پاکستان کا آئینی سفر اور اہم سوالات(2)

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس
گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔
1962ء کا آئین
ملک میں 1958ء میں مارشل لاء لگنے کے سبب 56 کا آئین اپنے ظہور کے دو برس بعد ہی معطل ہوگیا۔ اس وقت کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور بعد کے صدر ایوب خان نے  نئے آئین کی تشکیل کے لیے ایک کمیشن چیف جسٹس محمد شہاب الدین کی سرکردگی میں قائم کیا۔ اس کمیشن نے اپنی تجاویز 1961ء میں پیش کیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایوب خان نے چیف جسٹس محمد شہاب کی تجاویز کو مکمل بدل کر 1962ء میں ایک نیا آئین پیش کر دیا۔ اس آئین کے تحت ملک میں صدارتی نظام نافذ کیا گیا۔ 1956ء کے برعکس یہ آئین صدر کو زیادہ اختیارات تفویض کرتا تھا۔ بنیادی طور پر یہ آئین صدر ایوب نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے پیش کیا تھا، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ صدر ایوب نے اپنے اقتدار کے لیے فاطمہ جناح کو بھی نہ بخشا۔

1970ء کا لیگل فریم ورک آرڈر
صدر ایوب نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل یحیٰی کو مارشل لاء لگانے کا کہا، یوں یحییٰ ملک کے سربراہ بن گئے۔ ملک میں عام انتخابات کروانے کے لیے جنرل یحییٰ خان نے ایک لیگل فریم ورک آرڈر کا اعلان کیا۔ 1970ء میں ملک بھر میں انتخابات ہوئے، جس میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان اور پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی۔ عوامی لیگ نے لیگل فریم ورک آرڈر کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ 1971ء میں عوامی لیگ، پیپلز پارٹی اور فوج کے مابین مذاکرات ہوئے، جو بے نتیجہ رہے۔ یوں ہندوستان کی مداخلت کے سبب ڈھاکہ پاکستان سے جدا ہوگیا۔

1973ء کا آئین
73 کا آئین، جسے آئین پاکستان بھی کہا جاتا ہے، تقسیم پاکستان کے بعد کی کاوش ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جو 1962ء کے آئین کے مطابق امور سلطنت چلا رہے تھے، انہوں نے 1972ء میں ملک کی سیاسی جماعتوں کو آئین کی تشکیل کے لیے مدعو کیا اور آئینی کنونشن منعقد کیا، جس میں سیاسی جماعتوں کے قائدین، قانونی ماہرین، آئینی ماہرین، مذہبی راہنماوں کی بڑی تعداد نے نئے آئین کی تشکیل کے لیے مل کر کام کیا۔ ملک کی قومی اسمبلی کے تمام اراکین نے نئے آئین کو فروری 1973ء میں قبول کیا، یہ آئین اپریل 1973ء میں اتفاق رائے سے منظور ہوا اور 14 اگست 1973ء کو اس آئین کی توثیق نیز نفاذ کر دیا گیا۔ اسی روز صدر ذوالفقار علی بھٹو کو ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے اعتماد کا ووٹ ملا اور فضل الہیٰ کو ملک کا صدر بنا دیا گیا۔

جیسا کہ قبل ازیں ذکر کیا گیا کہ 73 کا آئین پارلیمانی آئین ہے، جس میں وزیراعظم ملک کا سربراہ ہے۔ اس آئین کی رو سے انسانی، مذہبی آزادیوں کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔ اسلام کو ریاستی مذہب قرار دیا گیا۔ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کو از سر نو بیان کیا گیا۔ اس آئین کے تحت تمام ریاستی اداروں کے مابین توازن کو یقینی بنایا گیا۔ احتساب، اختیار کو بیان کیا گیا۔ مقننہ کے دو ایوان تشکیل دیئے گئے۔ اس آئین کے تحت چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ پر مشتمل ایک کونسل تشکیل دی گئی، اسی طرح قومی معاشی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا، جو این ایف سی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ترامیم
گذشتہ آئینی دستاویزات کے برعکس 73 کا آئین بدلا نہیں جاسکتا۔ اس آئین میں ترمیم کے لیے پارلیمان میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ اسی طرح ہر ترمیم کو دونوں ایوانوں کی تائید حاصل ہونی چاہیئے۔ وفاق سے متعلق ترامیم کے لیے قانون سازوں کی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ آئین پاکستان میں اب تک 25 ترامیم ہوچکی ہیں، جن میں صدر ضیاءالحق کی آٹھویں ترمیم، پرویز مشرف کے دور میں کی گئی ستھرویں ترمیم، جس کے تحت ملک کا نظام پارلیمانی کے بجائے نیم صدارتی کیا گیا اور پیپلزپارٹی کے تیسرے دور اقتدار 2010ء میں کی گئی اٹھاریوں ترمیم شامل ہیں، جس کے تحت ایک مرتبہ پھر ملک کو پارلیمانی نظام کے تحت کر دیا گیا۔ آئین میں پچیسویں ترمیم فاٹا کے علاقوں کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے سے متعلق ہے، جو عمران خان کے دور اقتدار میں آئین کا حصہ بنی۔

آئین پاکستان کی مختلف شقیں ابتدائیہ سمیت 12 اجزاء پر مشتمل ہیں، جن میں تعارف، بنیادی حقوق، وفاق پاکستان، صوبے، وفاق اور صوبوں کے تعلقات، معیشت، عدلیہ، انتخابات، اسلامی احکامات، ہنگامی احکامات، آئین میں ترمیم نیز متفرقات پر مشتمل ہیں۔ آئین میں بیوروکریسی اور حکومتی پالیسیوں سے متعلق بھی کچھ اجزاء شامل ہیں، جن کو شیڈول کا عنوان دیا جاتا ہے۔ 73ء کے آئین پر اس وقت کی اسمبلی کے 150 اراکین نے دستخط کیے جبکہ میاں محمد علی قصوری، ڈاکٹر عبد الحئی بلوچ، عبد الخالق خان، حاجی علی احمد خان اور نظام الدین حیدر نے دستخط نہ کیے۔

چند اہم سوالات
ہم نے سطور بالا میں تفصیلات میں گئے بغیر اجمالی طور پر پاکستان کے آئینی سفر کو بیان کیا۔ صورتحال یہ ہے کہ ملک میں موجود اداروں، سیاستدانوں، قانونی و آئینی ماہرین، دانشوروں اور مذہبی سکالرز سے 73ء کے آئین کی تعریفیں سنتے نہیں تھکتے۔ ہر شخص آئین کی پاسداری کی بات کرتا ہے، لیکن عام شہری یہ سوال کرتا ہے کہ اس آئین کو توڑنے اور اس کے خلاف عمل کرنے میں کون ملوث ہے۔؟ کیا آئین توڑنے والوں اور اس کی روح کے خلاف عمل کرنے والوں کے خلاف کوئی سزا اس آئین میں تجویز ہے۔؟ کیا یہ آئین اس قابل نہیں ہے کہ اس کی روح کو معطل کرنے والوں کو روک سکے۔؟ آئین کی خلاف ورزی کا سدباب کس کی ذمہ داری ہے۔؟ آئین کے ہوتے ہوئے غیر آئینی اقدامات کیا اس بات کا عندیہ نہیں ہیں کہ اس آئین سے اوپر بھی ایک آئین موجود ہے ،جو آئین پاکستان کی تحریر کا حصہ نہیں ہے۔؟ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس ملک کے ساتھ کب تک تجربات کا سلسلہ جاری رہے گا۔؟ کیا ہمارے لیے ایک تقسیم کا سبق کافی نہیں ہے۔؟ عوام کو تو ہم نے اپنے ذاتی مفادات پر قربان کر ہی دیا، کیا ہم وطن کو بھی ان مفادات کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔؟

ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی تحریر خواہ کتنی ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو، جب تک اس پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل نہ کیا جائے، بہتری کے لیے کسی معجزے کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے۔؟ آئین کہتا ہے کہ مقننہ کے اراکین کو صادق و امین ہونا چاہیئے، یہاں صورتحال یہ ہے کہ پاکستان بھر کے چور، اچکے، رسہ گیر ایوانوں کا حصہ ہیں۔ آئین کہتا ہے اگر کوئی شخص صادق و امین نہیں ہے تو اس کو ایوان سے بے دخل کیا جائے، یہاں اس کے خلاف ثبوت ہی پورے نہیں ہوتے۔ ثبوت مل بھی جائیں تو خارجی قوتیں اس اچکے کو اپنی پناہ میں لے لیتی ہیں اور ملکی ادارے بے بسی سے منہ میں انگلیاں ڈالے ایک دوسرے کو تکتے رہتے ہیں، جبکہ اگر کوئی جرم کسی کمزور سے سرزد ہو جائے تو نسلوں کو اس جرم کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔

آئین کہتا ہے مقننہ کے اراکین کی خرید و فروخت جرم ہے، ضمیر فروش کو مقننہ میں رہنے کا کوئی حق نہیں، لیکن اس ضمیر فروشی کی سزا کا تعین کب ہوگا، اس پر ہمارے ادارے عجیب قسم کی سستی اور کاہلی کا شکار ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ شہری آزادی، مذہبی آزادی، مواقع کی فراہمی، عدالت تک رسائی ہر شہری کا حق ہے اور پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ جب جس کا دل چاہتا ہے، ان آئینی حقوق سے کھلواڑ کرتا ہے اور ادارے آنکھوں پر غفلت کی پٹی باندھ کر گونگے بہرے بن جاتے ہیں۔ کیا اس طرح پاکستان ترقی کر پائے گا۔؟ سوالات اور بھی بہت ہیں، جو آج ہر سوچنے والا پاکستانی کرتا ہے، تاہم یہ وہ سوالات ہیں، جن کا جواب ہر ذمہ دار کو دینا ہے اور نہ صرف یہ کہ جواب دینا ہے بلکہ ان غلطیوں کی اصلاح کرنی ہے، ورنہ ہمیں ذہنی طور پر کسی بھی بڑے حادثے کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔ بقول قابل اجمیری:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا