ویگنر کیا ہے اور اس نے بغاوت کیوں کی؟

Published by fawad on

syed asad abbas

تحریر: سید اسد عباس

ویگنر روس کی ایک پرائیویٹ ملٹری کمپنی ہے، روس میں پرائیویٹ مسلح گروہ رکھنے کی اجازت نہیں، لیکن صدر پیوٹن کے سابق اعزازی شیف ایوگنی پریگوزن نے ویگنر کے نام سے ایک پرائیویٹ ملٹری کمپنی قائم کر رکھی ہے۔ ایوگنی پریگوزن روسی صدر پیوٹن کے علاقے سے ہیں اور ان دونوں افراد کا تعلق دہائیوں پر مشتمل ہے۔ ایوگنی پریگوزن سینٹ پیٹرز برگ میں ایک غریب شخص سے ایک مشہور ریسٹورینٹ کے مالک بنے۔ ولادمیر پیوٹن کو ایوگنی پریگوزن کا ہوٹل اس قدر پسند تھا کہ صدر بننے کے بعد وہ اپنے قریبی مہمانوں کو اسی ریسٹورینٹ میں لایا کرتے تھے۔ ایوگنی پریگوزن نے کیٹرنگ کا کاروبار بھی شروع کیا اور پیوٹن سے تعلق کے سبب ان کو کئی ایک سرکاری و نیم سرکاری ٹھیکے ملے، یوں ایوگنی کا کاروبار ترقی کرتا گیا۔ پریگوزن کے ریسٹورینٹ کا کھانا کریملن میں مسلسل آتا رہا، جس کے سبب ایوگنی کو پیوٹن کے اعزازی شیف کا خطاب ملا۔

پریگوزن نے 2014ء میں ویگنر بنائی، ویگنر کے بارے کہا جاتا ہے کہ روس میں پرائیویٹ ملٹری کی اجازت نہ ہونے کے باوجود روسی وزارت دفاع اس کمپنی سے ہر طرح کا تعاون کرتی ہے۔ اس کمپنی کو ہتھیار، تربیت اور سرمایہ روسی وزارت دفاع کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے اور یہ گروہ دنیا بھر میں روسی مفادات کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس گروہ کے دنیا کے بیس ممالک میں مراکز موجود ہیں، جو فوجی اور کاروباری سرگرمیاں سرانجام دے رہے ہیں۔ ویگنر گروہ کے زیادہ تر سپاہی نازیزم کے حامی، روسی جیلوں سے عام معافی حاصل کرنے والے مجرم یا دائیں بازو کے شدت پسند گروہ کے افراد ہیں۔

2016ء میں ویگنر کے فقط ایک ہزار مشنری سپاہی تھے، جو 2017ء تک پانچ ہزار ہوگئے۔ ویگنر کی موجودہ تعداد کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا، تاہم مغربی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق یوکرائن میں تقریباً پچاس ہزار کے قریب ویگنر تعینات کیے گئے، جنھوں نے یوکرائن کے آزادی پسند گروہوں کی مدد کی اور یوکرائنی افواج کو پسپا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ویگنر کے دستوں نے کئی ایک غیر ملکی مشنز میں روسی افواج اور روسی مفادات کے لیے کام کیا، یہ دستے شام، لیبیا، افریقی ممالک، موزمبیک، وینیزویلا، مالی، بیلا روس، برکینوفاسو، چاڈ، نکارنو کاراباخ، سربیا اور دیگر ممالک میں تعینات ہیں۔

ویگنر کی طرز پر ہی امریکہ نے بلیک واٹر کمپنی قائم کی، جس نے پاکستان اور افغانستان میں کئی ایک مشنز پر کام کیا۔ ویگنز ہو یا بلیک واٹر باقاعدہ فوج نہ ہونے کے سبب اس پر عالمی فوجی قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ لہذا ان گروہوں کے اراکین مختلف قسم کے جنگی جرائم میں بھی ملوث رہے ہیں۔ بہرحال ایک امر واضح ہے کہ یہ گروہ ایک عرصے سے روسی وزارت دفاع کے لیے کام کر رہا ہے، تاہم اس دعوے کو کبھی بھی حکومتی اراکین یا وزارت دفاع کی جانب سے قبول نہیں کیا گیا ہے۔

23 جون 2023ء کو اچانک ویگنر خبروں کا محور بنی، جب اطلاعات کے مطابق ویگنر کے دستوں نے روسی شہر روسٹوو ون ڈون میں کئی ایک فوجی تنصیبات پر قبضہ کیا اور ساتھ روس کے دارالحکومت ماسکو کی جانب پیشقدمی کا اعلان کر دیا۔ اس غیر معمولی صورتحال کے باعث ملک میں ایمرجنسی کی سی صورتحال پیدا ہوگئی۔ روسی صدر پیوٹن نے ویگنر کے اس اقدام کو یوکرائن جنگ کے دوران ایک بڑی خیانت اور پیٹھ میں چھرا گھونپنا قرار دیا۔ پیوٹن نے کہا کہ اس واقعے کے ذمہ داران سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ ویگنر کے سربراہ ایوگنی پریگوزن نے اپنے مطالبات کے بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ روسی افواج ویگنر مشنریوں کو نشانہ بنا رہی ہے، ہماری یوکرائن میں قربانیوں کو روسی جنرل اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ پریگوزن نے مزید کہا کہ ہمارا مقصد انصاف کا حصول ہے۔

ٹھیک 24 گھنٹے کے بعد اچانک ویگنر شورش تھم گئی اور اس کمپنی کے سربراہ نے اپنے جنگجوؤں کو کشت و خون سے بچنے کا کہتے ہوئے انھیں اپنے مراکز میں واپس جانے کا کہا۔ پریگوزن نے اپنے جتھوں سے کہا کہ وہ ملک میں خون ریزی سے بچنے کے لیے اپنے اڈوں پر واپس چلے جائیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ویگنر گروہ کی عالمی سرگرمیوں کے سبب امریکہ نے اس گروہ پر متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ جنوری 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی وزارت خارجہ یوکرائن جنگ میں اس گروہ کے کردار نیز امریکی انتخابات میں ویگنر کے ملوث ہونے کے شواہد کے مدنظر اس گروہ کو ایک عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے لیے کام کر رہا ہے۔

نومبر 2022ء میں یورپی پارلیمنٹ نے یوکرائن جنگ میں ویگنر کے کردار کو دیکھتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں یورپی کونسل پر زور دیا گیا کہ ویگنر گروپ کو دہشت گردوں کی یورپی یونین کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ اگر یہ تنظیم بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کی امریکی اور یورپی فہرست کا حصہ بنتی ہے تو ایسے میں اس تنظیم کو اثاثوں کے انجماد، سفری پابندیوں اور سرگرمیوں کی پابندیوں کا سامنا ہوسکتا ہے اگر ہم ویگنر کے اچانک اٹھنے اور چوبیس گھنٹوں کے اندر بغیر کوئی جانی نقصان کیے واپس جانے نیز امریکہ اور یورپ میں اس گروہ کے خلاف ہونے والے اقدامات اور اس گروہ کی عالمی سرگرمیوں اور روسی مفادات کے لیے کاوشوں نیز کاروبار کو دیکھیں تو منظر نامہ انتہائی واضح ہو جاتا ہے۔

میری نظر میں ویگنر کی یہ بغاوت اس کے دیگر آپریشنز کی مانند ایک سافٹ آپریشن تھا، جس کا مقصد ویگنر کے ساتھ ساتھ، عالمی روسی مفادات کا تحفظ تھا۔ اس آپریشن کا مقصد ویگنر کی قیادت اور روسی قیادت بالخصوص فوجی جرنیلوں کے مابین اختلافات کا تاثر دینا تھا، یہ اعلان کرنا بھی مقصود تھا کہ ویگنر اب یوکرائن جنگ کا حصہ نہیں ہے، ممکن ہے کہ اس کے لیے ویگنر کے سربراہ کوئی قربانی بھی دیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس گروہ کو ہی ختم کرکے کسی اور پرائیویٹ ملٹری میں ضم کر دیا جائے، جیسا کہ اطلاعات آرہی ہیں کہ بیلاروس کی مداخلت کے سبب یہ شورش تھمی اور پیوٹن اپنے اعلان کے مطابق اس گروہ کے سربراہ اور اپنے دیرینہ شیف کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کریں گے، نیز یہ کہ پریگوزن روس چھوڑ کر بیلاروس مقیم ہو جائیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس سارے آپریشن کا نتیجہ ویگنر اور روس کے حق میں نکلتا ہے یا خلاف۔ ظاہراً تو ویگنر کو ختم کرکے پیٹریاٹ، ریڈٹ، روسزم یا موزارٹ میں ضم کر دیا جائے گا، تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
یہ بھی ملاحظہ کریں: ایرانی صدر کا دورہ روس یونی پولر دور کے خاتمے کی طرف ایک اور اشارہ
https://albasirah.com/urdu/iranian-president-visits-russia/