اور سطح فکر کو بھی مدنظر رکھنا ضروری تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز