کس قیامت کے یہ نامے میرے نام آتے ہیں؟
ان دنوں پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں امریکہ سے پہنچنے والے ایک نامے کی دھوم ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے تاریخی جلسے میں یہ خط حاضرین کو دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ بیرون ملک سے ہماری حکومت کو گرانے کی سازش کی گئی ہے اور یہ خط میرے پاس اس کے ثبوت کے طور پر موجود ہے۔ امریکہ کے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لوجو پشاور پاکستان میں کونسلر جنرل رہ چکے ہیں اور پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید کی 7 مارچ کو ملاقات میں دھمکی آمیز خط کا معاملہ سامنے آیا۔ اس ملاقات میں دونوں طرف کے وفود موجود تھے۔ میٹنگ میں ہونے والے مکالمے کے لیے نوٹ لینے والے نمائندگان بھی بیٹھے تھے، جو مکالمہ ہوا، یہ خط اس کے نکات پر مشتمل ہے۔ ڈونلڈ لو امریکہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ فار سائوتھ اینڈ سینٹرل ایشیاء ہیں۔ وہ امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ایماء پر یہ پیغام دے رہے تھے۔
اس کے جو مندرجات سامنے آئے ہیں، اس کے مطابق پاکستانی سفیر کو پیغام دیا گیا کہ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آنے والی ہے، اگر یہ تحریک ناکام ہوگئی تو پاکستان کے لیے بہت مشکلات ہوں گی۔ اس ملاقات کے ایک روز بعد پاکستان کی اپوزیشن نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کروائی۔ یاد رہے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کونسل میں امریکہ کے صدر، وزیر دفاع، وزیر خارجہ، وزیر خزانہ، امریکی افواج کے سربراہ اور امریکہ کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ شامل ہیں۔ پاکستان کے نام آنے والا پیغام اسی کونسل کی طرف سے آیا ہے، جسے امریکہ کے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو کے توسط سے پاکستان کے سفیر تک پہنچایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مراسلے کی زبان انتہائی سخت ہے، جسے عام نہیں کیا گیا۔
وزیراعظم کی طرف سے اس مراسلے کا ذکر کیے جانے کے بعد اس کے بارے میں طرح طرح کے سوالات کیے جانے لگے۔ تاہم وزیراعظم نے پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا اور یہ مراسلہ اس کے سامنے رکھا۔ قومی سلامتی کمیٹی کا یہ 37 واں اجلاس تھا، جو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں دفاع، توانائی، اطلاعات، داخلہ، خزانہ، انسانی حقوق، منصوبہ بندی و ترقی کے وفاقی وزراء نے شرکت کی۔ اعلامیے کے مطابق اجلاس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، سروسز چیفس اور معاون خصوصی قومی سلامتی سمیت سینیئر حکام شریک ہوئے۔ اجلاس کے بعد ایک باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی نے غیر ملکی سفارتکار کی استعمال کی گئی زبان پر تشویش کا اظہار کیا اور غیر ملکی مراسلہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف قرار دیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں کسی بھی طرح کی مداخلت ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے۔ اعلامیے کے مطابق غیر ملکی آفیشل کی استعمال کی گئی زبان غیر سفارتی ہے، سفارتی آداب مدنظر رکھتے ہوئے متعلقہ ملک سے سخت احتجاج کیا جائے گا۔ یہ اجلاس 31 مارچ 2022ء کو منعقد ہوا۔ اجلاس کے بعد دفتر خارجہ کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ایک غیر ملک کی جانب سے پاکستانی سفیر کو ملک کے اندرونی معاملات کے بارے میں تنبیہی پیغام کے سلسلے میں سفارتی اقدامات اٹھا لیے گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ کے ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے ان سے احتجاج کیا گیا۔
پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں امریکہ کی مداخلت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں امریکہ پاکستان پر اس سے بھی سنگین تر دبائو ڈالتا رہا ہے۔ سابق فوجی آمر پرویز مشرف پر ڈالا جانے والا دبائو خاص طور پر قابل ذکر ہے، جب ان سے کہا گیا کہ یا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر چڑھائی کے لیے امریکہ کو پاکستان سے جو مدد درکار تھی، یہ دھمکی رات کے وقت جنرل (ر) پرویز مشرف کو جگا کر، اسی ضمن میں دی گئی تھی۔ افسوس ایک کمانڈو فوجی صدر اس دھمکی کے سامنے لیٹ گیا۔ اس سے پہلے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کسنجر نے سخت الفاظ میں دھمکی دی تھی۔ بھٹو کا قصور یہ تھا کہ وہ پاکستان کو ایک جوہری طاقت بنانا چاہتا تھا۔ بھٹو نے یہ فیصلہ 1974ء میں بھارت کے نیوکلیر ٹیسٹ کے بعد کیا تھا۔ کسنجر نے بھٹو سے کہا تھا کہ ہم آپ کو عبرت کا نشان بنا دیں گے۔ پاکستان اور بیرون پاکستان کے بہت سے محققین اور تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ بھٹو کو جنرل ضیاء الحق نے امریکہ کے ایما پر ہی ایک مشکوک مقدمے میں پھانسی دلوائی تھی۔
اب جو تازہ دھمکی پاکستان کو دی گئی ہے اور امریکہ کی طرف سے جو نئی سازش بے نقاب ہوئی ہے، اسی کو بنیاد بنا کر پاکستان کی قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف پیش کی گئی عدم اعتماد کی قرارداد کو ڈپٹی سپیکر نے مسترد کر دیا ہے۔ بظاہر پاکستان ایک سیاسی بحران سے گزر رہا ہے، لیکن اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ کی تازہ سازش کے تمام تر حقائق پاکستان کے کوچہ و بازار میں جا پہنچے ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پاکستان کے عوام امریکی سازشوں سے اس قدر آگاہ نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں امریکہ سے جو نفرت پائی جاتی ہے، وہ بے مثال ہے۔ اس سازش کے سامنے آنے کے بعد جس انداز سے پاکستان کے وزیراعظم نے اپنا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کیا ہے، اس نے عوام کے اندر بیداری اور خود داری کا نیا جذبہ پیدا کر دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے باوجود اور حکومت کے بیشتر اتحادیوں کے ان کی صفوں میں شامل ہو جانے کے باوصف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد مسترد ہونے کے بعد اپوزیشن کی حمایت میں عوام باہر نہیں نکلے بلکہ الٹا وزیراعظم عمران خان کی حمایت میں لوگ باہر نکلے ہیں۔ اگرچہ قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کی طرف سے کیے جانے والے اقدام کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث ہے، تاہم عمران خان کی مقبولیت اور امریکہ سے پاکستانی عوام کی نفرت اپنے عروج پر ہے۔ خود داری کے جذبے کو اگر ایک تعمیری قوت میں ڈھال لیا جائے تو یقیناً پاکستان ایک عظیم مملکت میں تبدیل ہوسکتا ہے۔
اس کے جو مندرجات سامنے آئے ہیں، اس کے مطابق پاکستانی سفیر کو پیغام دیا گیا کہ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آنے والی ہے، اگر یہ تحریک ناکام ہوگئی تو پاکستان کے لیے بہت مشکلات ہوں گی۔ اس ملاقات کے ایک روز بعد پاکستان کی اپوزیشن نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کروائی۔ یاد رہے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کونسل میں امریکہ کے صدر، وزیر دفاع، وزیر خارجہ، وزیر خزانہ، امریکی افواج کے سربراہ اور امریکہ کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ شامل ہیں۔ پاکستان کے نام آنے والا پیغام اسی کونسل کی طرف سے آیا ہے، جسے امریکہ کے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو کے توسط سے پاکستان کے سفیر تک پہنچایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مراسلے کی زبان انتہائی سخت ہے، جسے عام نہیں کیا گیا۔
وزیراعظم کی طرف سے اس مراسلے کا ذکر کیے جانے کے بعد اس کے بارے میں طرح طرح کے سوالات کیے جانے لگے۔ تاہم وزیراعظم نے پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا اور یہ مراسلہ اس کے سامنے رکھا۔ قومی سلامتی کمیٹی کا یہ 37 واں اجلاس تھا، جو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں دفاع، توانائی، اطلاعات، داخلہ، خزانہ، انسانی حقوق، منصوبہ بندی و ترقی کے وفاقی وزراء نے شرکت کی۔ اعلامیے کے مطابق اجلاس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، سروسز چیفس اور معاون خصوصی قومی سلامتی سمیت سینیئر حکام شریک ہوئے۔ اجلاس کے بعد ایک باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی نے غیر ملکی سفارتکار کی استعمال کی گئی زبان پر تشویش کا اظہار کیا اور غیر ملکی مراسلہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف قرار دیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں کسی بھی طرح کی مداخلت ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے۔ اعلامیے کے مطابق غیر ملکی آفیشل کی استعمال کی گئی زبان غیر سفارتی ہے، سفارتی آداب مدنظر رکھتے ہوئے متعلقہ ملک سے سخت احتجاج کیا جائے گا۔ یہ اجلاس 31 مارچ 2022ء کو منعقد ہوا۔ اجلاس کے بعد دفتر خارجہ کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ایک غیر ملک کی جانب سے پاکستانی سفیر کو ملک کے اندرونی معاملات کے بارے میں تنبیہی پیغام کے سلسلے میں سفارتی اقدامات اٹھا لیے گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ کے ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے ان سے احتجاج کیا گیا۔
پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں امریکہ کی مداخلت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں امریکہ پاکستان پر اس سے بھی سنگین تر دبائو ڈالتا رہا ہے۔ سابق فوجی آمر پرویز مشرف پر ڈالا جانے والا دبائو خاص طور پر قابل ذکر ہے، جب ان سے کہا گیا کہ یا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر چڑھائی کے لیے امریکہ کو پاکستان سے جو مدد درکار تھی، یہ دھمکی رات کے وقت جنرل (ر) پرویز مشرف کو جگا کر، اسی ضمن میں دی گئی تھی۔ افسوس ایک کمانڈو فوجی صدر اس دھمکی کے سامنے لیٹ گیا۔ اس سے پہلے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کسنجر نے سخت الفاظ میں دھمکی دی تھی۔ بھٹو کا قصور یہ تھا کہ وہ پاکستان کو ایک جوہری طاقت بنانا چاہتا تھا۔ بھٹو نے یہ فیصلہ 1974ء میں بھارت کے نیوکلیر ٹیسٹ کے بعد کیا تھا۔ کسنجر نے بھٹو سے کہا تھا کہ ہم آپ کو عبرت کا نشان بنا دیں گے۔ پاکستان اور بیرون پاکستان کے بہت سے محققین اور تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ بھٹو کو جنرل ضیاء الحق نے امریکہ کے ایما پر ہی ایک مشکوک مقدمے میں پھانسی دلوائی تھی۔
اب جو تازہ دھمکی پاکستان کو دی گئی ہے اور امریکہ کی طرف سے جو نئی سازش بے نقاب ہوئی ہے، اسی کو بنیاد بنا کر پاکستان کی قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف پیش کی گئی عدم اعتماد کی قرارداد کو ڈپٹی سپیکر نے مسترد کر دیا ہے۔ بظاہر پاکستان ایک سیاسی بحران سے گزر رہا ہے، لیکن اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ کی تازہ سازش کے تمام تر حقائق پاکستان کے کوچہ و بازار میں جا پہنچے ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پاکستان کے عوام امریکی سازشوں سے اس قدر آگاہ نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں امریکہ سے جو نفرت پائی جاتی ہے، وہ بے مثال ہے۔ اس سازش کے سامنے آنے کے بعد جس انداز سے پاکستان کے وزیراعظم نے اپنا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کیا ہے، اس نے عوام کے اندر بیداری اور خود داری کا نیا جذبہ پیدا کر دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے باوجود اور حکومت کے بیشتر اتحادیوں کے ان کی صفوں میں شامل ہو جانے کے باوصف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد مسترد ہونے کے بعد اپوزیشن کی حمایت میں عوام باہر نہیں نکلے بلکہ الٹا وزیراعظم عمران خان کی حمایت میں لوگ باہر نکلے ہیں۔ اگرچہ قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کی طرف سے کیے جانے والے اقدام کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث ہے، تاہم عمران خان کی مقبولیت اور امریکہ سے پاکستانی عوام کی نفرت اپنے عروج پر ہے۔ خود داری کے جذبے کو اگر ایک تعمیری قوت میں ڈھال لیا جائے تو یقیناً پاکستان ایک عظیم مملکت میں تبدیل ہوسکتا ہے۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز