مسلم یونین کا خواب

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس

انسان روز اول سے اپنے احوال کی بہتری کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اس کی ترقی کا نقطہ آغاز ہمیشہ اونچے خوابوں اور تخیلات سے ہوتا ہے۔ کبھی ہواوں میں اڑنے کے خواب، کبھی دریاوں میں غوطہ زن ہونے کے خواب، کبھی خلا نوردی کے خواب، کبھی دولت و ثروت کے خواب تو کبھی کچھ۔ انسان اپنے احوال کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے، سماج، قوم اور مملکت کی بہتری کے خواب بھی دیکھتا ہے۔ امریکی ریاستوں کا اتحاد، یورپی یونین کا قیام، ون روڈ ون بیلٹ، اسرائیلی ریاست کا قیام، قیام پاکستان، سب خواب ہی تو ہیں، جو حقیقت کا روپ دھار گئے۔ اب یہ خواب کس حد تک حقیقت سے قریب تر ہوتا ہے، یہ ایک الگ سوال ہے۔ قیام پاکستان کی مثال میں ہم نے دیکھا کہ مسلمانان برصغیر نے ایک الگ ریاست تو قائم کر لی، تاہم اس کو ان خطوط پر نہ چلایا جا سکا، جس کی آرزو بانیان پاکستان نے کی تھی۔

ایسے ہی ریاست ہائے متحدہ امریکا کے بانیان کا خواب بھی کچھ مختلف تھا، جو آج ایک سامراجی امریکا کا روپ دھار چکا ہے۔ یورپی یونین اور ون روڈ ون بیلٹ نسبتاً نئے خواب ہیں، دیکھیں ان کی حقیقی صورت کیا نکلتی ہے۔ مسلم دنیا کے حوالے سے بھی ایک ایسا ہی خواب کل سننے کو ملا، جسے سن کر ایک امید کی ایک نئی کرن دکھائی دی۔ یہ خواب پیش کرنے والے عالمی ادارہ تقریب مذاہب اسلامی کے موجودہ دبیر کل آیت اللہ ڈاکٹر حمید شہریاری تھے۔

عالمی ادارہ تقریب مذاہب اسلامی ایران میں قائم ایک ادارہ ہے، جو اتحاد امت کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اس ادارے کا ایک وفد اس وقت پاکستان کے دورے پر ہے۔ اس وفد میں ادارہ تقریب کے دبیر کل آیت اللہ ڈاکٹر حمید شہریاری، صوبہ سیستان و بلوچستان کے رکن مجلس خبرگان مولوی نذیر احمد سلامی قابل ذکر ہیں۔ مولوی نذیر احمد سلامی دارالعلوم بنوریہ کراچی کے فارغ التحصیل ہیں۔ یہ وفد ملی یکجہتی کونسل پاکستان کی دعوت پر پاکستان کے دورے پر تشریف لایا ہے۔ گذشتہ روز یعنی 27 دسمبر 2021ء کو ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے زیراہتمام ایک اتحاد امت کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس میں کونسل میں شامل جماعتوں کے مرکزی اور صوبائی قائدین کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔ اس تقریب میں خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارہ تقریب مذاہب اسلامی کے سربراہ آیت اللہ ڈاکٹر حمید شہریاری نے کہا کہ یورپ میں مسیحیوں کے تین مذاہب، مختلف قومیں اور مختلف زبانیں بولنے والے آباد ہیں، اس کے باوجود وہاں پر ایک یونین کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ قومیں دہائیوں تک مذہب اور قومیت کے نام پر باہم دست و گریبان رہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں انھوں نے ساڑھے سات کروڑ سے زیادہ انسانوں کو قتل کیا ہے، لیکن آج ان کی ایک کرنسی اور ایک پارلیمنٹ ہے، وہ یکساں اقتصادی مفادات کے لیے اکٹھے ہیں۔

ڈاکٹر حمید شہریاری نے کہا کہ مسلمان ممالک بھی مختلف مسالک، قومیتوں اور زبانوں کے اختلاف کے باوجود ایسی ہی ایک یونین تشکیل دے سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یورپ کے اتحاد کی وجہ دنیاوی مفادات اور معیشت ہے۔ مسلمانوں کے پاس اتحاد کا محور قرآن کریم اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے۔ ڈاکٹر شہریاری نے کہا کہ قرآن کریم بھی ’’والذین معہ‘‘ کہتا ہے اور وہ ہم سے یہی چاہتا ہے کہ ہم رسولؐ اللہ کے ساتھ ہوں۔ سب مل کر ان کا دامن تھام لیں۔ ڈاکٹر حمید شہریاری نے کہا کہ ممکن ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اس چیز کا دعویٰ کرے کہ ہم رسول اللہ ؐ کے ساتھ ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ کیسے شناخت ہو کہ کون حقیقت میں رسول اللہ ؐ کے ساتھ ہے اور کون فقط دعویٰ کرتا ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہؐ کے ساتھ ہیں، قرآن حکیم کے مطابق ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ کفار کے لیے سخت اور آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم کا جذبہ لیے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر شہریاری نے کہا کہ ہمیں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آج کون ہے، جو مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے، تاہم صہیونیوں کے ساتھ روابط رکھے ہوئے ہے۔ دعویٰ تو اسلام کا کرتا ہے، تاہم اس کے تمام تر مالی مفادات مغرب سے وابستہ ہیں۔ ایسا شخص یا ملک حقیقت میں رسول اللہ ؐ کے ساتھ نہیں ہے۔ اس کی مثال ان منافقین کی ہے، جو نماز تو رسول اللہ ؐ کے پیچھے پڑھتے تھے، تاہم جنگ کے موقع پر رسول اللہ ؐ کو تنہا چھوڑ دیتے تھے۔ پس ہمیں اسی کو معیار قرار دینا چاہیئے کہ ہم رسول اللہ ؐ کے ساتھ ہیں یا نہیں ہیں۔ ڈاکٹر حمید شہریاری نے مزید کہا کہ جب ہم اتحاد امت اور مسلم یونین کا خواب دیکھیں گے تو ہمارے دشمن خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ ہمارے دشمن کے مفادات ہمارے اختلاف سے ہی وابستہ ہیں۔ اگر مسلمانوں کی ایک کرنسی ہو تو ڈالر اپنی وقعت کھو دے گا۔ مسلمان ممالک باہم تجارت کریں گے تو ہمیں جاپان کی ٹیوٹا اور ہنڈا گاڑیوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہماری سرحدیں کم رنگ ہو جائیں گی۔ ہمارے وسائل ہمارے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ دشمن اس کے مقابلے میں کبھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔

ڈاکٹر حمید شہریاری نے سوال کیا کہ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ دشمن تفرقہ کیسے ایجاد کرتا ہے۔ انھوں نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا اور کہا ’’توہین‘‘ سے۔ وہ ہمارے جذبات کو توہین کے ذریعے برانگیختہ کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دشمن کا طریقہ کار کیا ہے، وہ برطانیہ میں ایک ٹی وی چینل بناتا ہے اور اس پر ایک شیعہ کو بٹھاتا ہے، جو اہل سنت کے مقدسات کی توہین کرتا ہے۔ اسی طرح وہ امریکا میں ایک ٹی وی چینل بناتا ہے اور اس پر ایک اہل سنت کو بٹھاتا ہے، جو شیعہ مقدسات کی توہین کرتا ہے، یوں اختلاف کی بنیاد پڑتی ہے۔ ڈاکٹر شہریاری نے کہا کہ ہمیں بصیرت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے داعش کی تشکیل اور اس کی سرگرمیوں پر بھی روشنی ڈالی۔ انھوں نے کانفرنس کے شرکاء سے سوال کیا کہ کیا اسلام کسی انسان کو زندہ جلانے کی اجازت دیتا ہے، کیا اسلام میں کسی کافر کا بھی مثلہ کرنے کی اجازت ہے، لیکن داعش نے یہ سب کچھ اسلام کے نام پر انجام دیا۔ ہمیں اس سب کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ممکن ہے، جب ہم باہم متحد ہوں اور اپنے آپ کو رسول اللہ ؐ کے گروہ سے متمسک کر دیں۔

ڈاکٹر حمید شہریاری نے کہا کہ میں نہیں کہتا کہ ہم مسلم یونین کے اس ہدف کو جلد حاصل کر لیں گے، تاہم ہمیں اپنی منزل کا تعین کرکے اپنے سفر کا آغاز کر دینا چاہیئے۔ انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں عالمی ادارہ تقریب مذاہب اسلامی نے لٹریچر تشکیل دینا شروع کر دیا ہے۔ ڈاکٹر حمید شہریاری کا کہنا تھا کہ مسلم یونین میں نزاع، عدم برداشت، مشاجرہ، توہین، دہشت گردی اور تکفیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہم جتنا ان مسائل اور مظاہر سے دور ہوں گے، مسلم یونین کے اسی قدر قریب ہوتے جائیں گے۔ ڈاکٹر شہریاری کی مسلم یونین کے حوالے سے گفتگو کافی Specific, Achievable, Measurable تھی، جسے سن کر اندازہ ہو رہا تھا کہ ادارہ تقریب مذاہب اسلامی نے اس پر خاصی سوچ وچار کر رکھی ہے۔ امید کی جانی چاہیئے کہ ادارہ تقریب مذاہب اسلامی مسلم یونین کے اس خواب یا ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مزید فکری و عملی کام کرے گا اور مسلم دنیا بھی ایک ایک کرکے اتحاد امت مسلمہ کے اس سفر میں شریک سفر ہوتی چلی جائے گی۔ شاید اسی تصور کو حکیم الامت نے اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے:
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

بشکریہ : اسلام ٹائمز