پاکستان، یہ ہُوا تو ہے
پاکستان میں ماضی میں بھی بہت کچھ ہوچکا ہے۔ امریکی مداخلت کی تاریخ کوئی نئی تو نہیں۔ حکومتوں کی تبدیلی میں اس کا کردار پہلے بھی معلوم، ملموس یا مشہود رہا ہے۔ ہمارے حکمران عالمی استعمار کے چشم و ابرو کا اشارہ پا کر کٹھ پتلیوں کی طرح رقص فرما رہے ہیں۔ ہمارے فوجی حکمران تو گویا اپنے اقتدار کی ساری طاقت اور جواز اسی سے حاصل کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری فوج کئی محاذوں پر اُس کے مفادات کی آلہ کار رہی ہے۔ آج بھی دنیا کے کئی معرکوں میں اُس کی گرم و سرد شرکت اُسی کی ضروریات کی کفالت کے لیے ہے۔ ہمارا ملک حکمرانوں کی بد تدبیری ہی کی وجہ سے دولخت نہیں ہوا بلکہ عالمی مہربان دوستوں پر حسن اعتماد کا بھی نتیجہ ہے۔ ریاست کے تمام شعبوں اور نظاموں کے تمام دائروں میں عالمی سامراج کا اثر و رسوخ دکھائی دیتا رہا ہے۔ عدالتوں نے بھی نظریہ ضرورت کے تحت ایوب خان کے مارشل لاء کی تائید کی۔ ضیاء الحق کے اقدام کی حمایت کے علاوہ بھٹو کا عدالتی قتل ہمارے نظام انصاف کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکے کی حیثیت رکھتا ہے۔
۔۔۔لیکن اس مرتبہ انہونی ہوگئی ہے۔ اس وقت تک یہ امور واضح اور ثابت ہوچکے ہیں:
* امریکہ نے پاکستان کے امور میں کھلی مداخلت کی ہے۔ یہ امر گذشتہ اور موجودہ حکومت میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کہی اور تسلیم کی گئی ہے۔
* پاکستان کے واشنگٹن میں موجود سفارتخانے کی طرف سے ریاست پاکستان (وزارت خارجہ اور متعلقہ ادارے) کو موصول ہونے والے (اب شہرہ آفاق) مراسلے میں رجیم چینج کے لیے امریکہ نے دھمکی کے ساتھ اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
* اس پراسیس کے لیے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک (جو ابھی پیش ہونا تھی) کی حمایت کی گئی ہے۔
* پاکستان میں پہلی مرتبہ کوئی حکومت سینہ تان کر اس امریکی خواہش کے خلاف کھڑی ہوگئی۔
* سابق وزیراعظم نے امریکہ کی اس ’’کھلی مداخلت‘‘ کی مزاحمت کی اور اب عوامی طاقت سے اسے ناکام بنانے کے مشن پر ہیں۔
* بظاہر پاکستان میں رجیم چینج تو ہوچکی ہے لیکن نئی آنے والی حکومت عوام میں اتنی منفور اور رسوا ہے کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
* اعلیٰ عدلیہ نے اس رجیم چینج کی جس انداز سے کمک کی ہے، وہ اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ آشکار ہوچکی ہے۔
* فوجی قیادت کا ’’رجیم چینج‘‘ کے لیے بنیادی کردار بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا۔
* سیاسی لوٹا کریسی کی روایت بھی پاکستان میں پرانی ہے، لیکن رجیم چینج کے لیے اس مرتبہ ملک کی حکمران اور سب سے بڑی پارٹی میں جس طرح سے نقب لگائی گئی ہے، اسے عوام نے انتہائی نفرت کی نظر سے دیکھا ہے اور اس کے خلاف جس طرح کا عوامی ردعمل اس مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے، وہ بھی پاکستان کی تاریخ میں بے مثال ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے بار بار ان تمام امور کو نہایت صراحت و وضاحت سے عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ عوام ان تمام تر پہلوئوں کو بہت اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اور اس رجیم چینج کو جو کھلی بیرونی مداخلت کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوئی، اسے پلٹنے کے لیے یکسو ہوچکی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستانی عوام ملک کے اندر اور باہر اپنا ردعمل دے رہے ہیں، جسے سابق وزیراعظم ایک نقطے پر مرتکز کر رہے ہیں۔ وہ یہ کام نہایت مہارت اور بظاہر احتیاط سے کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایک ہی مطالبہ سامنے رکھا ہے: ’’نئے عام انتخابات۔‘‘ یہ وہ مطالبہ ہے جو موجودہ حکومت میں شامل بنیادی سیاسی جماعتیں گذشتہ تین برس سے کرتی آرہی ہیں۔ اسی ایک مطالبے کے تسلیم ہو جانے سے ’’رجیم چینج‘‘ کے لیے کھلی مداخلت ناکام ہو جائے گی۔ ملک میں آزاد خارجہ پالیسی کی روایت پڑ جائے گی۔
استعماری قوتوں کے مفادات کے آلہ کار تمام عناصر جو رسوا تو ہو ہی چکے ہیں، کمزور بھی ہو جائیں گے۔ ’’ہم دوستی چاہتے ہیں لیکن غلامی نہیں کریں گے‘‘ کا بیانیہ مضبوط ہوگا۔ آئندہ آنے والے حکمرانوں کے لیے جرأت مندی کی ایک روشن مثال قائم ہو جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیداری اور ضروری احتیاط کے ساتھ نئے سرے سے داخلی اور خارجی حکمت عملی کے خطوط مرتب کیے جائیں۔ پاکستان کو ترقی کرتی ہوئی ایک مستحکم و خوشحال ریاست بنانے کے عزم پر تمام ادارے متفق ہو جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ذاتی، وقتی اور انفرادی مفادات پر اجتماعی ملکی اور ریاستی مفادات کو قربان کرنے والوں کو جرأت مندی سے قربان کر دیا جائے اور انھیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ اس طرح عوام اور ریاستی اداروں کے مابین ایک ایسی ہم آہنگی پیدا ہوسکے گی، جو دشمنوں کے ارادوں کو خاک میں ملا دے گی۔
۔۔۔لیکن اس مرتبہ انہونی ہوگئی ہے۔ اس وقت تک یہ امور واضح اور ثابت ہوچکے ہیں:
* امریکہ نے پاکستان کے امور میں کھلی مداخلت کی ہے۔ یہ امر گذشتہ اور موجودہ حکومت میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کہی اور تسلیم کی گئی ہے۔
* پاکستان کے واشنگٹن میں موجود سفارتخانے کی طرف سے ریاست پاکستان (وزارت خارجہ اور متعلقہ ادارے) کو موصول ہونے والے (اب شہرہ آفاق) مراسلے میں رجیم چینج کے لیے امریکہ نے دھمکی کے ساتھ اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
* اس پراسیس کے لیے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک (جو ابھی پیش ہونا تھی) کی حمایت کی گئی ہے۔
* پاکستان میں پہلی مرتبہ کوئی حکومت سینہ تان کر اس امریکی خواہش کے خلاف کھڑی ہوگئی۔
* سابق وزیراعظم نے امریکہ کی اس ’’کھلی مداخلت‘‘ کی مزاحمت کی اور اب عوامی طاقت سے اسے ناکام بنانے کے مشن پر ہیں۔
* بظاہر پاکستان میں رجیم چینج تو ہوچکی ہے لیکن نئی آنے والی حکومت عوام میں اتنی منفور اور رسوا ہے کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
* اعلیٰ عدلیہ نے اس رجیم چینج کی جس انداز سے کمک کی ہے، وہ اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ آشکار ہوچکی ہے۔
* فوجی قیادت کا ’’رجیم چینج‘‘ کے لیے بنیادی کردار بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا۔
* سیاسی لوٹا کریسی کی روایت بھی پاکستان میں پرانی ہے، لیکن رجیم چینج کے لیے اس مرتبہ ملک کی حکمران اور سب سے بڑی پارٹی میں جس طرح سے نقب لگائی گئی ہے، اسے عوام نے انتہائی نفرت کی نظر سے دیکھا ہے اور اس کے خلاف جس طرح کا عوامی ردعمل اس مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے، وہ بھی پاکستان کی تاریخ میں بے مثال ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے بار بار ان تمام امور کو نہایت صراحت و وضاحت سے عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ عوام ان تمام تر پہلوئوں کو بہت اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اور اس رجیم چینج کو جو کھلی بیرونی مداخلت کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوئی، اسے پلٹنے کے لیے یکسو ہوچکی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستانی عوام ملک کے اندر اور باہر اپنا ردعمل دے رہے ہیں، جسے سابق وزیراعظم ایک نقطے پر مرتکز کر رہے ہیں۔ وہ یہ کام نہایت مہارت اور بظاہر احتیاط سے کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایک ہی مطالبہ سامنے رکھا ہے: ’’نئے عام انتخابات۔‘‘ یہ وہ مطالبہ ہے جو موجودہ حکومت میں شامل بنیادی سیاسی جماعتیں گذشتہ تین برس سے کرتی آرہی ہیں۔ اسی ایک مطالبے کے تسلیم ہو جانے سے ’’رجیم چینج‘‘ کے لیے کھلی مداخلت ناکام ہو جائے گی۔ ملک میں آزاد خارجہ پالیسی کی روایت پڑ جائے گی۔
استعماری قوتوں کے مفادات کے آلہ کار تمام عناصر جو رسوا تو ہو ہی چکے ہیں، کمزور بھی ہو جائیں گے۔ ’’ہم دوستی چاہتے ہیں لیکن غلامی نہیں کریں گے‘‘ کا بیانیہ مضبوط ہوگا۔ آئندہ آنے والے حکمرانوں کے لیے جرأت مندی کی ایک روشن مثال قائم ہو جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیداری اور ضروری احتیاط کے ساتھ نئے سرے سے داخلی اور خارجی حکمت عملی کے خطوط مرتب کیے جائیں۔ پاکستان کو ترقی کرتی ہوئی ایک مستحکم و خوشحال ریاست بنانے کے عزم پر تمام ادارے متفق ہو جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ذاتی، وقتی اور انفرادی مفادات پر اجتماعی ملکی اور ریاستی مفادات کو قربان کرنے والوں کو جرأت مندی سے قربان کر دیا جائے اور انھیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ اس طرح عوام اور ریاستی اداروں کے مابین ایک ایسی ہم آہنگی پیدا ہوسکے گی، جو دشمنوں کے ارادوں کو خاک میں ملا دے گی۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Share this content: