ملت تشیع پاکستان کی سیاسی منہج کیا ہو؟

Published by fawad on

syed asad abbas

تحریر: سید اسد عباس

ہر انسان خواہش رکھتا ہے کہ اس کے اجتماعی اور معاشرتی امور کو چلانے کے لیے جو نظام حکومت قائم ہو، عادلانہ ہو، مساوات پر مبنی ہو، اس میں غریب پروری ہو، مظلوم کو اس کا حق دیا جائے، بنیادی حقوق میسر ہوں، یہ نظام اس کی دنیاوی و اخروی سعادت میں بہتری لانے میں رکاوٹ نہ بنے بلکہ اسے آسان بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس نظام کے سبب اسے عالمی برادری میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ کچھ خصوصیات انسان میں فطری ہیں، ظلم سے ہر انسان نفرت کرتا ہے، مظلوم کی ہر سلیم الفطرت انسان حمایت کرتا ہے، ایسے ہی سچ ہر انسان کو اچھا لگتا ہے اور جھوٹ سے نفرت ہوتی ہے۔ عدالت کو عمومی طور پر پسند کیا جاتا ہے، نا انصافی کسی کو اچھی نہیں لگتی۔ انسان ان نتائج پر کسی خارجی دباؤ کے تحت نہیں پہنچا بلکہ یہ چیزیں اس کی فطرت میں موجود ہیں۔ جیسے جیسے انسانی فطرت آلودہ ہوتی جاتی ہے، اس کے فطری رجحانات بھی بدلتے جاتے ہیں۔

درج بالا اور اس جیسے دیگر ارمانوں کے حصول کے لیے اقوام عالم نے مختلف تجربات کیے ہیں، قبائلی سرداری سے بادشاہت تک کا تجربہ اور اب جمہوریت کے ذریعے یہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس دوران میں فلسفی اور مذہبی اقتدار کا بھی ایک دور آیا ہے۔ لوگوں کو امید رہی ہے کہ چونکہ فلسفی حقائق زندگی سے زیادہ آگاہ ہوتے ہیں اور مذہبی پیشوا خدا کے زیادہ قریب ہوتے ہیں، لہذا ممکن ہے کہ یہ انسانوں کے معاشرتی اور اجتماعی ارمانوں کو حقیقت میں بدل سکیں، تاہم انسان کو اکثر موارد میں ناکامی ہی ہوئی ہے۔ بادشاہت کی اپنی خرابیاں سامنے آئیں، فلسفی اقتدار اور مذہبی پیشوائیت بھی صالح معاشرے جسے مدینہ فاضلہ بھی کہا جاتا ہے، کے قیام کو حقیقت کا روپ دینے میں ناکام ہوئی، بلکہ الٹا یہ آمریت کا روپ دھار کر معاشرتی، علمی، سائنسی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔

مسلمانوں کے پاس مدینہ فاضلہ کے قیام کے حوالے سے دو تصورات موجود ہیں۔ ایک نظام کو خلافت کہتے ہیں اور دوسرا نظام، نظام امامت ہے۔ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ انسانوں پر اقتدار کا حق فقط خداوند کریم کو حاصل ہے اور اس کے بھیجے ہوئے مرسل اور ہادی اس حق کو استعمال کرتے ہیں۔ مسلمان ہادی برحق کی رحلت کے بعد اس حق حکومت کے تعین کے بارے میں اختلاف کا شکار ہوئے۔ ایک گروہ نے مشاورت کا راستہ اختیار کیا، یعنی عامۃ المسلمین جسے چاہیں، اپنے امیر کے طور پر منتخب کر لیں جبکہ دوسرا گروہ وصی رسولؐ و نائب رسول ؐ کا قائل ہوا، جس کے بارے میں ان کے پاس نص یعنی واضح ہدایت موجود تھی۔

آج دنیا بھر میں موجود مذہبی مسلمان انہی دونوں طریقوں کو ہی مدینہ فاضلہ کے قیام کی کنجی تصور کرتے ہیں۔ اہلسنت مسلمان خلافت کے قائل ہیں، جبکہ شیعہ امامت اور نیابت کے۔ ایک مسئلہ جو دونوں مسالک کو درپیش ہے، وہ ان نظاموں کے مقاصد سے صرف نظر ہے، جیسا کہ راقم نے تحریر کی ابتداء میں عرض کیا کہ حکومت کا قیام چند ارمانوں کے حصول کے لیے ایک وسیلہ ہے، تاہم ہر دو مسالک نے حکومت کی شکل کو ہی اصلی ہدف قرار دے دیا ہے۔خلافت جمہوریت سے قریب تر نظام ہے، جس میں عوامی رائے کو مدنظر رکھ کر سربراہ مملکت کا انتخاب کیا جاتا ہے، اس میں اگرچہ پورا معاشرہ ووٹ نہیں دیتا، لیکن قبائلی سرداروں کی رائے کو اہمیت حاصل تھی۔ عرب معاشرہ چونکہ قبائلی نظام کا حامل تھا، جس میں قبیلے کے سردار کی بات قبیلے کی بات تصور کی جاتی تھی، لہذا یہی صائب تھا کہ بجائے ہر بندے سے رائے لینے کے قبیلے کے سردار سے رائے لے لی جائے یا اسے رائے دینے پر مجبور کر دیا جائے۔

جمہوریت اسی شورایت کی پیشرفتہ شکل ہے، جس میں معاشرے کے ہر فرد کو رائے دینے کا حق حاصل ہے، تاہم حاکم مطلق العنان نہیں اور نہ ہی وہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ جمہوریت میں قانون سازی، عدلیہ اور انتظامیہ الگ الگ شعبہ جات ہیں، جو ایک دوسرے کی حدود میں تجاوز نہیں کرتے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں مختلف سطح کی جمہوریتیں قائم ہیں۔ امامت یکسر مختلف طرز حکومت ہے، جس میں رسول اکرم ؐ کی مانند ان کا نائب ہی حکومت کا حق رکھتا ہے، امامت کو ماننے والے امام کی عصمت کے قائل ہیں۔ ان میں سے بعض نے امام کے منصوص من اللہ ہونے اور معصوم ہونے کے نظریہ کو ترک کر دیا، جیسے کہ زیدی اور اسماعیلی آج بھی امامت کو مانتے ہیں، تاہم امام کی عصمت اور منصوص من اللہ ہونے کے قائل نہیں۔

شیعہ اثنا عشری منصوص من اللہ، معصوم امام کی امامت اور حق حکومت کے قائل ہیں۔ غیبت امام کے زمانے میں شیعہ مسلک نیابت امام اور حق حکومت کے حوالے سے مزید دو گروہوں میں تقسیم ہوئے۔ ایک گروہ حوادث زمانہ میں فقہا سے راہنمائی لینے سے متعلق ایک حدیث نیز دیگر عقلی و نقلی دلائل کے سبب فقہاء کے حق اقتدار کا قائل ہوا اور اپنے نظام حکومت کو "ولایت فقیہ” کا عنوان دیا، جبکہ دوسرا گروہ ان دلائل سے قانع نہ ہوا اور حق حکومت کو امام میں ہی منحصر جانتا ہے۔ یہ دوسرا گروہ غیبت کے زمانے میں امور مسلمین کو جمہوری انداز میں چلانے کا قائل ہے، جیسا کہ بیسویں صدی کے اوائل میں مرجع شیعان جہان آخوند خراسانی نے ایران میں بادشاہت کے مقابل مشروطہ تحریک کی حمایت کی اور آج آیت اللہ سید علی سیستانی عراق میں جمہوری حکومت کے حامی ہیں۔

اپنے اصل موضوع تک پہنچنے سے قبل یہ مقدماتی باتیں کہنا ضروری تھیں۔ آج ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے اجتماعی و معاشرتی امور کو چلانے کے لیے حکومت کی شکل کے حوالے سے ہمارے اختلافات عملی نہیں بلکہ نظری ہیں۔ کوئی خلافت کا قائل ہے تو کوئی امامت کو مانتا ہے، کوئی ولایت فقیہ کو حل سمجھتا ہے تو کوئی مشروطہ کو۔ یہاں ایک دقیق نکتہ بیان کرنا ضروری ہے کہ مشروطہ کے قائلین مشروطہ کو اسلامی حکومت نہیں سمجھتے بلکہ امام کی غیر موجودگی میں ایک قابل عمل حل کے طور پر پیش کرتے ہیں، جبکہ خلافت، امامت (زیدیہ و اسماعیلیہ) اور ولایت فقیہ کے قائلین اپنے نظام کو اسلامی نظام تصور کرتے ہیں اور نظام کے احکامات کو اسلامی احکامات کے طور پر دیکھتے ہیں، جن کی خلاف ورزی گناہ اور عذاب کا موجب ہوتی ہے۔

پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جس میں مذہبی تنظیمیں پیش پیش ہیں۔ ان میں سے کچھ جماعتیں اہل سنت ہیں اور کچھ کا تعلق اہل تشیع سے ہے، تاہم مزے کی بات یہ ہے کہ ان سب کا نعرہ اجتماعی امور کی تنظیم سے متعلق نہیں بلکہ نظری اور عقیدتی بنیاد پر ہے۔ اہل سنت ہوں یا اہل تشیع، چونکہ اسلامی حکومت کو ہی درست اور جائز سمجھتے ہیں، لہذا کسی اور نظام کے قائل نہیں۔ کوئی جمہوریت کو کفر سے تشبیہ دیتا ہے، کوئی جمہوری اداروں کو استبدادی ادارے سمجھتا ہے اور کوئی ووٹ ڈالنے کو شرک کہتا ہے، اس کی وجہ اسلامی حکومت کو ہی واحد جائز حکومت سمجھنا ہے، تاہم مزے کی بات یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے حامیوں کو حکومت کی شکل میں اختلاف ہے۔ کچھ امامت کے قائل ہیں اور کچھ خلافت کے، جسے کچھ نظام مصطفیٰ بھی کہتے ہیں۔

ایک لمبے عرصے سے پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کی جدوجہد ہو رہی ہے، اس مشترکہ ہدف نے شیعہ اور سنی حلقوں کو ایک دوسرے کے قریب بھی کیا ہے، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ قربت آگہی پر مبنی نہیں بلکہ اس کے پس پردہ عزائم ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے ایک توہین صحابہ و اہلبیت کے حوالے سے ایک بل پاس کروایا گیا۔ یہ بل ملک میں اسلامی نظام کا پرچار کرنے والی جماعتوں کی جانب سے پیش کیا گیا، جس میں دوسرے مسلک کی مذہبی آزادیوں کو پامال کرتے ہوئے ان پر بے جا پابندیاں اور سزائیں تجویز کی گئیں اور اس سلسلے میں دوسرے مکتب کے اسلامی بھائیوں سے کوئی مشاورت بھی نہ کی گئی۔ اسلامی حکومت کے قیام، اسلامی معاشرے کی تشکیل کے مشترکہ ارمان کے باوجود ایک اکثریتی طبقے کی جانب سے اقلیت کے حقوق پر شب خون مارنے کا یہ واقعہ انتہائی تشویشناک ہے۔ جو یقیناً اہلیان پاکستان کو دعوت فکر دیتا ہے کہ اسلامی نظام ہائے حکومت کی شکلوں کا نفاذ معاشرے کو کس مقام پر لے جائے گا۔

کیا نظام کی شکل و صورت اور اصطلاحات اہم ہیں یا اس کے اہداف۔؟؟ یقیناً ہر ذی شعور کا یہی جواب ہوگا کہ اسلامی حکومت کے اہداف یعنی عدل اجتماعی، انصاف، مساوات، غریب پروری، مذہبی و انسانی حقوق کا حصول، پاکیزہ اور صالح معاشرہ و زندگی، پاکیزہ اقتصادیات اور ایسے ہی امور زیادہ اہم ہیں۔ اگر یہ اہداف مقصود ہیں تو ہمیں انہی کے لیے جدوجہد کرنی چاہیئے، یقیناً سفر مشکل اور طولانی ہے، لیکن ہر سفر کا آغاز پہلے قدم سے ہی ہوتا ہے۔حالیہ متنازعہ بل کے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہونے نیز اتحاد امت کے لیے کی جانے والی کوششوں کو بہت قریب سے دیکھنے کے بعد میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانی معاشرے میں اسلامی حکومت کا نام اس وقت تک بالکل نہیں لینا چاہیئے، جب تک معاشرہ فکری سطح پر ہم آہنگ نہیں ہو جاتا، یا شعوری طور پر اسلامی حکومت کے اہداف کے لیے جدوجہد کے لیے تیار نہیں ہو جاتا۔ یہ شکلوں اور اصطلاحات کی تحریکیں ملک میں فساد اور بدامنی کے علاوہ کچھ نہیں لاسکتیں۔
یہ بھی پڑھیں: شیعہ تنظیموں کو پارلیمان تک پہنچانے کا بیانیہ
https://albasirah.com/urdu/shia-tanzeemo-ko-parliman/