معرفت دین کی ابتداء

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

دین اور غیر دین میں حدفاصل ماورائے مادۂ کائنات کاتصور ہے ۔ایک نظریے کے مطابق ساری کائنات اتفاقات کا نتیجہ ہے۔ یہ لوگ حیات بعد ازممات کو بھی نہیں مانتے کیونکہ یہی ان کے تصور کائنات کا تقاضا ہے ۔

 قرآن شریف میں بھی اس نظریے کے حامیوں کا نقطۂ نظر نقل کیا  گیا ہے :
 وَقَالُوْا مَا ہِیَ اِِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَآ اِِلَّا الدَّہْرُ۔۔۔(۱)

یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی تو بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے ۔ یہیں ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں، زمانے (کی گردش ایام) کے علاوہ کوئی چیز ہمیںہلا ک نہیں کرتی۔
ایسے لوگوں کی مشکل یہ ہے کہ یہ نہیں کہتے کہ ہمیں ماورائے مادہ کا علم نہیں یا مادی ذرائع سے ہم اس کا علم حاصل نہیں کرپاتے بلکہ وہ اندھا دھند فتویٰ جاری کردیتے ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خدا نہیں۔ ان کی اسی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے:
 وَمَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِِنْ ہُمْ اِِلَّا یَظُنُّونَ O(۲)
انھیں اپنے نظریے کے بارے میں کچھ علم نہیں(اور انھوں نے یہ نظریہ کسی علم کی بنا پر اختیار نہیں کررکھا بلکہ) محض ظن وگمان کی بنیاد پر یہ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں۔
ان کے مقابلے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ یہ عظیم کائنات کسی ذات قدیر وعلیم کے ارادے کا مظہر ہے، جیسا کہ جوش ملیح آبادی کہتے ہیں:

یعنی درون پردۂ صد رنگ کائنات 
اک کار ساز ذہن ہے، اک باشعور ذات

اس نظریے کے مطابق یہ کائنات بے خدا نہیں اور انسان سمیت اس کی مخلوقات لاوارث نہیں۔کسی نے یہ سب کچھ ایک ارادے اور پروگرام کے تحت پیدا کیا ہے ۔ چنانچہ دہریوں کے جواب میں قرآن کہتا ہے:
قُلِ اللّٰہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لاَ رَیْبَ فِیْہِ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَO وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یَوْمَئِذٍ یَّخْسَرُ الْمُبْطِلُوْنَ O(۳)
کہیے:(اس بے شعور دہرکی کیا مجال یہ تو) اللہ ہے جو تمھیں زندگی بخشتا ہے ، پھر تمھیں موت دیتاہے، پھر تمھیں اس روز قیامت کو جمع کرے گا جس کے وقوع میں کوئی شک وشبہہ نہیں لیکن اکثر انسان جانتے نہیں اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے اور جس روز قیامت کی گھڑی آکھڑی ہوگی اس روز باطل پرست گھاٹا اٹھانے والے ہوں گے۔
جب ہم یہ مان لیتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک کار ساز خدا ہے تو پھر یہ ماننا بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ایسا خدا اس کائنات کو بے مقصد اور بے ہدف پیدا نہیں کرسکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآئَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلًا۔۔۔(۴)
اور ہم نے آسمان وزمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے، اسے باطل پیدانہیں کیا۔
درحقیقت اللہ اوراس کی وحدانیت پر ایمان ہی انسان کی زندگی کو بامقصد بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی تعلیمات کا محور ایمان باللہ اوراس کی وحدانیت کی تصدیق ہی ہے۔ لہٰذا تمام انبیاء کا زورسب سے زیادہ اسی مسئلے پر رہا ۔ان کے نزدیک انسان کی تمام مشکلات کا حل اسی عقیدے کو اختیار کرنے میں ہے اور انسان کی تمام کج فکریوں اور کج رویوں کا علاج اسی دوا میں ہے۔چنانچہ حضرت نوحؑ ہوں یا حضرت ہودؑ، حضرت صالحؑ ہوں یا حضرت شعیبؑ سب نے اپنی قوم سے اولین بات یہی کہی:
 یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ۔۔۔(۵)
اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرواس کے علاوہ تمھارا کوئی معبود نہیں۔
پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفیؐ نے بھی سب سے پہلے یہی اعلان فرمایا:
قولوالاالٰہ الااللّٰہ تفلحوا(۶)
کہو:لاالٰہ الااللہ فلاح پاجائوگے۔
گویا دینی تعلیمات کاسرنامہ ’’لاالٰہ الااللّٰہ‘‘ہے ۔دین کے نزدیک انسانی فلاح کے تمام دروازے عقیدہ ٔتوحید اور عبادت الٰہی اوربس عبادت الٰہی سے کھلتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب اہل ایمان کو نماز کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو مؤذن پکار کرکہتا ہے:
حی علی الفلاح
آجائوفلاح اور کامیابی کی طرف
یہ بات کہے بنا واضح ہے کہ کائنات کاسارا نظام، موت وحیات کا نظام، زمین وماہتاب اور خورشید کاباہمی ربط،پھر ہمارے نظام شمسی کا اپنی کہکشاں سے تعلق اور پھر سب کہکشائوں کا ربطِ باہم کسی ایک مرکز، کسی ایک ارادے اور کسی ایک حکیم وعلیم ذات پر منتہی ہوتا ہے ۔ اس کائنات میں ارادے کی دوئی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے کائنات میں نظام صالح کو توحید کی دلیل کے طورپرذکر فرمایا ہے:
لَوْ کَانَ فِیْھِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا(۷)
اگر ان(آسمان وزمین) میں  اللہ کے علاوہ اور الٰہ ہوتے تو یہ تباہ ہوجاتے۔

حوالہ جات

۱۔ الجاثیہ:۲۴
۲۔ الجاثیہ:۲۴
۳۔ الجاثیہ:۲۶۔۲۷
۴۔ ص ٓ،۲۷
۵۔ الاعراف:۶۵

۶۔ بحار۔ج ۱۸۔ص ۱۹۹
۷۔ انبیاء:۲۲