ولادیمیر پیوٹن کی سالانہ پریس کانفرنس کے اہم نکات کا خلاصہ

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس

سید اسد عباس

روس کے صدر ولادمیر پیوٹن نے آج یعنی 23 دسمبر کو کچھ دیر قبل ایک روایتی کانفرنس سے خطاب کیا۔ یہ کانفرنس سال کے اختتام پر منعقد کی جاتی ہے، جس میں سال بھر کے امور کے حوالے سے بات کی جاتی ہے۔ دنیا کے ایک موثر ملک کے سربراہ کی جانب سے سالانہ کانفرنس دنیا کے لیے ایک اہم پروگرام تھا۔ اس پریس کانفرنس میں تقریباً 507 خبرنگاروں نے شرکت کی۔ یہ پریس کانفرنس7 ٹی وی چینلز،  2 ریڈیو چینلز اور کئی ایک سوشل میڈیا سائٹس پر لائیو نشر کی گئی۔ ولادیمیر نے اپنی گفتگو کا آغاز کرونا وباء اور اس کے ملک پر اثرات سے کیا۔ انھوں نے کہا کہ کرونا کے سبب روس کے تمام شعبوں میں تعطل آیا ہے، تاہم یہ تعطل ہمارے اردگرد کی معیشتوں کے مقابل کم ہے۔ روس کا جی ڈی پی 3.6 فیصد گرا، تاہم امریکا اور یورپی ممالک کے مقابل کم ہے۔ شاید برطانیہ کا جی ڈی پی 9 فیصد گرا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہماری صنعتی پیداوار 3 فیصد کم ہوئی ہے جبکہ میرے احباب نے مجھے بتایا ہے کہ اب ہماری پیداوار میں 1.1 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ہماری زرعی پیداوار 1.8 فیصد بڑھی ہے، جس کے 2 فیصد اضافے کی توقع ہے۔

ہمارا بینکاری نظام مستحکم ہے، ہمارا اس سال کے لیے منافع 1.3 ٹریلین روبلز ہے۔ 2020ء میں روس میں بیروزگاری کی شرح 4٫7 فیصد تھی، جو اس وقت 6.3 ہوچکی ہے۔ ہمارا خسارہ 70 بلین ڈالر ہے، جو کہ 10 بلین ڈالر کم ہوا ہے۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر سال کے آغاز میں 554.4 بلین ڈالر تھے، جو اب 587.7 بلین ڈالر ہوچکے ہیں۔ سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کا 70 فیصد حصہ تیل کی مصنوعات سے متعلق نہیں ہے، یعنی اب روس کو پیٹرول پمپ نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی اب ہماری معیشت مکمل طور پر تیل و گیس سے متعلق ہے۔ پریس بریفنگ کے دوران عوام اور صحافیوں نے معیشت اور صحت کے نظام کے حوالے سے مزید کئی ایک سوالات کیے جس کے روسی صدر نے جواب دیئے۔

روس کے صدر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ روس میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمارا ارادہ ہے کہ اسے 2030ء تک 13.5 فیصد سے کم کرکے 6.5 فیصد کی شرح پر لائیں گے۔ قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ اگرچہ ہماری فصل پچھلے سالوں کے مقابلے میں زیادہ ہوئی ہے، تاہم بریڈ اور پاستا کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے ہی ہمارے ملک میں چینی کی قیمت میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سورج مکھی کے پھول کے تیل کی قیمت 17 فیصد بڑھی ہے۔ اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ روسی صدر نے ان معاشی مسائل سے نمٹنے کے حوالے سے اپنے اقدامات پر روشنی ڈالی، جو کہ بہت سی معیشتوں کے لیے مثال ہوسکتے ہیں اور دنیا کی معیشتیں ان تجربات سے استفادہ کرسکتی ہیں۔

خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ اچھے اور برے مفادات کچھ نہیں ہوتے، فقط قومی مفاد ہوتا ہے۔ ہر ملک کے اپنے قومی مفادات ہیں، یہی حال روس کا بھی ہے۔ میں لوگوں کو اچھا برا نہیں سمجھتا بلکہ ان کے ساتھ روس کے مفادات کے مدنظر بات کرتا ہوں۔ بعض اوقات مصالحت کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض اوقات آپ کو اپنے موقف پر قائم رہنا پڑتا ہے۔ یہ ہمیشہ یونہی ہوتا ہے۔ چین کے ساتھ ہمارے تہ دار مفادات ہیں۔ طیب اردوغان کے نقطہ نظر سے بعض اوقات اختلاف ہوتا ہے، لیکن وہ اپنے وعدوں پر ایک مرد کی مانند عمل کرتا ہے۔ چونکہ اس کانفرنس میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن صحافیوں اور عوام کے سوالات کے جوابات دے رہے تھے، اس لیے سوالات بدلتے رہے، کبھی ماحولیات سے متعلق سوال، کبھی تعلیم سے متعلق سوال، کبھی بچوں سے متعلق سوال، کبھی سیاحت کے بارے سوال، کبھی خارجہ پالیسی کے بارے استفسار، کبھی انتخابات کے بارے سوال اور کبھی آئین میں ترمیم کے بارے سوال کیے گئے۔ یہ سوالات باہم گڈ مڈ تھے، تاہم ولادیمیر پیوٹن نے سب سوالوں کے جوابات نہایت اعتماد اور تحمل سے دیئے، جو کہ ان کے ایک سیاسی مدبر اور منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔

ولادیمیر پیوٹن سے ایک سوال آزادی اظہار کے حوالے سے کیا گیا، جو کہ بالخصوص یورپ میں رسالت ماب ؐ کی گستاخی پر مشتمل خاکوں سے متعلق تھا۔ ولادیمیر پیوٹن نے اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں کوئی نئی بات نہیں کروں گا۔ آپ کی آزادی اظہار کی حد وہاں تک ہے، جہاں سے دوسرے کی آزادی اظہار کا آغاز ہوتا ہے، یہ ایک آفاقی کلیہ ہے۔ جو لوگ بغیر سوچے سمجھے دوسروں کے ایمان پر حملہ کرتے ہیں یا ان کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں، انھیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ردعمل ضرور آئے گا۔ دوسری جانب یہ ردعمل شدت کا حامل نہیں ہونا چاہیئے۔ دنیا کا کوئی مذہب بشمول مسیحیت و اسلام جیسا کہ میں نے حال ہی میں مقدس کتابوں قرآن، بائبل، تورات اور بدھوں کے مقدس اوراق سے اقتباسات پیش کیے، شدت پسندی کی جانب اشارہ نہیں کرتا۔ جب کسی کے حقوق غصب ہوں تو اس کا ردعمل قتل نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ یہ دنیا کے مذاہب کی روح سے متصادم ہے۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے مسئلہ پر ولادیمیر پیوتن نے مفصل روشنی ڈالی اور کہا کہ عالمی قوتوں کو باتوں کے بجائے عملی اقدامات کی جانب آنا چاہیئے۔ عالمی ادارے اپنے وجود کا احساس دلائیں، یہ فقط روس کی ذمہ داری نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی ریاست کا اگلا سال اور عالمی سیاست https://albasirah.com/urdu/next-year-of-american-state/

عرب دنیا کے ساتھ روابط کے بارے بات کرتے ہوئے ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ سوویت دور میں نظریہ کی عملداری تھی، تاہم اب ہم اسلامی دنیا اور عرب دنیا کے ساتھ اپنی شراکت کی حدود کو پھیلا رہے ہیں۔ عالمی پابندیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ دیکھیں نرم قوت کیا ہے۔؟ ثقافت اس کا ایک حصہ ہے۔ عمومی طور پر تعلیم، ثقافت اور انسانی روابط اس کا حصہ ہیں۔ یہ عالمی تعاون کے آفاقی اوزار ہیں، جو کہ پابندیوں اور رکاوٹوں سے مبرا ہیں۔ اگر کوئی پابندیوں کا اطلاق کرتا ہے تو یہ خود اس کے لیے نقصان دہ ہوں گی۔ ہتھیاروں کی دوڑ کے بارے اظہار خیال کرتے ہوئے ولادمیر پیوٹن نے کہا کہ یقیناً ہم ہتھیاروں کی بہتری پر کام کر رہے ہیں، لیکن اگر آپ ہمارے دفاع پر اخراجات کو دیکھیں تو وہ دنیا میں چھٹے نمبر پر ہیں۔ امریکہ روس کے دفاعی اخراجات 46 بلین ڈالر کے مقابلے میں 770 بلین ڈالر دفاع پر خرچ کر رہا ہے۔
نوٹ: ولادمیر پیوٹن کی پریس کانفرنس کا یہ متن میں نے ولادیمیر پیوٹن کی آفیشل ویب سائٹ سے حاصل کیا ہے۔ اس پریس کانفرنس کے حوالے سے مختلف میڈیا چینلز پر دیگر خبریں بھی گردش کر رہی ہیں، جیسا کہ بیٹیوں کے بارے سوال وغیرہ تاہم اس پریس کانفرنس کا تقریباً خلاصہ یہی ہے۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز