سید ثاقب کی اتحاد امت کیلئے علمی و عملی کوششیں

Published by fawad on

ڈاکٹر سید علی عباس

تحریر: ڈاکٹر علی عباس نقوی

صدر نشین البصیرہ

جناب ثاقب اکبر بانی البصیرہ ٹرسٹ علمی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت تھے۔ علم و تحقیق کا میدان ہو، محافل شعر و سخن ہوں یا اہم عالمی معاملات پر مذاکرے، ملکی مسائل پر رائے کا اظہار ہو یا سماجی خدمات، مذہبی علوم پر ریسرچ ہو یا اسکالرز اور طالبان علم کی راہنمائی، کسی بھی شعبہ زندگی میں آپ کی خدمات اور کوششیں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ نے تحصیل علم کے دوران ہی اپنے آپ کو ایک سماجی کارکن اور رہنماء کے طور پر منوایا۔ بیرون ملک حصول تعلیم کے دوران میں ہی علمی دنیا میں آپ کے عمق نظر اور وسعت مطالعہ کا اعتراف کیا جانے لگا۔ اسی دوران میں آپ نے محسوس کیا کہ عصر حاضر کے مفکرین اسلام کے افکار کو اہل وطن تک پہنچانا ضروری ہے۔ اس احساس نے آپ کو ترجمے کی طرف راغب کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد مختلف علمی امور پر تحقیق اور علمی مصادر و منابع کا ترجمہ اور اشاعت تھی۔ اس مقصد کے لئے آپ نے محققین اور مترجمین کی تربیت اور تیاری کے سلسلے کا بھی آغاز کیا۔

1995ء میں پاکستان واپسی کے بعد آپ نے چند دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ایک ریسرچ اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔ پاکستان میں موجود کئی اسکالرز اس علمی ادارے سے وابستہ اور استفادہ کرتے رہے ہیں۔ اس اکیڈمی میں تفسیر قرآن، علوم حدیث، کلام جدید، فقہ، اصول فقہ اور فلسفہ جیسے بنیادی اسلامی علوم کے حوالے سے مختلف کام کیے گئے۔ اسی طرح قومی و بین الاقوامی سطح پر منعقد ہونے والے سیمینارز کے لیے علمی، اخلاقی اور معلوماتی موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھے گئے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس اکیڈمی کے تحت کئی ایک تحقیقی مجلات کا اجراء کیا گیا، جن میں ماہنامہ پیام اور سہ ماہی المیزان قابل ذکر ہیں۔ سہ ماہی المیزان کئی برس تک جاری رہا، البتہ پیام کی اشاعت کا سلسلہ اب بھی قائم ہے۔

اس مجلے کا مقصد تشنگان علم کی تحقیقی پیاس کو بجھانا اور معاشرے میں حقیقی اسلامی اقدار کا فروغ ہے۔ پاکستان میں موجود گوناگوں مسائل کے حل کے لیے ایک مخلصانہ اور ذمہ دارانہ موقف کا اظہار بھی اس مجلے کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں محقیقن اور مترجمین کی تربیت کے لیے باقاعدہ اداروں کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے آپ نے اخوت ریسرچ اکیڈمی میں باقاعدہ ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن سیکشن قائم کیا، جہاں مترجمین اور محققین کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ذمہ دارانہ صحافت کے شعبے میں بھی جناب ثاقب اکبر کی خدمات بہت زیادہ ہیں۔ وہ نہ فقط خود مختلف ملکی، بین الاقوامی، سیاسی اور سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں انھوں نے تربیت کا ایک نظام بھی قائم کر رکھا ہے۔ ان کے تربیت یافتہ دسیوں صحافی اس وقت عملی صحافتی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

جناب سید ثاقب اکبر کے نظریات کے حوالے سے چند باتیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں، جن کو تالیف جناب سید ثاقب اکبر نے اپنی زندگی میں ہی کروایا:
1۔ آپ کائنات کی مادی تعبیر کو اس کا ناقص تصور قرار دیتے تھے اور اس کی روحانی تعبیر کے قائل تھے۔
2۔ آپ انسانی مساوات اور انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا نظریہ رکھتے تھے۔ آپ دین کی آفاقی اور انسانی تعلیمات پر زور دیتے اور اس کی محدود شناخت کو جمود اور تعصب کا سرچشمہ گردانتے تھے۔
3۔ آپ نظریہ اجتہاد کے علمبردار تھے اور زمان و مکان کی تبدیلی سے حکم کی تبدیلی کے امکان پر مسلسل نظر رکھنے کی دعوت دیتے تھے۔
4۔ آپ انسانی وحدت، انسانی احترام اور قانونی مساوات کو توحید پرستی کے معاشرتی مظاہر میں سے قرار دیتے تھے۔ توحید پرستی ہی کو آپ شخصیت پرستی اور ہر نوع کی غلامی سے نجات کے لئے ناگزیر عقیدہ قرار دیتے تھے۔
5۔ آپ آزادی فکر اور حریت عقیدہ کے پرچم بردار ہیں، اس طرح سے کہ ہر کوئی دوسرے کے لیے اس آزادی و حریت کا عملی طور پر قائل ہو۔
6۔ آپ استعمار اور استثمار کی ہر شکل کے مخالف ہیں اور استعماری قوتوں اور عناصر کے خلاف قوموں اور ملتوں کی جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں۔

جناب سید ثاقب اکبر نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اتحاد امت اور امت کی شیرازہ بندی کے لیے علمی و عملی کاوشوں میں گزارا۔ جناب سید ثاقب اکبر اپنی کتاب امت اسلامیہ کی شیرازہ بندی پیش لفظ، جسے انھوں نے سخن اول اور حرف آرزو کا عنوان دیا میں لکھتے ہیں: "البصیرہ ٹرسٹ کے قیام کے بعد جلد یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ اتحاد و اخوت کے لیے کام کوئی ایسا آسان کام نہیں ہے۔ فرقوں اور مسلکوں کی بنیاد پر معاشرے کی تقسیم اتنی گہری ہوچکی ہے کہ کم ہی کوئی اس کام میں سنجیدگی کا اعتبار کرنے کو بھی تیار ہوتا ہے۔ دین و مذہب کے نام پر اپنا پیسہ اور وقت صرف کرنے والے بھی اپنے مسلک پر خرچ کرنے کے عادی ہیں۔ ہر کوئی یہی رائے رکھتا ہے کہ پہلے اپنوں کی فکر کرنی چاہیئے اور اپنوں سے ہر کسی کی مراد اپنے مسلک کے افراد ہیں۔ ایسے میں ہمارا ہاتھ کون تھامتا۔۔۔۔”

سید ثاقب اکبر مزید لکھتے ہیں: "حالات کے تھپیڑوں نے جدھر بھی دھکیلنے کی کوشش کی، لیکن ہم کہ علی وجہ البصیرت اس نظریئے پر ایمان لائے تھے کہ زمانے کی تمام تر گردشوں کے باوجود اور زمانہ و ابنائے زمانہ کی ستم ظریفیوں کے باوصف اس پرچم کو اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے رہے اور پھر ایک دن آپہنچا کہ اللہ رب العزت کے وجہ جمیل کے صدقے میں کامیابیوں نے اس خاکسار کے دروازے پر دستک دینا شروع کی اور راقم کی نحیف و کمزور آواز دلوں میں اترنے لگی۔ ہر مسلک کے ماننے والوں میں ایسے قابل قدر افراد ملنے لگے، جو ہماری آواز پر سراپا یوں تھے جیسے کہ رہے ہوں
میں نے جانا کہ گویا یہ ہی میرے دل میں ہے

جناب سید ثاقب اکبر نے اتحاد و وحدت کے موضوع پر ایک عظیم الشان کتاب "پاکستان کے دینی مسالک” تحریر کی، جسے تمام مسالک میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ پاکستان کے دینی مسالک لکھنے سے قبل جناب سید ثاقب اکبر نے اسلامی نظریاتی کونسل کے تحت ہی ایک منصوبہ "اسلام و انتہاء پسندی” پر کام کیا۔ امت اسلامیہ کی شیرازہ بندی جناب سید ثاقب اکبر کی اتحاد و وحدت کے موضوع پر تیسری کتاب تھی۔ اس کتاب کے بارے جناب سید ثاقب اکبر لکھتے ہیں: "جوانی کو پیری میں بدل دینے والے گذشتہ سولہ برس میں جہاں دیگر کئی ایک موضوعات پر پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری رہا، وہیں مسلمانوں کی شیرازہ بندی کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر بھی غور و فکر کرنے اور پھر مطالب کو سپرد قلم کرنے کا سلسلہ قائم رہا۔ وقتاً فوقتاً مضامین و مقالات، اخبارات و جرائد وغیرہ میں شائع ہوتے رہے۔

ان میں اس حوالے سے اسلامی تعلیمات اور ان کے تقاضوں پر بھی بات کی گئی ہے، فرقہ واریت کے اسباب و علل کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، معروضی حالات کے پیش نظر اتحاد کی حکمت عملی اور ضرورت پر بھی اظہار نظر کیا گیا ہے، اتحاد کی مختلف صورتوں اور امکانات پر بھی نظر ڈالی گئی ہے، دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے اور علمی و عملی پہلوؤں کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ راقم نے ضرورت محسوس کی کہ ان سب مضامین و مقالات کو ایک کتابی شکل میں اہل فکر و نظر کی خدمت میں پیش کیا جائے، تاکہ تبادل نظر کے زیادہ اور بہتر مواقع حاصل ہوسکیں۔”

جناب ثاقب اکبر نے ان کتب کے علاوہ اتحاد امت، امت اسلامیہ کی شیرازی بندی اور ایسے ہی مسائل پر دسیوں مقالات تحریر کیے۔ اتحاد امت بنیادی طور پر ان کا ہم و غم تھا۔ ان کے تمام مقالات میں اس امر کو یقینی بنایا جاتا کہ کوئی عبارت اتحاد امت کے نظریئے کے خلاف نہ ہو۔ ان کے زیر سرپرستی 1995ء سے ماہنامہ پیام شائع ہو رہا ہے۔ جناب سید ثاقب اکبر نے اس امر کو یقینی بنایا کہ اس مجلے میں بھی اتحاد و وحدت کے منافی کوئی تحریر شامل نہ کی جائے۔ ماہنامہ پیام کے اتحاد و وحدت پر متعدد خصوصی نمبرز شائع کیے گئے۔ ماہنامہ پیام کے ہر شمارے میں ضرور ایک آدھ مقالہ اتحاد امت کے موضوع پر ہوتا تھا۔

جناب سید ثاقب اکبر نے اپنے دیرینہ دوست سید نثار علی ترمذی سے بھی گزارش کی کہ وہ اتحاد کے موضوع پر کام کریں اس سلسلے میں سید نثار علی ترمذی نے علامہ عارف حسین الحسینی اور مولانا سید ابو الاعلی مودودی کے افکار وحدت کو جمع کیا۔ ان کی دونوں کتابیں البصیرہ نے شائع کیں۔ اس وقت بھی مدیر ماہنامہ پیام سید نثار علی ترمذی برصغیر میں اتحاد و وحدت کے لیے کام کرنے والی شخصیات پر کام کر رہے ہیں اور ان کی تیسری کتاب کشکول وحدت تیار ہے، جس میں برصغیر کی پچاس کے قریب شخصیات کی اتحاد امت کے لیے کوششوں کو جمع کیا گیا ہے۔

جناب سید ثاقب اکبر نے تالیف و ترجمہ کے علاوہ اتحاد و وحدت کے لیے عملی کام بھی کیے۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے ان کی اتحاد و وحدت کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے امت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کی تقریظ میں تحریر کیا: "برادرم ثاقب اکبر صاحب حوزہ علمیہ قم کے فارغ التحصیل مستند عالم دین ہیں، لیکن اپنے آپ کو کسی مذہبی فرقے سے منسلک کرنے کے بجائے امت کے اتحاد کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے علماء کا مخصوص لباس پہننے کے بجائے ایک عام مسلمان کا لباس اور ہیئت اختیار کی۔ درد مشترک اور قدر مشترک پر امت کے علماء، دانشوروں اور عوام کو متحد کرنے کا مشن لے کر انھوں نے البصیرہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے اور اس ادارے کے تحت ان کا ایک جریدہ "پیام” بھی 1996ء سے باقاعدگی کے ساتھ منظر عام پر آرہا ہے۔

پاکستان کے مختلف مکاتب فکر کے بارے میں ان کی ایک تحقیقی کتاب "پاکستان کے دینی مسالک” طبع ہوئی ہے، جس پر ہر گروہ نے خود اپنے مسلک کے بارے میں جو بیان فرمایا ہے، اسی کو بنیاد بنا کر ان کا تعارف کروایا ہے۔ انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کسی گروہ پر الزام تراشی کرنے کے بجائے وہ اپنے مسلک کے بارے میں خود جو بیان کرتے ہیں یا اپنے بزرگوں کی تحریروں کے بارے میں جو وضاحت کرتے ہیں، اس کو قبول کیا جائے۔۔۔ ملی یکجہتی کونسل کا پلیٹ فارم اسی لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ اس کونسل کا احیاء کرنے میں برادرم ثاقب اکبر صاحب کا اہم رول ہے۔ اس وقت وہ ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل ہیں اور امت کے اتحاد کے لیے ہمہ تن کوشاں ہیں۔

جناب سید ثاقب اکبر 2011ء سے ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل تھے اور تادم آخر اسی منصب پر کام کرتے رہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے اجلاسوں، میٹنگز، کانفرنسوں کے روح رواں ہوتے تھے اور کونسل کی کارکردگی کی رپورٹوں سے لے کر اعلامیہ کی تیاری نیز اجلاسوں کی نظامت کے امور جناب سید ثاقب اکبر کونسل کے سیکریٹری جنرل جناب لیاقت بلوچ کے ہمراہ انجام دیتے تھے۔ کونسل کے اجلاسوں کے لیے جناب سید ثاقب اکبر نے دیگر قائدین کے ہمراہ ملک بھر کے دورہ جات کیے، کونسل کے صوبائی نظم کی تنظیم نو، صوبائی اجلاس، کمیشنز کے اجلاس، کانفرنسیں کوئی ایسی محفل نہیں، جس میں جناب سید ثاقب اکبر موجود نہ ہوں۔ اجلاسوں کے دوران بعض اوقات پیدا ہونے والی بدمزگی کو جناب سید ثاقب اکبر انتہائی دانشمندی سے حل کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔۔۔
https://albasirah.com/urdu/milny-k-nahe-ham/