عالمی اربعین واک، یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر
امام حسین علیہ السلام کے روز شہادت کے چالیس دن بعد یعنی 20 صفر المظفر کو ہر سال صدیوں سے اربعین حسینی یا چہلم امام حسینؑ منایا جارہا ہے۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اس سلسلے میں جلوس ہائے عزا اور مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کربلا (عراق) میں بھی یہ دن ہمیشہ سے منایا جارہا ہے۔ عراق میں ایک عمومی روایت رہی ہے کہ بہت سے افراد نجف اشرف سے کربلا زیارت کے لئے پیدل جاتے ہیں۔ عربی میں اس پیدل سفر کو ’’مشی‘‘ کہتے ہیں۔ کسی مقدس سفر کے لئے دور دراز کے علاقوں سے پیدل چلنا کوئی نئی روایت نہیں ہے۔ ایسا مختلف ادیان کے ماننے والے کرتے چلے آرہے ہیں۔ حج کے لئے حرم الٰہی کی طرف پیدل چلنا بھی صدیوں پرانی روایت ہے۔ اہل بیتؑ اور صحابہ کرامؓ کے لئے یہ مشی بہت محبوب رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امام حسینؑ نے مدینہ منورہ سے 25 حج پا پیادہ کئے ہیں۔

اسی طرح تاریخ میں بہت سی بلند مرتبہ شخصیات کے بارے میں یہ بات ملتی ہے کہ وہ مکہ مکرمہ کی طرف حج کے لئے پیدل چل کر جایا کرتے تھے۔ نجف اشرف سے 80 کلومیٹر کا پیدل سفر کرکے جانے کی روایت ہمارے علماء اور فقہاء میں بھی پرانی ہے۔ عام عرب بھی صدیوں سے ایسا کررہے ہیں۔ البتہ اربعین کے لئے نجف اشرف سے یا عراق کے دیگر شہروں سے کربلا کی طرف پیدل جانا عراقی عوام میں خاصا مقبول رہا ہے۔ عراق میں بعث پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد عزاداری اور مشی کے مذکورہ سلسلوں میں رکاوٹیں پیدا کی جانے لگیں۔ یہ بندشیں صدام حسین کے دور میں زیادہ ہوگئیں۔ امام حسینؑ کے عاشق عام طور پر اربعین کے ایام میں ان بندشوں کی وجہ سے بہت دل آزردہ رہتے تھے۔

وہ پابندیوں کو نظر انداز کرکے اپنے آپ کو مشکلات میں ڈال کر بھی اربعین کے لئے کربلا کی طرف جایا کرتے تھے۔ البتہ شدید پابندیوں کی وجہ سے کم لوگ ہی ایسا کر پاتے تھے۔ جب صدام کی حکومت ختم ہوئی اور نئی حکومت معرض وجود میں آئی تو عراقی عوام کے اندر اربعین کے موقع پر مشی کرنے کا ایک نیا جذبہ پورے وفور کے ساتھ سامنے آیا۔ عراق کے سفر پر عالمی سطح پر جو پابندیاں تھی اور جو خطرات تھے وہ بھی کم ہونا شروع ہوئے تو محرم الحرام اور صفر المظفر میں دنیا بھر سے زائرین عراق کی طرف روانہ ہونے لگے، ایران کے عوام میں بھی اس حوالے سے ایک نیا جذبہ پیدا ہوا۔ ادھر عراقی عوام ہمیشہ سے کربلا کے زائرین کے لئے فرش راہ رہتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں۔

عراقی عوام کے اندر ایک پرسوز احساس موجود ہے کہ امام حسین علیہ السلام اپنے قافلے کے ساتھ کوفہ کی طرف آئے تو عراقی عوام ان کا ساتھ نہ دے سکے۔ اب اگر امام حسینؑ کے چاہنے والے کربلا کی طرف آتے ہیں تو وہ انہیں امام حسینؑ کا مہمان جانتے ہیں۔ زائرین کے لئے عراقیوں کی خدمت کے واقعات اور مناظر پوری دنیا میں عام ہونے لگے۔ امام حسینؑ کے لئے ان کی محبت اور زائرین کے لئے ان کی خدمت کی باتیں پوری دنیا میں نشر ہونے لگیں۔ زائرین کی آمد کا سلسلہ بڑھنے لگا اور عراقیوں کی طرف سے خدمت کے مظاہرے بھی زیادہ سامنے آنے لگے۔ اس طرح نجف اشرف سے کربلائے معلیٰ کی طرف مشی میں عوام کی عاشقانہ شرکت میں روز بروز اضافہ ہونے لگا۔ عراق کے دیگر شہروں کی طرف سے بھی عوام پیدل چلتے ہوئے کربلا بڑی تعداد میں پہنچنا شروع ہوئے۔

پوری دنیا میں جب زائرین کے ذریعے یہ خبریں عام ہوئیں تو لوگوں میں اس مشی میں شرکت کا اشتیاق بہت بڑھ گیا۔ یہاں تک کہ اربعین کے موقع پر کربلا میں دنیا کا سب سے بڑا سالانہ اجتماع منعقد ہونے لگا۔ مختلف دعوؤں کے مطابق اربعین کے روز اڑھائی کروڑ سے زیادہ افراد کربلا میں جمع ہونے لگے۔ پوری دنیا اس اجتماع پر انگشت بدنداں تھی، پہلے تو عالمی میڈیا نے اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی لیکن لوگوں کے وفور عشق نے آخر کار بہت سے چینلز کو اپنی طرف متوجہ کیا، اخبارات نے اس کی خبریں شائع کیں اور جو میڈیا ہاؤسز ان خبروں کو زیادہ اہمیت نہیں دینا چاہتے تھے انہیں سوشل میڈیا پر آنے والی بے تحاشا خبروں، فلموں اور تصویروں نے بے نقاب کردیا۔ 2019ء میں پوری دنیا میں کووڈ19 نے حالات تبدیل کردیئے۔ ایک ملک سے دوسرے ملک بلکہ ایک شہر سے دوسرے شہر سفر میں مشکلات پیدا ہوگئیں۔ تقریباً تمام ملکوں نے بیرون ملک سے آنے والوں پر پابندیاں عائد کردیں۔ ان پابندیوں سے اربعین حسینی کے پروگرام بھی متاثر ہوئے۔

مشی میں شرکت جو ایک عالمی سطح کی خواہش کی صورت اختیار کر چکی تھی پابندیوں کی وجہ سے اس نے نئے راستے دریافت کئے۔ مختلف ممالک میں عوام نے اربعین واک کے عنوان سے ایک مقام سے دوسرے مقام تک پیدل چلنے کے پروگرام بنا لئے اور اسے نجف اشرف سے کربلائے معلیٰ تک مشی کی یاد میں منعقد ہونے والی واک یا مشی قرار دیا۔ عجیب بات ہے کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں 2019ء میں عوام اربعین حسینی کے روز پیدل نکل کھڑے ہوئے، جیسے عراق کی مشی میں عورتیں، مرد، بوڑھے، بچے، بیمار، معذور اور جوان شریک ہوتے ہیں اسی طرح مشی کا یہ پروگرام بھی عام فطری انداز سے منعقد ہوا۔ لوگ سڑکوں، فٹ پاتھوں، کچے پکے راستوں پرپیدل چلتے ہوئے امام حسینؑ کو یاد کرتے ہوئے ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہ کوئی عالمی سطح پر منظم سلسلہ نہ تھا۔ اس کے پیچھے کوئی حکومت، ادارہ یا تنظیم نہ تھی، بلکہ یہ ایک خود جوش سلسلہ تھا۔ اس کے پیچھے ہمیں منشائے الٰہی کے سوا کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اربعین پر کروڑوں انسانوں کی پرجوش اور ولولہ انگیز شرکت کے پیچھے کوئی الٰہی راز اور پروردگار کا منصوبہ کار فرما ہے، ورنہ یہ کام حکومتوں، تنظیموں اور اداروں کا نہیں ہو سکتا اور نہ عالمی سطح پر ایسا کرنا ان کے بس میں ہے۔ ہمارے ہاں انتظامیہ اور حکومتیں ہمیشہ سے امام حسین علیہ السلام کے نام پر منعقد ہونے والے پروگراموں کے بارے میں حساس رہتی ہیں۔ خاص طور پر سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں کو اس پر بہت حیرت اور تشویش ہوئی کہ یہ لاکھوں لوگ اچانک پیدل چلتے ہوئے کسی بڑے جلوس میں ملنے کے لئے کیسے روانہ ہوگئے ہیں۔ کئی مقامات پر پولیس اور انتظامیہ نے اس واک کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں، بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا، مقدمات قائم کئے، یہاں تک کہ تشدد کی خبریں آئیں۔ یہ امر باعث حیرت ہے کہ دو سال کووڈ 19 کی وجہ سے عوامی سطح پر برپا ہونے والا یہ سلسلہ ایک مستقل عالمی اربعین واک کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اب یہ روکنے سے رکنے والا نہیں۔

عوام بلاتفریق مسلک و مذہب اس میں لاٹھی لے کر نکلتے ہیں اور نہ کوئی اور ضرر رساں چیز۔ عورتیں، مرد، بچے درود شریف پڑھتے ہوئے یا امام حسینؑ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے چلے جارہے ہوتے ہیں۔ یہ قافلے عام طور پر ٹریفک میں بھی رکاوٹ نہیں بنتے کیونکہ سڑکوں اور راستوں کے ایک طرف منظم انداز سے چلتے رہتے ہیں۔ لوگ خود سے رضاکارانہ طور پر ایسا کرتے ہیں اور ان میں موجود نوجوان خود ہی رضاکار بن جاتے ہیں اور جلوسوں کو منظم رکھتے ہیں۔ دکانیں کھلی رہتی ہیں، کاروبار چلتے رہتے ہیں، ٹریفک رواں دواں رہتی ہے، شہر یا قصبے میں کوئی بدنظمی پیدا نہیں ہوتی، البتہ حیرت اس بات کی ہے کہ ہمارے ہاں ابھی بعض حکومتیں اور انتظامیہ اس عوامی سلسلے کو نہیں سمجھ سکیں۔ حکومتوں کا کام عوام کو روکنا نہیں بلکہ عوامی فعالیت کو منظم کرنا ہوتا ہے۔ یہ فعالیت تو پہلے ہی منظم ہے۔ پھر بھی انتظامیہ کو ایک نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لئے زیادہ فورس درکار نہیں ہے۔

یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ اس وقت اربعین واک کا یہ سلسلہ دنیا کے مختلف ملکوں میں شروع ہو چکا ہے۔ برطانیہ کے مختلف شہروں میں گذشتہ چند برسوں سے اربعین کے روایتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ اربعین واک کا سلسلہ جاری ہے۔ نائیجیریا میں لاکھوں لوگ اربعین واک کا اہتمام کرتے ہیں۔ شاید عراق سے باہر نائیجیریا وہ ملک ہے جہاں مشی کی روایت نے سب سے پہلے جنم لیا۔ نائیجیریا کی فوج اپنے عوام پر جو ظلم ڈھاتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ وہ مشی میں شریک بہت سے عام افراد اور علماء کو قتل کرچکی ہے لیکن لوگ اسے ترک کرنے کے لئے آمادہ نہیں۔ نائیجیریا کے علاوہ گھانا، چاڈ، کیمرون، بینن اور ٹوگو میں بھی مشی کا سلسلہ قائم ہوچکا ہے۔

ایران کے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر مشی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جن میں عوام لاکھوں کی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ قم اور مشہد میں اس کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے، البتہ دیگر شہروں میں بھی اربعین واک کا سلسلہ قائم ہوچکا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں بھی اربعین واک کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اب کے برس اس کے لئے 25 ستمبر کا انتخاب کیا گیا ہے۔ منتظمین کے مطابق یہ واک ڈی پونٹ سرکل سے لیفٹ پارک تک منعقد کی جائے گی۔ کینیڈا کے مختلف شہروں میں بھی اربعین واک کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس سال 17 ستمبر کو ٹورانٹو میں یہ واک کوئن پارک سے شروع ہوکر یونیورسٹی ایونیو تک کی جائے گی۔ کینیڈا کے شہر اوہائیو میں بھی اربعین واک کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یورپ کے مختلف ممالک جن میں اٹلی اور جرمنی بھی شامل ہیں، میں اربعین واک کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

ان خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اربعین واک اب ایک عالمی مظہر (Phenomenon) کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ چونکہ عوام کی طرف سے خود سے ظاہر ہونے والا ایک سلسلہ ہے اس لئے اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالنا، اس کے لئے عوام کو خوفزدہ کرنا اور ان کے خلاف مقدمات قائم کرنا ہرگز دانشمندی نہیں ہے۔ یہ عوام کسی کے خلاف نہیں نکلتے بلکہ امام حسینؑ سے اپنی محبت کے اظہار کے لئے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے۔ یہ لوگ کسی شدت پسندی کو فروغ نہیں دے رہے بلکہ محبت کو فروغ دے رہے ہیں، محبت بھی ایسی جو انہیں سید المرسلین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ورثے میں ملی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری انتظامیہ اور حکومتیں اگر اس سے طاقت سے مقابلہ کریں گی تو منہ زور عوامی ردعمل کے سامنے آخر کار شکست سے دو چار ہوں گی۔

بعث پارٹی اور صدام نے جس مشی کو روکنے کی کوشش کی وہ آج عالمی سطح پر پھیل چکی ہے اور ایک عالمی رنگ اختیار کر چکی ہے۔ صدام اور بعث پارٹی نیست و نابود ہوچکے ہیں۔ امام حسینؑ کے نام کو عام کرنا، یہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا فیصلہ ہے۔ اس کے لئے پروردگار اپنی حکمت سے مختلف راستے اختیار کرتا رہتا ہے تاکہ ظلم و استبداد کے خلاف امام حسینؑ کے قیام کی یاد کو زندہ رکھا جائے اور عوام کو دنیا میں ہر کہیں ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لئے ایک واضح اور عظیم الشان نمونہ پیش کیا جاتا رہے۔ یہ نمونہ امام حسینؑ اور ان کے انصار کا ہے۔ دنیا میں آخرکار ایک روز ظلم کا خاتمہ ہونا ہے اور عدل کی عالمی حکومت کو قائم ہونا ہے۔ یہ پروردگار کا وعدہ ہے اور اس کے لئے امام حسینؑ کا خون اپنا اثر دکھاتا رہے گا۔ بہتر یہ ہے کہ حکومتیں شعوری طور پر اس بات کو سمجھ لیں اور خواہ مخواہ دیواروں سے اپنا سر نہ ٹکرائیں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:

زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد
بہرحق در خاک و خون غلتیدہ است
پس بنای لا الہ گردیدہ است
نقش الا اللہ بر صحرا نوشت
سطر عنوان نجات ما نوشت

بشکریہ : اسلام ٹائمز