نبوت ،نبی اور عقل

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

تلخیص:
جو لو گ عقل کی نفی اور توہین پر عقید ۂ نبوت کی بنا استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ وہ نبو ت کے کمال آفرینی کے اہم منصب اور حکمت نبوت سے ناآشنائی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں ۔ عقل ہی تو انسان کا عظیم مابہ الامتیاز ہے ۔ عقل انسان کو مخلوقات عالم میں ممتاز کرتی ہے ۔ نبوت کی ضرورت کو عقل کی نفی اور کمزوری و نارسائی کی دلیل سے ثابت کرنا عقل کی توہین کے مترادف ہے ۔ ہم قرآن حکیم میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بار بار عقل انسانی کو پکارتا ہے ۔ انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ۔ اندھی تقلید تر ک کرنے کے لیے اسے دلیل کی بنیاد پردعوت دیتا ہے ۔ انسان کو دنیا کے سب رنگوں کو چھوڑ کر فطر ت کا الٰہی رنگ اختیار کرنے کی طر ف ابھارتا ہے ۔ 

انسان کو عقل،وجدان اورضمیر و فطرت سے نواز گیا ہے ۔ سار ی کائنات کا نظام انسانی فطرت و عقل سے ہم آہنگ ہے ۔ اللہ نے انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیاہے ‘ کا مطلب بھی یہی ہے کہ کائنات کی اورانسانی فطرت ہم آہنگ ہے کیونکہ وہ رب کائنات اور خالق کائنات ہے ۔ ساری کائنات اس نے خود پیدا کی ہے اور وہی اس کا پالنے والا ہے لہذٰا کائنات کی تخلیق و پر ور ش فطرت الٰہی کی بنیاد پر ہے ۔ سار ی کائنات کو اس نے انسان کے لئے مسخر کیا ہے ۔ زمین و آسمان ، چاند ستارے سب انسان کی خدمت میں لگے ہیں ۔ سب مل کر انسان کو کمال کی طر ف لے جانے کے الٰہی منصوبے پر گامزن ہیں ۔ 
قرآن نے انسان کو دارائے عقل بتایا ہے ‘ اللہ نے انسان کو فاعل مختار بنایا ہے تاکہ اپنے ارادے سے کمال کے راستے کی طرف قدم اٹھائے ۔ فاعل مختار بنا کر ‘ عقل و دانش سے نواز کر ‘نیکی و بدی کی پہچان کو اس کی فطرت میں گوندھ کر ‘ ایثار و ہو س کی دونوں قوتیں اور خوبیاں عطا کرکے ، علم دوست اور حسن پسند بنا کر اورقباحت و جہل سے نفر ت کا جذبہ عطا کر کے اللہ نے انسان کو گویا اپنے حسن تخلیق کا عظیم شاہکار بنا دیا ہے اور اگر شعری پیرائے یا عرفانی اسلوب میں کہا جائے کہ یوں اس نے انسان کو اپنی چھوٹی سی تصویر بنادیا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہ ہو گی ۔ اس انسان کو پر و دگار نے بہر حال کمال تک پہنچانا ہے ۔ اس مقام کمال تک پہنچانے کے لیے اس نے داخلی و خارجی طور پر طرح طرح سے اہتمام کیا ہے ۔ عقل دراصل انسان کی تما م دیگر خصوصیات سے بالاتر ایک کنٹرو ل کرنے والی قوت کے طور پر عطا کی گئی ہے ۔ عقل رہنمائے انسان ہے ‘ اسی لئے عقل کو رسول باطن قرار دیا گیا ہے ۔ عقل عظمت انسانی کی دلیل ہے ۔ کائنات میں حکم فرما قوانین اور کائنات کی حرکت اور ارتقا کا سار ا نظام عقل انسانی کو پروان چڑھانے میں مدد گار ہے ۔ اس عقل و فطر ت انسانی کے خزانے ہی کو کمال تک پہنچانے کے لیے ایک خصوصی الٰہی انتظام کا نام ’’نبوت‘‘ہے ۔ 
جو لو گ عقل کی نفی اور توہین پر عقید ۂ نبوت کی بنا استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ وہ نبو ت کے کمال آفرینی کے اہم منصب اور حکمت نبوت سے ناآشنائی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں ۔ عقل ہی تو انسان کا عظیم مابہ الامتیاز ہے ۔ عقل انسان کو مخلوقات عالم میں ممتاز کرتی ہے ۔ نبوت کی ضرورت کو عقل کی نفی اور کمزوری و نارسائی کی دلیل سے ثابت کرنا عقل کی توہین کے مترادف ہے ۔ ہم قرآن حکیم میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بار بار عقل انسانی کو پکارتا ہے ۔ انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ۔ اندھی تقلید تر ک کرنے کے لیے اسے دلیل کی بنیاد پردعوت دیتا ہے ۔ انسان کو دنیا کے سب رنگوں کو چھوڑ کر فطر ت کا الٰہی رنگ اختیار کرنے کی طر ف ابھارتا ہے ۔ 
نبی گویا انسانی فکر کے اوپر پڑجانے والی نسل ‘ علاقے ‘ رنگ ‘ زبان ‘ رسم و روا ج اور آبائو اجداد کی اندھی اوربے شعور محبت و تقلید کی گر د جھاڑتا ہے ‘زنگ اتارتا ہے اور انسانی عقل و فکر کو بیدار کرنے کی سعی کرتا ہے ۔ گویا انسان کو اس کے چھپے ہوئے خزانے کی خبر دیتا ہے ۔ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ سوئے ہوئوں کو بیدار کرنے کے لیے آواز دینا پڑتی ہے ‘ ان کے دروازے پر دستک دینا پڑتی ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان اپنی گونا گوں اور متضاد صفات کے پیش نظر گاہے افراط و تفریط کا شکار ہو جاتا ہے تو اسے کسی متوجہ کرنے والے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر چہ متضاد صفات دھو پ چھائوں اور صبح و شام کی طرح ہو تی ہیں ‘ دونوں کی انسان کو ضرورت ہو تی ہے لیکن غفلت کے پردے انسان کی آنکھوں سے حقیقت کو اوجھل کر دیتے ہیں ۔ ایسے میں کسی شفیق ہاتھ کی ضرورت ہوتی ہے جو ان پردوں کو آنکھوں کے سامنے سے ہٹا دے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل منصوبے کے تحت ایسے ہی موقعوں کے لیے انسانی ہدایت کا طرح طرح سے انتظام کر رکھا ہے ۔ نبو ت اسی انتظام کے ماتحت ہدایت کا ایک پرو گرام ہے ۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف کتاب اور الفاظ انسان پر اتنا گہر ااثر نہیں کرتے جتنا کسی کا عمل اور کردار اثر انداز ہوتا ہے ۔ لہذٰا اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ایسے خوبصورت اور عظیم کردار انسان کے سامنے پیش کیے ہیں ‘ جنھیں وہ اپنے لیے نمونۂ عمل بنا سکتا ہے۔ اچھے انسان تو انسانی معاشروں میں آتے ہی رہتے ہیں ‘ عظیم کارنامے سرانجام دینے والے بھی مل جاتے ہیں اور اعلیٰ کردار کے نمونے بھی انسان کی نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں لیکن انسان کو بہر حال ایسے رہبروں کی ضرورت باقی رہتی ہے: 
(۱) جو انسان کو اس کی زندگی کے حقیقی مقصد سے آشنا کریں ۔ 
(۲) جن کی تعلیم اور کردار کسی ایک حوالے سے انسان کی ترقی کا پیغام بر نہ ہو بلکہ ہر لحاظ سے جامع ہو ۔ 
(۳) جو اضطر ار یا ریا کی وجہ سے انسانوں کے سامنے بھلائی کا ذکر نہ کریں بلکہ شعور وجدان اور ایمان و ایقان کے ساتھ بھلائی کے راستے پر گامزن ہوں ۔ 
(۴) ایسی سیرت کے مالک ہوں کہ ان کے بارے میںکہا جا سکے کہ ان کی زبان ہزار خوف کے عالم میں بھی دل کی رفیق رہتی ہے ۔ 
(۷) جو بند گان خدا پر بغیر کسی لالچ اور خوف کے شفیق ہوں اور اللہ کے بندوں کو اللہ کی آنکھ سے دیکھ سکیں ۔ 
(۸) جو انسان ہوں کیونکہ انسانوں کے لیے انسان ہی نمونۂ عمل قرار پا سکتے ہیں اور دوسری طر ف اپنی عظمت ِروح کے باعث آسمانی اور آفاقی حقائق سے مربوط ہوں۔ 
نبوت کا تصور درحقیقت ایسے ہی انسانوں پر پور ا اترتا ہے اور نبی ایسی ہی صفت کے حامل ہوتے ہیں۔ایسی صفات کا حامل اگر اللہ کی طرف سے خاص نمائندگی کا دعویٰ کرے تو اسے کیسے جھٹلایا جاسکتا ہے ۔
اگرچہ علما ء کے مابین بحث کے ایک خاص زاویے سے نبی اور رسول میں فرق روار رکھا جاتا ہے تاہم ’’نبی ‘‘ کا لغوی معنی ہے ’’خبر دینے والا ‘‘اور ’’رسول ‘‘ کا لغوی معنی ہے ’’بھیجا ہوا ‘‘۔ نبی کو نبی اس لیے کہتے ہیں کہ وہ پروردگار کی طرف سے اس کے بندوں کو جہانِ دِگر کی خبر دیتا ہے ۔ رسول اس لحاظ سے کہتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے بندوں کے پاس ان کی ہدایت ورہبر ی کے لیے بھیجا گیا ہوتا ہے ۔ نبی بندوں کو جہانِ دِگر کی سچی خبریں بڑی سچائی سے پہنچاتا ہے اور پیغامبر ی کا حق ادا کر دیتا ہے ۔ عام انسانی آنکھوں سے چھپے ہوئے ایسے ایسے حقائق انبیاء کے توسط سے ظاہر ہوئے ہیں جو انسان کے اندر کی گہری اور فطری آرزوئوں کی تکمیل و تائید بھی کرتے ہیں اور اعلیٰ انسانی مقاصد کو فر و غ دینے میں بھی مدد گار ہیں ۔ مثلاً انسان ’’فنا ‘‘ سے متنفر اور ’’بقا ‘‘ کا آرزو مند ہے ‘ انبیا  نے انسان کو خبر دی ہے کہ اس دنیاوی زندگی کے خاتمے کے بعد اسے ایک نئی زندگی درپیش ہے ۔ پھر انبیا ء نے اخرو ی زندگی کا ناتہ انتہائی خوبصورتی سے دنیاوی زندگی سے جوڑ دیا ہے ۔ بنیادی طور پر تو سارے انبیا ء ایک ہی مقصد کے رہبر ہوتے ہیں ۔ : تعبیرِ کائنات ‘ مقامِ انسانی اور انجامِ بشر کے لحاظ سے سب کی تعلیمات کی بنیادیں یکساں ہوتی ہیں لیکن جیسے نور کے سب سرچشموں کی شعائیں اپنی رسائی اور قوت و ضعف کے اعتبار سے ایک جیسی نہیں ہوتیں ‘ یہی حال انسانی نور کے ان میناروں کا بھی ہے ۔ قرآنِ حکیم کی دو آیتیں ان دونوں حقیقتوں کو یوں بیان کرتی ہیں : 
ٖ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ
ہم اپنے رسولوں کے مابین کوئی تفریق روا نہیں رکھتے (بقرہ:285)
 تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ
یہ رسول ہیں ‘ ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے ۔ (بقرہ:253)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل کے ساتھ دل بھی عطا کیا ہے ۔ ہر وہ بات جو انسان کی عقل سے گزر کردل میں سماجائے وہ پورے انسانی وجود پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ ہو سکتا ہے انسانی عقل بہت سے حقائق تک پہنچ جائے لیکن چونکہ ان حقیقتوں کی وجود انسانی پر تاثیر کے لیے ایک مرحلہ ابھی اور طے ہونا باقی ہوتا ہے اس لیے عملی زندگی پر اس ادرا ک کے اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔ نبی درحقیقت انسان کی عقل جن حقیقتوں تک پہنچ جاتی ہے ان پر ’’ایمان ‘‘کا تقاضا کر تا ہے ۔ اس ایمان کا تعلق دل سے ہوتا ہے ۔ ایمان کی یہ کیفیت پیدا کرنے میں نبی کا اپنا طرزعمل ایک نہایت اہم کردار ادا کر تا ہے ۔ اس کی پوری زندگی انسانوں کی بھلائی کے لیے وقف ہوتی ہے ۔ وہ انسانوں کو اپنی طر ف نہیں بلکہ اپنے خدا کی طرف دعوت دیتا ہے ۔ وہ ہر غلامی کی زنجیر توڑ کر انسان کو آزاد کر دینے کے مشنر ی جذبے سے سرشار ہوتا ہے ۔ لہذٰ ا وہ شخصیت پرستی سمیت ہر غیر خدا کی پرستش کی نفی کرتا ہے تاکہ انسان بندگانِ خدا بن کر صرف اسی کو عبادت کریں ‘ اس خدا کی عبادت کر لیں جو سب بندوں کا برابر سے خدا ہے ‘ ان کا بھی جو اسے اپنا خدا نہیں مانتے ‘ ان کا بھی جو اس کی عبادت میں کسی اور کو شریک کرتے ہیں ۔ اس کی عبادت بندوں کے مابین مساوات قائم کر کے ان کی گردن کو بند گی کے ہر دیگر طوق سے چھڑوا دیتی ہے ۔ جب خود وہ ایسا خدا ہے جو انسانِ مومن کے لیے عزت و تکریم کا قائل ہے ‘ فرشتوں کو اس کے حضور جھک جانے کا حکم دیتا ہے ‘ اس حکم کی سرتابی کرنے والے کو ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ بنا دیتا ہے اور ساری کائنات کو انسان کے لیے مسخر کر دینے کا مژدہ سناتا ہے لہذٰا اس کی عبادت اسیر ی نہیں بلکہ عین آزادی ہے۔ اس کی عبادت تو تشکر ‘ محسن شناسی اور اُس عظیم رب سے والہانہ محبت کا اظہار ہے۔ نبی اسی خدا کی طرف اعلیٰ ‘ خالص اور باعث کمال وارتقاء دعوت دینے کے لیے خدا ہی کے لطف و احسان اور اذن و حکم سے قیام کرنے والے ایک کمال یافتہ اور پاکیزہ ترین وجود کا نام ہے ۔ 
ڈیک
 عقل رہنمائے انسان ہے ‘ اسی لئے عقل کو رسول باطن قرار دیا گیا ہے ۔
 اس عقل و فطر ت انسانی کے خزانے ہی کو کمال تک پہنچانے کے لیے ایک خصوصی الٰہی انتظام کا نام ’’نبوت‘‘ہے ۔
نبوت کی ضرورت کو عقل کی نفی اور کمزوری و نارسائی کی دلیل سے ثابت کرنا عقل کی توہین کے مترادف ہے ۔
 ’’نبی ‘‘ کا لغوی معنی ہے ’’خبر دینے والا ‘‘اور ’’رسول ‘‘ کا لغوی معنی ہے ’’بھیجا ہوا ‘‘۔



 
* * * * *