مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک خصوصی نشست(1)

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس

پاکستان میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم 5 فروری یوم کشمیر کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا اعلان جماعت اسلامی کے سابق امیر اور ملی یکجہتی کونسل کے سابق صدر قاضی حسین احمد مرحوم نے 5 جنوری 1989ء کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ اس اعلان کے بعد پنجاب کے اس وقت کے  وزیراعلیٰ میاں محمد نواز شریف اور سابق وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو نے اس اعلان کی تائید کی۔ پہلا یوم یکجہتی کشمیر 5 فروری 1989ء کو منایا گیا جبکہ 1990ء میں تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پوری قوم اور کشمیریوں نے یوم یکجہتی منایا۔ اب گذشتہ 31 برسوں سے پاکستانی قوم اور دنیا بھر میں رہنے والے پاکستانی و کشمیری شہری 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے عنوان سے مناتے ہیں۔ 

مرحوم قاضی حسین احمد نے یوم یکجہتی کشمیر کا اعلان مقبوضہ وادی میں بھارتی افواج کی جانب سے ریاستی اسمبلی کے انتخابات کو سبوتاژ کرنے نیز کشمیری عوام کی جانب سے مسلح جدوجہد کے آغاز کے بعد کیا۔ کشمیر میں مسلح جدوجہد کے آغاز کے ساتھ ہی کشمیری نوجوانوں کے قافلوں نے آزاد کشمیر کا رخ کیا۔

ڈوگرہ راج کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد کا آغاز قیام پاکستان سے قبل ہی ہوچکا تھا۔ 13 جولائی 1931ء کو سری نگر جیل کے احاطے میں کشمیریوں پر وحشیانہ فائرنگ کے نتیجے میں 22 مسلمان شہید اور 47 زخمی ہوئے۔ اس واقعے پر لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے کشمیر کمیٹی قائم کی اور شاعر مشرق علامہ اقبال کو اس کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ نومبر 1931ء کو تحریک الاحرار نے مسلح جدوجہد اور سول نافرمانی کے ذریعے جموں و کشمیر کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا۔ انگریز حکومت نے معاملہ کی چھان بین کے لیے گلینس کمیشن قائم کیا اور 1934ء میں پہلی بار ہندوستان میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ڈوگرہ راج کے مظالم کے خلاف ملک گیر ہڑتال کی گئی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے دورہ کشمیر کے موقع پر وادی کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا، جبکہ انگریزوں نے گلاب سنگھ کے ساتھ معاہدہ امرتسر کے تحت 16 مارچ 1946ء کو کشمیر 75 لاکھ روپے نانک شاہی کے عوض ڈوگرہ مہاراجہ کو بیچ دیا۔

یہ سودا کشمیری اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا۔ انگریز حکومت نے ریاستوں کی تقسیم کے فارمولا میں خود مختار ریاستوں کو اجازت دی کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں سے جس ریاست سے بھی الحاق کرنا چاہیں، اس میں وہ آزاد ہیں۔ 19 جولائی 1947ء کو سردار محمد ابراہیم خان کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طور پر قرارداد الحاق پاکستان منظور کی گئی، لیکن جب کشمیریوں کے فیصلے کو نظر انداز کیا گیا اور ڈوگرہ حکمران نے بھارت کی جانب جھکاؤ کا مظاہرہ کیا تو مولانا فضل الہیٰ وزیر آباد کی قیادت میں 23 اگست 1947ء کو مسلح جدوجہد کا نیلا بٹ کے مقام سے باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔ کشمیر میں جاری داخلی خانہ جنگی میں پاکستان سے قبائلی لشکر بھی شامل ہوگئے۔ 26 اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ نے بھارت سے مدد چاہتے ہوئے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے، تاہم یہ الحاق مشروط تھا، جس میں کہا گیا کہ جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے، کشمیر میں رائے شماری ہوگی۔ ظاہر ہے یہ شق کشمیری مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور مسلح جدوجہد کو کچلنے کے لیے رکھی گئی تھی۔

27 اکتوبر 1947ء کو بھارت نے ڈوگرہ حکمران کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر میں اتار دیں، تاکہ کشمیر میں ہونے والی بغاوت کو کچلا جا سکے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے سبب پاکستانی افواج اور قبائلی جنگجوؤں نے آزاد کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کروا لیا، اسی طرح گلگت بلتستان بھی ڈوگرہ راج سے آزاد ہوگئے۔ میدان جنگ میں شکست کو دیکھتے ہوئے یکم جنوری 1948ء کو بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام ِمتحدہ سے مدد مانگ لی۔ بھارت کا دعویٰ تو اپنی ریاست پر جارحیت کا تھا، تاہم پاکستان کی سفارت کاری کے سبب اقوام متحدہ نے کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ کے طور پر قبول کیا اور مسئلہ کے حل کے لیے متعدد قراردادیں منظور کیں، جن کا خلاصہ یہی ہے کہ دونوں ممالک فی الفور جنگ بند کریں اور دونوں ریاستیں اپنی افواج اور عسکری گروہوں کو وادی سے نکال دیں، تاکہ اس علاقے میں عوامی مطالبے کے مطابق رائے شماری کراوئی جاسکے۔

ہم جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر کبھی بھی عمل نہیں ہوسکا۔ اس مسئلے کے حل کی راہ میں حائل حقیقی رکاوٹوں کو سمجھنے کے لیے گذشتہ دنوں میری ایک کشمیری راہنماء سے نشست ہوئی، جو تحریک آزادی کشمیر کے ایک سرگرم رکن ہیں اور ریاستی جبر و تشدد سے تنگ آکر پاکستان ہجرت پر مجبور ہوئے۔ شیخ تجمل الاسلام پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں، صحافت کے شعبے سے بھی وابستہ رہے، آج کل کشمیر میڈیا سروس میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کر رہے ہیں۔ شیخ تجمل السلام کا کہنا تھا کہ ہندوستان کا برصغیر کی تقسیم سے قبل ہی یہ منصوبہ تھا کہ وہ کشمیر کو اپنے پاس رکھے۔ اس میں کانگریسی راہنماء جواہر لال نہرو اور کرم چند گاندھی پیش پیش ہیں، جن کی خواہش تھی کہ کشمیر نئی اسلامی ریاست یعنی پاکستان کا حصہ نہ بنے۔ شیخ صاحب کے مطابق کشمیر کی قیادت میں بھی کانگریسی راہنماوں کی سازشوں کے نتیجے میں دراڑیں پڑ چکی تھیں۔

کشمیری مسلمانوں کی سیاسی تنظیم مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس سے بدلا گیا، جس سے کشمیری قیادت تقسیم کا شکار ہوئی اور لوگ بھی تقسیم ہوئے۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ بھارت کی سازشوں کا یہ سلسلہ جاری رہا اور وہ وعدے کرتا رہا اور توڑتا رہا۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس نے کشمیری عوام کی تحریک کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔ شیخ صاحب نے مسئلہ کشمیر کے حل میں حائل رکاوٹوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں ہمیشہ جبر کا ماحول رہا، ابتداء سے ہی پاکستان کو چاہنے والوں کے ساتھ مظالم کا سلسلہ جاری رہا۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کا اعتراف بھی غلط نہیں ہوگا کہ شیخ عبد اللہ بھی عوام کو دھوکہ دیتا رہا۔ وہ کانگریسی نظریات کا حامل انسان تھا، لہذا ان کا رجحان ہی کشمیر کو بھارت کے ساتھ جوڑنے کا تھا۔ وہ مختلف اوقات میں مختلف نعرے لگاتا، پہلے نیشنل کانفرنس، پھر باضابطہ طور پر رائے شماری کا نعرہ اور عوام اس کے بہکاوے میں آتے رہے۔

شیخ صاحب کہتے ہیں کہ کشمیری قیادت آزادی کشمیر کی تحریک کے لیے کوئی مثالی قیادت نہ تھی، یعنی یہ بھی اس مسئلہ کے حل میں ایک رکاوٹ ہی تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کشمیر میں کچھ چھوٹے اور کم اثر و رسوخ والے گروہ موجود تھے، جو آزادی چاہتے تھے اور عوام کی بھی یہی خواہش تھی۔ شیخ صاحب کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل میں حائل رکاوٹوں میں بھارت کا زیادہ طاقتور ہونا، بھارتی فوج کا کشمیر میں ہونا، بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کشمیر میں ہونا، بھارت کی رسائی مقبوضہ کشمیریوں تک ہونا جبکہ پاکستان کی ایسی رسائی نہ تھی۔ بھارت کا مقبوضہ وادی میں کٹھ پتلی اور گماشتے بنانا شامل ہیں، جبکہ دوسری جانب پاکستان میں کمزوریاں جنم لینے لگ گئیں، 1971ء کے سانحے کے اثرات بھی تھے۔ شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان جس قدر مضبوط رہتا، کشمیریوں کے لیے آزادی کی منزل اسی قدر قریب ہوتی۔ لہذا یہ سب رکاوٹیں باعث بنیں کہ مسئلہ کشمیر اب تک حل نہیں ہوسکا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ: اسلام ٹائمز