شیعہ تنظیموں کو پارلیمان تک پہنچانے کا بیانیہ

Published by fawad on

سید اسد عباس

تحریر: سید اسد عباس

سپاہ صحابہ کے سابق سربراہ ضیاء الرحمن فاروقی نے اپنی ایک تقریر میں اہلسنت عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں خود کسی بھی جگہ سے انتخاب نہیں لڑوں گا، لیکن گلگت سے لے کر کراچی تک ہر اس حلقے میں جاؤں گا، جہاں کوئی شیعہ امیدوار کھڑا ہوگا اور اس کے خلاف کمپین کروں گا۔ ضیاء الرحمن فاروقی نے کہا کہ بے نظیر کی اسمبلی میں چالیس کے قریب شیعہ امیدوار قومی اسمبلی تک پہنچے۔ اس خطاب میں اس کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد شیعہ کو پارلیمانی سیاست سے خارج کرنا ہے، تاکہ وہ پارلیمان سے اپنی مرضی کی قانون سازی کروا سکیں۔ حال ہی میں ان کی جماعت نے دیگر مذہبی اور نیم مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر قومی اسمبلی اور سینیٹ سے تعزیرات پاکستان میں ایک ترمیم منظور کروائی ہے، جسے توہین صحابہ و اہل بیت ایکٹ 2021ء کہا جاتا ہے۔ یہ ترمیم بنیادی طور پر تعزیرات پاکستان کی شق 298 اے میں کی گئی ہے، جس کے مطابق اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کی سزا تین برس سے بڑھا کر کم از کم دس برس اور زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید تجویز کی گئی ہے، علاوہ ازیں اس جرم کو ناقابل ضمانت قرار دیا گیا ہے۔

اس بل کو پاس کروانے کے عمل کے حوالے سے مختلف چیزیں زیر بحث ہیں، پارلیمان کے کورم کا پورا نہ ہونا، قومی اسمبلی میں فقط آٹھ اراکین اور سینیٹ میں بیس اراکین کا اس بل کے حق میں رائے دینا، اس قانون میں توہین و تنقیص کے مصادیق نیز صحابہؓ اور اہل بیت ؑکے مصادیق پر اختلافات، ملزم کے لیے ضمانت کے حق کا نہ ملنا، قانون کا قرآن و سنت سے متصادم ہونا، اس سزا کا اسلامی تاریخ میں موجود نہ ہونا، قانون کا غلط استعمال اور اس جیسے موضوعات اس وقت زیر بحث ہیں۔ ایسے میں شیعہ حلقوں میں راہ حل کے طور پر ایک آواز تنظیمی اراکین کو پارلیمان تک پہنچانے کی سامنے آرہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتوں کے شیعہ اراکین اس قانون کو روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکے، لہذا ضروری ہے کہ شیعہ تنظیموں کے نمائندے اسمبلی میں جائیں، تاکہ وہ ایسی کسی قانون سازی کی راہ میں حائل ہوسکیں۔ اس بیانیہ کو سمجھنے اور اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، کیا واقعی ایسا ممکن ہے۔؟

موجودہ پارلیمان میں کتنے شیعہ موجود تھے؟
موجودہ پارلیمان پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں، گرفتاریوں کے سبب مکمل ہی نہیں ہے۔ سینیٹ میں کل کتنے شیعہ اراکین موجود ہیں، مجھے تو عون عباس کے نام کے علاوہ کوئی شیعہ سینیٹر دکھائی نہیں دیا، جو تحریک انصاف کا سینیٹر ہے، تاہم شاید وہ بھی سینیٹ میں موجود نہیں تھا۔ ممبران قومی اسمبلی کو دیکھا جائے تو ان میں بھی اکثریت پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کی تھی۔ اکا دکا پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے اراکین ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی پارلیمان کے بارے کہنا کہ اس میں شیعہ اراکین نے کیا کیا، عجیب سوال ہے۔ اس پارلیمان میں متحدہ مجلس عمل اور جماعت اسلامی نے موقع دیکھا کہ پارلیمان میں کوئی مخالف قوت موجود نہیں ہے، لہذا اس موقع سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیئے۔ اس موقع پر موجود سینیٹرز نے جن کا تعلق مسلک شیعہ سے نہیں ہے، انھوں نے بھی اس بل پر اعتراض کیا، جو کہ میڈیا پر موجود ہے۔

شیعہ تنظیموں کا ووٹ بینک کیا ہے؟
شیعہ تنظیمیں پاکستان کے کس حلقے سے جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اگر ہم 2013ء کے انتخابات پر نظر کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی تحریک نے ان انتخابات میں کل 2694 ووٹ حاصل کیے اور مجلس وحدت مسلمین کو کل 41,520 ووٹ ملے۔ 2018ء کے انتخابات میں مجلس وحدت مسلمین نے 19,615 ووٹ حاصل کیے اور اسلامی تحریک نے متحدہ مجلس عمل کا ساتھ دیا۔ مجلس وحدت مسلمین نے تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجیسٹمنٹ کی، جس کے سبب اسے پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں ایک خصوصی نشست ملی اور بلوچستان میں ایک نشست پر کامیاب ہوئی۔ اس سیٹ ایڈجیسٹمنٹ کے سبب مجلس پنجاب اسمبلی میں ایک قانون کو روکنے میں کامیاب ہوئی۔ 2020ء کے گلگت بلتستان کے انتخابات میں جہاں شیعہ ایک بڑی اکثریت ہیں، مجلس وحدت مسلمین ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی جبکہ اس کی اتحادی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے 16 نشستیں جیت کر حکومت تشکیل دی۔ گلگت بلتستان انتخابات کے نتائج کو دیکھا جائے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ عوام نے مسلکی جماعتوں کو مسترد کیا ہے اور قومی بیانیے کی حامل جماعت کو ووٹ دیئے ہیں۔

متحدہ مجلس عمل نے 2018ء کے انتخابات میں 2,573,939 ووٹ حاصل کیے۔ متحدہ مجلس عمل کو زیادہ تر ووٹ خیبر پختونخوا سے ملے۔ ملک کے دیگر صوبوں میں یہ جماعت کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں حاصل کرسکی۔ خیبر پختونخوا بالخصوص سوات، چترال، باجوڑ اور بلوچستان کے عوام اب بھی مسلکی سیاست کے حامی ہیں، جنھوں نے ایک بڑی تعداد میں مذہبی تنظیموں کے نمائندوں کو پارلیمان تک پہنچایا۔ انہی نمائندگان نے قومی اسمبلی میں توہین صحابہ و اہلبیت بل میں ترامیم کی درخواست دی اور اسی جماعت کے اراکین نے ہی اس بل کو سینیٹ سے پاس کروایا۔ اس سلسلے میں ان جماعتوں کو پی ڈی ایم حکومت کی آشیر باد حاصل تھی۔ امید یہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں جنرل ضیاء الحق کا تشکیل کردہ اتحاد جو نو ستارے کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، مل کر ہی انتخابات لڑے گا۔

شیعہ کو کیا کرنا چاہیئے؟
درج بالا حقائق کے تناظر میں ہونا تو یہ چاہیئے کہ ہم تنظیمی سطح پر انتخاب لڑنے کے بجائے عام پاکستانی عوام کی مانند غیر شدت پسند اہل نمائندے کو ووٹ ڈالیں، اگر ہمیں اپنے مسلکی مسائل کے تحفظ کی فکر ہے تو زیادہ سے زیادہ ہم کسی ایسی تنظیم کے ساتھ سیاسی الحاق کرسکتے ہیں، جو اصولوں کی سیاست پر یقین رکھتی ہو اور شیعہ قوم کے جائز حقوق دینے کے لیے آمادہ ہو۔ گذشتہ دو انتخابات کے نتائج اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ مسلکی تنظیمی بنیاد پر انتخاب لڑنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیئے کہ زیادہ سے زیادہ شیعہ امیدوار پارلیمان تک پہنچیں یا کم از کم یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ شدت پسند گروہوں کے اراکین کم سے کم اسمبلی اور سینیٹ تک پہنچیں۔ اس کے لیے انتخابی سیاست سے بلند ہو کر ضیاء الرحمن فاروقی کی مانند سیاست کو مشن کے طور پر اختیار کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ نتائج گذشتہ انتخابات سے زیادہ مختلف نہیں ہوں گے، واللہ اعلم۔

یہ بھی پڑھیں: توہین صحابہؓ و اہلبیتؑ بل، 298 اے میں ترمیم کیسے ہوئی؟
https://albasirah.com/urdu/toheen-e-sahaba-ahle-bait-bill/