پنجاب کی تقسیم، فراموش شدہ تاریخ اور عبرتیں(2)

Published by fawad on

سید اسد عباس

تحریر: سید اسد عباس

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
1926ء راولپنڈی جامعہ مسجد باغ سرداراں سے شروع ہونے والے فسادات پر انگریز حکومت نے پردہ ڈالا، کیونکہ اس سے قبل کیرالہ میں 1921ء میں مذہبی انتہاء پسندی کے واقعات کے سبب دس ہزار افراد قتل ہوچکے تھے۔ پنڈی کے واقعے کے حوالے سے مقدمات درج ہوئے، تاہم جو حل انگریز حکومت نے نکالا، وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو بھی گردواروں کے سامنے جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی۔ اسی سبب 1927ء میں پہلا عید میلاد النبی ؐ کا جلوس نکلا، جس میں مسلمانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ پنجاب کے مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کے مابین چپقلش میں شدت کا آغاز تحریک خلافت کے بعد سے ہوا۔ تحریک خلافت کا آغاز اگرچہ انگریزوں کے خلاف کیا گیا تھا اور اس کا مقصد خلافت عثمانیہ کا دفاع تھا، تاہم کانگریس کی حمایت کے باوجود اس کا رخ ہندوؤں کی جانب بھی ہوگیا۔ ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر یہاں سے افغانستان کی جانب ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا۔ افغانستان جانے والے قافلے راولپنڈی ہی مقیم ہوئے اور انھوں نے خلافت کے احیاء کے حوالے سے وعظ و نصیحت کی۔ ایسی صورتحال میں مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ نے مسلمانوں کے عقیدتی تصورات کو سیاسی بیانیہ دیا، جس نے معاشرے میں تقسیم کو مزید گہرا کرنا شروع کر دیا۔

1930ء میں علامہ محمد اقبال نے مسلم لیگ کے اجلاس میں مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک ریاست کا تصور دیا، چوہدری رحمت علی نے 1933ء میں Now or Never کے نام سے اسی نظریئے کو آگے بڑھایا۔ لاہور منٹو پارک میں 1940ء کی قرارداد ہماری تاریخ کا حصہ ہے، جس میں باقاعدہ طور پر مسلمانوں کی الگ ریاست کا مطالبہ کیا گیا۔ اس سے قبل 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے برطانوی ہند کے 1585 کے ایوان میں فقط 106 سیٹیں جیتیں، پنجاب میں مسلم لیگ کو فقط 2 سیٹیں ملیں، جبکہ جاگیرداروں پر مشتمل یونیونسٹ پارٹی جو ہندو، مسلمان اور سکھوں پر مشتمل تھی، انہوں نے 95 سیٹیں جیتیں، سندھ میں مسلم لیگ ایک سیٹ بھی نہ جیت سکی، سرحد میں باچا خان کی سربراہی میں کانگریس نے حکومت قائم کی۔ 1942ء میں گاندھی نے Quit India تحریک کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں کانگریس کی پوری قیادت گرفتار ہوگئی۔

مسلم لیگ نے اس موقعے سے بھرپور استفادہ کیا، یونینسٹ پارٹی کے وزیراعلیٰ سکندر حیات خان اور قائد اعظم کے مابین معاہدہ ہوا اور تمام مسلمان یونینسٹ ممبران کو مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کرنے کو کہا گیا۔ دو قومی نظریہ اور اسلامی ریاست کے نعروں کے ساتھ مسلمان علماء اور پیروں تک رسائی کی گئی اور ملک بھر میں خالص اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام لیے کمپین کی گئی، مخالفین نے بھی کمپین کی، تاہم اسلامی ریاست کے احیاء کی کمپین زور دار تھی اور یہ بیانیہ عوام میں سرایت کر گیا۔ جس کا نتیجہ 1945ء کے انتخابات میں موصول ہوا۔ سندھ میں مسلم لیگ نے 25 اور پنجاب میں 75 سیٹیں جیتیں اور یوں صوبے کی سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے والی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ اکالی دل، کانگریس، سکھ پارٹی اپنی سیٹیں تو جیت گئیں، تاہم گذشتہ الیکشن کی فاتح جماعت یونینسٹ پارٹی صوبے میں چوتھے نمبر کی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔

1937ء اور 1945ء کے انتخابات کے نتائج کو دیکھ کر انسان بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ کس طرح مسلم لیگ نے معاشرے میں ذہن سازی کی اور کیسے وہ فقط آٹھ سال بعد مسلم اکثریتی علاقوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر ابھری۔ پنجاب کی اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود مسلم لیگ حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ اکثریت نہ حاصل کرسکی اور پنجاب کی دیگر جماعتوں جن میں ہندو اور سکھ زیادہ تعداد میں تھے، مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوئیں۔ پنجاب میں مخلوط حکومت کے قیام نے پنجاب کے مسلمانوں کے ذہنوں میں غم و غصہ بھر دیا۔ کانگریس میں سے بعض حلقوں نے برصغیر کی آزادی کے دو ریاستی حل کو قبول کرنا شروع کر دیا، اگرچہ اکثر حکمران جن میں گاندھی بھی شامل ہیں، انڈیا کی تقسیم کے قائل نہ تھے۔ پنجاب کے سکھوں اور ہندؤوں نے بھی تقسیم کی مخالفت کی، پنجاب کے سکھوں کا کہنا تھا کہ اگر تقسیم ہی آخری حل ہے تو پھر صوبہ پنجاب کو بھی مذہب کی بنیاد پر الگ ریاست بنایا جائے۔ وہ مسلم لیگ کے پاکستان میں رہنے کے لیے کسی طور پر بھی تیار نہ تھے اور ہندوستان سے الحاق کو ترجیح دیتے تھے۔

جنگ عظیم دوم کے بعد چونکہ برطانیہ اقتصادی مسائل سے دوچار تھا اور اس کے فوجیوں کی تنخواہیں امریکا فراہم کر رہا تھا، لہذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ برطانیہ اپنے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرے، تاکہ اخراجات کے بوجھ کو کم کیا جاسکے۔ بالآخر امریکی دباؤ کے تحت برطانوی حکومت نے اعلان کیا کہ جون 1948ء تک ہم انڈیا کو آزاد کر دیں گے۔ علاقوں کی تقسیم کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز پر مشتمل باونڈری کمیشن بنایا گیا، جو کسی بھی نتیجے پر نہ پہنچ سکا اور فیصلہ ریڈ کلف کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا۔ پنجاب کے ہندو اور سکھ تقسیم کے خلاف تھے اور مسلمان اکثریتی مسلم علاقوں پر مشتمل ایک ریاست کے قیام کے حامی۔ دسمبر 1946ء میں ہزارہ ڈویژن کے ہندوؤں اور سکھوں کو مار بھگانے کے سلسلے کا آغاز ہوا، جس میں سینکڑوں سکھ خاندان مانسہرہ، ہری پور، ایبٹ آباد کے علاقوں سے جانیں بچا کر راولپنڈی اور واہ کے رفیوجی کیمپس میں آنے لگے۔ ہزارہ ڈویژن سے سکھوں اور ہندؤوں کی مہاجرت کا سلسلہ جنوری تک جاری رہا۔ ان میں سے کچھ خاندان جانیں بچا کر مشرقی پنجاب چلے گئے۔

اسی دوران 3 مارچ 1946ء کو اکالی دل کے راہنماء ماسٹر تارا سنگھ نے پنجاب اسمبلی کے باہر کرپان لہراتے ہوئے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا اور تقسیم کی مخالفت کی۔ اگلے روز لاہور میں سکھ اور ہندو طلبہ نے مظاہرہ کیا، جس پر لاہور کے مسلم اکثریتی علاقے متی چوک پر حملہ ہوا، آٹھ طلبہ مارے گئے، 5 مارچ کو ملتان اور راولپنڈی میں بھی ہندو سکھ طلبہ نے پاکستان کے قیام کے خلاف مظاہرہ کیا، جس کے بعد لاہور ڈویژن، پوٹھوہار ڈویژن اور ملتان ڈویژن میں ہندوؤں اور سکھوں کے علاقوں اور املاک پر حملے شروع ہوئے، جس میں سینکڑوں ہندو اور سکھ مارے گئے۔ برٹش گورنمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ان فسادات میں تقریباً دو ہزار کے قریب ہندو اور سکھ قتل ہوئے، تاہم خود سکھوں کے اعداد و شمار کے مطابق ان واقعات میں تقریباً 7000 ہندو اور سکھ قتل ہوئے، چار ہزار کے قریب ہندو اور سکھ خواتین اغواء کی گئیں۔

3 مارچ 1947ء کو شروع ہونے والے ان واقعات کا اہم ترین واقعہ 13 مارچ 1946ء کو کلر سیداں راولپنڈی کے قریب علاقے تھوا خالصہ میں ہوا، جس میں 93 سکھ خواتین نے کوئیں میں کود کر خودکشی کی، تاکہ مسلمانوں کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔ سکھ اور مسلم روایات کے مطابق بلوائی سکھوں اور ہندوؤوں کو مسلمان ہونے کا کہتے، جو انکار کرتا اس کو مکانوں سمیت جلا دیا جاتا۔ سکھوں اور ہندؤوں کی مہاجرت اور ان پر ہونے والے ظلم و ستم کی کہانیاں مشرقی پنجاب پہنچنے لگیں۔ مارچ کے بعد بھی ہندؤوں اور سکھوں پر حملوں کا سلسلہ جاری رہا، جو اگست 1947ء میں اپنے عروج پر پہنچا۔ 17 اگست 1947ء کو ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت تقسیم کا منصوبہ سامنے لایا گیا، جس سے سرحد کے دونوں جانب لاکھوں لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ سرحد کی غلط سمت میں موجود ہیں۔ سکھ سمجھتے تھے کہ لاہور، لائل پور، منٹگمری اور شیخوپورہ کے کچھ اضلاع مشرقی پنجاب کا حصہ بنیں گے۔ اسی طرح مسلمانوں کا خیال تھا کہ جالندھر ڈویژن کے بعض اضلاع مسلم اکثریت کے سبب پاکستان کا حصہ بنیں گے۔

سترہ اگست سے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی ہجرت کا آغاز ہوا، جن میں سے مختلف اعداد و شمار کے مطابق سرحد کے دونوں جانب 10 سے 30 لاکھ انسان راستے میں ہی موت کا شکار ہوگئے۔ باؤنڈری فورس جو حفاظت کے لیے بنائی گئی تھی، قتل میں شریک ہوگئی۔ تقریباً 93 ہزار خواتین اغواء ہوئیں، جن میں سے اکثر بازیاب نہ کروائی جا سکیں۔ جبری طور پر مذہب تبدیل کروائے گئے، اغوا شدہ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور یہ واقعات سرحد کی دونوں جانب ہوئے۔ اگرچہ مسلمان مہاجرین کا جانی نقصان زیادہ ہوا اور سکھوں اور ہندؤوں کا مالی۔ ان واقعات کے عینی شاہد آج بھی موجود ہیں اور ان کی ریکارڈڈ ویڈیوز یوٹیوب اور دیگر چینلز پر موجود ہیں۔ سکھوں نے مسلمانوں کی جانب سے ہونے والی اس نسل کشی کے شواہد کو جمع کیا ہے، جس کی رپورٹس آن لائن دستیاب ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد کی کتاب میں بھی ان واقعات کی تفصیل موجود ہے۔

سرحد اور پنجاب کی تاریخ کا یہ فراموش کردہ باب نقل کرنے کا مقصد ان واقعات میں چھپی عبرتوں کو تلاش کرنا ہے۔ الگ ریاست کا سوال یقیناً مسلمانوں کا حق تھا، سکھ اور ہندو جو پنجاب میں صاحب ثروت تھے، ان کے چنگل سے نکلنا بھی مسلمانوں کا استحقاق تھا، تاہم زبردستی مذہب تبدیل کروانا، گھروں، عبادگاہوں کو جلانا اور انھیں مسمار کرنا، لوٹنا، بچوں، بوڑھوں، عورتوں، پناہ مانگنے والوں، تسلیم ہونے والوں، ہتھیار نہ اٹھانے والوں کو اجتماعی طور پر قتل کرنا کہاں کا اسلام ہے۔؟ گلے کاٹ کر بچوں کو برچھیوں میں پرونا کس اسلام کی عکاسی ہے؟ رمضان المبارک کے مہینے میں نماز تراویح پڑھ کر ہندو اور سکھ خواتین کو اغوا ء کرکے لونڈیاں بنانا کونسا جہاد ہے؟ میں نہیں کہتا کہ مشرقی پنجاب میں مسلمان مہاجرین کے ساتھ ہونے والا ظلم 1946ء کے آخر اور 1947ء کے آغاز میں سرحد اور پنجاب میں ہونے والے ہندو سکھ قتل عام کا انتقام تھا، وہ بربریت اور درندگی تھی جس کو کوئی بھی شخص انسانیت نہیں قرار دے سکتا۔ تاہم اس کا آغاز بہرحال ہزارہ ڈویژن، راولپنڈی ڈویژن، ملتان ڈویژن اور لاہور ڈویژن سے ہوا۔

خالص اسلامی ریاست کے قیام کا یہ طریقہ کار کسی طور پر قابل قبول اور قابل توجیہ نہیں ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اگرچہ سب کو پرامن رہنے کا کہا، انھوں نے گیارہ اگست 1947ء کے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ اپنے مندروں، گردواروں اور گرجوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ ریاست کا آپ کے عقیدہ سے کچھ لینا دینا نہیں، لیکن اس وقت تک سکھ اور ہندو فیصلہ کرچکے تھے کہ وہ اس پاکستان میں نہیں رہ سکیں گے۔ ہم نے اکثر سکھوں اور ہندؤوں سے ان کے محل اور ماڑیاں جبراً خالی کروائیں، ان کو جبراً مسلمان کیا، جو مسلمان نہ ہوئے، ان کو قتل کیا۔ ان واقعات کے ذمہ داران کا تعین کرنا ضروری ہے، کیونکہ وہ نہ فقط ان سکھوں اور ہندؤوں کے مجرم ہیں، جن کو انھوں نے لوٹا اور قتل کیا بلکہ وہ ان مسلمانوں کے بھی مجرم ہیں، جن کو مشرقی پنجاب میں سکھوں کے مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب کی تقسیم، فراموش شدہ تاریخ اور عبرتیں(1)
https://albasirah.com/urdu/punjab-ki-taqseem/

پنجاب کی تقسیم
https://dailypakistan.com.pk/08-Feb-2019/922726