دو برادر ادارے، ملی یکجہتی کونسل اور مجمع تقریب مذاہب اسلامی

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

ملی یکجہتی کونسل کی دعوت پر ان دنوں مجمع تقریب مذاہب اسلامی کا وفد پاکستان کے دورے پر ہے۔ وفد کی سربراہی مجمع کے سیکرٹری جنرل آیت اللہ ڈاکٹر حمید شہریاری کر رہے ہیں۔ ان کے وفد میں مولانا نذیر احمد سلامی بھی شامل ہیں، جو ایران کی رہبر کونسل کے رکن ہیں۔ رہبر کونسل وہی ادارہ ہے، جو ایران کے روحانی راہنماء کا انتخاب کرتا ہے۔ خود یہ ادارہ بھی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے۔ مولانا نذیر احمد سلامی کا اس ادارے کے لیے انتخاب ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے عوام نے کیا ہے۔ انھوں نے مذہبی تعلیم دارالعلوم کراچی سے حاصل کر رکھی ہے۔ یہ دونوں ادارے اتحاد امت کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اس لحاظ سے بجا طور پر انھیں برادر ادارے قرار دیا جاسکتا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل نے 1995ء سے لے کر آج تک پاکستان کے عوام کو اتحاد امت کا پیغام دیا ہے۔ تفرقہ اور تکفیر کے خلاف یہ کونسل سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی رہی ہے اور آخرکار اس نے پاکستان میں تکفیریت کو شکست فاش سے دوچار کیا ہے۔ اکا دُکا شیطانی چیلے تو اب بھی مسلمانوں میں افتراق و انتشار کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور اپنی طرف سے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، لیکن جواب میں ملی یکجہتی کونسل بھی اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہے اور عوام کو دین کے حقائق سے آگاہ کرکے اتفاق و اتحاد کا پیغام دیتی رہتی ہے۔ یہ کونسل پاکستان کے باشعور و باوقار گہری نظر رکھنے والے حوصلہ مند اور وسیع الظرف دینی علماء و زعماء نے خود تشکیل دی ہے۔ اس میں تمام مسالک کی نمائندہ مذہبی تنظیمیں شامل ہیں۔

کونسل کے پہلے صدر مولانا شاہ احمد نورانی تھے۔ ان کے بعد قاضی حسین احمد نے یہ پرچم بلند کیے رکھا۔ قاضی صاحب کی رحلت کے بعد کچھ عرصہ یہ ذمہ داری علامہ سید ساجد علی نقوی کے کندھوں پر آئی اور آج اس کے صدر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر ہیں۔ اس میں جہاں جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی جیسی احزاب شامل ہیں، وہاں شیعہ، دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث کی دیگر تنظیمیں بھی اتحاد کو قرآن و سنت کا پیغام سمجھتے ہوئے شریک ہیں۔ پاکستان کے عوام میں اس کونسل کا بہت احترام پایا جاتا ہے۔ ملک کے تمام صوبوں میں اس کا نظم قائم ہے۔ بلوچستان، سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے علاوہ جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی کونسل کی تنظیم موجود ہے۔ ہر صوبہ میں مرکز کی طرح تمام جماعتیں شریک ہیں۔ اس کی ایک مجلس قائدین ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کونسل اور مجلس عاملہ اپنے اپنے مقام پر اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہیں۔

کونسل کے متعدد کمیشنز ہیں، جن میں خطبات جمعہ کمیشن، علمی و تحقیقاتی کمیشن، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کروانے کا کمیشن اور مصالحتی کمیشن۔ اس کے علاوہ حال ہی میں مشائخ کے لیے بھی ایک کمیشن کی سفارش کی گئی ہے۔ نیز دینی جرائد کی کونسل بھی قائم ہے۔ یہ سارے ادارے اپنی اپنی حدود میں اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ عالم اسلام میں بھی اس کونسل کی اپنی شناخت موجود ہے اور امت اسلامیہ کا درد رکھنے والے گروہوں، علماء اور جماعتوں میں اس کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جہاں تک عالمی ادارہ تقریب مذاہب اسلامی کا تعلق ہے تو پورے جہانِ اسلام میں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد بانی انقلاب امام خمینیؒ نے اتحاد امت کے لیے پرچم بلند کیا اور مسلمانوں کو آپس میں بھائی چارہ اور اخوت کی اسلامی بنیاد پر اکٹھا ہونے کا پیغام دیا۔ انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایام ولادت کو مل کر منانے کے لیے بارہ ربیع الاول سے لے کر سترہ ربیع الاول تک ہفتہ وحدت قرار دیا۔ عالمی سطح پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ امام خمینیؒ کا کہنا تھا کہ جو مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرتا ہے، وہ شیعہ ہے نہ سنی بلکہ دشمن کا آلہ کار ہے۔ انھوں نے اپنے فقہی احکام میں بھی اتحاد امت کے اصول کو پیش نظر رکھا۔

ان کے بعد ان کے جانشین آیت اللہ العظمیٰ امام خامنہ ای نے بھی یہی راستہ اپنایا۔ مسلمانوں کو آپس میں جوڑنے کے لیے انھوں نے بعض نئی تدابیر بھی کیں۔ ان میں سے ایک اتحاد امت کے لیے عالمی ادارہ تقریب مذاہب اسلامی کا 1990ء میں احیاء ہے۔ قبل ازیں یہ ادارہ مصر میں قائم ہوا تھا، جسے پورے جہان اسلام میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی تھی، لیکن رفتہ رفتہ اس کی فعالیت ختم ہوگئی۔ اسے پھر سے آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے زندہ کیا۔ تہران میں اس کا مرکز قائم کیا گیا اور پوری دنیا سے مسلمان علماء اور اکابرین پر مشتمل اس کی مرکزی شوریٰ بنائی گئی۔ اسی ادارے نے مصر سے شائع ہونے والے مجلہ رسالۃ الاسلام کی تمام کاپیاں نئے سرے سے شائع کیں۔ اس ادارے کی سربراہی کے لیے بڑے بڑے معتبر نام سامنے آئے، جنھوں نے عالم اسلام کی وحدت کے نظریے کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ آیت اللہ واعظ زادہ خراسانی، آیت اللہ محمد علی تسخیری اور آیت اللہ محسن اراکی جیسے نوابغ اسلام اس کے سربراہ رہے اور ان دنوں یہ فریضہ آیت اللہ ڈاکٹر حمید شہریاری انجام دے رہے ہیں۔

اس ادارے کے عظیم کارناموں میں سے ایک موسوعۃ الاحادیث المشترکۃ بین السنۃ والشیعۃ کی اشاعت ہے۔ اس کی پچاس عناوین کے تحت ساٹھ جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ مصر میں یہ ادارہ شیخ الازہر شیخ محمود شلتوت کی سربراہی میں قائم ہوا تھا۔ بزرگ شیعہ مرجع آیت اللہ سید محمد حسین بروجردی اس کے موسسین میں شامل تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالم اسلام میں درد دل رکھنے والے اور امت کے لیے سوز رکھنے والے علماء ہر دور میں موجود رہے ہیں اور ان کی خواہش اور کوشش رہی ہے کہ اُمت آپس میں متحد ہو۔ دشمنان اسلام کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے انھوں نے ہمیشہ دوش بدوش جدوجہد کی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ملی یکجہتی کونسل اور عالمی ادارہ تقریب مذاہب اسلامی کی مشترکہ کوششیں ہیں۔ پاکستان سے کونسل کے سربراہ اور دیگر اراکین ہمیشہ ایران میں تقریب مذاہب اسلامی کی دعوت پر عالمی سطح کی کانفرنسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ اس کی عالمی شوریٰ میں بھی کونسل کے اراکین شامل رہے ہیں۔ ماضی میں اس کی شوریٰ میں قاضی حسین احمد، مولانا سمیع الحق، علامہ ساجد علی نقوی اور قاضی نیاز حسین نقوی جیسے بزرگ شریک رہے ہیں۔ اب بھی صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر اور علامہ سید ساجد علی نقوی کے علاوہ کئی ایک اکابر اور جید شخصیات پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کی عالمی شوریٰ میں موجود ہیں۔

دوسری طرف اس ادارے کے قائدین نے ہمیشہ ملی یکجہتی کونسل کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور اس کی اتحاد امت کے لیے مساعی کو سراہا ہے۔ کونسل نے پہلے بھی تقریب مذاہب اسلامی کے سربراہوں کی پاکستان میں میزبانی کی ہے۔ آیت اللہ تسخیری کا نام اس سلسلے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں جا کر جید علماء اور دینی قائدین سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اسی طرح آیت اللہ محسن اراکی کے اعزاز میں بھی ملی یکجہتی کونسل اسلام آباد میں ایک عظیم الشان اتحاد امت کانفرنس منعقد کرچکی ہے۔ 27 دسمبر 2021ء کو اسلام آباد میں اسی حوالے سے “اتحاد امت کانفرنس” منعقد ہوئی، جس کی صدارت کونسل کے صدر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے کی۔ اس میں مہمان خصوصی آیت اللہ ڈاکٹر حمید شہریاری تھے۔

کانفرنس سے ان قائدین کے علاوہ مولانا نذیر احمد سلامی، مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس، ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، پاکستان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر سید محمد علی حسینی، اسلامی تحریک کے نائب صدر علامہ عارف حسین واحدی، جماعت اہل حرم کے سربراہ مفتی گلزار احمد نعیمی، جماعت اسلامی کے ایم این اے عبدالاکبر چترالی، جماعت اسلامی کے نائب امیر میاں محمد اسلم، اسلامی تحریک کے سیکرٹری جنرل علامہ شبیر حسن میثمی، ادارہ امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی، ملی یکجہتی کونسل شمالی پنجاب کے صدر ڈاکٹر طارق سلیم، جماعت اہل حدیث کے سیف اللہ خالد، تنظیم اسلامی کے راہنما قاری ضمیر اختر، جامعۃ المصطفیٰ کے ڈائریکٹر اور وفاق المدارس شیعہ کے سیکرٹری جنرل علامہ انیس الحسنین خان اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ یہ کانفرنس اپنے پیغام کے لحاظ سے بہت اثر آفریں تھی۔


بشکریہ : اسلام ٹائمز