شہدائے امامیہ

Published by fawad on

nisar ali tirmazi
سید نثار علی ترمذی
یکم مئی 1986 کی شام تھی.امامبارگاہ زینبیہ, لٹن روڈ پر آیت اللہ سید مہدی الحکیم شہید خرطوم کا خطا ب تھا۔ وہ شام اس قدر خوبصورت تھی کہ اس کی یاد اب بھی دل میں زندہ ہے. ھلکی ھلکی پھوار پڑ رہی تھی اور ایک عظیم خاندان کا عظیم سپوت خطاب کررہا تھا۔ عقیدت کا مجمع توجہ سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ اس نورانی محفل کا اختتام نماز مغرب سے قبل ہو گیا تھا۔ ھم سب 2.دیوسماج لوٹ آئے تھے۔ وہاں پر ایک نشت تھی جس میں یونورسٹی اور مدارس کے طلبہ باہمی اشتراک پر بات کرہے تھے۔ میں رات گئے اپنے آشیانے پر لوٹ آیا۔ اگلے دن چھٹی تھی۔ میں ناشتہ کر کے اخبار پڑھنے لائبریری چلا آیا۔

اخبار پر پہلی خبر یہ تھی کہ انجیرنگ یونیورسٹی میں دھماکہ،امامیہ اسٹوڈنس آرگنائزیش کے 2-افراد ھلاک اور دو زخمی۔ یہ حملہ امریکہ نے کروایا۔ طلبہ تنظیم کا موقف تھا۔ وھاں سے جلد ہی 2-دیوسماج پہنچا, تو دفتر کا میں گیٹ بند تھا.کچھ لوگ باہر کھڑے تھے۔ سب کے چہروں غم کا اظہار ہو رہا تھا۔ بتایا کہ اندر شہداء کو غسل دیا جارہا ہے۔ کچھ لمحوں کے بعد گیٹ کھل گیا۔ صحن میں 2-تابوت پڑےتھے۔جن میں شہدا کے جسم مبارک رکھے تھے۔ میں نے کچھ تفصیلات دریافت کیں۔ اعلان ہوا کہ جنازے لے کر یو.ای.ٹی جایا جائے گا جہاں نماز جنازہ ادا ہوگئی۔4,5 پک اپ گاڑیاں جنازے لے کریونیورسٹی پہنچے۔ وہاں مسجد کے ساتھ گراوںڈ میں طلبہ جمع تھے اور نعرے لگا رہے کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خلوص، سادگی اور عمل کا نمونہ، مولانا سید صفدر حسین نجفی https://albasirah.com/urdu/safdar-hussain-najfi2/

برادر امتیاز رضوی, مرکزی صدر آئی ایس او نے خطاب کیا، جس میں شہداء کو خراج تحسین، واقعہ کی مذمت اور اپنے پختہ عزم کا اظہارکیا۔ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد جنازے سرگودھا کی جانب روانہ ہوئے اور ھم لوگ امریکہ مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے دفتر آگئے۔ اللہ شہداء کے درجات بلند فرمائے آمین۔