مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک خصوصی نشست(2)

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس

گذشتہ قسط میں ہم نے جانا کہ یوم یکجہتی کشمیر کا آغاز کیسے ہوا، تحریک آزادی کشمیر کا کچھ حوالہ بھی دیا گیا۔ آزادی کشمیر کی راہ میں حائل حقیقی رکاوٹوں کے حوالے سے کشمیری راہنماء شیخ تجمل الاسلام کا موقف بھی آپ کے سامنے پیش کیا۔ آج ہم اسی نشست کی چند مزید اہم باتوں کو اور اس سے متعلق تفصیلات کو قارئین کی خدمت پیش کریں گے۔ میری اس نشست میں کوشش رہی کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہر موضوع پر بات کی جائے، تاکہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے۔ اسی وجہ سے شیخ تجمل الاسلام کے ساتھ ہماری یہ نشست تفصیلی تھی۔ شیخ تجمل الاسلام جموں و کشمیر میں جمعیت کے ناظم اعلیٰ رہے، وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد سری نگر کی عدالت سے پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا اور پھر کئی ایک رسالوں کے مدیر کے طور پر کام کرتے رہے۔ شیخ صاحب انقلاب اسلامی ایران کے حامیوں میں ایک موثر اور مضبوط آواز تھے۔

تحریک آزادی کے ہراول دستہ میں رہنے کی وجہ سے شیخ صاحب متعدد بار قید و بند کے صعوبتوں سے گزرے اور آخر کار مقبوضہ وادی سے ہجرت کرکے پاکستان تشریف لے آئے۔ اس وقت شیخ صاحب کو مقبوضہ وادی اور پاکستانی عوام کے مابین رابطے کا پل قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ایک عرصے سے کشمیر میڈیا سروس کے سربراہ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ مقبوضہ وادی کی تاریخ، تحریک آزادی کے نشیب و فراز اور وادی میں ہونے والی سازشوں سے آگاہ ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے لے کر علاقائی سیاست تک شیخ صاحب ہر چیز کا علم رکھتے ہیں۔ میری نظر میں مسئلہ کشمیر کو سمجھنے والے افراد جو پاکستان میں دستیاب ہیں، ان میں شیخ صاحب کا نام سرفہرست ہے۔ کشمیر کے حوالے سے اپنے مطالعات کے دوران میں مجھے علم ہوا کہ قیام پاکستان سے قبل قادیانی تحریک کا رجحان کشمیر کی جانب تھا اور وہ چاہتے تھے کہ وادی کشمیر کو اپنے مرکز کے طور پر اختیار کریں۔

اس حوالے سے جب شیخ صاحب سے سوال کیا تو انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ کشمیریوں کی پہلی تنظیم مسلم کانفرنس میں قادیانیوں کا کافی اثر و رسوخ تھا۔ کشمیر کے حوالے سے بننے والی پہلی کشمیر کمیٹی کے سربراہ قادیانیوں کے خلیفہ تھے۔ شیخ صاحب کے مطابق کشمیر میں ہونے والے سانحے جس میں 22 مسلمان شہید ہوئے تھے، میں کشمیر کمیٹی کے سربراہ نے پورے ہندوستان میں احتجاج کی کال دی۔ تاہم بعد میں لوگ اس نفوذ کو بھانپ گئے، جن میں اہم ترین شخصیت میر واعظ مولانا یوسف شاہ صاحب تھے۔ شیخ صاحب کے مطابق مولانا نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ تحریک میں قادیانیوں کا نفوذ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد مسلم کانفرنس کی صفائی کی گئی اور ان کے اثرات زائل ہوگئے۔ 1947ء کے بعد کی تحریک میں قادیانیوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔

مقبوضہ وادی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادیں متعدد ہیں، جو قرارداد نمبر 38، 39، 47، 51، 80، 91، 96، 122، 123، 126 شامل ہیں، یہ قراردادیں 1948ء تا 1957ء مختلف عرصوں میں منظور ہوئیں۔ ان قراردادوں کے بارے میں ہمارے معاشرے میں ایک بحث ہے، جس کے مطابق اگر یہ قراردادیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب 7 کے تحت منظور ہوتیں تو ان پر عمل درآمد اقوام متحدہ یا سکیورٹی کونسل پر لازم ہوتا جبکہ اس وقت یہ قراردادیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب 6 کے تحت آتی ہے، جس پر عمل درآمد اقوام متحدہ پر لازم نہیں۔ اس بحث سے ایک تاثر یہ ابھرتا ہے کہ پاکستان سفارتکاری کے میدان میں بھارت کے سامنے ناکام ہوا اور کشمیر کے مسئلہ پر قراردادیں منظور کرنے کے باوجود اسے درست باب میں نہ رکھوا سکا۔

اس بحث اور تاثر کے بارے میں شیخ تجمل الاسلام کا کہنا تھا کہ:یہ ایک بحث موجود ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کیا حیثیت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ اقوام متحدہ کی قراردادیں باب 6 کے تحت ہیں، لہذا ان پر عمل درآمد لازمی نہیں ہے، اگر یہ قراردادیں باب 7 کے تحت ہوتیں تو ان پر عمل درآمد لازمی ہوتا۔ میری نظر میں باب 6 اور باب 7 کی بحث لایعنی ہے۔ ان قراردادوں کی حیثیت بین الاقوامی معاہدے کی ہے۔ قانونی اعتبار سے اگر دو افراد بھی کوئی قانونی معاہدے کرتے ہیں تو ان دونوں کو پابندی کرنی ہے۔ اسی طرح اگر دو ممالک آپس میں معاہدہ کرتے ہیں، بھارت اور پاکستان اس پر دستخط کرتے ہیں، بڑی طاقتوں کی رضامندی بھی اس میں شامل تھی، لہذا عالمی قوانین میں ان قراردادوں کی حیثیت معاہدوں کی ہے اور ان معاہدوں کی پابندی لازمی ہے، دونوں ممالک کے لیے بھی اور عالمی برادری کے لیے بھی۔ اقوام متحدہ کی دفعہ 103 میں کہا گیا ہے کہ اگر دو ممالک کے مابین کوئی معاہدہ ہو اور انہی ممالک کے مابین عالمی معاہدہ بھی ہو تو عالمی معاہدہ باہمی معاہدے پر بھی حاوی ہوگا۔ لہذا اقوام متحدہ کی یہ قراردادیں بھارت اور پاکستان کے باہمی معاہدوں پر حاوی ہیں۔ ان قراردادوں پر بین الاقوامی شاخصانے کے تحت عمل نہیں ہوا، ورنہ ان قراردادوں پر عمل درآمد ہونا چاہیئے تھا۔‘‘

اقوام متحدہ کی کشمیر کے حوالے درج بالا قراردادوں کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ ان قراردادوں میں پاکستان سے تو مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی افواج اور شہریوں کو مقبوضہ وادی سے نکال لے، تاہم یہ قراردادیں بھارت پر ایسی کوئی قدغن نہیں لگاتی ہیں۔ یہ سوال بھی تشویشناک ہے کہ سفارتکاری کے میدان میں یہ کتنا بڑا شبہ ہوا کہ قرارداد میں بھارت پر کوئی ذمہ داری نہیں لگائی گئی۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے افواج کے انخلا اور مقبوضہ وادی کے انتظامات کی تفصیلات قرارداد نمبر 47 میں دی ہیں، جس میں پاکستان اور بھارت دونوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی افواج کو مقبوضہ وادی سے نکالیں نیز اس انخلاء کے طریقہ کار اور انخلاء کے بعد کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں۔

شیخ صاحب کا اس قرار داد کے حوالے سے کہنا تھا کہ:اس قرارداد میں پاکستان کو کہا گیا تھا کہ تم اپنی فورسز نکالو، تب رائے شماری ہوگی، مگر ہندوستان کی جانب سے یہ پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے چونکہ اپنی افواج کو وادی کشمیر سے نہیں نکالا تھا، اس لیے بھارتی حکومت نے رائے شماری نہیں کروائی۔ یہاں ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ قرارداد نمبر 47 کے بعد مذاکرات ہوئے، عالمی وفد کشمیر آیا، جس کے بعد ایک قرارداد پاس ہوئی، جسے قرارداد نمبر 98 کہا جاتا جاتا ہے۔ یہ قرارداد 1952ء میں منظور ہوئی۔ قرارداد 47 پر عمل نہ کرنے کا پراپیگنڈہ کرنے والے اس قرارداد کو فراموش کر دیتے ہیں، جو قرارداد نمبر 98 میں لکھا گیا۔

قرارداد کا کلاز 4 کہتا ہے:UN SC urges the Governments of India and Pakistan to enter into immediate negotiations under the auspices of the United Nations Representative for India and Pakistan in order to reach an agreement on the specific number of troops to remain of each side of the cease-fire line at the end of the previously established period of demilitarization. As proposed by the UN Representative this number was to be between 6000 Azad forces and 3500 Gilgit and northern scouts on the Pakistani side and 18000 Indian forces and 6000 local state forces on the Indian side. یہ سراسر غلط پراپیگنڈہ ہے کہ فقط پاکستان کو افواج نکالنے کا کہا گیا، اقوام متحدہ نے ہندوستان سے بھی کہا کہ وہ اپنی افواج کو مقبوضہ علاقوں سے نکالے اور ان کی تعداد 18000 تک رکھے۔ ہندوستان نے اپنی افواج کو کم نہیں کیا، اب اس کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔”

لہذا یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ اقوام متحدہ کی قرارداد میں تو بھارت کو بھی پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنی افواج کی تعداد کو ایک حد میں لائے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں موجود ہے کہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ایک مقامی انتظامیہ ہوگی، جسے اقوام متحدہ کے تحت چلایا جائے گا۔ گلگت بلتستان کے لئے 1950ء میں ایک قرارداد آئی، جس میں اگرچہ اس علاقے کا براہ راست حوالہ موجود نہیں ہے، لیکن ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کا انتظام بھی اقوام متحدہ کے تحت چلنے والی انتظامیہ کے ذریعے ہوگا۔ بھارت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اکثر شملہ معاہدے کا حوالہ دیتا ہے، جس میں طے پایا تھا کہ دونوں ممالک اپنے دوطرفہ مسائل کو باہمی گفت و شنید کے ذریعے حل کریں گے۔ اسی طرح جنگ بندی کی سرحد کو لائن آف کنڑول کے طور پر قبول کیا گیا تھا۔

بھارت کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت اب مقبوضہ کشمیر بھی ایک دوطرفہ معاملہ ہے، اس میں کسی تیسری قوت کی مداخلت کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بھارت کا وہ بیانیہ ہے، جو مختلف حیلوں کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اس حوالے سے شیخ تجمل الاسلام کا کہنا تھا کہ: “شملہ معاہدے کو اس وقت کے حالات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 71 کی جنگ میں نوے ہزار سے زیادہ پاکستانی جن میں بڑی تعداد فوجیوں کی تھی، ہندوستانی افواج کی قید میں تھے۔ پاکستان کے دو حصے ہوچکے تھے۔ اس وقت اس معاہدے کو ایک فتح سمجھا گیا۔ یہ تاثر غلط ہے کہ اس معاہدے نے اقوام متحدہ کی مداخلت کی نفی کی ہے۔ شملہ معاہدے کا پہلا نکتہ یہی ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق آگے بڑھائے جائیں گے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 103 کہتا ہے کہ: اگر دو ممالک کے مابین ایک عالمی معاہدہ ہے تو اس کو مقامی معاہدے پر فوقیت حاصل ہوگی۔ ایل او سی یا سیز فائر لائن کی بحث ایسی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جنگ بندی کی قراردادیں جو  5 جنوری 1949ء یا 13 اگست 1948ء کو منظور ہوئیں، میں جنگ بندی کی بات کی گئی ہے۔ 1949ء کی قرارداد میں تو باقاعدہ جگہوں کے نام لیے گئے ہیں کہ یہ درہ، مقام یہاں جنگ بندی ہوگی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ بھارت کا چین کے ساتھ لائن آف ایکچوئل کنٹرول ہے، اس سے مراد قطعاً یہ نہیں کہ چین اپنے موقف سے پچھے ہٹ گیا ہے۔ ایل او سی، سیز فائر لائن سے فرق نہیں پڑتا، اس سے مراد یہ نہیں کہ پاکستان اپنے موقف سے دستبردار ہوگیا ہے۔ نہ ہی اس سے کشمیر کے مسئلہ کی حیثیت پر کوئی فرق پڑتا ہے۔ ہندوستان اسی ایل او سی کا پراپیگنڈہ کرتا ہے اور ہمارے نادان لوگ جنھوں نے اس مسئلہ کو پڑھا نہیں ہے، وہ اس پراپیگنڈہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لہذا شملہ معاہدے سے عالمی قراردادوں پر اثر نہیں پڑتا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
 
 
 
بشکریہ : اسلام ٹائمز