متحدہ جمعیت اہل حدیث کے زیر اہتمام پیغام پاکستان کانفرنس

Published by fawad on

متحدہ جمعیت اہل حدیث کے زیر اہتمام پیغام پاکستان کانفرنس

متحدہ جمعیت اہل حدیث کے زیر اہتمام پیغام پاکستان کانفرنس منعقد ہوئی جس میں وزیر مذہبی امور صاحبزادہ ڈاکٹر پیر نور الحق قادری،مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس سیکریٹری جنرل ، تحریک اویسیہ پاکستان کے سربراہ پیر غلام رسول اویسی ، امت واحدہ کے سربراہ علامہ امین شہیدی ، ہدیہ الہادی پاکستان کے سربراہ پیر سید ہارون گیلانی ، البصیرہ کے چیئر مین سید ثاقب اکبر، تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلی خرم نواز گنڈا پور، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی امور حافظ طاہر اشرفی ،امام خمینی ٹرسٹ کے سربراہ مولانا افتخار حسین نقوی ، اسلامی تحریک کے سیکریٹری جنرل علامہ عارف حسین واحدی ، مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی ، پیر حبیب اللہ عرفانی مجلس وحدت کے راہنما محمد اقبال بہشتی ، ڈاکٹر شمس الرحمن ، علامہ تنویز علوی ،پیر سید علی رضا بخاری ،جماعت اہل حرم کے سربراہ مفتی گلزار احمد نعیمی ، ہندو راہنما سروب بھیل ، سکھ راہنما گردیپ سنگھ، نوربخشی صوفی مولانا محسن، تنظیم العارفین صاحبزادہ سلطان احمد علی ، سعادت حسین شاہ چورا اور دیگر نے خطاب کیا۔

علامہ سید ثاقب اکبر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیغام پاکستان کی دستاویز کو عوام تک پہنچانے کی ضرورت تھی تاہم ذمہ داروں اور حکومت نے اسے نہیں پہچایا ، انھوں نے کہا کہ گزری ہوئی باتوں پر اختلاف اور بحث کا کیا فائدہ ہے ہمیں مستقبل پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ سید ثاقب اکبر نے کہا کہ طالبان کی کامیابی کے بعد حکومت نے جو نقطہ نظر اختیار کیا ہے وہ خوش آئند ہے تاہم ہمیں داعش کا خطرہ لاحق ہے جس سے ہمیشہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ انھوں نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل پر ہمیں مزاحمتی راہ اختیار کرنی چاہیے ۔ سید ثاقب اکبر نے کہا کہ محمد رسول ؐ و اہلبیت ؑ ہر کسی کے دل میں ہے اس کے اظہار کا اپنا اپنا طریقہ ہے ہمیں سب کو اس کے اظہار کی اجازت دینی چاہیے اربعین اور ربیع الاول کے پروگراموں کو حکومت کی جانب سے سہولت مہیا کی جانی چاہیے ۔
اس کانفرنس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس پر حاضرین نے دستخط کیے
اس اعلامیے میں کہا گیا کہ
پیغام پاکستان کی روشنی میں ضابطہ اخلاق 1۔تمام شہریوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو تسلیم کریں، ریاست پاکستان کی عزت و تکریم کو یقینی بنائیں اور ہر حال میں ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری کے حلف کو نبھائیں۔
2۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام شہری دستور پاکستان میں درج تمام بنیادی حقوق کے احترام کو یقینی بنائیں ان میں مساوات، سماجی اور سیاسی حقوق، اظہار خیال، عقیدہ، عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہیں۔
3۔دستور پاکستان کی اسلامی ساخت اور قوانین پاکستان کا تحفظ کیا جائے گا۔ پاکستان کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ شریعت کے نفاذ کے لیے پرامن جدوجہد کریں۔
4۔اسلام کے نفاذ کے نام پر جبر کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح کارروائی، تشدد اور انتشار کی تمام صورتیں بغاوت سمجھی جائیں گی اور یہ شریعت کی روح کے خلاف ہیں اور کسی فرد کو یہ حق نہیں کہ وہ حکومتی، مسلح افواج اور دیگر سیکورٹی کے اداروں کے افراد سمیت کسی بھی فرد کو کافر قرار دے۔
5۔علماء، مشائخ اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلقہ افراد کو چاہیے کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج کی بھرپور حمایت کریں تاکہ معاشرے سے تشدد کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔
6۔ہر فرد ریاست کے خلاف لسانی، علاقائی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ ریاست ایسے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔
7۔کوئی شخص فرقہ وارانہ نفرت، مسلح فرقہ وارانہ تنازعہ اور جبراً اپنے نظریات کسی دوسرے پر مسلط نہ کرے کیونکہ یہ شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہے اور فساد فی الارض ہے۔
8۔کوئی نجی یا سرکاری یا مذہبی تعلیمی ادارہ عسکریت کی تبلیغ نہ کرے، تربیت نہ دے اور نفرت انگیزی، انتہا پسندی اور تشدد کو فروع نہ دے۔ ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد اور اداروں کے خلاف قانون کے مطابق ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر سخت کارروائی کی جائے گی۔
9۔انتہا پسندی، فرقہ واریت اور تشدد کو فروغ دینے والوں، خواہ وہ کسی بھی تنظیم یاعقیدے سے ہوں، کے خلاف سخت انتظامی اور تغزیری اقدامات کیے جائیں گے۔
10۔اسلام کے تمام مکاتب فکر کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے اپنے مسالک اور عقائد کی تبلیغ کریں، مگر کسی کو کسی شخص، ادارے یا فرقے کے خلاف نفرت انگیزی اور اہانت پر مبنی جملوں یا بے بنیاد الزامات لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
11۔کوئی شخص خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جملہ انبیائے کرام، امہات المومنین، اہل بیت اطہار، خلفاء راشدین اور صحابہ کرامؓ کی توہین نہیں کرے گا۔ کوئی فرد یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے گا نہ ہی توہین رسالت کے کیسز کی تفتیش یا استغاثہ میں رکاوٹ بنے گا۔
12۔کوئی شخص کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کرے گا اور صرف مذہبی سکالر ہی شرعی اصولوں کی وضاحت مذہبی نظریے کی اساس پر کرے گا۔ البتہ کسی کے بارے میں کفر کے مرتکب ہونے کا فیصلہ صادر کرنا عدالت کا دائرہ اختیار ہے (مسلمان کی تعریف وہی معتبر ہوگی جو دستور پاکستان میں ہے)۔

متحدہ جمعیت اہل حدیث کے زیر اہتمام پیغام پاکستان  کانفرنس 13۔کوئی شخص کسی قسم کی دہشت گردی کو فروغ نہیں دے گا، دہشت گردوں کی ذہنی و جسمانی تربیت نہیں کرے گا اورکہیں بھی دہشت گرد سرگمویں میں ملوث نہیں ہوگا۔
14۔سرکاری، نجی اور مذہبی تعلیمی اداروں کے نصاب میں اختلاف رائے کے آداب کو شامل کیا جائے گا کیونکہ فقہی اور نظریاتی اختلافات پر تحقیق کرنے کے لیے سب سے موزوں جگہ صرف تعلیمی ادارے ہوتے ہیں۔
15۔تمام مسلم شہری اور سرکاری حکام اپنے فرائض کی انجام دہی اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کی روشنی میں کریں گے۔
16۔بزرگ شہریوں، خواتین، بچوں، خنثیٰ اور دیگر تمام کم مستفیض افراد کے حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات ہر سطح پر دی جائیں گی۔
17۔پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب اور مذہبی رسومات کی ادائیگی اپنے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق کریں۔
18۔اسلام خواتنی کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خواتین سے ان کے ووٹ، تعلیم اور روزگار کا حق چھینے اور ان کے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچائے۔ ہر فرد غیرت کے نام پر قتل، قرآن پاک سے شادی، ونی، کاروکاری اور وٹہ سٹہ سے باز رہے، کیونکہ یہ اسلام کی رو سے ممنوع ہیں۔
19۔کوئی شخص، مساجد، منبر و محراب، مجالس اور امام بارگاہوں میں نفرت انگیزی پر مبنی تقاریر نہیں کرے گا اور فرقہ وارانہ موضوعات کے حوالے سے اخبارات اور ٹی وی یا سوشل میڈیا پر متنازعہ گفتگو نہیں کرے گا۔
20۔آزادی اظہار اسلام اور ملکی قوانین کے ماتحت ہے، اس لیے میڈیا پر ایسا کوئی پروگرام نہ چلایا جائے جو فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کا سبب بنے اور پاکستان کی اسلامی شناخت کو مجروح کردے۔