پاکستان کا آئینی سفر اور اہم سوالات(1)

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس
کسی بھی ملک کا آئین اگرچہ کوئی الہامی دستاویز تو نہیں ہے، تاہم عوام کی اکثریت سے توثیق حاصل کرنے والا یہ اساسی مسودہ اہم ضرور ہوتا ہے۔ اگر اس مسودے کا احترام نہ کیا جائے اور اس دستاویز کو اس کی حقیقی روح کے مطابق نافذ نہ کیا جائے تو ملک کے امور میں وہ توازن نہیں پیدا ہوسکتا، جو اس دستاویز کا حقیقی ہدف ہے۔ آئین پاکستان 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران تیار کیا گیا، جس کے لیے ان کی حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کی بھی حمایت حاصل تھی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے اعلیٰ ترین دماغوں نے قیام پاکستان سے لے کر تقسیم پاکستان تک کے اپنے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسی دستاویز تیار کی، جس کے تحت ایک وفاق قائم کیا گیا، جس میں پاکستان کے صوبوں کے عوام اور عوامی نمائندوں کی آراء بھی شامل تھیں۔ آج ملک کی تمام سیاسی جماعتیں، ادارے اس آئین کو قبول بھی کرتے ہیں اور زبانی طور پر اس کے تحت کام بھی کرتے ہیں۔ آئین پاکستان 10 اپریل کو قومی اسمبلی سے منظور ہوا اور 14 اگست 1973ء کو اس کی توثیق کی گئی۔

اس آئین کے پہلے تین ابواب ملک کے تین بنیادی اراکین کی حاکمیت، مینڈیٹ اور اختیارات کو بیان کرتے ہیں، جس میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ شامل ہیں۔ اس آئین کے تحت مقننہ کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی، جو آئین سے متصادم ہو، تاہم دو تہائی اکثریت سے مقننہ آئین کو بدلنے کا اختیار رکھتی ہے۔ تکنیکی طور پر اس آئین میں اب تک 26 ترامیم کی گئی ہیں، جن میں سے 23 ترامیم آئین کا حصہ ہیں جبکہ تین ترامیم پارلیمان نے منظور نہیں کیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد فروری 1948ء میں ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کو اس ملک کا آئین تشکیل دینا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس کی حتمی شکل و صورت کیا ہوگی، تاہم میرے خیال میں یہ ایک جمہوری آئین ہوگا، جس میں اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھا جائے گا، کیونکہ یہ اصول آج بھی ویسے ہی قابل عمل ہیں، جیسے تیرہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام اور اس کی مثالیت پسندی نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے۔ اس نے ہمیں انسانوں کی برابری، عدالت اور مساوات کا درس دیا ہے۔ ہم ان عظیم روایات کے امین ہیں۔۔۔

1956ء کا آئین
قیام پاکستان سے قبل انگریز نے برصغیر پاک و ہند کے امور کو چلانے کے لیے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ پیش کیا تھا، جو 1935ء ایکٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 1947ء میں قائم ہونے دونوں ریاستوں ہندوستان اور پاکستان کی اساسی دستاویزات میں یہ ایکٹ بنیادی اساس کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نے اگرچہ 1950ء میں ہی نئے آئین پر کام کا حکم دے دیا تھا، تاہم یہ کام 1956ء تک مکمل نہ ہوسکا۔ خدا خدا کرکے 1956ء میں ملک کا پہلا آئین منظور ہوا، جو دو برس بعد ہی معطل کر دیا گیا۔ 1956ء کے آئین نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا۔ قرارداد مقاصد جیسی اہم دستاویز کو آئین کا اساسی جزو قرار دیا گیا۔ قرارداد مقاصد 1973ء کے آئین کا حصہ نہ تھی، جسے صدر ضیاء الحق نے 1985ء میں ایک ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنایا۔ آئین پاکستان 1973ء کی دفعہ نمبر 2 کے مطابق اسلام مملکتی مذہب ہوگا، جبکہ دفعہ نمبر 2 کے ضمیمہ میں قراردادِ مقاصد کو آٹھویں ترمیم صدارتی فرمان 2 مارچ 1985ء کے مطابق شامل کر لیا گیا ہے جو یوں ہے: "ضمیمہ میں نقل کردہ قراردادِ مقاصد میں بیان کردہ اُصول اور احکام کو بذریعہ ہذا دستور کا مستقل حصہ قرار دیا جاتا ہے اور وہ بحسبہ مؤثر ہوں گے۔”

قرارداد مقاصد
اس قرارداد کے الفاظ حسب ذیل ہیں: اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے، وہ اُس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ مجلس دستور ساز نے جو جمہور پا کستان کی نمائندہ ہے، آزاد و خود مختار پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔ جس کی رو سے اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدل ِعمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔ جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔ جس کی رو سے اس امر کا قرار واقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں، اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اپنی تقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔ جس کی رو سے وہ علاقے جو اب تک پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں، ایک وفاق بنائیں گے۔*

جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات و اقتدار کی حد تک خود مختاری حاصل ہوگی۔ جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون و اخلاق اجازت دیں، مساوات، حیثیت و مواقع کی نظر میں برابری، عمرانی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، اظہارِ خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور جماعت کی آزادی شامل ہوگی۔ جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقات کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔ جس کی رو سے نظام ِعدل گستری کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی۔ جس کی رو سے وفاق کے علاقوں کی صیانت، آزادی اور جملہ حقوق، بشمول خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا، تاکہ اہل ِپاکستان فلاح و بہبود کی منزل پاسکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امن عالم اور بنی نوع انسان کی ترقی و خوش حالی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔

1956ء کا آئین پارلیمانی آئین تھا، جس میں وزیراعظم سربراہ مملکت تھا۔ اس آئین کے مطابق مقننہ ایک شوریٰ پر مشتمل تھی، جس کے 300 ممبران تھے۔ 150 ممبران مشرقی پاکستان سے جبکہ اتنے ہی ممبران مغربی پاکستان سے تھے۔ اس آئین کے مطابق صدر مملکت کا عہدہ ایک اعزازی عہدہ تھا۔ آئین میں کہا گیا کہ ملک کا کوئی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہوگا۔ عدلیہ آزاد ہوگی۔ انگریزی، اردو اور بنگالی کو قومی زبانوں کا درجہ دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔