ایک عید ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے ساتھ

Published by fawad on

nisar ali tirmazi
تحریر: نثار علی ترمذی

یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب میری رہائش جعفریہ کالونی، لاہور میں تھی۔ سال تھا 1992ء۔ ماہ رمضان کا آخری دن تھا۔ سہ پہر کو میں اور ڈاکٹر محمد علی نقوی اکٹھے تھے۔ میں جب گھر جانے لگا تو شہید کو بتایا کہ اس مرتبہ ہم عید پر گاؤں نہیں جا رہا۔ کہنے لگے یہ تو بہت اچھا ہوا۔

رات کے نو بجے ہوں گے کہ اچانک بیل بجی ۔ میں نے اوپر سے دیکھا کہ ڈاکٹر شہید کی گاڑی کھڑی ہے اور باہر نکل کر مجھے آوازیں دے رہیں، آغا ترمذی، آغا ترمذی۔ میں جلدی سے نیچے اترا تو کہنے لگے، چلیں۔ میں نے کہا میں گھر بتا کر آتا ہوں۔ کہنے لگے ذرا جلدی۔

میں نے اہلیہ کو بتایا کہ میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ جا رہا ہوں، دیر ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر صاحب گاڑی چلا رہے تھے، میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا، کہنے لگے ڈاکٹر شیخ نور محمد صاحب کی طرف جانا ہے۔ ڈاکٹر شیخ نور محمد صاحب ان دنوں بی بی پاکدامن کے مزار کے قریب رہائش پزیر تھے، آپ انجینئرنگ یونیورسٹی، لاہور میں پروفیسر، آئی ایس او کی مجلس مشاورت کے رکن اور امامیہ آرگنائزیشن کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر شہید نے گھر کے باہر گاڑی روکی اور کہا کہ پچھلی سیٹ پر نقشے پڑے ہیں وہ نکال لیں۔ یہ بہت سے نقشے تھے جو علیحدہ علیحدہ فولڈ ہوے تھے۔ کچھ میں نے سنبھالے کچھ شہید نے، یوں ڈاکٹر شیخ نور محمد صاحب کے ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئے۔ شیخ صاحب نے فرض میزبانی ادا کرتے ہوئے پوچھا کیا چلے گا گرم یا ٹھنڈا؟ شہید نے ایک نظر مجھے دیکھا اور کہا چاے پینے میں کوئی حرج نہیں۔ شیخ صاحب چاے کا کہہ کر بیٹھ گئے۔ شہید نے بات شروع کی اور شیخ صاحب سے پہلے سے جاری مشاورت کے ضمن میں کہا کہ دیو سماج کی بلڈنگ کی ڈراینگز آ گئ ہیں وہ آپ سے ڈسکس کرنی ہیں۔ پہلے تو زبانی باتیں ہوتی رہیں، پھر ایک ایک ڈرائنگ کو پھیلا کر اس قدر تفصیل سے بات کر رہے تھے. لگتا تھا کہ کوئی فن تعمیر کے ماہرین ہیں جبکہ ان دونوں کے پیشے اس عمل سے کسی طرح مطابقت نہیں رکھتےتھے۔ عمارت کے نقشے پر جب تک بات ہوتی رہی میں بھی ہوں ہاں کرتا رہا مگر جب زیادہ ٹیکنیکل باتیں ہونے لگیں تو میں چاے اور لوازمات سے استفادہ کرنے لگا۔ بات اتنی باریکی تک کی گئی کہ اگر سریا اتنا موٹا رکھا جائے تو تخمینہ پر کیا فرق پڑے گا اور اگر ایک ستون کم ہو کتنی بچت ہو گی۔ پنسل سے نقشوں پر نشانات لگاتے رہے اور کلکولیٹر سے جمع تفریق کرتے رہے۔ کافی وقت گزر گیا تو شیخ صاحب نے کہا اس پر مزید بات کریں گے، میں فلاں فلاں سے مشاورت کر لوں۔ یہ سنتے ہی شہید اٹھ کھڑے ہوئے اور اشارہ سے کہا کہ یہ سب نقشے سمیٹ لو۔ یہ کوئی گیارہ ساڑھے گیارہ بجے شب کا وقت ہو گا جب وہاں سے نکلے۔ شہید نے گاڑی شادمان کی طرف گھوما دی۔ چلتے چلتے ایک کوٹھی کے باہر رکے، وہاں ایک شیخ صاحب سے ملے، ان سے ان کے خاندانی مسائل پر بات کی۔ گفتگو سے اندازہ ہوا کہ ان کا ایک اور شیخ فیملی سے کوئی خاندانی جھگڑا ہے اور شہید اسے حل کرانے کی مہم پر نکلے ہوئے ہیں۔ یہاں سے اٹھ کر دوسرے فریق کی طرف گئے۔ ان کی پوری رام کہانی سنی۔ ان دو فریق نے اپنے آپ کو درست ثابت کیا اور دوسرے کو غلط قرار دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے جاتے ڈاکٹر صاحب جو تسیں حکم دیو گے اوہ سانوں قبول ہوے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے راستے میں بتایا ان کے معاملات اگر حل نہ ہوے تو بہت نقصان کر بیٹھیں گے۔ ہم تحریک کے دفتر پہنچ گئے تھے، چوکیدار کو اٹھایا، اس نے دفتر کھول دیا۔ آپ نے اس کی خیریت پوچھی، عیدی دی اور تاکید کی کہ ہشیاری سے ڈیوٹی انجام دینی ہے۔ میرے طرف متوجہ ہو کے پوچھا کہ اب کیا کریں؟ میں نے کہا اب تو گھر جانا چاہئے۔ کہا بات آپ کی ٹھیک ہے چلو چلتے ہیں۔ وحدت روڈ، مون مارکیٹ، ملتان روڈ سے گزرتے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ پورا لاہور چاند رات کی خریداری کے لیے سڑکوں پر تھا۔ کہنے لگے کہ یہ خریداری پہلے بھی کر سکتے تھے مگر آج ان کا نکلنا بےھودگی میں بڑھاوا دینا ہے، اس سارے ماحول پر اظہار تاسف کرتے ہوئے گھر اتارا۔ اس وقت گھر پہنچ کر جو سنا، ان سنا کردیا۔

عید کی نماز پڑھ کر گھر آیا اور شیر خرما سے دو ہاتھ کرنے لگا۔ ابھی کھا ہی رہا تھا اپنے بیٹے ارتضیٰ، جس کی عمر دو سال تھی کی شرارتوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ مجھے ایسے لگا جیسے ڈاکٹر صاحب آواز دے رہے ہیں۔ میں فوراً باہر آیا تو دیکھا ڈاکٹر صاحب کھڑے ہیں اور ہاتھوں سے کیف بنا کر آواز دی جلدی آئیں۔ میں نے تیزی سے سیڑھیاں اتریں۔ اتنی دیر میں آپ گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔ مجھے اشارہ سے بیٹھنے کو کہا۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اہلیہ اور بیٹے کو بتایا۔ آپ نے تیزی سے گاڑی گھمائی اور بتانے لگے کہ بہاولپور میں عید کی نماز پر حملہ ہوا ہے۔ فائرنگ ہوئی ہے شاید گرنیڈ بھی پھینکے گئے۔ کچھ لوگ شہید ہوئے، کچھ زخمی۔ ہم نے ہر جگہ اطلاع کرنی ہے اور لوگوں سے کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ موقع پر پہنچیں یا اپنے اپنے مقامات پر احتجاج کریں۔

ہم فون کرنے کے لیے علی رضا نقوی (رضا بھائی) گھر جا رہے ہیں۔ میں نے کہا پہلے تحریک کے دفتر چلتے ہیں، وہاں سے ٹیلی فون کے نمبروں کی ڈائری لیتے ہیں پھر رضا بھائی کے گھر چلتے ہیں۔ دفتر سے ڈائری لی اور چل دیے۔ راستے میں اس سانحہ پر افسوس اور دکھ کا اظہار کرتے گئے کہ لوگ اپنے اللہ کی بارگاہ میں سر بسجدہ ہیں اور ظالم دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے۔ رضا بھائی حسب سابقہ دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے ملے۔ ڈرائنگ روم کھول دیا۔ شہید نے بیٹھتے ہی کہا رضا چاے تو ہم لازمی ہیں گے باقی جو آپ کھلانا چاہیں، آج عید ہے۔

یہ بھی پڑھیں: رفیق محبوب https://albasirah.com/urdu/product/rafeeq-e-mahbbob/

ایک فون تو مستقبل ڈرائنگ روم میں موجود رہتا تھا، رضا بھائی نے دوسرا فون بھی لا کر رکھ دیا۔ ہم دونوں فون پر تمام اضلاع و شخصیات کو سانحہ کی اطلاع دینے لگے۔ اخبارات عید کی وجہ سے تین دن کے بعد شائع ہونے تھے، ٹیلی ویژن صرف حکومت کے زیر اثر تھا۔ اب فقط ٹیلی فون کے ذریعے پیغام رسانی ہو سکتی تھی۔ تین گھنٹے میں پورے ملک میں اطلاعات پہنچ چکی تھیں۔ بقول خواجہ مرید حسین کہ ہم حیران رہ گئے کہ جب ظہر کے بعد قافلے بہاولپور پہنچنے شروع ہو گئے تھے۔

رضا بھائی نے پر تکلف لنچ کروایا۔ وہاں سے تحرک کے دفتر آ گئے۔ شہید کہنے لگے کہ ایک پریس ریلیز تیار کریں اور ایک ہینڈ بل جو جمعہ کے اجتماعات میں تقسیم کیا جاے۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب تین دن چھٹیاں ہیں تو کسے چھپیں گے۔ کہنے لگا بندہ خدا! یہ لکھنے کا کام تو ہو چکا ہوگا فقط چھپنا رہ جائے گا۔ اللہ اس کا سبب پیداء کر دے گا۔ جو کام ہو جائے وہ اچھا یے۔ شاباش لکھنا شروع کرو۔ یہ کہہ کر شہید قالین پر لیٹ کر سو گے۔ میں نے بھی جلدی جلدی جو سمجھ میں آیا لکھ کر سو گیا۔ کوئی چار بجے آنکھ کھلی تو کہنے لگے کجھ لکھا؟ میں نے دونوں مسودے پیش کر دئے۔ پڑھنے کے بعد جہاں کمی بیشی تجویز کی تعمیل کردی۔ کہنے لگے یہ کام مکمل ہوا چلو چلتے ہیں۔

گاڑی گھر کی طرف موڑنے کے بجاے ماڈل ٹاؤن کی طرف گھوما دی اور وضاحت دینے لگے کہ چھوٹی سسٹر کو لے کر گھر چلتے ہیں۔ جب وآپس گھر پہنچے تو کہنے لگے کل راوالپنڈی جانا ہے پانچ بجے صبح گھر آ جانا۔

اگلی صبح نماز کے بعد اہلیہ سے کہا کہ ناشتہ بنا دیں، ڈاکٹر صاحب نے تو کرانا نہیں۔ جب میں پہنچا تو ڈاکٹر شہید نہاے دھوے ہوے اپنے گھر کا دروازہ کھول کر کھڑے ہیں اور چاے کا مگ ہاتھ ہے۔ مجھے دیکھتے ہی اندر گے ایک کپ چائے کا میرے لیے لے اے۔ وہیں گلی میں کھڑے کھڑے چاے پی اور تیزی سے سڑک پر آ گئے۔ پہلی ویگن میں بیٹھ کر اسٹیشن پہنچے۔ ویگن سٹاپ اور اسٹیشن کے درمیان فاصلے ہے۔ ویگن رکتے ہی ڈاکٹر شہید نے اسٹیشن کی طرف دوڑ لگا دی۔ میں نے بھی ان کی پیروی میں دوڑ لگا دی۔ شہید نے کھڑکی سے دو ٹکٹ لیے۔ پہلے پلیٹ فارم پر کھڑی ٹرین کے اکانومی کلاس میں جا کر بیٹھ گئے۔ ہم دونوں کھڑکی کی طرف بیٹھے تھے۔ بیٹھتے ہی شہید نے ملکی سیاست میں تحریک کے کردار پر گفتگو شروع کردی۔ جب مختلف جماعتوں کے نام آے تو ساتھ کے مسافروں نے بھی اپنی رائے دینی شروع کر دی۔ کافی دیر تبصرے چلتے رہے۔ راستے جب مسافر کم ہوے تو کہنے لگے کہ یہ سیاست عام انسان کا موضوع ہے اسی لیے سب لوگ اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ ابھی اس بحث میں پڑے ہوئے ہیں کہ سیاست میں حصّہ لیں یا نہ لیں۔ یہ بڑا میڈیم ہے اس سے بھرپور فایدہ اٹھانا چاہیے۔ جہلم اسٹیشن پر ٹرین کافی دیر رکتی ہے۔ پلیٹ فارم پر چہل قدمی شروع کر دی۔ آئس کریم کے دو کپ خریدے۔ ایک کپ مجھے پکڑا کر کہنے لگے، اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ سفر میں کچھ نہیں کھلایا۔

ٹرین راوالپنڈی میں داخل ہو کر سگنل نہ ہونے کی وجہ سے مریڈ حسن پل پر رک گئی۔ کہنے لگے یہیں اترتے ہیں۔ فوراً اترے اور غیر ہموار اترائی سے سڑک پر آ گئے۔ وہاں سے سٹلائٹ ٹاؤن تحریک کے دفتر پہنچ گئے۔ کہنے لگے پہلے نماز پڑھ لی جائے یا کھانا کھایا جائے۔ میں نے کہا تاخیر تو پہلے ہی ہو چکی ہے۔ پہلے کھانا کھاتے ہیں پھر اطمینان سے نماز پڑھ لیں گے۔ اکثر ہوٹل بند تھے۔ کافی تلاش کے بعد ایک عام سے ہوٹل سے کھانا کھایا اور دفتر آ کر نماز پڑھ کر سو گئے۔ مغرب سے ذرا پہلے آنکھ کھلی۔ نماز مغربین پڑھ کر انتظار میں بیٹھ گئے۔ اتنے میں احسان جعفری صاحب آ گئے۔ برادر ثاقب نقوی صاحب اور پھر برادر امتیاز رضوی صاحب تشریف لے آئے۔ یہ دونوں برادران ایران سے اے ہوے تھے۔ انہوں نے قم میں زیر تعلیم طلبہ خصوصاً آئی ایس او کے سابقین طلباء کے مسائل بتاے۔ ان کے حل کےلئے متعدد تجاویز زیر بحث آئیں۔ پھر ان برادران نے تحریک کے معاملات پر بات کی۔ ان کے کچھ مالی مسائل بھی تھے۔ ڈاکٹر شہید نے احسان جعفری صاحب کو ہدایت دی۔ کھانا سب نے مل کر کھایا۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ واپسی کے سفر کا نقارہ بجا دیا گیا۔ ساری رات سفر میں سوتے جاگتے کٹی۔

یہ ایک عید جو شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے ساتھ گزاری۔ یہ لمحات کے اتنی جلدی گزر گئے۔ کاش وقت تھم جاتا یا ہم تیز قدم ہوتے۔