اربعین حسینی اور پاکستانی زائرین

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس
اربعین حسینی کا وقت قریب ہے، صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد اربعین عراق کا ایک اہم ایونٹ بن چکا ہے۔ عراق کے علاوہ دنیا بھر سے لاکھوں زائرین نجف سے کربلائے معلیٰ تک پیدل سفر کی سعادت حاصل کرنے کے لیے عراق تشریف لاتے ہیں۔ ویسے تو زائرین کی آمد کا سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے، تاہم اربعین حسینی کے موقع پر اس میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ عراق حکومت بھی اس موقع پر خصوصی سہولیات مہیا کرتی ہے۔ نجف سے کربلا کا پیدل سفر عراق ثقافت میں مشی کہلاتا ہے، جو تقریباً تین دن اور رات کا سفر ہے۔ زائرین ٹھنڈے موسم میں دن کو سفر کرتے ہیں اور رات کو آرام کرتے ہیں جبکہ گرم موسم میں یہ سفر ٹھنڈے پہروں میں کیا جاتا ہے اور حدت کے اوقات میں آرام کیا جاتا ہے۔ عراقی تو بصرہ، موصل اور دیگر دور دراز شہروں سے کربلا کی جانب پیدل سفر کرتے ہیں۔ لاکھوں انسانوں کے اس کاروان کی ضروریات زندگی کا اہتمام کرنا عراقی اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں۔ وہ ان زائرین کو امام حسین علیہ السلام کے مہمان کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہر شخص اپنی بساط کے مطابق ان مہمانوں کی مہمان نوازی کرتا دکھائی دیتا ہے۔

یہ کہنا بہت آسان ہے، لاکھوں انسانوں کی ضروریات زندگی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان کی مہمان نوازی کا اہتمام کرنا شاید کسی بھی حکومت کے بس میں بھی نہ ہو۔ یہ ایک خود جوش اور عوامی تحریک ہے۔ پاؤں دھلوانے، کپڑے دھونے، جوتے پالش کرنے، قدموں کو چومنے، خوراک اور آرام کا خیال رکھنے سے لے کر علاج معالجہ، طہارت تک آپ کو اسی کلومیٹر طویل شاہراہ پر جا بجا دکھائی دے گا۔ عراقیوں کو اس مسئلہ کے لیے اپنے مہمان کی زبان کو سمجھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، بعض میزبانوں نے تو مہمانوں کو سہولت دینے کے لیے ان کی زبان کے چند جملے بھی یاد کر رکھے ہوتے ہیں، تاکہ امام حسین کا مہمان اپنے آپ کو پردیسی نہ محسوس کرے، اسے کوئی تکلیف نہ ہو، اس کو جتنا آرام اور سکون پہنچایا جاسکتا ہے پہنچایا جائے۔ کوئی تھکا ہوا ہے تو اس کے پاؤں کی مالش کر دی جائے۔ اس کے جسم کو دبایا جائے، تاکہ کل وہ اگلے سفر کے لیے تیار ہو۔ یہ سلسلہ صبح سے شام تک جاری رہتا ہے اور عراقی اسے انتہائی تندہی اور خلوص سے انجام دیتے ہیں۔ ان کی اس خدمت کا اجر یقیناً خداوند کریم ہی عطا کرسکتا ہے۔

اب تو مہمان نوازی کے سلسلوں میں جدت بھی آرہی ہے، زائرین کو دینی تعلیمات، واقعہ کربلا، تاریخ، دینی مسائل سے آگاہ کرنے کے لیے ملٹی میڈیا موکب قائم ہیں۔ دنیا بھر سے مختلف نشریاتی ادارے اربعین کے موقع پر اپنے تبلیغاتی موکب لگاتے ہیں، جہاں زائرین کی پذیرائی کے ساتھ ساتھ اپنے تخصصی شعبے میں ان کو راہنمائی مہیا کی جاتی ہے۔ ایک دلچسپ بات جو سفر عراق کے دوران میں نے محسوس کی، یہ تھی کہ اربعین کے موقع پر کسی بھی شخص کی قومیت کو شناخت کرنا نہایت مشکل کام ہوتا ہے، بالخصوص اگر لباس سے کوئی شخص شناخت نہ ہو پائے تو چہرے سے دیکھ کر نہیں پہچانا جا سکتا کہ یہ زائر کس ملک سے ہے، تاہم ایک شناخت عیاں ہوتی ہے اور وہ ہے عشق حسین ابن علی علیہ السلام۔ ہر جانب عاشق ہی عاشق۔ سب کا انداز عشق بھی سانجھا اور منزل عشق بھی ایک۔

ایک اور ظریف نکتہ یا موازنہ جس کی جانب انسان اس جم غفیر کو دیکھ کر متوجہ ہوتا ہے، یہ ہے کہ کون سچا عاشق ہے۔ اگر ہم اس امر کی نشاندہی کرنا چاہیں کہ کونسی قوم امام حسین علیہ السلام سے بحیثیت قوم زیادہ عشق رکھتی ہے تو نہایت مشکل ہوگا۔ اگر وسائل کی کمی اور سفری مشکلات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستانی زائرین سب سے آگے دکھائی دیں گے۔ انتہائی مفلوک الحال دکھائی دینے والے اکثر زائرین پاکستانی اور افغانی ہوتے ہیں۔ پھر ان کو ہر قسم کی سفری مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہے، کہیں دہشت گردی ہے تو کہیں سنگلاخ اور بے آب و گیاہ پہاڑوں کا سفر۔ سفری ذرائع خواہ کتنے ہی آرام دہ کیوں نہ ہوں، ہزاروں کلومیٹر ایک ہی حالت میں بیٹھ کر سفر کرنا بہرحال مشکل اور تکلیف دہ ہے۔ بزرگی، بیماری کے باوجود خالی جیب پاکستانی یہ سفر کرتے ہیں اور نجف و کربلا کی سرزمین پر پہنچنے کے بعد یوں ہشاش بشاش ہو جاتے ہیں، جیسے ابھی گھر سے نکل کر آرہے ہوں۔
 
ہم جانتے ہیں کہ زائرین کا یہ سفر فقط امن کے دور سے متعلق نہیں ہے، بلکہ صدام حکومت کے مظالم کے دوران بھی پاکستانی زائرین عراق جاتے رہے، اگرچہ ان کی تعداد اب کی نسبت کم تھی۔ جب سے صدام حکومت کا خاتمہ ہوا اور عراق کے راستے دنیا بھر کے عشاق اہل بیت علیہ السلام کے لیے کھل گئے تو پاکستانی زائرین کی تعداد بھی ہزاروں میں ہوگئی۔ 2016ء میں جب مجھے اربعین کے موقع پر عراق جانے کا موقع ملا تو ہر دس زائرین میں سے ایک پاکستانی دکھائی دیتا تھا۔ عراق اور ایران حکومتوں نے پاکستان زائرین کو نہایت خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ عراق میں پاکستانیوں کو خصوصی عزت اور مقام حاصل تھا۔ حتی کہ عراقی سکیورٹی اداروں کے اہلکار ایرانی زائرین کی گاڑیوں کو روک کر ان کی تلاشی لیتے تھے، تاہم پاکستانی زائرین کی گاڑی میں اہلکار جھانک کر فقط نعرہ حیدری بلند کرتے اور انھیں جانے کی اجازت دے دی جاتی تھی۔

عراقی حکومت نے ایسا بھی کیا کہ اربعین حسینی کے موقع پر ویزا فری انٹری دی، تاکہ وہ زائرین جو ایران تک پہنچ گئے ہیں، بغیر ویزا عراق میں داخل ہوکر زیارت امام حسین علیہ السلام سے شرفیاب ہوسکیں۔ عراق میں اربعین کے موقع پر سفر، کھانا اور رہائش کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ بارڈر سے صلواتی ٹرک زائرین کو بھر بھر کر نجف اور کربلا پہنچاتے ہیں، جس کا کرایہ فقط ایک صلواۃ ہے، تاہم اس وقت پاکستانی زائرین کے حوالے سے جو اطلاعات سامنے آرہی ہیں، نہایت افسوسناک ہیں۔ سننے میں آرہا ہے کہ پاکستانی زائرین کے لیے زمینی سرحدوں سے انٹری کو بند کر دیا گیا ہے اور اب پاکستانی زائرین فقط فضائی راستے سے عراق جاسکیں گے۔ پاکستان میں زائرین گو مگو کی کیفیت میں ہیں، کبھی اطلاع آتی ہے کہ شلمچہ کی سرحد سے پاکستانی زائرین داخل ہوسکتے ہیں اور کبھی خبر آتی ہے کہ زائرین فقط فضائی راستے سے عراق آئیں۔

آج 7 ستمبر2022ء کی تازہ اطلاع کے مطابق پاکستان میں قائم سفارت ایران نے ایک مراسلہ جاری کیا ہے، جس میں عراقی حکومت کی جانب سے پاکستانی زائرین پر پابندی کے سبب کسی بھی زائر کو ڈبل انٹری ویزا لگا کر نہیں دیا جا رہا۔ یہ امر سوال انگیز ہے کہ اچانک عراق حکومت کی فیاضانہ پالیسی میں تبدیلی کیسے آئی۔ شنیدہ معلومات کے مطابق بہت سے پاکستانی چونکہ عراق جا کر ملازمت اختیار کر لیتے ہیں اور واپس نہیں جاتے، اس لیے عراقی حکومت نے تمام پاکستانی زائرین کے زمینی راستے سے داخلے پر پابندی لگائی ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ عرصے میں زیادہ بہتر پالیسی اختیار کر لی جائے، لیکن ایک چھوٹے سے گروہ کی نادانی نے پاکستانی عشاق حسین علیہ السلام کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ یہ نہایت تکلیف دہ بات ہے۔ یہ ایک قوم کے تاثر کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ ہمارے اکثر زیارتی ایجنٹس کی حرکات بھی اس پر مستزاد ہیں۔ جعلی لسٹیں، جعلی ویزے کونسا ایسا دھندہ ہے، جو امام حسین علیہ السلام کے نام پر نہیں کیا جاتا۔

بہرحال حکومت پاکستان کو اس سلسلے میں سفارتی چینل کو استعمال کرتے ہوئے عراقی حکام سے بات کرنی چاہیئے کہ چند ناہنجاروں کی نادانیوں کی سزا ایک پوری قوم کو نہیں دینی چاہیئے، ایران کی مانند ایسا نظام وضع کیا جاسکتا ہے، جس سے اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی شخص غیر قانونی طور پر عراق میں قیام نہ کرسکے۔ طریقے تو بہت سے ہیں اور ان کا توڑ کرنے والے توڑ بھی نکال لیتے ہیں،  ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے رویوں پر غور کریں اور ملک و قوم کی نیک نامی کو ملحوظ رکھیں۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز