مغرب کے اور ہمارے تصور مذہب میں فرق

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

مغرب نے عملاً طے کرلیاہے کہ مذہب کا سوسائٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے نزدیک مذہب انسان کا پرائیویٹ معاملہ ہے۔ اس کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آپ عیسائیت‘ یہودیت‘ اسلام یا سکھ مذہب وغیرہ میں سے جو ’’مذہب‘‘ بھی اختیار کرنا چاہیں‘ آزاد ہیں۔

 البتہ آپ کے مذہب کا سوسائٹی‘ گورنمنٹ اور پارلیمنٹ سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔پارلیمنٹ اس سے آزاد رہ کر قانون سازی کرے گی۔ بائیبل کیا کہتی ہے اور قرآن کیا کہتا ہے ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ یعنی پارلیمنٹ اس لیے شراب کوحرام قرار نہیں دے سکتی کہ قرآن نے اسے نجس اور ’’ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ ‘‘(۶) قرار دیا ہے۔

 اگر آپ قرآن کے اس حکم پر عمل کرناچاہتے ہیں تو ذاتی طورپر آزاد ہیں۔ آپ رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے قوم و ملک کے مفاد کی بنیادپر تو امتناع شراب کے لیے قانون سازی کا مطالبہ کرسکتے ہیں‘ بائیبل یا قرآن کے حکم کو دلیل بنا کر نہیں کرسکتے۔ مغرب کے نزدیک ’’ریاست‘‘ کے سیکولر ہونے کا یہی تقاضا ہے۔ وہاں تجربے نے بتایا ہے کہ شاہراہوں پرپیش آنے والے حادثات کی ایک بڑی وجہ شراب پی کر ڈرائیونگ کرنا ہے لہٰذا قانون بنا دیا گیا کہ شراب خوری کی حالت میں ڈرائیونگ کرنا منع ہے۔
مغرب میں ریاست کو اپنے قوانین کی پاسداری سے سروکار ہے‘ اس سے نہیں کہ آپ اتوار کو گرجے میں جاتے ہیں یا جمعہ کو مسجدمیں۔ آپ اتوار کی عبادت سوموار کو کرنا چاہتے ہیں یا جمعہ کی نماز ہفتہ کو ادا کرنا چاہیں ریاست اس میں غیر جانبدار ہے۔ خدا ہے یا نہیں ہے، آپ خدا کو مانتے ہیں یا نہیںمانتے ریاست کو اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہی مطلب ہے اس جملے کا کہ ’’مذہب ہر شخص کا پرائیویٹ معاملہ ہے‘‘۔
دوسری طرف دین اسلام کا نقطۂ نظر اس سے مختلف ہے۔ ہوسکتا ہے کوئی اور ’’مذہب‘‘ مغربی تصور کو قبول کرلے لیکن اسلام کو یہ قبول نہیں۔ ہمارا تصور دین یہ ہے کہ دین کا تعلق فرد سے بھی ہے اور معاشرے سے بھی‘ ہمارے نزدیک دین کا تعلق رزم سے بھی ہے بزم سے بھی‘ ریاست سے بھی ہے سیاست سے بھی‘ معیشت سے بھی معاشرت سے بھی۔ اس لحاظ سے دین سے تعلق کو علامہ اقبال نے اپنے اس مشہور شعر میں بیان کیا ہے:

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد(۷)

مغربی تصور معاشرت آپ کو پابند نہیں کرتا کہ آپ اپنے اہل محلّہ یا ہمسایوں کے بارے میں فکر مند رہیں‘ ان کی مشکلات کو حل کرنے کی فکر کرتے رہیں‘ ہاں اپنی جگہ پر ہر فرد ریاست کی ذمہ داری میں ہے لیکن اسلام ریاست اور فرد دونوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے کہ ضرورتمندوں کی دستگیری کریں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا:
جو شخص پیٹ بھر کو سو رہے اور اس کا ہمسایہ بھوکا رہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
پیغمبر اکرمؐ نے یہ بھی فرمایا:
من اصبح لا یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم(۸)
جس نے اس حال میں صبح کی کہ اس نے امور المسلمین کے بارے میں کوئی پروگرام نہ بنایا‘ وہ مسلمان ہی نہیں۔
ہر شخص کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے نبی کریمؐ ارشاد فرماتے ہیں:
کلکم  راع و کلکم مسئول عن رعیتہ(ِ۹)
تم میںسے ہر کوئی حاکم ہے اور ہر کوئی اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے۔
کیونکہ ممکن ہے ریاست کے کسی باقاعدہ ذمہ دار تک کسی کی مشکل کی خبر نہ پہنچے اور آپ تک پہنچ جائے‘ آپ حتی المقدور اللہ کے بندے کو مشکل سے نکالنے کی تدبیر کریں۔
ہاں ریاست بھی ذمہ دار ہے‘ اسلام ریاست کوبھی ذمہ دار قرار دیتا ہے اور واقعاً ریاست کی ذمہ داری بہت بڑی ہے۔ صدر اسلام میں ہمیں اس سلسلے میں بہت عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت عمرؓ خود رات کو شہر میں گشت کرکے رعایا کے حالات معلوم کرتے تھے۔ حضرت علیؑ کے بارے میں ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے ایک خاتون کو شہر کوفہ میں بوجھ اٹھائے دیکھا تو پوچھا کیوں تمھارا شوہر نہیں؟ عورت کو علم نہیں تھا کہ آپ امیر المومنین ہیں۔ اس نے بتایا کہ میرا شوہر علیؑ کے ساتھ جنگ میں شریک ہوا تھا اور شہید ہوگیا تھا۔ اب علیؑ کو ہماری کیا خبر؟ حضرت علیؑ اس کے ساتھ ہولیے۔ اس کے گھر کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹایا۔ اس کے تنور پر خود روٹی پکائی۔ روٹی لگاتے تھے اور چہرہ آگ کے قریب کرتے اور کہتے تھے دوزخ کی آگ اس سے کہیں زیادہ ہے اسے کیسے برداشت کروگے‘ جب اس کا شوہر جنگ کرسکتا تھا اس نے تمھارے حکم پر جنگ میں شرکت کی‘ وہ قتل ہوگیا تو اس کے گھر والوں کی تمھیں خبر نہ ہوئی۔
گویااسلام ریاست کو بھی ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور فرد کو بھی۔ دنیا میں بے خدا سیاست کا حال سب دیکھ رہے ہیں، امریکہ کے نیوورلڈ آرڈر کا معنی:

ع چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

بلکہ اس نے افغانستان اور سوڈان پر بیک وقت سمندوں میں اپنے بحری بیڑے کھڑے کرکے جس انداز سے میزائل چلائے اس پر فیض کا یہ شعر صادق آتا ہے:

ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھی تری انجمن سے پہلے
سزا خطائے نظر سے پہلے‘ عتاب جرم سخن سے پہلے
اگر کوئی ریاست خدا پر ایمان رکھے‘ عالمین کے رب پر ایمان رکھے تو پھر وہ خدا تو افغانیوں کا بھی ہے‘ سوڈانیوں کا بھی ہے‘ عراقیوں کا بھی ہے اور پاکستانیوں کا بھی ہے۔ توحید پرستی انسان کی سوچ کو آفاقی بنادیتی ہے۔ قوم پرستی کی وحشت ناکیوں سے انسان کو محفوظ رکھتی ہے۔ بے خدا سیاست ہی کو اقبالؒ نے ’’چنگیزی‘‘ کہا ہے۔
امریکی سیاست تو یہ ہے کہ ایک امریکی مر جائے تو پوری دنیا میں طوفان کھڑا کردیا جاتا ہے جبکہ چیچنیا اور کشمیر میں لاکھوں مرجائیں یا آوارۂ وطن ہو جائیں امریکی مفادات کا تقاضا ہو تو لب کشائی ہوگی اور نہ ہو تو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
دین انسان کو قومی‘ نسلی‘ جغرافیائی اور وقتی سیاست سے نکال کر آفاقی اور عالمگیر بنا دیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی آپ کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ آپ ظلم پر اتر آئیں۔ اسلام فقط آخرت میں اور روز قیامت نجات کے لیے انسان کو عبادت خدا کی دعوت نہیں دیتا بلکہ خدا کو سجدہ کرنے کا مطلب اسلام کے نزدیک یہ ہے کہ پھر دنیا میں کسی کی بڑائی اور کبریائی کو تسلیم نہ کیا جائے‘ کوئی قوم دوسری قوم کو غلام نہ بنائے۔ اس لیے کہ اسے خدا کا بندہ بننے کا حکم دیا گیا ہے اور اسی طرح کوئی قوم کسی دوسری قوم کی غلامی بھی قبول نہ کرے۔ علامہ اقبالؒ نے توحید پرستی کے اس فائدے کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے:
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات(۱۰)
دنیا میں اس وقت سیکولرزم کے مغربی تصور کے مطابق فلاحی ریاستوں کے عمدہ نمونے معرض وجود میں آچکے ہیں لیکن یہ قوانین انسان کو چونکہ اندر سے تبدیل نہیں کرتے اس لیے جب بھی اور جہاں بھی بے خدا انسان کو موقع ملتا ہے وہ نرا وحشی ثابت ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں مغربی معاشرے میں لاتعداد ہیں۔ جبکہ معاشرت کے حوالے سے دینی تصور انسان کو پیغام دیتا ہے کہ ریاستی قانون کو آنکھ دیکھ رہی ہو یا نہ اللہ کہ جو سمیع و بصیر ہے‘ سن بھی رہا ہے اور دیکھ بھی رہا ہے بلکہ وہ ’’علیم بذات الصدور‘‘ (جو کچھ سینوں کے اندر ہے‘ اسے بھی جاننے والا) ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
من غش فلیس منا(۱۱)
جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔
یعنی آپ صرف مسجد کے اندر مسلمان نہ رہیں۔ نماز پڑھ کر آئیں اور  اپنی دکان پر بیٹھیں تو اس وقت بھی مسلمان رہیں۔ دفتر میں بیٹھیں توبھی مسلمان رہیں۔ یعنی معاشرے کے اندر خدا کے ساتھ ساتھ رہیں۔ عرفاء نے اس سلسلے میں انسان کے چار سفر بیان کیے ہیں۔
1) مخلوق سے خدا کی طرف:
یعنی دنیا کی ہر چیز کو چھوڑ کر خدا کی طرف رجوع کرنا۔
2) خالق کے ساتھ:
یہ فنا فی اللہ ہونے کی منزل ہے یعنی اس کی ذات میں گم ہو جانا۔ عارف جب اس دنیا سے ہجرت کرکے اپنے آپ کو خدا کی ذات میں گم کرلیتا ہے تو اسی کے نور کے جلووں میں کھو کر رہ جاتا ہے اور برگشت کا خیال ترک کردیتا ہے۔ ایک صوفی کا قول علامہ اقبال نے نقل کیا ہے کہ میں معراج پر جاتا تو واپس نہ آتا۔
3) خالق کے ہمراہ مخلوق کی طرف:
یعنی اس کے جلووں اور اس کی یاد بلکہ خود اس کے ہمراہ مخلوق کی طرف سفر۔
4) مخلوق کے اندر خالق کے ساتھ:
انبیاء در حقیقت جب انسانوں میں کار پیغمبری میں مصروف ہوتے ہیں تو وہ چوتھا سفر طے کررہے ہوتے ہیں۔ بندوں کو خدا کا بندہ جانتے ہیں‘ انھیں خدا کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ایک خدا پرست حاکم اور ایک خدا پرست نظام ایسا ہی ہوتا ہے۔
اس سے واضح ہوا کہ دین کا تصور کس قدر عظیم‘ وسیع اور گہرا ہے۔ یہ مغرب کے تصور مذہب سے بالکل مختلف ہے۔
یہاں پر ہمیں ایک باریک سی بات سمجھنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ دین کو رائج تصور فقہ کے محدود احکام میں مقید نہ سمجھیں۔ دین کوبعض مولوی صاحبان کے محدود اور منقول تصور حلال و حرام کے رائج تصور سے بالاتر ہو کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ چونکہ دین مختلف ہیں اور ایک ملک میں مختلف ادیان کے ماننے والے موجود ہوں تو پھر ریاست کی مجبوری ہے کہ وہ سیکولر ہو کر اپنا کام چلائے۔ یہ بات دراصل مذہب کے رائج تصور کے حوالے سے درست ہے۔ یہ مشکل ہمارے ہاں بھی ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے 1977 اور1978 میںپاکستان میں اسلامی قوانین کے نام پر قوانین نافذ کرنا شروع کیے تو مختلف فقہوں کے ماننے والوں نے شور مچانا شروع کردیا کہ یہ ہماری فقہ کے مطابق نہیں،اس لیے ہم نہیں مانتے۔ مفتی جعفر مرحوم نے کہا یہ فقہ جعفریہ کے مطابق نہیں مفتی محمود مرحوم نے کہا کہ یہ فقہ حنفیہ کے مطابق نہیں۔
ہم نے دین کے حوالے سے جو بات کہی ہے یہ اس سے مختلف ہے۔ دین کے وسیع تر تصور کو سمجھ لیا جائے تو یہ مسائل بہت ثانوی رہ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ادھر ’’شریعت‘‘ کا نام آتا ہے تو ذہن میں چور کا ہاتھ کاٹنے‘ مرد کے داڑھی رکھنے‘ عورتوں کو برقعہ اوڑھنے کا خیال ذہن میں ابھر آتا ہے۔ ہم کہتے ہیں دین کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ کوئی قوم دوسری قوم کا استحصال نہ کرے۔ کوئی ملک دوسرے ملک کا استحصال نہ کرے۔ امریکی‘ یورپی‘ افریقی اور ایشیائی انسان عملاً برابر سمجھے جائیں۔ سب کی جان و مال اور عزت محفوظ ہو۔ قانون سب کے لیے یکساں ہو اور یکساں طور پر نافذ ہو۔ دنیا سے لوٹ مار کے نظام کا خاتمہ ہو۔ سود در سود نے قوموں اور ملکوں کو زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے‘ استحصال کی ان زنجیروں کو کاٹا جائے۔ ایک قوم دوسری قوم کا استحصال کرکے عیش نہ کرے۔ کوئی شخص دوسرے پر دھونس‘ دھاندلی اور استبداد کاارادہ نہ کرے۔ ان سب باتوں میں کون سی عیسائیت‘ یہودیت اور اسلام کے خلاف ہے۔ یہ کسی کے خلاف نہیں لیکن یہ سب دین کا تقاضا ہے، کیونکہ دین کہتا ہے سب انسان خدا کے بندے ہیں‘ کسی عربی کو کسی عجمی پر‘ کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔ کوئی جتنا خدا کی نافرمانی سے پرہیز کرتا ہے‘ بندوں پر ظلم سے پرہیز کرتا ہے اتنا ہی وہ خدا کے نزدیک فضیلت رکھتا ہے، کیونکہ سب انسان خدا کے سامنے جوابدہ ہیں‘ ہر شخص اپنی ذاتی ذمہ داری کے حوالے سے جوابدہ ہے۔ کیونکہ اس دنیا میں اگر انسان خرابکاری کرکے گرفت سے بچ بھی جائے تو ایک دن وہ عدالت الٰہی میں پیش ہوگا پھر کسی کی کوئی سفارش کسی ظالم کے کام نہ آئے گی۔
دراصل دین اور مذہب میں یہی فرق ہے۔  ہمارے ہاں عام لوگ کیا بہت سے خاص لوگ بھی اسلام کو مذہب کی سطح پر دیکھتے ہیں جبکہ اسلام دین ہے اور دین آفاتی ہوتا ہے۔ ہمیں اس کے آفاقی پہلوئوں کو سمجھنا چاہیے‘ انہی کو اجاگر کرنا چاہیے، انہی کے اختیار کرنے میں نوع انسانی کی نجات ہے۔

حوالہ جات

۶۔ مائدہ:۹۰
۷۔ اقبال، محمد : بانگ درا،کلید کلیات اقبال اردو(لاہور، اقبال ٹائون ،ادارہ اہل قلم،دسمبر ۲۰۰۵) ص،۵۴۸
۸۔ کلینی، الکافی، ج۲،کتاب الایمان والکفر،(تہران،ایران، دارالکتب الاسلامیہ) باب الاہتمام  بامور  المسلمین،ج۱،ص ۱۶۳
۹۔ بخاری، صحیح البخاری(بیروت،دارالفکر،ط ۱۹۸۱) ج۱،ص ۲۱۵